کوثر یزدانیؒ :دعوتِ دین جن کا اوڑھنا بچھونا تھا

شخصیت کے قابلِ تقلید پہلو نئینسلکے لیے مشعلِ راہ

وسیم احمد ، نئی دلی

تعارف و ابتدائی تعلیم :
ڈاکٹر سید مطیع اللہ اپنے قلمی نام کوثر یزدانی سے معروف تھے ۔ قلمی نام اتنا مشہور ہوا کہ زیادہ تر لوگ اسی کو اصلی نام سمجھنے لگے۔ جرائد و رسائل اور اخبارات میں اسی قلمی نام سے ان کے مضامین چھپتے تھے۔ یکم جنوری 1935 میں اعظم گڑھ کے ایک گاؤں کنتال پور، نزد اترولیہ میں پیدا ہوئے۔ان کی ابتدائی تعلیم کنتال پور اور پھر ٹانڈہ میں ہوئی۔ ٹانڈہ، اترپردیش سے انٹر میڈیٹ پاس کیا۔ شبلی کالج اعظم گڑھ سے1955 میں آرٹ میں گریجویشن مکمل کیا۔ گریجویشن کے بعد اعظم گڑھ ضلع کے ہی ایک چھوٹے سے شہر محمد پور کے ایک کالج میں تدریسی خدمت انجام دینے لگے۔ یہاں ڈھائی یا تین سال تک تعلیم دیتے رہے پھر یہ سلسلہ منقطع ہوگیا۔
کوثر یزدانی صاحب کے خاندانی حالات :
کوثر یزدانی صاحب کے والد سید انعام اللہ ایک تھانیدار تھے۔ 1949 میں ملازمت سے سبکدوش ہوئے اور پھر اسی سال ریٹائرمنٹ کے چند ماہ بعد وفات پاگئے۔ اس وقت کوثر یزدانی کی عمر صرف 14 سال تھی۔ ان کی والدہ حقیق النساء نے ان کی پرورش کی۔ وہ 1977 میں اللہ کو پیاری ہو گئیں۔وہ بہت ہی دیندار خاتون تھیں۔کوثر صاحب کل سات بھائی بہن تھے۔ جن میں تین بھائی اور چار بہنیں تھیں۔ سب سے بڑے بھائی سید عنایت منظر اعظمی جموں یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے ہیڈ تھے۔دوسرے نمبر پر خود کوثر صاحب تھے اور چھوٹے بھائی سید ضیاء اللہ ایک اسکول ٹیچر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔بہنوں میں دو کی وفات ابتدائی عمر میں ہی ہوچکی تھی جبکہ بقیہ دو میں سے ایک کی شادی شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ سے ہوئی تھی۔ کچھ عرصہ بعد ہی ان کی اس بہن کا انتقال ہوگیا۔کوثر صاحب کی شادی پھوپھی زاد بہن فرزانہ بیگم سے 1955 میں ہوئی۔ ان کا انتقال 20 اپریل 1991 میں ہوا۔ وہ جماعت کی رکن تھیں۔ ان کے منجھلے بیٹے ساجد عمیر رکن جماعت ہیں جبکہ دو بیٹے سید عارف اور سید آصف متفقین جماعت میں سے ہیں۔ان کا خاندان اعظم گڑھ کے معزز خاندانوں میں شمار ہوتا ہے۔
اعلیٰ تعلیم اور تحریک سے وابستگی :
جس زمانے میں یہ ٹانڈہ، اترپردیش سے انٹر میڈیٹ کررہے تھے، ان کی ملاقات جماعت اسلامی کے کچھ افراد سے ہوئی۔ان کے ذریعہ انہیں اسلامی لٹریچر پڑھنے کا موقع ملا۔ اس لٹریچر نے ان کے دل ودماغ پر ایسا اثر چھوڑا کہ خود کو دعوتی کام کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ کرلیا اور تا حیات اس فیصلے پر قائم رہے۔ تحریک اسلامی کی تاریخ سازی میں ان کا اہم رول ہے
