کوئی اور زخم تازہ کوئی اور ضرب کاری
خواتین کے ساتھ بھارت کی عزت نیلام کرنےوالوں کوسزا دی جائے
ڈاکٹر فاطمہ تنویر
دل مجروح ہیں لیکن فلاحی کام کرنے کا حوصلہ نہیں ٹوٹا۔سائبر ہراسانی کی شکار خواتین کے تاثرات
خواتین مزید سرگرم رول ادا کریں،ایک بڑے طبقہ کی سردمہری افسوسناک۔تمام تنظیمیں آواز اٹھائیں۔خاتون دانشوروں کی رائے
26جنوری 2022کو 74واں یوم جمہوریہ اس بات کی یاد کو تازہ کرتا ہے کہ یہ ملک تمام شہریوں کو جمہوری و دستوری حقوق کی ضمانت دیتا ہے جن کی رو سے بلا تفریق رنگ،نسل مذہب وملت سب کو جینے، رہنے ، تعلیم حاصل کرنے،اپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ و اشاعت کرنے کا مساوی حق حاصل ہے۔ یہ ملک بہت سے خوبصورت پھولوں کا ایسا گلدستہ ہے جہاں تمام پھول الگ الگ رنگ و خوشبو کے باوجود سب ملک کر باغ کی شان کو بڑھاتے ہیں۔یہی بھارت کے تکثیری سماج کی پہچان بھی ہے لیکن اس ملک کی تصویر کو بگاڑنے والی وارداتوں نے تکثیری سماج کے لیے خطرہ پیدا کردیا ہے۔ قانون کی بالاددستی کے لیے چیلنج بعض لوگوں کی سوچ و فکر کا زہر معاشرے میں تیزی سے سرایت کررہا ہے اورخاص طور پر اقلیتی طبقہ نشانہ پر ہے۔ واقعات کا ایک تسلسل ہے جو ہمارے لیے لمحہ فکر یہ ہے ۔
سال نو کی پہلی تاریخ کو پیش آئے واقعہ سے عیاں ہے کہ ہمارا سماج کس طرف بڑھ رہا ہے۔ یہ واقعہ جسے لکھتے وقت قلم کانپ اٹھتا ہے’ بلی بائی ایپ‘ کے نام سے دنیا بھر میں ہمارے ملک کی بدنامی کا سبب بنا ہے۔ یہ شاید ’نئے بھارت‘ اور’ڈیجیٹل بھارت‘ کا ایک عکس ہے جس میں 112مسلم چنندہ خواتین جو اپنی اپنی فیلڈ کی ماہرہ ہیں اور جو سماج میں کچھ تعمیری کام انجام دے رہی ہیں، انہیں نشانے پرلیتے ہوئے ان کی نیلامی کے لیے بولی لگائی گئی۔ جمہوریت پر مبنی دستور ہند کی دھجیاں اڑاتا یہ واقعہ انسانی حقوق اور خواتین کی خوداختیاری کو کو منہ چڑھاتا ہے اوراس ضمن میں کیے جانے والے تمام دعووں اور نعروں کو کھوکھلا ثابت کرنے کے لیے کافی ہے ۔ 6ماہ قبل ’ سلی ڈیل‘ اور اب ’بلی بائی‘ ایپ کے ذریعہ ملک کی مسلم خواتین کی نیلامی کی حرکت سے ظاہر ہے کہ قانون کی گرفت کتنی کمزور ہوتی جارہی ہے اور مجرموں کو کس طرح کی چھوٹ حاصل ہے ۔انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی خواتین کے حوصولوں کو پست کرنے کے لیے سوچی سمجھی سازش کے تحت اٹھایا گیا یہ قدم ملک کو شرمسار کردینے والا ہے۔
خواتین جن کو بااختیار بنانے کی بات زور وشور سے کی جاتی ہے اور 8 مارچ کو ’یوم خواتین‘ منایا جاتا ہے اور دنیا کے سامنے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ بھارت میں خواتین پوری طرح آزاد ہیں اور خوداختیار ہوچکی ہیں نیز وہ دنیا کی آنکھ میں آنکھ ملا کر سر اٹھا کر جینے کا حق حاصل کرچکی ہیں۔ لیکن یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے، دوسرا رخ یہ ہے کہ نئے سال پر یہ تحفہ دیا گیا کہ آن لائن ان کی نیلامی کی گئی۔ ان کی بولی لگائی گئی۔ ان کے ناموں کے ساتھ گندی اور فحش گالیاں اور طرح طرح کی باتیں لکھ کر انہیں ذلیل کرنے کی شرمناک کوشش کی گئی ہے ۔ نہ ان کی عمر کا خیال رکھا گیا نہ ان کے وقار کا۔مجرموں نے 30سال سے لے کر 75سال تک کی خواتین کو نشانہ بنایا ہے۔
