کیا اب فلم ’جے بھیم ‘ کی طرز پر مظلوم مسلمانوں پر بھی بنے گی فلم؟‘

جبر کے نظام کی عکاسی۔ درج فہرست قبائل پر بھارتی پولیس کی بربریت آشکار

(دعوت نیوز ڈیسک)

فحاشی وعریانیت، بے حیائی وبے شرمی، ناچ گانے، لہو ولعب اور بیہودگیوں پر مشتمل فلموں نے معاشرہ کو تباہی کے غار میں دھکیل دیا ہے لیکن دو نومبر کو ریلیز ہونے والی متعدد زبانوں میں بنائی گئی تمل فلم جے بھیم مذکورہ بالا تمام برائیاں سے پاک ہے۔ جئے بھیم کا مرکزی موضوع ہی سماجی، قانونی اور حقوق کے تئیں بیداری ہے تفریح طبع اور وقت گزاری نہیں۔ ایک طرف فلم ’جے بھیم ‘ میں پولیس کی حیوانیت و بہیمیت، گاؤں کے مکھیا اور سرپنچوں کی قساوت قلبی اور آدی واسیوں کی مجبوری و لاچارگی کو دکھایا گیا ہے تو وہیں ایک وکیل کی حق گوئی و بے باکی، ایک پولیس کی ایمانداری اور ایک غریب کی خودداری کو بھی پردہ سیمیں پر اتارنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مجموعی طور پر سچے واقعے پر مشتمل جے بھیم کی کہانی کا دارو مدار پولیس کی حراست میں ایک ملزم کی پراسرار موت ہے۔ تاہم اس فلم میں ضمناً کئی مسائل بھی بڑی خوبصورتی کے ساتھ پروئے گئے ہیں۔
ملک کے حالات جو پہلے تھے وہ اب بھی ہیں، ظلم و ستم کا بول بالا پہلے بھی تھا اور آج بھی ہے، عدل و انصاف کا گلا پہلے بھی گھونٹا جاتا تھا اور اب بھی گھونٹا جا رہا ہے، اس کی زندہ مثال کے طور پر 34 سال پہلے 22 مئی 1987 کو پیش آنے والا ہاشم پورہ قتل عام کا واقعہ ہمارے سامنے ہے جب پولیس نے 43 بے گناہ و نہتے مسلمانوں کو ان کے گھروں سے دور لے جا کر گولی مار کر ان کی لاشوں کو گنگا کی نہر میں پھینک دیا تھا، اور انہیں انصاف ملتے ملتے اکتیس سال کا طویل عرصہ گزر گیا۔ دو اکتوبر 2016 کو بائیس سالہ نوجوان منہاج انصاری کو جھارکھنڈ پولیس نے بیف سے متعلق ایک قابل اعتراض پوسٹ واٹس ایپ پر سرکولیٹ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا اور ایک ہفتہ بعد نو اکتوبر کو راجندر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس میں اس کی موت ہو گئی۔
تیئیس دسمبر 2002 کو خواجہ یونس کو دو دسمبر 2002 کو گھاٹ کوپر میں ہونے والے بم دھماکہ کے الزام میں گرفتار کیا جاتا ہے اور اس کی بھی پولیس حراست میں موت ہو جاتی ہے۔ جس کے بعد سابق اسسٹنٹ پولیس انسپکٹر سچن وازے کا دعویٰ سامنے آتا ہے کہ خواجہ یونس تو پولیس تحویل سے اس وقت فرار ہو گیا تھا جب اسے تفتیش کے لیے اورنگ آباد لے جایا جا رہا تھا، حالانکہ سی آئی ڈٖی نے سچن وازے کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے معاملے کی تفتیش کے بعد سچن وازے سمیت دیگر تین پولیس والوں کے خلاف خواجہ یونس کو قتل کرنے پر مقدمہ قائم کیا تھا جو ابھی بھی فاسٹ ٹریک عدالت میں زیر سماعت ہے۔ اور کتنے درد و غم کی داستانیں سنائی جائیں۔
ایک دو زخم نہیں جسم ہے سارا چھلنی
درد بے چارہ پریشاں ہے کہاں سے اٹھے
ظاہر ہے کہ ہر کردار پر تو فلم نہیں بن سکتی لیکن جے بھیم نے حقیقت سے پردہ اٹھانے، پولیس انتظامیہ، حکومت اور برہمن و منوواد نظام کو آئینہ دکھانے کی قابل ستائش کوشش کی ہے۔ پولیس اور عدالتی تحویل میں اموات تشویش کا باعث ہیں۔ لوک سبھا میں داخل کی گئی رپورٹ کے مطابق پچھلے تین سالوں کے اندر ہر روز تقریباً پانچ افراد کی حراست میں موت ہوئی ہے۔ تین سالوں میں 5221 افراد نے عدالتی تحویل میں دم توڑا ہے جب کہ 348 موتیں پولیس حراست میں ہوئی ہیں۔ حراست میں اموات کے معاملے میں اتر پردیش پہلے نمبر پر ہے اس کے بعد مدھیہ پردیش پھر مغربی بنگال کا نمبر آتا ہے۔ نیشنل کمپیئن اگینسٹ ٹارچر (NCAT) کی رپورٹ کے مطابق بھی پولیس حراست میں ہوئی اموات کے معاملے میں اتر پردیش ہی سرفہرست ہے۔
