کورونا کا ستم کم، پوليس کا ظلم زيادہ!

ماڈل اسٹیٹ گجرات میں پولیس کی زیادتیوں کے بڑھتے واقعات

پوری دنیا میں کورونا وائرس کی وجہ سے خوف اور دہشت کا ماحول ہے۔ ہمارے ملک میں بھی لاک ڈاؤن کی وجہ سے حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ مہاراشٹرا کے بعد کورونا کے سب سے زیادہ معاملے ماڈل اسٹیٹ گجرات میں درج ہوئے ہیں۔ ان دنوں گجرات جہاں اقتصادی، انتظامی اور طبّی وسائل کی قلّت سے جوجھ رہا ہے وہیں دوسری طرف لاک ڈاؤن کے ماحول میں مسلمانوں کے تئیں گجرات پولیس کا سفاکانہ رویہ تشویش کا باعث ہے۔آئیے نظر ڈالتے ہیں کہ لاک ڈاؤن کے دوران 8 مئی سے 10 مئی تک گجرات میں کون سے واقعات پیش آئے جنہوں نے گجرات پولیس کے رول پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔مسلمانوں پر گجرات پولیس کی زیادتی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ سلسلہ ایک طویل عرصے سے چلا آ رہا ہے اور یہ صوبے کی سیاست کا بہت اہم حصّہ بھی ہے ۔۔ لیکن وبا کے دنوں میں بھی مسلمانوں کو پولیس کی درندگی سے دو چار ہونا پڑے گا یہ بات تخیل سے پرے تھی۔

احمد آباد میں 7 مئی کی صبح پورے شہر میں دودھ اور دوا کی دکانوں کے علاوہ تمام دکانیں بند کرنے کا میونسپل کارپورشن نے فوری طور پر اعلان کر دیا۔ بغیر کسی پیشگی منصوبہ بندی اور اطلاع کے7 مئی سے 15 مئی تک کے لیے اتنے سخت لاک ڈاؤن کا اعلان لوگوں کے لیے افراتفری کا باعث بنا۔شہر کا شاہ پور علاقہ مسلم اکثریت والا علاقہ سمجھا جاتا ہے۔ 8 مئی کو شام 6 بجے پولیس اہلکار اور آرمی کے جوان اس علاقے میں فٹ پٹرولنگ کے لیے نکلے تاکہ لوگوں کو لاک ڈاؤن کا سختی سے عمل کروا سکیں۔ اس دوران پولیس اہلکاروں کو راجاجی کی پول نامی محلے کے قریب ایک خاتون نظر آتی ہے جس کے ہاتھ میں آٹے کی تھیلی ہے جسے سزا کے طور پر اس خاتون سے چھین کر پھینک دیا جاتا ہے۔

اس کے بعد اسی جگہ پر ایک دودھ بیچنے والے کو بڑی بے رحمی سے پولیس والے پیٹ دیتے ہیں جس کے نتیجے میں محلّے کی چند عورتیں دودھ بیچنے والے کا دفاع کرتے ہوئے پولیس والوں کے سامنے کھڑی ہو جاتی ہیں۔پولیس جوان اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے ان عورتوں کے ساتھ بد سلوکی کرنا شروع کر دیتے ہیں جس کے نتیجے میں چند منٹوں میں ہی ماحول کشیدہ ہو جاتا ہے جس پر قابو پانے کے لیے پولیس کو آنسو گیس کا استعمال کرنے کی نوبت آجاتی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ چونکہ اس علاقے کے لوگ سوشل ڈسٹنسنگ پر عمل نہیں کر رہے تھے اس لیے حالات کشیدہ ہوئے۔

پولیس کی جانب سے افطار سے کچھ دیر قبل کارروائی شروع ہو جاتی ہے۔ پٹرولنگ کا دور شروع ہوتا ہے گھروں میں گھس کر افطار کے دسترخوان پر بیٹھے لوگوں کے ساتھ خوب مار پیٹ کی جاتی ہے اور گھر میں موجود مردوں کو گھسیٹ کر حراست میں لے لیا جاتا ہے۔ اس طرح کل 19 افراد کے خلاف IPC 307, 337, 332, 333, 186, 143, 145, 147, 149, 151, 152, 188, 120B, 427, اور ڈیزاسٹر منیجمنٹ ایکٹ 51B کے تحت معاملے درج ہوئے ہیں۔ ان 19 افراد میں 20 سال سے لے کر 62 سال کے ضعیف شامل ہیں۔