ملک کے نوجوان طبقہ میں اتنا زہر، اتنی کڑواہٹ اوراس قدر گندی ذہنیت کیسے پیدا ہوگئی ہے؟ حد یہ ہے کہ اس گھناونے کام کو انجام دینے کے لیے ٹکنالوجی کا غلط استعمال کیا جارہا ہے۔ آخر اس ملک کا نوجوان کس راستے پر چل پڑا ہے؟ وہ اپنی صلاحیت اور توانائی کن کاموں میں لگارہا ہے۔ انجینیرنگ کے طلبہ اور 18سے21سال کی عمر میں یہ لڑکے لڑکیاں کس ڈگر پر چل پڑے؟
کچھ لوگ انہیں معصوم سمجھ کر معاف کردینے کی بات کرتے ہیں۔ ان سے یہ سوال ہے کہ وہ کہنا کیا چاہتے ہیں؟ کیا وہ جرائم کی بنیادوں کو اور مضبوط کرنے کے حق میں ہیں؟ اس گھناونے فعل کو ہوتا دیکھ کر بہت سے لوگوں کا انجان بن جانا اور اپنے اوپر موت کی سی خاموشی طاری کرلینا بھی اتنا ہی تشویشناک ہے۔ کارپوریٹ، بیوروکریٹ سے لے کرآئی ایس آفیسرس سے لے کر وزراء تک سبھوں نے چپّی سادھ لی ہے۔سرکار اور ان کی سرکاری ایجنسیاں بھگوا دھاری اکثریت کی سوچ کے آگے سر تسلیم خم کیے ہوئے ہیں۔ یہاں ایک سوال یہ بھی ہے کہ مسلم خواتین کے ہمدرد بننے والے اور ان کے غم میں گھڑیالی آنسو بہانے والے تمام مسیحا کہاں غائب ہو گئے؟ کس بل میں سما گئے ہیں؟ براہ کرم باہر آئیں ۔ دکھ کی اس گھڑی میں مسلم خواتین آپ کو آواز دے رہی ہیں کہ کہاں گئے آپ اور آپ کے وہ قوانین اور بل۔ کیوں نہیں دیتے ان مجرموں کو سزائیں ؟۔ کہاں ہے وہ میڈیا جو طلاق ثلاثہ پر واویلا مچارہا تھا ۔قانونی مباحثے کرتاتھا۔ عورتوں کے حقوق کی پاسداری کے دعوے کرتا تھا خوب گرما گرم بحثیں ہوا کرتی تھیں۔ ویمنس رائٹ پر باتیں ہوتی تھیں، وہ ساری محفلیں اب ختم ہوگئیں سب کے سب خاموش ہوگئے۔ ایک طبقہ مسلسل نشانہ بن رہا ہے اور اس کے سامنے اکثریت اور ایک الگ سوچ رکھنے والے اور ان کے تمام آلہ کار طرح طرح کی نئی نئی شکلوں میں نمودار ہوکر قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے طرح طرح کے ہتکھنڈوں کا استعمال کرکے روز نئے فتنے کھڑے کررہے ہیں۔ بیان دے رہے ہیں بدکلامی اور انتہا درجہ کی ذلیل حرکتیں کررہے ہیں۔
پانی سر سے اونچا ہوتا نظر آرہا ہے۔ ایسے میں 2019کا وہ شاہین باغ یاد آتا ہے۔ وہاں کی جیالی باحیا، باپردہ مسلم خواتین کی تصویر نظروں کے سامنے ابھر کر آتی ہے جو ایک کالے قانون کے خلاف کھڑی ہوئیں۔اپنے گھروں کو چھوڑ کر سڑکوں کو آشیانہ بناکر اور بڑی ہمت و دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پوری دنیا کے سامنے ثابت کررہی تھیں کہ ہم گھروں میں رہنے والی خواتین وقت آنے پر گھروں کو خیر باد کہہ کرسڑکوں پر رات دن گزارسکتی ہیں۔ اپنے بچوں کے ساتھ ، اپنی بوڑھی دادیوں سے لے کر نوزائیدہ بچوں کو گود میں لے کر برابر 100دن تک ایک ایسا مظاہرہ جہاں بڑی بے باکی سے انہوں نے اخلاقی قدروں کی پاسبانی کے ساتھ بہت ہی عمدہ لب و لہجہ میں اپنی بات رکھی اور حکومت ہند سے مطالبہ کیا کہ وہ اس قانون کو واپس لے۔ انہوں نے حکومت کے بھیجے ہوئے لا کمیشن کے آفیسر سنجے ہیگڑے اور ساتھی خاتون سے بھی بات کی۔ بڑی بے باکی سے نوجوان بچیوں نے اپنی بات رکھی جسے سن کر لا کمیشن کے آفیسر نے کہا تھا کہ آپ کی تقریروں سے میں بہت متاثر ہوں اور اس بات کا دعویٰ کرتا ہوں کہ میرے بچے آپ کی عمر کے ہیں اچھے اسکولوں میں پڑھتے ہیں مگروہ ایسی تقاریر نہیں کرسکتے آپ سے بہت متاثرہوں۔ انہوں نے ان لڑکیوں کو اپنی بیٹی کہا۔غرض یہ ایک ایسا مہذب احتجاج تھا جہاں اخلاقی قدروں کا پاس و لحاظ بھی رکھا گیا اور کوئی بھدی زبان اور خراب الفاظ یا ایسے نعرے نہیں لگائے گئے جس سے کسی کی اہانت ہوتی ہو ۔ یہ مثال مسلم خواتین نے باپردہ رہتے ہوئے پوری دنیا کے سامنے پیش کی جسے آج بھی لوگ عزت کی نظروں سے دیکھتے ہیں اور ان کی عظمت کو سلام کرتے ہیں۔ بلا تفریق رنگ و ملت ہر مذہب کی خواتین اس میں شامل رہی تھیں۔لیکن افسوس صد افسوس کہ آج انہی ماوں، بہنوں اور بیٹیوں کو کمزور کرنے کے لیے نئے نئے ہتھکنڈے استعمال کئے جارہے ہیں اور ان کو ڈرانے اور دھمکانے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے۔ وہ خواتین جو سماج میں اثر رکھتی ہیں جو سماج میں انسانوں کی بھلائی،رہنمائی اور ان کے حقوق کے لئے آواز اٹھاتی ہیں آج ان کی آواز کو دبایا جارہا ہے۔ کبھی ان کی نیلامی ہوتی ہے، کبھی کوئی شوٹر آکر ہوا میں گولی داغتا ہے ۔ کوئی کہتا ہے یہ خواتین بکاو ہیں جو 500روپیہ پر خریدی گئی ہیں۔یہ اور اس طرح کی باتوں سے جہد کار خواتین کے دل تو ضرور دکھے لیکن انہوں نے عزائم کو مجروح ہونے نہیں دیا۔ شاید یہی وہ بات تھی جو ہمارے سماج کے ان بیمارذہنوں کو کھٹک رہی تھی۔ چناں چہ انہوں نے بلی بائی ایپ پر ان خواتین کی عزت کو نیلام کرنے کا کام کیا ہے۔
ہم نے ’بلی بائی‘ ایپ کا نشانہ بننے والی خواتین کی نفسیاتی کیفیت اور ان کے تاثرات جاننے کے لیے ایک سروے کیا اور کچھ سوالات ان کے سامنے رکھے۔ متاثرہ خواتین کے جوابات سے جہاں ان کا غم جھلکتا ہے وہیں ان کی حوصلہ مندی بھی ظاہر ہوتی ہے کہ وہ اپنا کام جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔ جب ہم نےان سے یہ پوچھا کہ آیا وہ اس ایپ پر ’نیلامی‘ کے بعد سوشل میڈیا سے ہٹ جائیں گی یا اپنےاکاونٹ ڈیلیٹ کردیں گی ؟ انہوں نے یہ کہا کہ ہم بالکل نہیں ڈریں گی۔ بلکہ ہم احتیاط سے کام لیتے ہوئے اپنا کام جاری رکھیں گے۔ دلی کی ایک بہن جویریہ فرحین جو کہ سوشل میڈیا پر کافی سرگرم ہیں ہمارے سوالوں کے جواب میں کہتی ہیں
’’ٹویٹر اور فیس بک دونوں پرانشا اللہ میں آن لائن اپنی سرگرمی جاری رکھوں گی ۔
ہمیں خاموش نہیں ہونا ہے۔جولوگ گناہ گار ہیں انہیں سزا ملنی چاہیے۔ اس کے لیے ہم کوشش کریں گے تاکہ آگے کوئی ایسی تضحیک آمیز حرکت نہ کرے اور خواتین کو پریشان نہ کرے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ مسلم خواتین کو احتیاط سے کام بھی لینا چاہیےاور اپنی تصاویر سوشل میڈیا پر ڈالنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
