معاشی پستی کا تعلیمی شعبہ پر گہرا اثر

خانگی اسکولوں کے طلبا کا بڑے پیمانے پر سرکاری اسکولوں کا رخ

ڈاکٹر محمد کلیم محی الدین

طلبا کو بنیادی سہولتیں اور بہتر تعلیمی نظام فراہم کرناحکومت کی ذمہ داری
ملک میں کووڈ لاک ڈاؤن کے اثرات سے کوئی شعبہ اچھوتا نہیں ہے۔ خاص طور پر تعلیمی شعبے پر اس کے تباہ کن اثرات پڑے ہیں۔ معاشی انحطاط و بے روزگاری کے سبب رواں تعلیمی سال بڑی تعداد میں خانگی اسکولس کے طلبا نے سرکاری اسکولس کا رخ کیا ہے۔ چند سال پہلے تک حکومت کو سرکاری مدارس میں بچوں کے داخلے کے لیے مختلف مہمات کا سہارا لینا پڑتا تھا۔کروڑہا روپے خرچ کرکے سرواشکشاابھیان اوردیگر بیداری مہمات چلائی جاتی تھیں اس کے باوجود بھی لوگ سرکاری اسکولس کے بجائے خانگی اسکولس کو ترجیح دے رہے تھے لیکن اس مرتبہ سرکاری اسکولوں میں داخلے کے اعلان کے ساتھ ہی بڑی تعداد میں خانگی اسکولوں کے طلبا کا سرکاری اسکولوں میں داخلہ کروایا گیا ہے۔ اس تبدیلی کو کئی زاویوں سے دیکھا جار ہا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا حکومت ان نووارد طلبا کو بہتر تعلیمی ماحول اور انفرااسٹرکچر فراہم کر پائے گی۔ کیا سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کے اس اتفاق کا آگے بھی تسلسل جاری رہے گا ۔ہفت روزہ دعوت نے اس معاملے پر زمینی حقائق کا جائزہ لیا ہے ۔
گزشتہ دہے کے اعداد وشمار کے مطابق تعلیمی سال 2010-11اور 2015-16 کے درمیان ملک کی 20 ریاستوں میں ایک کروڑ 30لاکھ طلبا ءسرکاری مدارس میں زیر تعلیم تھے جب کہ ایک کروڑ 75 لاکھ طلبا پرائیویٹ اسکولس میں زیر تعلیم تھے۔ 2011-16 کے درمیان ملک میں 35 فیصد طلبا خانگی اسکولس کا رخ کررہے تھے۔(اعدادو شمار بشکریہ بزنس اسٹانڈرڈ 16 اپریل 2019) اس وقت یہ بات بھی بحث کا موضوع بنی ہوئی تھی کہ بھارتی سرکاری اسکولوں کے اساتذہ چین کے اساتذہ سے چار گنا زیادہ تنخواہ حاصل کرتے ہیں لیکن نتائج خاطرخواہ برآمد کیوں نہیں ہوتے؟ کورونا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے صورتحال یکسر تبدیل ہوگئی ہے۔ اب ہواکا رخ سرکاری اسکولس کی جانب ہوگیا ہے۔
ریاست کرناٹک کے تعلق سے حالیہ دنوں شائع ایک رپورٹ کے مطابق کرناٹک کے تقریباً 15189 سرکاری پرائمری اسکولوں میں طلبا کی ریکارڈ تعداد میں اضافہ دیکھا گیا۔ان پرائمری اسکولس میں 10فیصدی سے لے کر 100 فیصد تک اضافہ درج کیا گیا۔ تعلیمی سال 2020-21 کے دوران 42.5 لاکھ طلبا نےسرکاری اسکولس میں داخلہ لیا تھا۔ تعلیمی لحاظ سے ترقی یافتہ ریاست کرناٹک میں پرائیویٹ اسکولس کی بہ نسبت سرکاری اسکولس میں زیادہ تعداد میں داخل لینا ایک خوش آئند اقدام ہے۔
ریاست تمل ناڈو میں جولائی 2021 میں 24,60,085 طلبا خانگی اسکول سے سرکاری امدادی اسکولوں میں داخل ہوئے اور 68,569 طلبا سرکاری امدادی اسکولس سے سرکاری اسکولوں میں داخل ہوئے۔ پہلی جماعت تا بارہویں جماعت کے جملہ 75,725 طلبا نے خانگی اسکولوں اور جونیر کالجوں سے سرکاری اسکولوں اور جونیر کالجوں کا رخ کیا ہے۔
آندھراپردیش میں تعلیمی سال 2020-21کے دوران پہلی جماعت تا بارہویں جماعت کے 2,02,599لاکھ طلبا نے خانگی اسکولوں سے گورنمنٹ اسکولوں کا رخ کیا جب کہ 60253 طلبا نے تعلیم کا سلسلہ ہی منقطع کردیا۔گورنمنٹ اسکولس و جونیر کالجس میں زیر تعلیم طلبا کی تعداد 72,33,040ہے جب کہ خانگی اسکولوں کے طلبا تقریباً 10 لاکھ ہیں۔ یہ رپورٹ انڈین ایکسپریس میں جولائی میں شائع ہوئی۔
