کہانی

آفتاب حسنین
دشمن اور دوست
شاہ رخ اور سلیم ایک جنگل میں سے گزر کر جنگل کے اس پار کے گاؤں میں اپنے اپنے رشتے داروں سے ملنے کے لیے جارہے تھے۔ جنگل بہت ہی خطرناک تھا۔ جنگلی جانوروں سے بھرا پڑا تھا اس لیے لوگ اکیلے اس جنگل سے گزرنے کے لیے ڈرتے تھے۔ اکثر دو تین آدمی مل کر اسے پار کرتے تاکہ اگر کوئی جنگلی جانور حملہ کرے تو سب مل کر اس کا مقابلہ کرسکیں۔ شاہ رخ اور سلیم بہت ہی گہرے دوست تھے۔ وہ ایک دوسرے سے ہنسی مذاق کرتے ہوئے چلے جارہے تھے کہ پیچھے سے ایک ریچھ نے سلیم پر حملہ کردیا۔ سلیم بہت گھبرایا اور چیخنے چلانے لگا۔ شاہ رخ نے دیکھا کہ سلیم مصیبت میں گرفتار ہے تو وہ اپنی جان کی پرواہ کیے بعیر ریچھ پر ٹوٹ پڑا۔ شاہ رخ کی وقت پر مدد نے سلیم کو ہمت دی اور دونوں نے مل کر ریچھ کو مار بھگادیا۔ ریچھ کے بھاگتے ہی انہوں نے اطمینان کی سانس لی اور پھر چل پڑے۔
راستے میں سلیم نے شاہ رخ سے کہا ’’تم نے میری جان بچا کر مجھ پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ اس پر شاہ رخ بولا احسان کیسا ؟ یہ تو میرا فرض تھا۔’’خدا تم جیسا دوست سب کو دے ‘‘ سلیم یہ کہہ کر کچھ دیر رکا پھر آگے بولا‘‘ خدا نہ کرے تم پر کبھی کوئی آفت آئے لیکن اگر کبھی ایسا موقع آیا تو تم بھی دیکھو گے کہ میں اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر تمہاری جان بچاتا ہوں!‘‘
سلیم کی بات ابھی پوری ہوئی تھی کہ بھاگا ہوا ریچھ پھر آدھمکا اور اس بار اس نے شاہ رخ پر حملہ کردیا۔ سلیم نے جو یہ دیکھا تو وہ شاہ رخ کی مدد کرنے کے بجائے اپنی جان بچانے کی فکر میں لگ گیا اور پھر موقعہ ملتے ہی بڑی تیزی سے پاس کے ایک پیڑ پر چڑھ گیا۔
شاہ رخ بہت بہادر تھا۔ مشکل سے مشکل گھڑی میں بھی وہ اپنے حواس برقرار رکھتا اور کبھی ہمت نہیں ہارتا۔ اس نے ڈٹ کر ریچھ کا مقابلہ کیا اور ایک بار پھر اسے مار بھگایا۔ ریچھ کے بھاگتے ہی اس نے اطمینان کی سانس لی اور خدا کا شکرا ادا کیا۔ اس کے بعد وہ اس پیڑ ک طرف پلٹا جس پر سلیم جان بچانے کے لیے چڑھا تھا۔ یہ دیکھ کر وہ پریشان ہو اٹھا کہ سلیم اسی پیڑ کے نیچے پڑا تڑپ رہا ہے اس کے سر سے خون بہہ رہا تھا اور جسم ایک دم نیلا پڑ گیا تھا۔ شاہ رخ فوراً اس کی مدد کے لیے دوڑ پڑا۔ اس کے قریب آکر چاہ رخ نے اس کا سر اپنی گود میں رکھا اور پوچھنے لگا کہ یہ کیسا ہوا؟۔
سلیم نے اکھڑتی ہوئی سانسوں کے درمیان کہا ’’میرے دوست، مجھے معاف کردو! میں بہت خود غرض ہوں۔ ریچھ سے مقابلہ کرنے میں تمہاری مدد کرنے کی بجائے میں اپنی جان بچانے کی غرض سے پیڑ پر چڑھ گیا لیکن اوپر پہنچتے ہی ایک سانپ نے مجھے ڈس لیا اور اوندھے منہ دوبارہ زمین پر آگرا۔ سانپ کا زہر میرے پورے بدن میں پھیل چکا ہے۔ مجھے میری خود غرضی کی سزا مل گئی۔ اگر میں تمہارے ساتھ غداری نہیں کرتا اور ریچھ سے مقابلہ کرنے میں تمہاری مدد کرتا تو یہ حادثہ پیش نہیں آتا اور ! سلیم اس سے آگے کچھ نہیں کہہ سکا ۔ اس نے ایک ہچکی لی اور دم توڑدیا!