حال ہی میں اتر پردیش کے کاس گنج میں الطاف احمد کی پولیس حراست میں موت بھی سوالوں کے گھیرے میں ہے۔ اکیس سالہ الطاف احمد کاس گنج کے کوتوالی علاقہ کے سید اہرولی گاؤں کا رہائشی تھا۔ اسے آئی پی سی کی دفعات 363، 366 کے تحت ایک نابالغ لڑکی کو شادی کے ارادے سے اغوا کرنے کے الزام میں پوچھ گچھ کے لیے کوتوالی لایا گیا تھا۔ ملزم حوالات کے بیت الخلا میں گیا تھا جہاں پولیس کے مطابق جب وہ بہت دیر تک باہر نہیں نکلا تو دیکھا گیا کہ اس نے اپنی جیکٹ کی ہُڈ کی ڈوری سے پھانسی لے لی ۔ آناً فاناً میں اسے کاس گنج کے ضلع اسپتال لے جایا گیا جہاں بیس منٹ کے بعد ہی اس نے دم توڑ دیا۔ اس سے قبل صفائی ملازم ارون کی پولیس حراست میں موت ہوئی۔ آگرہ کے جگدیش پورہ تھانہ کے مال خانہ میں پچیس لاکھ روپے چوری کے الزام میں پولیس نے جاروب کش کو حراست میں لے لیا تھا لیکن وہ بھی پولیس کی حراست میں دم توڑ گیا۔
بھارت میں دلتوں اور آدیواسیوں کی عزت و آبرو کو ہزاروں سالوں سے پیروں تلے روندا جا رہا ہے۔ آج بھی ان پر ہتک آمیز جملے کسے جاتے ہیں۔ فلم جے بھیم میں بھی اس کی جھلک دیکھنے کو ملتی ہے۔ درج فہرست طبقات کی زبوں حالی کس طرح بیان کی جائے۔ ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں ہر اٹھارہ منٹ میں دلتوں کے خلاف ایک جرم سرزد ہوتا ہے۔ ہر روز تین دلت عورتوں کی آبروریزی کی جاتی ہے۔ دو دلتوں کا قتل ہوتا ہے، دو دلتوں کے گھروں کو جلا کر خاکستر کر دیا جاتا ہے اور گیارہ دلتوں کو مارا پیٹا جاتا ہے۔ جبکہ سپریم کورٹ کے مارچ 2018 کے فیصلے میں اس نے ایس سی-ایس ٹی ایکٹ کے تحت بغیر جانچ‌ کے فوراً گرفتاری پر روک لگا دی تھی۔ جسٹس اے کے گوئل اور جسٹس یو یو للت کی بنچ نے فیصلہ دیا تھا کہ ایس سی-ایس ٹی ایکٹ کے تحت مبینہ ظلم واستحصال کی شکایت کے حوالے سے فوراً گرفتاری نہیں ہو گی اور ابتدائی جانچ‌ کے بعد ہی کارروائی کی جائے‌ گی۔ اس حکم کے مطابق معاملے میں عبوری ضمانت کا اہتمام کیا گیا تھا اور گرفتاری سے پہلے پولیس کو ایک ابتدائی تفتیش کرنی تھی۔ اس فیصلے کو گرفتاری کو ہلکا کرنا خیال کیا گیا تھا اور دلت تنظیموں نے اس کی پر زور مخالفت کی تھی۔ اس فیصلے سے ناراض لوگوں نے ملک بھر میں مظاہرے کیے تھے اور دو اپریل 2018 کو بھارت بند کا اعلان کیا گیا تھا۔ بھارت بند کے دوران ہونے والے تشدد میں گیارہ لوگوں کی موت ہو گئی تھی اور سیکڑوں لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اس کے بعد ملک بھر میں مخالفت کی وجہ سے مرکزی حکومت قانون ساز مجلس میں سپریم کورٹ کے حکم کے خلاف ایس سی-ایس ٹی ایکٹ میں ترمیم بل لے کر آئی، جس کو صوتی رائے سے منظور کیا گیا تھا حالانکہ کچھ اعلیٰ ذات کی تنظیمیں اس کی مخالفت میں اتری تھیں۔
2019 کو سپریم کورٹ نے اپنا وہ حکم واپس لے لیا تھا جس میں ایس سی-ایس ٹی ایکٹ کے تحت معاملہ درج ہونے کے بعد فوراً گرفتاری پر روک لگائی گئی تھی۔
جسٹس ارون مشرا، جسٹس ایم آر شاہ اور جسٹس بی آر گوئی کی بنچ نے مرکزی حکومت کی عرضی پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ ‘مساوات کے لیے ایس سی-ایس ٹی کی جدوجہد ملک میں ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ ابھی بھی اس طبقے کے لوگ چھوت چھات اور نازیبا سلوک کا سامنا کر رہے ہیں اور وہ الگ تھلگ زندگی گزارتے ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 15 کے تحت اگرچہ ایس سی-ایس ٹیز کو تحفظ حاصل ہے لیکن اس کے باوجود ان کے ساتھ امتیازی سلوک ہو رہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جے بھیم آج سماج کو آئینہ دکھانے میں کامیاب فلم ثابت ہوئی ہے۔ عالمی پیمانے پر اسے سراہا گیا ہے۔ انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) کے مطابق جے بھیم اب تک کی سب سے زیادہ ریٹنگ والی مووی ہے۔ جسے 10 میں 9.6 ریٹنگ ملی ہے۔ اورفلم جے بھیم آخرکار نئی نسل تک پہنچنے میں کامیاب رہی اور آدی واسیوں اور دلتوں کے حق میں اٹھنے والی آواز کو مزید تقویت ملی۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  21 نومبر تا 27 نومبر 2021