کیف علی نے ملک کا نام روشن کیا

’اسپیس ایرا‘ پراجیکٹ کو دولت مشترکہ اعزاز سے نوازا گیا

حسن آزاد

نوجوانوں کو خاص اہداف کے تحت آگے بڑھنے کی ضرورت ۔ ہفت روزہ دعوت کے پلیٹ فارم سے کیف علی کا پیغام
ایک اندازے کے مطابق جب ہم 2030 تک پہنچ جائیں گے دنیا کی ساٹھ فیصد آبادی شہری علاقوں میں مقیم ہو گی۔ لیکن جب کورونا وائرس جیسی مہلک اور متعدی بیماریوں کے متعلق انسان غور کرتا ہے تو سہم جاتا ہے، اسے بھیڑ بھاڑ والے علاقے اچھے نہیں لگتے۔ ایسے میں کورونا کے اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے کفایتی نقل پذیر گھروں کی بھی ضرورت درپیش ہوتی ہے اور زلزلہ اور سیلاب سے بچنے کے لیے تیار شدہ پائیدار پناہ گاہیں بھی ضروری معلوم ہوتی ہیں۔ انہی تصورات کے تحت جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ہونہار طالب علم 21 سالہ کیف علی نے اسپیس ایرا (SpaceEra)پراجیکٹ تیار کیا جس کے تحت کفایتی نقل پذیر گھر (low-cost portable housing) اور پہلے سے ’تیارشدہ پائیدار پناہ گاہ‘ (prefabricated sustainable shelter) کا ڈیزائن تیار کیا گیا۔ جس کی وجہ سے انہیں دولت مشترکہ اختراع و دیر پا ترقی اعزاز(Commonwealth Innovation for Sustainable Development Awards) سے نوازا گیا۔ پندرہ انعام یافتگان میں وہ واحد ہندوستانی ہیں اور سب سے کم عمر بھی ہیں جنہیں اس اعزاز سے نوازا گیا۔ اس طرح سے کیف علی نے نہ صرف جامعہ ملیہ اسلامیہ کا نام روشن کیا بلکہ پوری دنیا میں ملک کا ڈنکا بجوایا۔
دعوت نیوز کے نمائندہ نے کیف علی سے خاص بات چیت کی اور ان سے اسپیس ایرا(SpaceEra) کے تعلق سے کئی سوالات کیے۔ کیف علی نے کہا کہ انہوں نے 2019 میں کورونا وائرس کی آمد سے پہلے ہی اس طرح کے پراجیکٹ پر ترکی میں اپنے سینئرس کے ساتھ کام کیا تھا۔ لیکن جب کورونا وائرس آیا تو انہیں مزید تقویت ملی چنانچہ انہوں نے ماڈیولر فن تعمیر ڈومین(modular architecture domain) کے تحت اپنے کام کو آگے بڑھایا۔ کیف علی نے اس طرح تحقیق شروع کی کہ فنِ تعمیر بیماری کے پھیلاؤ کو کیسے روک سکتا ہے۔ انہوں نے ایک تیار شدہ پائیدار پناہ گاہ کا ایسا خاکہ پیش کیا ہے جو پناہ گزینوں، افواج اور آفات سماویہ کے مواقع پر راحت بچاؤ ٹیموں (rescue team) کے لیے کافی مفید ثابت ہوگا۔ کیف علی کے مطابق ان کے ڈیزائن کو اب دنیا بھر میں نافذ کیا جا رہا ہے اور اسے حکومتِ ہند کی طرف سے بھی سراہا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے تسلیم شدہ ٹاپ 11 ابھرتی ہوئی انوویشن اسٹارٹ اپس(innovation startups) کے تحت آب و ہوا کی کارروائی(Climate Action) کو حل کرنا(solving climate action) بیس سے زیادہ ایوارڈز اپنے نام کرنا اور دنیا بھر میں 80 سے زائد میڈیا کی اشاعتیں قابل ستائش ہیں۔
بیچلر آف آرکیٹیکچر(B.Arch) جامعہ ملیہ اسلامیہ کے چوتھے سال کے طالب علم کیف علی کو کورونا وبا کی وجہ سے بدلتی دنیا میں ان کی اہم اور غیر معمولی تحقیقی خدمات (Covid-91 Innovation Space Era) کے لیے لیڈی ڈیانا ایوارڈ سے نوازا گیا۔ واضح رہے کہ یہ انعام ویلز کی شہزادی لیڈی ڈیانا کی یاد میں قائم ہوا تھا اور اسی نام کے عطیہ دہندہ ادارے کے زیر اہتمام دیا جاتاہے اور اسے ان کے دونوں لڑکوں ڈیوک آ ف کیمبرج(duke of cambridge) اور ڈیوک آف سسیکس (duke of sussex) کی حمایت حاصل ہے۔ یہ ایوارڈ نوجوانوں کو سماجی کاموں اور انسانی خدمات کے لیے دیے جانے والے انعامات میں سے ایک ہے۔