کوثر یزدانی صاحب تحریک اسلامی ہند سے وابستہ ہونے کے بعد ایمرجینسی کے زمانے میں جیل بھیج دیے گئے تھے۔کچھ ماہ بعدجیل سے رہائی ملی۔جیل سے آنے کے بعد ان میں ہندی زبان میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوا۔اسی شوق میں آچاریہ اور ایم اے کیا ۔پھر 1980 میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کی پی ایچ ڈی کا موضوع تھا ’’صوفی درشن اِوَم سادھنا کرماگت وکاس تتھا کتبن منجن ایوم گیسی‘‘۔ یہ مقالہ ہندوازم اور اسلام تھیولوجی کو سامنے رکھ کر لکھا گیا تھا۔ ہندی زبان میں نکھار لانے کے لیے انہوں نے باضابطہ طور پر سنسکرت زبان سیکھی۔ تحریک اسلامی کے لٹریچر کی بڑی تعداد کو ہندی زبان میں منتقل کیا۔جماعت میں ہندی زبان میں ہونے والے کام کی ذمہ داری ان کے ہی کندھے پر تھی۔انہوں نے اس کام کو بحسن وخوبی نبھایا۔ ہندی میں ان کی مہارت اور صحافت میں کمال درجہ کا عبور ہونے کی وجہ سے 1958 میں جب ’کانتی‘ماہنامہ کا اجرا ہوا تو اس کا پہلا ایڈیٹر انہی کو بنایا گیا۔ ’کانتی‘ 1980 میں رامپور سے دہلی منتقل ہوگیا۔ دہلی میں اس ماہنامہ کے دو ایڈیشن نکالنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ایک ہفتہ وار اور دوسرا ماہنامہ۔ دونوں ایڈیشن کے مزاج میں فرق تھا۔’کانتی ہفتہ وار‘ ہندی جاننے والے مسلمانوں کے لیے اور ’کانتی ماہنامہ‘ برادران وطن کو سامنے رکھ کر شائع کرنے کی منصوبہ سازی کی گئی۔ ان دونوں ایڈیشنوں کے چیف کوثر یزدانی صاحب تھے۔ انہوں نے 37 سال تک صحافت کا ایک طویل سفر طے کیا۔ اس دوران ہندی میں ان کے ایک ہزار سے زیادہ مضامین شائع ہوئے۔
جب ہندی میں مہارت حاصل کرلی تو شوق پیداہوا کہ اسلام کی باتیں ہندی میں منتقل کی جانی چاہئیں۔اسلام کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے عربی زبان سیکھنا ضروری تھا۔لہٰذا عربی زبان سیکھنے کے لیے رامپور میں قیام کے دوران مولانا سلمان قاسمی سے عربی سیکھنا شروع کی اور اسے مزید مضبوط کرنے کے لیے ندوۃ العلماء میں درجہ عا لمیت میں داخلہ لیا۔ اس دوران وہ ’کانتی‘ کا کام بھی دیکھتے رہے۔عالمیت مکمل کرنے کے بعد رامپور لوٹ آئے اور یہاں کی درسگاہ سے فضیلت کی سند حاصل کی۔
کوثر یزدانی صاحب کی تصنیفی خدمات:
کوثر یزدانی صاحب نے متعدد کتابیں لکھیں۔ ان کتابوں کی تعداد 48 تک پہنچتی ہے۔ ان میں چالیس ایسی کتابیں ہیں جنہیں اردو سے ہندی میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ ان کی اپنی تصنیف کردہ ’’شمع آدم‘‘ نہایت ہی ضخیم چار جلدوں میں ہے۔ان کی ایک کتاب ’خلفائے راشدین کی بایو گرافیز‘ ہندی کے علاوہ اردو زبان میں بھی شائع ہوچکی ہے۔ان میں اسلام کو برادران وطن تک پہنچانے کا بڑا جذبہ تھا۔ اسی جذبے کی وجہ سے متعدد اسلامی کتابوں کا ہندی میں ترجمہ کیا۔ مولانا محمد جونا گڑھی کی تفسیر قرآن کو اردو سے سلیس ہندی میں ترجمہ کیا۔ حدیث شریف کی اہم کتاب بخاری شریف کو تین جلدوں میں بزبان ہندی مکمل کیا۔مولانا یوسف کاندھلوی کی منتخب احادیث کو بھی ہندی میں منتقل کیا۔ اس کے علاوہ متعدد اہم اسلامی کتابوں کو ہندی ورژن میں تیار کیا۔ان کی ہندی کتابوں نے برادران وطن میں اسلامی پیغام پہنچانے میں بڑا اہم رول ادا کیا ۔ ان کتابوں کو پڑھ کر بہت سے لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ انہی لوگوں میں ایک نام پروفیسر سنگھیاسن سنگھ کا لیا جاتا ہے۔ پروفیسر سنگھ کو دنیا کے پانچ بڑے بدھسٹ اسٹڈیز کے ماہرین میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ دہلی یونیورسٹی میں سنسکرت اور پالی اسٹڈیز کے ڈین بھی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے یزدانی صاحب کی ہندی کتابوں کا مطالعہ کیا اور اتنا متاثر ہوئے کہ اسلام قبول کر لیا۔