ریاست تلنگانہ میں خانگی اسکولوں سے بڑی تعداد میں طلبا سرکاری اسکولس میں داخل ہوئے۔ ایسے وقت جب کہ کئی سرکاری اسکولس بند ہونے کے قریب پہنچ گئے ہیں اور اسکولس میں اساتذہ کی کمی ہے انفراسٹرکچر بھی کم ہے، زائد از ایک لاکھ خانگی اسکولس کے بچوں کا سرکاری اسکولس میں داخل ہونا ایک اہم معاملہ ہے۔ اس نئے رجحان کی وجہ سے محکمہ تعلیمات پر بہت سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ اس تعلق سے مختلف ماہرین تعلیم نے اپنی رائے پیش کی ہے۔
آل انڈیا آئیڈیل ٹیچرس اسوسی ایشن (AIITA) کے ریاستی صدر محمد یقین الدین پرنسپال گورنمنٹ بوائزجونیر کالج نظام آبادنے ہفت روزہ دعوت سے بات کرتے ہوئے بتایا ’’یہ ایک اچھی تبدیلی آئی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس تبدیلی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے طلبا کے لیے سہولتوں میں اضافہ کرے۔حکومت کو چاہیے کہ وہ معیاری تعلیم کو فروغ دے۔کئی اسکولوں میں بہت سارے طلبا کے لیے اساتذہ نہیں ہیں ۔ آوٹ سورسنگ سے کام چلایا جارہا ہے۔ بعض اسکولوں اور کالجوں میں بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے۔ اس جانب حکومت کو توجہ دینا چاہیے ۔ کہیں کہیں اسکول کی عمارتیں بوسیدہ ہیں۔طالبات کے لیے سہولت بخش بیت الخلا نہیں ہیں۔ ان کمیوں کو دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تعلیمی بجٹ میں اضافہ کرتے ہوئے مختلف سہولتیں فراہم کی جائیں۔ اساتذہ بھی اس موقع پر اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں اور اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے طلبا کی ترقی میں مثبت رول ادا کریں۔‘‘ بنیادی سہولتوں کی فراہمی کو اہمیت دینے کے ساتھ ساتھ صدر ریاستی آئیٹا نے بتایا کہ معاشی کساد بازاری ، بے روزگاری کی وجہ سے زیادہ طلبا نے سرکاری اسکولس کا رخ کیا ہے لیکن اس کو مثبت انداز میں دیکھا جانا چاہیے۔ حکومت ان طلبا کو بہتر تعلیم فراہم کرتے ہوئے بہتر مستقبل فراہم کرسکتی ہے۔
اس سوال پر کہ ان کے کالج میں اس مرتبہ خانگی اسکولوں سے کتنے طلبا آئے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ ’’اس مرتبہ گورنمنٹ بوائز جونیر کالج نظام آباد میں 540 طلبا خانگی کالج سے سرکاری جونیر کالج میں داخل ہوئے اور مزید داخلے جاری ہیں۔‘‘انہوں نے کہا کہ بہتر تعلیم اور مناسب بنیادی سہولتوں کے ساتھ سرکاری اسکولس کے نظام کو مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
تلنگانہ کی صحافی رشیکا کے مطابق تعلیمی سال 2021-22 کے دوران تقریباً 1.25 لاکھ طلبا خانگی اسکولوں سے تلنگانہ کےسرکاری اسکولوں میں منتقل ہوگئے۔ گزشتہ تعلیمی سال کے مقابلے میں یہ تعداد 40 فیصد زیادہ ہے۔ بے روزگاری اور مالی مشکلات کے سبب والدین اسکول کی فیس بھرنے سے قاصر ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کو سرکاری مدارس میں منتقل کررہے ہیں۔جماعت اول سے 12 تک کے تقریباً 1.25 لاکھ طلبا کا خانگی اسکولس سے سرکاری اسکولس کی طرف رخ کرنا ایک بڑا اہم معاملہ ہے۔خانگی اسکولس سے سرکاری اسکولس کی طرف رخ کرنے کی سب سے بڑی وجہ معاشی مندی ، بے روزگاری اور اسکولس کی فیس ادا نہ کرپانا ہے۔ چھٹی اور آٹھویں جماعت کے دو طلبا خانگی اسکول سے سرکاری اسکولس میں آئے ہیں۔ ان کے والد کی نوکری گزشتہ سال جنوری میں چلی گئی۔ ان دونوں طالبات کی اسکولی فیس 1.2 لاکھ ہوتی ہے جسے ادا کرنے سے وہ قاصر ہیں اس لیے انہوں نے طلبا کو سرکاری اسکول میں داخل کیا۔