دعوت نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کیف علی نے بتایا کہ دلی حکومت نے جو شِپِنگ کنٹینر(shipping container) سے میڈیکل سنٹر یعنی محلہ کلینک تعمیر کیا ہے وہ اصل میں انہیں کے پراجیکٹ سے متاثر ہو کر بنایا گیا ہے۔ وہیں کیف علی کے تیارکردہ پراجیکٹ کی بنیاد پر لاگوس(Lagos) شہر، نائیجیریا میں دنیا کے سب سے بڑا شِپِنگ کنٹینر (shipping container) سے میڈیکل سینٹر تیار ہو رہا ہے۔ خود کیف علی بھی اس پراجیکٹ کا حصہ ہیں۔ کیف علی آہستہ آہستہ ترقی کی منازل طئے کرتے جا رہے ہیں۔ دعوت نیوز کے نمائندہ نے جب کیف علی سے دریافت کیا کہ ان کی ترقی میں کن لوگوں کا سب سے زیادہ نمایاں کردار رہا ہے تو انہوں نے کہا کہ ان کی ترقی میں ان کے اساتذہ اور والدین کے ساتھ ان کی بہن کا بھی اہم کردار ہے۔ خود کیف علی کے والد سول کنٹراکٹر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب مجوزہ خاکہ (costume analysis) تیار کیا جارہا تھا تو انہوں نے اپنے بیٹے کو کافی مشورے دیے تھے وہیں ان کی بہن بھی حوصلہ افزائی اور ہمت بڑھانے کا کام کرتی رہیں جس سے کیف علی کا پراجیکٹ مزید بہتر ثابت ہو سکا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بچوں کی ترقی میں والدین اور گھر والوں کا اہم رول ہوتا ہے۔ اگر والدین اپنے بچوں کے ہدف میں معاون ومددگار ثابت ہوتے ہیں تو پھر کسی بھی شخص کو کامیابی سے روکنا مشکل ہو جاتا ہے۔
کیف علی آرکیٹکچر کی مدد سے بہتر دنیا کی تعمیر کے لیے پُر امید ہیں اور اقوام متحدہ کے دیر پا ترقی کے مقصد کے تئیں نئی نسل کے اپنے ساتھیوں کو تحریک اور حوصلہ دے رہے ہیں۔ دعوت نیوز سے بات کرتے ہوئے بھی انہوں نے نوجوان نسل کو یہی پیغام دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ انگلش کے تین آئیس (three I) پر کام کر رہے یعنی imagine (تخیل) Initiate (اقدام ) اور inspire (تحریک و حوصلہ)۔ وہ نوجوانوں کو اس فارمولے پر عمل کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ کیف علی کا مزید کہنا ہے کہ نوجوانوں کو چاہے وہ کسی بھی میدان میں ہوں، ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں غور کرنا چاہیے۔ اپنی تخلیق یا تعمیری کاموں میں ماحول کے مطابق کام کرنے کی ضروت ہے۔ کیوں کہ ماحول کا تحفظ بے حد ضروری ہے کیونکہ ماحولیاتی توازن پر توجہ نہ دینے کے نتیجے میں قدرتی آفات نازل ہوتی ہیں۔ اسی سلسلے میں ماحولیات کی اہمیت کو سمجھا جاتا ہے۔ اسی کے نتیجے میں زندگی کے بہت سے منفی منظر نامے جیسے بھوک اور پانی کی جنگیں جنم لے سکتی ہیں۔
کیف علی نے خاص طور پر پائیدار ترقی کے سترہ اہداف (SDGs) کا تذکرہ کیا جس کو سامنے رکھ کر نوجوانوں کو کام کرنے کی ضروت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کا پراجیکٹ انہیں سترہ اہداف کو حاصل کرنے کی ایک کوشش ہے۔واضح ہو کہ پائیدار ترقی کے اہداف (SDGs) یا عالمی اہداف 17 بین الاقوامی منسلک اہداف کا مجموعہ ہیں جو سب کے لیے بہتر اور زیادہ پائیدار مستقبل کے حصول کے لیے بلیو پرنٹ کے لیے ڈیزائن کیے گئے ہیں۔ SDGs کو 2015 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے تیار کیا تھا اور ان کا مقصد 2030 تک حاصل کرنا ہے۔