یزدانی صاحب کی دعوتی تڑپ:
ان کی زندگی کا ایک نمایاں پہلو یہ ہے کہ وہ کسی بھی کام کو مصروفیت کی آڑ میں چھپنے نہیں دیتے تھے۔مصروفیتیں ہزار، مگر کام کو بروقت مکمل کرکے یہ ثابت کردیتے تھے کہ ’ Time is nothing but function of interest ‘یعنی وقت اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے کہ وہ دلچسپیوں کامجموعہ ہے۔ ایک آدمی جس کام کو کرنا چاہے گا، خواہ کتنا ہی مصروف ہو، اگر وہ چاہے گا تو اسے کرلے گا۔ وہ ہر کام کو نظام الاوقات کے مطابق انجام دیا کرتے تھے۔ تہجد کے وقت بیدار ہوجاتے، اپنےمعمولات سے فارغ ہوتے۔ فجر کی نماز کے بعد رسائل و جرائد کا مطالعہ کرتے اور ناشتہ کے بعد 9 بجے صبح ’کانتی‘ کے دفتر میں آجایا کرتے اور ظہر تک رہتے۔کچھ وقفہ کے بعد دوبارہ دفتر آجاتے اور ضروری کام کرنے کے بعد دعوتی مشن پر نکل پڑتے۔انہوں نے دہلی میں دعوتی مشن کو بہت وسیع کردیا تھا۔ ان کی عظیم کارکردگی اور جذبے کی وجہ سے انہیں دہلی کا امیر حلقہ بھی بنایا گیا۔ حالانکہ ان کے پاؤں میں تکلیف رہتی تھی اور نسوں میں کچھ شکایت تھی جس کی وجہ سے چلنے پھرنے میں بڑی تکلیف تھی۔ مگر یہ تکلیفیں کبھی بھی ان کے مشن کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنیں۔ ان کے دور امارت میں دہلی میں بڑے پیمانے پر کام ہوا اور جماعت اسلامی ہند کا پیغام دلی کے کوچے کوچے میں پہنچا جسے آج بھی دلی کے لوگ یاد کرتے ہیں۔ ان کے علمی و تحقیقی کام سے آج طلباء، ریسرچ اسکالرس بالخصوص برادران وطن جو اسلام کو سمجھنا چاہتے ہیں خوب استفادہ کررہے ہیں۔
حادثہ وفات:
اپنی حیات مستعار کے ماہ وسال گزار کر اور کچھ قابل قدر کارنامے انجام دینے کے بعد 76 سال کی عمر میں 30 اگست 2011 کو کوثر یزدانی صاحب کو دل کا دورہ پڑا جس میں انہوں نے اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی اور دین کے غلبہ کی تڑپ لے کر وہ اس دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کرگئے۔
***

 

***

 کوثر یزدانی صاحب میں اسلام کو برادران وطن تک پہنچانے کا بڑا جذبہ تھا۔ اسی جذبے کی وجہ سے متعدد اسلامی کتابوں کا ہندی میں ترجمہ کیا۔ مولانا محمد جوناگڑھی کی تفسیرِ قرآن کو اردو سے سلیس ہندی میں ترجمہ کیا۔ حدیث شریف کی اہم کتاب بخاری شریف کو تین جلدوں میں بزبان ہندی مکمل کیا۔ مولانا یوسف کاندھلوی کی منتخب احادیث کو بھی ہندی میں منتقل کیا۔ اس کے علاوہ متعدد اہم اسلامی کتابوں کو ہندی ورژن میں تیار کیا۔ان کی ہندی کتابوں نے برادران وطن میں اسلامی پیغام پہنچانے میں بڑا اہم رول ادا کیا ۔ ان کتابوں کو پڑھ کر بہت سے لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ بدھسٹ اسٹڈیز کے دنیا کے پانچ بڑے ماہرین میں ایک پروفیسر سنگھیاسن سنگھ نے یزدانی صاحب کی ہندی کتابوں کو پڑھ کر اسلام قبول کیا۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 10 تا 16 اکتوبر 2021