ایمان داری
حضرت فضل الرحمن ؒ ایک بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں۔ آپ مراد آباد کے رہنے والے تھے۔ آپ بچپن ہی سے دین کی باتوں کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ اپنی سمجھ کے مطابق کبھی اللہ کے حکموں کے خلاف کوئی کام نہیں کرتے تھے۔ ابھی آپ آٹھ نو سال کے ہوں گے کہ اپنے ابا کے ساتھ ایک مرتبہ اپنے گاؤں ملاواں سے چلے۔ آپ کے ابا جان نے ایک طوطی پال رکھی تھی اس وقت طوطی کا پنجرہ ان کے ہاتھ میں تھا۔ چلتے چلتے آپ کے ابا جان جب ایک کھیت کے پاس پہنچے تو انہوں نے کھیت میں سے ایک خوشہ لیا اور طوطی کے پنجرے میں ڈال دیا۔
حضرت فضل الرحمنؒ تھے تو ابھی بچے‘ لیکن تھے بڑے سمجھ دار انہوں نے سوچا یہ کھیت تو دوسرے آدمی کا ہے پرائی چیز کو بغیر اجازت لینا تو غلط بات ہے۔ ایسا کرنا تو اچھا نہیں ہے۔ انہوں نے فوراً اپنے ابا جان سے کہا۔
ابا جان! آپ یہ کیا کر رہے ہیں یہ تو پرایا کھیت ہے‘ ان کے اباجان نے انہیں بچہ سمجھ کر ان کی بات پر دھیان نہیں دیا اور آگے چل دیے۔
تھوڑی ہی دور گئے ہوں گے مڑکر دیکھا تو فضل الرحمن نہیں تھے۔ ان کو فکر ہوئی اور پیچھے لوٹے دیکھا کہ وہ وہیں کھیت پر کھڑے ہیں‘ ان کے ابا جان نے کہا۔
بیٹا چلو! کھڑے کیوں ہو؟
آپ نے جواب دیا۔
اباجان! میں نہیں جاوں گا جب تک میں کھیت والے سے خوشہ معاف نہ کروالوں یہاں سے نہیں ٹلوں گا۔
بیٹے کی ایمان داری کو دیکھ کر باپ کا دل خوش ہوگیا۔ پنجرے سے خوشہ نکال کر کھیت میں ڈال دیا اور کہا۔
لو بیٹا! ہم خوشہ نہیں لیتے آو چلیں۔
جب ان کے ابا جان نے کھیت میں خوشہ ڈال دیا تب وہ وہاں سے اٹھے اور اپنے ابا جان کے ساتھ ہولیے۔ (ماخوذ)
نظم ۔۔۔فراغ امروہوی
اللہ اکبر
اللہ اکبر اللہ اکبر
یعنی اللہ سب سے برتر
یہ مت پوچھو وہ ہے کیسا
کوئی نہیں ہے اس کے جیسا
قرآں کا ہر پارہ شاہد
وہ ہے یکتا اور ہے واحد
سورج چاند اگانے والا
تاروں کو چمکانے والا
کیسے کیسے باغ لگائے
رنگ برنگے پھول کھلائے
سب کو روزی دینے والا
سب کی نیا کھینے والا
وہ چاہے تو عزت دے دے
دولت دے دے شہرت دے دے
سب کا مالک سب کا حاکم
اس کے آگے جھکنا لازم
اس دنیا سے اس دنیا تک
یعنی ادنیٰ سے اعلیٰ تک
دیکھ کے حیراں رہ جاتے ہیں
سب ہی اس کے گن گاتے ہیں
صبح و شام سبھی کے لب پر
اللہ اکبر اللہ اکبر
تاریخی جھلکی
صاف گوئی
سلطان بایزیدترکوں کا ایک بہت مشہور بادشاہ گزرا ہے۔ وہ بہت ہی دلیراورانصاف پسند تھا ۔ صوم وصلوٰۃ کا بھی پابند تھا۔ مگر نماز با جماعت نہیں پڑھتا تھا۔ اسی کے دور کا ایک واقعہ ہے۔
ایک بار جج کی عدالت میں ایک مقدمہ پیش ہوا ۔ اس میں ایک فریق کی طرف سے سلطان خود گواہ تھا۔ عدالت کے جج مولانا شمس الدین تھے۔ یہ روم کے رہنے والے اور شریعت کے بہت پابند تھے۔
سلطان گواہی کے لیے حاضر ہوا۔ مولانا نے اس کی شہادت منظور کرنے سے انکار کردیا۔ سلطان خود بھی مصنف تھا اور حج کی انصاف پسندی سے بھی واقف تھا۔ اس لیے ان کے اس رویے پر خفا تو نہ ہوا۔ البتہ انکار کا سبب دریافت کیا۔
مولانا بولے۔
شریعت کی رو سے ان لوگوں کی گواہی معتبر نہیں جو با جماعت نماز ادا نہیں کرتے۔ اب آپ خود ہی سمجھ سکتے ہیں۔ کہ آپ کی شہادت کیوں رد کردی گئی۔