’بلی بائی ایپ‘ اور اس کے ذریعہ خواتین کی تذلیل پر آپ کیا کہنا چاہتی ہیں؟ اس سوال پر ایک اور بہن نے کہا ’ہم کتنی بھی آواز اٹھائیں ہماری کوئی سنوائی نہیں ہے۔مجرموں نے نجیب کی ماں اور خالدہ پروین صاحبہ جیسی بزرگ خواتین کو نہیں چھوڑا، اگر تمام مذہب کی خواتین مل کر آواز اٹھائیں اور بڑا احتجاج کریں تو شاید کچھ ہوسکتا ہے۔‘‘
ایک اور بہن نے کہا’’ ہمیں اپنی تصاویر نہیں ڈالنی چاہیے۔ جو خواتین باہر نکلتی ہیں کام کرتی ہیں جو مین اسٹریم میں ہیں، اس سے ان کے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔‘‘ ہم نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ڈاکٹر ترنم صدیقی سے جو سماج میں اصلاح اور مساوات لانے کے لیے کام کرتی ہیں، سروجنی نائیڈو سنٹر فار ومن اسٹڈیز سے منسلک ہمہ جہت شخصیت کی مالک ہیں ان سے بھی بات کی ۔ انہوں نے وائس میسج کے ذریعہ کچھ اہم باتیں سامنے رکھیں :
’’ بلی بائی ایپ ہو یا اس طرح کے دوسرے طریقے ابھی جو حالات بن گئے ہیں چاہے نفرت انگیز تقریر ہو یا فرقہ وارانہ فسادات ہر جگہ خواتین کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے تو اس طرح کے لوگ ہمیشہ اپنی پاور عورتوں پر استعمال کرکے ماحول کو جذباتی بناتے ہیں۔ اس میں ہمیں خاص طور پر یہ خیال رکھنا ہوتا ہے کہ جب ہم سماج میں اپنی جگہ بنالیتے ہیں تو رول ماڈل بن جاتے ہیں پھر ہمیں دیکھ کر دوسرے لوگ اورنئی پیڑھی بھی آگے بڑھتی ہے لہذا اس نئی نسل کو ابھرنے اور تعمیری کاموں سے روکنے کے لیے یہ کام کیا گیا ہے۔ خاص طور سے الگ لگ فیلڈ میں کام کرنےو الی عورتوں کے ساتھ ساتھ پروفیشنل خواتین کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ دراصل خواتین کو ان کے مقاصد سے روکنے، مدعوں سے بھٹکانا اور مصروفیات میں خلل پیدا کرنے کے لیے یہ تمام ہتھکنڈے اپنائے جاتے ہیں۔ اسی لیے ہمیں اپنا کام کرتے رہنا ہے۔ اپنی نئی نسل کو روکنا نہیں چاہیے۔ انہیں گھر میں نہیں بٹھانا ہے بلکہ ان کا جواب دینا ہے اور اپنے کاموں میں تیزی لاکر اور حوصلے کے ساتھ آگے بڑھانا ہے ۔ہم جس کام میں لگے ہوئے ہیں خواہ وہ تعلیم کا معاملہ ہو صحت کا معاملہ، ہر مسئلے پر ہمارا کام جاری رہنا چاہیے۔
احمد آباد گجرات سے جن پتھ آرگنائزیشن کی ایک بہن پنکتی جوگ ہمارے سوالوں کے جواب میں کہتی ہیں ’’ اب تک 2 بار اس طرح کی واردات ہوچکی ہے اس سے سبق لیتے ہوئے ہمیں یہ مانگ کرنی چاہیے کہ گنہ گار کو سزا ملے، اسے درگزر نہ کیا جائے اگر پہلی بار ’سلی ڈیل‘ پر آواز اٹھی ہوتی تو یہ نہ ہوتا۔‘‘ انہوں نے تمام کمیونٹی اور خواتین کو یہ مشورہ بھی دیا کہ اپنے میل ملاپ کو بڑھائیں۔ ہمارا ملنا کم ہوتا جارہا ہے جس سے دوری بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے نفرت کی سیاست (پالیٹکس) کرنے والوں کے حوصلےبڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب سرکار ’’بیٹی بچاو اور بیٹی پڑھاو‘‘ کی بات کرتی ہے تو ہمارا یہ سوال واجبی ہے کہ جب اقلیتوں پر حملہ ہوتا ہے تو سرکار کیوں چپ رہتی ہے۔ ایک شہری کے طور پر سب کو یہ سوال کرنا چاہیے اور اس میں دھرم کو سامنے رکھ کرنہیں سوچنا چاہیے ۔سبھی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ اپنے اپنے طور پر سرکار کو لیٹرلکھیں اور سرکار سے جوابدہی کا معاملہ کرے۔ ہر ایک یہ سوچے کہ آگ جب لگتی ہے تو وہ کوئی گھر دیکھ کر نہیں آتی بلکہ سب کا گھر اس میں جلتا ہے۔اس لیے ہر ایک کو ایک ساتھ مل کر آواز اٹھانی چاہیے۔ ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں سرکار کو لیٹر لکھنا چاہے اور سوال کرنا چاہیے۔