کیف علی کا ماننا ہے کہ نوجوان ہر کام کرنے کی کافی اہلیت رکھتے ہیں بس ان کی حوصلہ افزائی کی ضروت ہے، خاص طور پر نوجوان نسل کو ملک کی پالیسی بنانے(policy making) میں شراکت دار ہونے کی ضرورت ہے تاکہ ملک ترقی کے منازل طئے کرسکے۔
کیف علی نے کہا کہ انہیں جو انعام کی رقم تین ہزار پونڈس ملی ہے وہ اسے اپنے پراجیکٹ میں صَرف کریں گے۔ جبکہ اس عمر میں ہمارے نوجوان نسل مہنگے موبائل فونس، قیمتی کاریں اور آرام دہ رہائش گاہوں اور عیش وعشرت کے متلاشی اور طلب گار ہوتے ہیں، لیکن محض اکیس سال کے کیف علی نے ان سب چیزوں سے بے پروا ہو کر ریسرچ اور مطالعہ کو ہی اصل مقصد بنایا ہے۔ کاش ہر مسلم نوجوان تعلیم کے میدان میں اسی طرح آگے بڑھتا تو ملک ہی نہیں پوری دنیا میں مسلمانوں کی حالت بہتر ہوتی۔ آج حالت یہ ہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر کے مسلمانوں میں صرف چالیس فیصد خواندہ ہیں باقی ساٹھ فیصد ان پڑھ ہیں۔ مسلم بچوں کی ایک بڑی تعداد آج بھی اسکول نہیں جاتی اور 17عرب ممالک میں لگ بھگ 60 فیصد بچے پرائمری سطح پر ہی اسکول چھوڑ دیتے ہیں۔57 مسلم ممالک میں صرف 26 ملک ایسے ہیں جہاں لڑکوں اور لڑکیوں کے اسکول جانے کا تناسب مساوی ہے۔ ملک میں پہلی بار2001ء میں مذہب کی بنیاد کیے گئے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق مسلمان دوسروں کے مقابلے میں تعلیم میں بہت پیچھے ہیں۔ یہاں قومی سطح پر مسلمانوں میں خواندگی کی شرح محض 55فیصد ہے جب کہ عام شہریوں میں خواندگی کی شرح تقریباً 65فیصد ہے۔یہاں مسلم خواتین 14فیصد خواندہ ہیں جب کہ ملک کی دیگر خواتین میں یہ شرح 46فیصد ہے۔
کیف علی سے طویل گفتگو میں یہ معلوم ہوا کہ اگر گھرانہ تعلیم یافتہ ہو تو بچوں میں بھی تعلیمی شوق وجذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اور اگر والدین اپنی ذاتی دلچسپی دکھاتے ہوئے بچوں کے پراجیکٹس اور اسائنمنٹس میں مددگار ہوں تو کوئی بھی بچہ نمایاں کردار ادا کرسکتا ہے۔ وہیں راقم الحروف کا تجزیہ ہے کہ والدین اگر تعلیم یافتہ نہ بھی ہوں تب بھی اپنے بچوں کو تعلیمی میدان میں آگے بڑھانے کی خواہش اور کوشش بھی کام کر جاتی ہے جس کے نتیجے میں ان کے بچوں کی ترقی کی راہ ہموار ہو جاتی ہے۔
***

 

***

 کیف علی سے طویل گفتگو میں یہ معلوم ہوا کہ اگر گھرانہ تعلیم یافتہ ہو تو بچوں میں بھی تعلیمی شوق وجذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اور اگر والدین اپنی ذاتی دلچسپی دکھاتے ہوئے بچوں کے پراجیکٹس اور اسائنمنٹس میں مددگار ہوں تو کوئی بھی بچہ نمایاں کردار ادا کرسکتا ہے۔ وہیں راقم الحروف کا تجزیہ ہے کہ والدین اگر تعلیم یافتہ نہ بھی ہوں تب بھی اپنے بچوں کو تعلیمی میدان میں آگے بڑھانے کی خواہش اور کوشش بھی کام کر جاتی ہے جس کے نتیجے میں ان کے بچوں کی ترقی کی راہ ہموار ہو جاتی ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 10 تا 16 اکتوبر 2021