پٹرولنگ کے دوران پولیس اہلکاروں نے گھروں میں گھس کر توڑ پھوڑ کرتے ہوئے خاصا نقصان پہونچایا۔ عورتوں، بیماروں, ضعیفوں اور معذور لوگوں کی بڑی بے دردی سے پٹائی کی۔ ایک حاملہ خاتون کے پیٹ پر ڈنڈے برسائے گئے۔ ایک بزرگ خاتون جن کے شوہر کو فوت ہوئے ابھی 2 دن ہی گزرے تھے انہیں بھی پیٹا گیا۔ ایک 87 سالہ بوڑھی عورت جن کی آنکھوں کی بینائی جا چکی ہے انہیں بھی نہیں بخشا گیا۔ بزرگ تو بزرگ ایک ڈیڑھ سال کے بچے کو بھی نہیں بخشا گیا۔حیرت انگیز بات یہ ہے کے تشدّد کی اس پوری کہانی میں لیڈی پولیس ندارد ہے۔ آئیے اب دکھاتے ہیں گجرات پولیس کا دوسرا چہرہ اور لے چلتے ہیں گجرات کے سورت شہر کی طرف۔۔احمد آباد شاہ پور کے مسلمانوں کے ساتھ مار پیٹ ہوئی اور انہیں گرفتار کیا گیا کیوں کہ پولیس کا کہنا تھا کہ کورونا وبا سے بچنے کے لیے انتظامیہ نے سوشل ڈسٹنسنگ کی خاص ہدایت دے رکھی تھی جس پر احمدآباد کے مسلمان عمل نہیں کر رہے تھے۔جس دن شاپور واقعہ پیش آیا ٹھیک اسی دن سورت میں بالکل الگ اور چونکانے والی تصویریں سامنے آئیں۔ سورت کے کیلاش نگر میں کورونا واریئرز کی حوصلہ اور عزت افزائی کے لیے کورونا اتسو کا انعقاد عمل میں آتا ہے۔ کیلاش نگر میں ہندو بنیا برادری کے جانب سے منعقدہ اس جشن میں میڈیکل اسٹاف، پولیس افسران اور بی ایس ایف کے جوانوں سمیت بڑی تعداد میں لوگ شرکت کرتے ہیں۔ گلال اڑاکر، ڈھول تاشوں کے تال پر نہایت جوش وخروش کے ساتھ یہ جشن منایا جاتا ہے لیکن گجرات پولیس کو یہاں نہ کوئی لاک ڈاؤن یاد رہا اور نہ ہی سوشل ڈسٹنسنگ کا خیال۔10؍ مئی کے دن ایک بار پھر  احمدآباد کا رخ کر کے دیکھتے ہیں تو مزید ایک چونکا دینے والی خبر سامنے آتی ہے۔ شہر کے امرائی واڑی علاقے میں 500 سے زائد غیر مسلم برادران اکٹھا ہوتے ہیں۔ جمع ہونے کی وجہ بس اتنی سی تھی کہ راشن اور سبزیاں ختم ہو چکی تھیں اور اب ان کے گھروں میں کھانے کو کچھ نہیں تھا۔ انتظامیہ کی جانب سے لیے گئے سخت لاک ڈاؤن کے اس غیر ذمہ دارانہ فیصلے کے خلاف احتجاج کر رہے لوگوں کے ساتھ احمد آباد پولیس نہایت صبر وتحمل برتتی ہے اور احتجاج نہ کرنے کی اپیل بھی کرتی ہے۔ خاکی وردی پر چڑھا تعصّب کا یہ رنگ دیکھ کر آدمی سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ آخر یہ پولیس والے مسلمانوں کے خلاف اتنا زہر نہ جانے کس کنوئیں سے کشید کر کے لاتے ہیں؟