اسی طرح ایک ویبینار میں شامل خواتین نے بلا تفریق مذہب و ملت حصہ لے کرمسلم خواتین کو یہ کہہ کر حوصلہ دلایا کہ’ ہم آپ کے ساتھ ہیں‘ ۔ آن لائن ہونے والےاس طرح کے پروگرام دلی سمیت ملک کے کئی حصوں میں منعقد ہوئے۔
گجرات میں منعقدہ ایسے ہی ایک پروگرام میں تمام باشعور بہنوں نے ہمّت بندھائی کہ اس مشکل دور میں اور دکھ کی اس گھڑی میں ہم سب ساتھ ساتھ ہیں۔ اس پروگرام میں ایڈوکیٹ لتا بہن، سوانندا بین، نور جہاں دیوان (سماجی جہدکار) پنکتی جوگ اگزیکٹیو سکریٹری فارمایتی ادھیکار گجرات پہل گروپ (MAGP)، کینجل بین اَلٹ نیوز، جیویکا بین ایڈوکیٹ، رمی واگھیلا اور بھارتی بہن، AIMSS سے میناکچھی جوشی نے اپنے خیالات پیش کئے۔ ان کی رائے یہ تھی کہ اس موضوع پر ایک بڑی کانفرنس منعقد کی جائے جہاں تمام تنظیموں کی خواتین اکٹھا ہوں اور اس ایشو پر بات کی جائے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ ہندو مسلم کا مسئلہ نہیں ہےبلکہ تمام عورتوں کے احترام، عزت اور تحفظ کا معاملہ ہے۔ آج یہ واردات ایک خاص مذہب کی خواتین کے ساتھ ہوئی، کل یہ کسی کے ساتھ بھی پیش آسکتی ہے۔ یہ بات بھی سامنے آئی کہ یہ ایک منظم جرم تھا اسے کسی طرح سے بھی معاف نہیں کیا جانا چاہیے۔
نفرت کے پیڑ کو کاٹنے سے پہلے اس کی جڑوں کو کھود کر اس کی گہرائی میں جانا ہوگا اور اس کی پشت پر جو ذہنیت کام کررہی ہے اور جو سوچ اور فکر پیدا کی جارہی ہے اسے نفرت اور تعصب سے اوپر اٹھ کر کھلی آنکھوں سے دیکھنا ہوگا۔ تنگ نظری کو ختم کرکے ’الخلق و عیال اللہ‘کی فضا کو قائم کرنا ہوگا تاکہ یہ ملک ترقی کی راہوں پر گامزن ہوسکے اور یہاں کی پرانی گنگا جمنی تہذیب پھر سے پروان چڑھ سکے۔ اس فضاکو قائم کرنے میں سب کو ساتھ دینا ہوگا ورنہ آنے والا دور ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گا۔ ملک کا ہر فرد خواہ مرد ہو یا خواتین اس پر سوچے اور نڈر ہوکر حالات کا سامنا کرتے ہوئے اپنے کاموں میں لگے رہے اور سب ’میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہونچے ‘کے مصداق اس ملک میں محبت کی فضا کے قیام کے لیے کوشاں رہیں اور ہرمیدان کی ماہر خواتین اپنے اپنے فرائض منصبی کو بخوبی انجام دیںاور ملک کے مستقبل کو تابناک اور روشن بنایا جاسکے تاکہ خواتین کی ناموس کونشانہ بنانے والوں اور دھرم کی سنسد کے نام پر نفرت کے ماحول کو گرم کرکے مسلم نسل کشی کی بات کرنے والوں کے حوصلے پست ہوں اور انہیں کوئی جگہ نہ مل سکے۔
(مضمون نگار صحافت سے وابستہ ہیں)
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 23 جنوری تا 29جنوری 2022