کيا معيشت آئی سی يو سے نکل پائے گی؟

ترقی کے ليے پہلے ملک ميں قائم خوف ودہشت کا ماحول ختم کرنا ہوگا

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
اقتصادی سستی، کساد بازاری، آسمان کو چھوتی ہوئی مہنگائی، بڑھتا ہوا معاشی تفاوت، صنعت و حرفت کا زوال، کسانوں کی آئے دن کی خودکشی اور بے روزگاری کی شرح جو 45برسوں ميں سب سے نچلی سطح پر ہے۔ريکارڈ توڑ بے روزگاری کی شرح، شعبہ زراعت کا بحران، غير ملکی سرمايہ کاروں کی ملک ميں سرمايہ کاری ميں عدم دلچسپی، بينک کے قرضوں کے بہاؤ کی بدحالی جيسے سنگين مسائل کے مد نظر اميد تھی کہ عام بجٹ 20۔21 ميں وزير ماليات نرملا سيتا رمن خصوصی توجہ ديں گی۔ حسب توقع اس بار بھی سالانہ بجٹ پر نہ صرف ملک کی نگاہيں مرکوز تھيں، بلکہ ساری دنيا کی نظريں بھی اسی طرف تھيں کہ اقتصادی مندی سے گزرتا ہوا دنيا کا سب سے بڑا ترقی پذير ملک اس وقت اپنی بيمار معيشت کو صحت ياب کرنے کے ليے کون سا جادوئی نسخہ عوام الناس کے سامنے لاتا ہے۔ دراصل يہ ايک سال کا بجٹ ہوتا ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ مالی اعتبار سے ہماری صحت کيسی ہے؟ ہمارے ٹيکس کا حصہ کيسے اور کہاں خرچ ہوگا؟ يہ بجٹ وزير ماليات کا پہلا مکمل بجٹ ہے، اس سے قبل وہ 20ستمبر 2019کو ايک عبوری بجٹ پيش کرچکی ہيں۔ اس ليے ان کی طرف سے يہ کوشش کی گئی کہ اس عام بجٹ ميں ايسے ايسے خواب دکھائے جائيں جس سے لوگ بظاہر اگر کسی طرح کی راحت محسوس نہ بھی کريں تو کم از کم انہيں بوجھ بھی نہ سمجھيں۔ اس ليے وہ اپنے 2گھنٹے 41منٹ کی لچھے دار طويل تقرير ميں لفاظی کے ذريعے لوگوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتی رہيں اور زمين آسمان کے قلابے ملاتی رہيں۔
چونکہ ملک کی 130کروڑ کی آبادی کا 70فیصد حصہ متوسط اور نچلے متوسط طبقوں پر مشتمل ہے جن کے وسائل محدود اور ضروريات زندگی زيادہ ہوتی ہيں، اس ليے ايسے لوگوں کے ليے زيادہ ٹيکس ادا کرنا مصيبت بن جاتا ہے۔ اس زمرے ميں ملازم پيشہ، وکلا، اساتذہ، زراعت پيشہ، بينکرس وغيرہ آتے ہيں۔ ان پر اس مرتبہ زيادہ بوجھ نہيں ڈالا گيا ہے، کيونکہ بجٹ سے پہلے ہی چيف جسٹس آف انڈيا نے متوسط طبقہ پر ضرورت سے زيادہ ٹيکس کو سماجی نا انصافی قرار ديا تھا اور حکومت کو اس کی طرف توجہ دينے کی رائے دی تھی۔ اس ليے ٹيکس کے 2سليب بنائے گئے ہيں، اس ميں چوتھے درجے کے ملازم کو تھوڑی سی راحت دی گئی ہے، ليکن نئے سليب ميں جس طرح ديگر بچت اسکيموں کو ختم کيا گيا ہے، اس کا فائدہ ٹيکس کی بچت سے نہيں ملے گا۔ زراعت کے شعبہ ميں محض 1.4لاکھ کروڑ روپے کا اعلان کيا گيا ہے۔ ايف ڈی آئی کے ليے راستے ہموار کيے گئے ہيں۔ سرکاری بڑی کمپنی ايل آئی سی کے شيئر فروخت کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ ريلوے ميں بڑے پيمانہ پر نجکاری کو فروغ ديا گيا ہے۔ صحت اور تعليم کے شعبوں ميں کچھ رقم بڑھائی گئی ہے، ليکن وہ بھی اميد سے کافی کم۔ تعليم کے ميدان ميں مجموعی شرح نمو کا 3 فیصد مختص کيا گيا ہے۔ اسے کم از کم 5.6فیصد ہونا چاہيے۔ اس طرح تعليم پر 99ہزار 300کروڑ روپے ديے گئے اور ہنر مندی کے شعبے ميں 3000کروڑ روپے۔ يہ رقم اتنی بھی نہيں ہے کہ تيزی سے ترقی کرنے والے ترقی پذير ملکوں کی تعليمی ضروريات کے ليے کافی ہو۔ مختلف نامور ماہرين معاشيات کی آراءکے مطابق بھارت کو تعليم اور صحت کے شعبوں پر زيادہ خرچ کرنا چاہيے، تاکہ ہمارے ليبر فورس کی ہنر مندی اور پيداواری صلاحيت ميں اضافہ ہو۔ آج بنگلہ ديش اور ويتنام جيسے ممالک کے ليبر فورس کی ہنر مندی اور پيداواری صلاحيت کے ليے 69ہزار کروڑ روپے۔ سوچھ بھارت مشن کے ليے 12ہزار 300کروڑ، صنعتوں کی ترقی اور فروغ کے ليے 27ہزار 300کروڑ، کپڑا مشن کے ليے 1080کروڑ روپے مختص کيے گئے ہيں۔ زراعت اور ديہی ترقی کے ليے کل ملا کر 2.83لاکھ کروڑ روپے مختص کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس سے لوگوں کی قوت خريد کو بڑھايا جاسکے گا، کيونکہ ملک ميں صنعتی اشيا کی مانگ ميں زبردست کمی واقع ہوئی ہے۔ جب آمدنی کم سے کم ہو تو پھر خرچ کون کرے گا اور کيسے کرے گا؟ دراصل اس بجٹ سے لوگوں کی آمدنی ميں اضافہ نہيں ہوگا، جب لوگوں کی آمدنی ميں اضافہ نہيں ہوگا تو ٹيکس کی ادائيگی بھی کم ہوگی۔ اس ليے اس بجٹ سے عوام الناس کے ليے راحت کا سامان نہيں ہوگا۔ ديہی علاقوں ميں عوام کی قوت خريد بڑھانے کے ليے منريگا اور زراعت پر مبنی چھوٹی چھوٹی صنعتوں کو فروغ دينے کے ليے بجٹ ميں اضافہ کی ضرورت تھی۔
وزير خزانہ نے جو مالی سال 2020-21کا بجٹ پيش کيا ہے، اس کی کل ماليت 30,42230کروڑ روپے ہے۔ اس ميں تقريباً 3لاکھ کروڑ کا اضافہ کيا گيا ہے، ليکن عوم الناس پر اس مجوزہ بجٹ کا تقريباً آدھا بوجھ ڈال ديا گيا ہے، مالی خسارے کی رقم 7,96337کروڑ اور قرضوں کی سود کی رقم 7,08203کروڑ روپے ہے (خسارہ کی رقم کم کرکے بتائی گئی ہے) اگر دونوں مدوں کو جمع کرديں تو مجموعی رقم 15,04,540کروڑ روپے ہوگی۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ بجٹ کا آدھا حصہ خسارے اور سود کی ادائيگی ميں صَرف ہوجائے گا۔اب فلاح و بہبود اور ترقی کے کاموں کے ليے کتنی رقم بچے گي؟ اسی ميں سرکاری اخراجات اور تنخواہيں وغيرہ بھی شامل ہيں۔ نرملا سيتا رمن نے عبوری بجٹ ميں کارپوريٹ ٹيکس ميں زبردست کٹوتی کردی ہے، جس سے ملک کی معيشت بری طرح لڑکھڑا گئی۔فی الوقت ملکی معيشت آئی سی يو ميں ہے۔ انہوں نے اپنی تقرير ميں بجٹ کے 3 اہم شعبوں کا ذکر کرتے ہوئے بڑے بڑے دعوے کيے۔ مثلاً حکومت نے ہر گھر ميں بجلی پہنچادی ہے۔ کاشت کاروں کی آمدني2022سے دگنی کردی جائے گی۔ سوچھ بھارت مشن کامياب رہا۔ يہ سب محض دعوے ہيں۔ان کا حقائق سے دور کا واسطہ بھی نہيں ہے۔ وزير خزانہ نے جی ايس ٹی کی اہميت کو دکھانے کے ليے صرف رٹی رٹائی باتيں کی ہيں۔ انہوں نے کہا کہ اس سے ملک کی معيشت مربوط اور مستحکم ہوئی ہے۔ انسپکٹر راج کا خاتمہ ہوا۔ مصنوعات پر جی ايس ٹی ميں کمی کيے جانے سے ہر خاندان کے ماہانہ اخراجات ميں 4 فیصد ٹيکس کی بچت ہوئی۔ اس سے 16لاکھ نئے ٹيکس دہندگان جڑے ہيں۔ مگر انہوں نے يہ نہيں بتايا کہ ٹيکس دہندگان ميں کمی کيونکر واقع ہوئي؟ اس بجٹ ميں محصولات يا آمدنی کے ذرائع پر کوئی واضح منصوبہ نہيں پيش کيا گيا ہے جو کچھ سامنے آيا وہ گنجلک اور مبہم ہے۔
گزشتہ مالی سال ميں اقليتوں کے ليے 4700کروڑ روپے کا حصہ تھا۔ اسے بڑھا کر 5029کروڑ کرديا گيا ہے۔ غرض 329کروڑ روپے کا اضافہ ہوا اور 7 فیصد کا اضافہ اقليتی امور کے بجٹ ميں کسی قدر قابل اطمينان تو ہے، ليکن يہ اچھی بات تب ہوگی جب پورے بجٹ کا استعمال صحيح طور پر اقليتوں کے فلاح و بہبود کے ليے ہو جائے۔ مگر حکومت نے اس بجٹ ميں مولانا آزاد ايجوکيشن فاونڈيشن کا بجٹ گزشتہ سال کے 90کروڑ سے گھٹا کر محض 82کروڑ روپے کرديا ہے۔ مولانا آزاد اسکالر شپ کا گزشتہ سال کا بجٹ 155کروڑ روپے تھا، اسے 175کروڑ کيا گيا ہے۔ اگراقليتی بجٹ کا موازنہ مجموعی عام بجٹ سے کيا جائے تو اس کا حصہ محض 0.17فیصد بنتا ہے، جبکہ سب سے بڑی مسلم اقليت کی آبادی 14فیصد سے زيادہ ہے۔ اس طرح پسماندہ طبقات کے ليے 84ہزار کروڑ روپے کی رقم مختص کی گئی ہے، جبکہ دلت ملک کی آبادی کا 17فیصد ہيں۔ ان کے ليے بجٹ ميں آبادی کے اعتبار سے کم از کم 5لاکھ کروڑ سے زيادہ کی رقم ہونی چاہيے۔ پچھلی حکومتيں خصوصاً موجودہ حکومت ہميشہ محروم طبقے کو مزيد محرومی کی طرف دھکيلتی چلی جارہی ہے۔ فی الحال ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بے روزگاری ہے۔اس وقت 5کروڑ نوجوان بے روزگار ہيں۔ گزشتہ سال 26 ہزار نوجوانوں نے بے روزگاری کی وجہ سے خودکشی کی ہے اور ہر سال بے روزگاروں کی قطار ميں کروڑوں نوجوان کا اضافہ ہورہا ہے۔ اس بجٹ ميں نوجوانوں کے اسکل ڈيولپمنٹ کے ليے 3000کروڑ روپے مختص کيے گئے ہيں، جس سے استاد، پيرا ميڈيکل اسٹاف، نرس، ٹيکنيکل کارندے مستفید ہوں گے اور بيرونی ممالک ميں آسانی سے نوکری پاسکيں گے۔
ويسے ملک کی اقتصادی حالت اسی وقت مستحکم ہوگی جب ملک ميں ہر طرف امن و امان ہو اور ماحول خوف و دہشت سے پاک ہو۔ موجودہ حکومت نے گزشتہ 6سالوں کے دوران پورے ملک ميں دہشت کا ماحول قائم کر ديا ہے۔ سرمايہ کار اور صنعت کار ڈرے ہوئے ہيں۔ اقليتی طبقہ اور دلت سہمے ہوئے ہيں۔ اکثريت کے زور پر سی اے اے، اين آر سی اور اين پی آر کا ہوا کھڑا کر ديا گيا ہے۔ آبادی کا ايک قابلِ لحاظ حصہ کالے قوانين کے خلاف سڑکوں پر ہے۔ ايسی بدامنی، بے سکونی اور جنگل راج کے ماحول ميں جہاں ’’منو واد‘‘ کا اژدھا دوڑ لگا رہا ہو، معاشی ترقی کی بليٹ ٹرين ہرگز نہيں دوڑ سکے گی۔