سلطان پر اس بات کا بڑا اثر ہوا۔ اس کے بعد وہ نہایت مستعدی سے جماعت کی پابندی کرنے لگا۔
دنیا کا سب سے طویل ژوہائی ۔ میکاؤ ۔ ہانگ کانگ پُل
چین کے اس پل نے حمل ونقل میں سرعت پیدا کی
ڈاکٹر ابوالفرقان
دنیا میں چین کی آبادی سب سے زیادہ ہے۔ حمل ونقل کے لیے گنجان آبادی میں بہت سے مسائل پیش آتے ہیں ان میں ایک اہم مسئلہ حمل ونقل کا ہے ٹریفک جام کی وجہ سے بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں اس کا واحد حل بلا رکاوٹ کشادہ سڑکیں ہیں۔ چین نے بلا رکاوٹ حمل ونقل کے لیے سمندر پر دنیا کا سب سے طویل پل تعمیر کیا ہے۔ قارئین دعوت کے لیے ہم اس پُل کی اہم باتیں پیش کرتے ہیں۔
ژوہائی ۔ میکاؤ ۔ ہانگ کانگ پل (The Hong Kong–Zhuhai–Macau Bridge ) دریائے پرل پر تعمیر کیا گیا ہے اس پل کی لمبائی 55 کلومیٹر ہے اس پل نے چین کے تین بڑے شہروں کو ایک دوسرے سے منسلک کر دیا ہے۔ دنیا کے اس سب سے بڑے سمندری پل کی تعمیر سے ان تینوں شہروں کے درمیان سفر کے وقت میں کافی کمی آگئی ہے جو سفر پہلے 4 گھنٹے میں طے ہوتا تھا وہ اب صرف 30 منٹ میں طے ہو رہا ہے۔ یہ پل 6 لین کا ہے اس میں 4 سرنگیں بھی تعمیر کی گئی ہیں جن میں ایک زیرِ آب ہے۔ اس پل کو سہارا دینے کے لیے 4 مصنوعی جزیرے بھی تعمیر کیے گئے۔ چین نے اسے انجینئرنگ کا عجوبہ قرار دیا ہے جس میں 4 لاکھ 20 ہزار ٹن اسٹیل استعمال کیا گیا ہے۔ کچھ مقامات پر اس پل میں معمولی سا ڈھلوان بھی دیکھنے میں آتا ہے۔ اس کا ڈیزائن زلزلوں، علاقے کو تہ وبالا کر دینے والے موسمی سمندری طوفانوں اور حادثاتی طور پر جہازوں کی ٹکر کو برداشت کرنے کی صلاحیت کو ذہن میں رکھ بنایا گیا ہے۔ اس کی تعمیر پر تقریباً15.1 ارب ڈالر خرچ کیے گئے ہیں۔ یہ پل 120 سال تک قابل استعمال رہ سکتا ہے۔ پل کی تعمیر کا آغاز 15 دسمبر 2009 کو کیا گیا تھا۔ تقریباً 10 سال کی مدت میں 6 فروری 2018 کو اس کی تعمیر مکمل ہوئی۔ بیرون ممالک کے انجینئرس کو جب اس کا معائنہ کرایا گیا تو وہ اسے دیکھ کر حیران رہ گئے۔ اس پل کی تعمیر کے دوران 9 مزدروں کی جانیں بھی گئیں۔ 23 اکتوبر 2018 کو شاندار افتتاحی تقریب کا انعقاد عمل میں آیا۔ 24 اکتوبر 2018 کو اسے عوام کے لیے کھول دیا گیا۔ پل کو عبور کرنے کے لیے کوٹہ سسٹم متعارف کرایا گیا ہے۔ خصوصی اجازت نامے کے ساتھ ساتھ گاڑیوں کو ٹول ٹیکس بھی ادا کرنا ہوگا۔ اس انوکھے پل کو انجینئرز کی زیرِ نگرانی کئی بار آزمائشوں کے بعد عوام کے لیے کھولا گیا ہے۔ حکام کے مطابق پُل پر کمرشیل گاڑیاں اور مسافر بردار بسیں چلانے کی اجازت ہے جبکہ چھوٹی گاڑیوں کے لیے ڈرائیورز کو خصوصی پرمٹ حاصل کرنا ہوگا۔ ہانگ کانگ یا چین سے پُل کا استعمال کرنے والے افراد کے لیے راستے میں 2 اِمیگریشن مراکز بھی قائم کیے گئے ہیں جہاں مسافر اپنی دستاویزات کی جانچ پڑتال کروائیں گے۔ چینی ماہرین کے مطابق اس پل کی مرمت کا خاص خیال رکھا جائے گا تاہم اس پل کی عمر 120 سال بتائی جارہی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پُل کی تعمیر سے چین کو سالانہ 70 ارب ڈالر کی بچت ہوگی۔ اس پل میں کل 33 بلاک ہیں ہر بلاک 38 میٹر چوڑا 11.4 میٹر اونچا اور 80 ہزار ٹن وزنی ہے۔