تلنگانہ میں خانگی اسکولس سے سرکاری اسکولس میں داخلے کا جدول:
(اعدادو شمار بشکریہ دی پرنٹ ڈاٹ کام)
تلنگانہ کے شہروں میں مختلف وجوہات کے بنا پر طلبا خانگی اسکولس سے سرکاری اسکولس میں داخل ہوئے جب کہ دیہی علاقوں میں بعض خانگی اسکولس نے اپنی بس سرویس کو بند کردیا ہے جس کی وجہ سے وہاں پڑھنے والے طلبا قریبی سرکاری اسکولس میں داخل ہوگئے۔
تلنگانہ کے اسکولس سے متعلق اسی ماہ شائع ہوئی ایک رپورٹ کے مطابق 41000 اسکولس تلنگانہ میں ہیں جن میں 26800 سرکاری ، 11000 خانگی اور 600 امدادی اور دیگر اسکولس ہیں۔ جن میں 55 لاکھ سے زائد بچے زیر تعلیم ہیں۔2020 میں تلنگانہ حکومت نے خانگی اسکولوں کو مکمل فیس وصول کرنے سے روکا تھا جب کہ طلبا کے سرپرستوں کا کہنا ہے کہ ان سے خانگی اسکول والے مکمل فیس وصول کر رہے تھے ۔سرکاری اسکولس میں ٹیچرس کی کئی نشستیں خالی ہیں۔
حیدرآباد کی قدیم بستی کے ایک اسکول ’’گورنمنٹ اسکول شاہ گنج‘‘ کے استاداحمد علی نے ہفت روزہ دعوت کو بتایا کہ ’’ طلبا کی بڑی تعدادنے ان کے اسکول کا بھی رخ کیا ہے۔ گزشتہ مرتبہ 23 طلبا 5 ویں جماعت میں تھے جو پاس ہونے کے بعد چھٹی جماعت میں داخل ہونے والے تھے خانگی اسکول کے طلبا کے آنے کی وجہ سے یہ تعداد اس مرتبہ دوگنی ہوگئی ہے۔ اس کے علاوہ مختلف کلاسس میں 48 ایسے طلبا نے داخلہ لیا ہے جو خانگی اسکول سے نکل کر یہاں آئے ہیں۔ ‘‘
اسی طرح حیدرآباد کے مختلف اسکولوں کی بعض جماعتوں کے طلبا کی تعداد دُگنی ہوگئی جب کہ یہاں پڑھانے والوں کی تعداد جوں کی توں ہے۔ کلاسس اور فرنیچر وغیرہ میں بھی پہلے کے مقابلے میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے۔
حیدرآباد کے ہی گورنمنٹ اسکول ٹپہ چبوترہ کے استاد عبدالوحید حمیدی نے بتایا کہ خانگی اسکول کے بچے اکثر سرکاری اسکول کا رخ کرتے ہیں لیکن اس مرتبہ اچانک بہت سے طلبا یہاں داخل ہوئے ہیں۔ ان کے اسکول میں خانگی اسکول کے 65 بچے داخل ہوئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے اسکول کی تعلیمی صورتحال اطمینان بخش ہے۔ انفراسٹرکچر بھی عمدہ ہے۔ لہٰذا یہاں پڑھنے والے بچوں کو خانگی اسکول کی طرز پر پڑھنے کابہترماحول فراہم کیا جاتا ہے۔
خانگی طلبا کے سرکاری اسکولس داخل ہونے کی ایک وجہ تلنگانہ کے بعض خانگی اسکولس کا بند ہونا ہے۔ لاک ڈاون سے پہلے جتنے اسکولس چلتے تھے وہ تمام دوبارہ کھل نہیں سکے۔ کئی اسکولس بند ہوگئے جس کی وجہ سے یہ طلبا یا تو دوسرے خانگی اسکولوں کو چلے گئے یا پھر سرکاری اسکولوں کا رخ کیا ہے۔بعض خانگی اسکولس میں اساتذہ کی عدم دستیابی بھی اسکولس کے بند ہونے کی ایک اہم وجہ ہے۔ خانگی اسکول کے ایک استاد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ خانگی اسکول میں ان کی تنخواہ کافی کم تھی لیکن وہ اسی میں گزارا کررہے تھے۔ گزشتہ سال لاک ڈاؤن کے دوران ان کی نوکری چلی گئی۔ وہ اب فوڈ ڈیلیوری بوائے کا کام کررہے ہیں۔ وہ واپس خانگی اسکول کو جانا نہیں چاہتے ۔
سرکاری اسکولس میں طلبا کی تعداد بڑھانے کے لیے بہت سی کوششیں کی گئیں لیکن لاک ڈاؤن، بے روزگاری اور معاشی کسادبازاری کی وجہ سے بڑی تعداد میں طلبا خانگی اسکولس سے سرکاری اسکولس میں داخل ہوئے۔ حکومت کو ان طلبا کو بہترتعلیمی ماحول اور بنیادی سہولتیں فراہم کرتے ہوئے سرکاری اسکولس کے معیار کو مزید بہتر بنانا چاہیے ۔ تعلیمی شعبہ میں اصلاحات کے ذریعے سرکاری اسکولس کے نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 10 تا 16 اکتوبر 2021