کشمیر میںصحافیوں کی آوازدبانے کی کوشش

ایجنسیوں کی تفتیش سے صحافیوں میں مایوسی سخت حالات میں بھی صحافت بقا کی جنگ لڑ رہی ہے

غازی سہیل خان ، سری نگر

پانچ اگست ۲۰۱۹ کے بعد خصوصاً کشمیر میں صحافت کے لیے زمین تنگ ہوتی دکھائی دے رہی ہے ۔صحافی خوف کا شکار ہو گئے ہیں، صحافتی اداروں نے اپنے اوپر خوف کو مسلط کر لیا ہے۔کوئی صحافی کسی خبر کی اصل کو عوام کے سامنے لانے سے پہلے اس کے نتائج کے لیے ہزار بار سوچنے پر مجبور ہو تا ہے۔آئے دن صحافیوں کے گھروں پہ چھاپے اور اس پیشے سے وابستہ افرادسے پوچھ گچھ کے سبب کشمیر میں صحافیوں کو ذہنی کوفت کا سامنا ہے ۔ بہت سارے اُبھرتے ہوئے صحافی اس میدان میں آنے کے لیے تذبذب کا شکار ہیں کہ اس پیشے کو اختیار کیا جائے یا نہیں ؟ گزشتہ دو سالوں میں چالیس سے زائد صحافیوں کو سیکورٹی ایجنسیزنےطلب کیا اور چند کے گھروں پر چھاپے مارے گئے، ان کو اپنے سماجی تعلقات ظاہر کرنے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے ۔ خبروں کے مطابق کشمیر پولیس نے باضابطہ صحافیوں کی جانچ پڑتال شروع کر دی ہے، یہ صحافی ملکی اور بین الاقوامی سطح پہ اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں ۔گزشتہ ماہ ہی کشمیر کے چار صحافیوں کے گھروں پر پولیس نے چھاپے مارے گئے اُن کے لیپ ٹاپ اور موبائل فونز ضبط کر لیے گئے جن میں ہلال میر ،شاہ عباس ،اظہر قادری اور شوکت موٹاشامل ہیں ۔ اس چھاپے کے چند گھنٹوں کے بعد ہی صحافیوں نے ایک پریس ریلیز جاری کی جس میں چھاپوں کی مذمت کی گئی ۔اسکے جواب میں آئی جی پولیس وجے کمار نے ایک سرکاری بیان میں صحافتی انجمنوں کو خبرد ار کیا کہ وہ غیر ضروری مداخلت نہ کریں ۔وجے کمار کا مزید کہنا تھا کہ سیکورٹی فورسز صحافیوں کو ہراساں نہیں کر رہی ہے بلکہ ایک حساس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے اور صحافیوں کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی حساس تحقیقات میں صحافیوں کو رخنہ ڈالنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے ۔دی وائر کے ایک مضمون کے مطابق 43 سے زائد افراد ایسے ہیں جو سیکیورٹی ایجنسیز کی جانب سے منفی رپورٹ آنے کے بعد بیرون ملک نہیں جا سکتے ۔ان 43 افراد میں سماجی کارکن ،طلبہ اور تقریباً 22 کا تعلق صحافتی برادری سے ہے ۔اگست 2019 کے بعد کشمیر کے صحافیوں میں گوہر گیلانی اورایک طالب علم زاہد رفیق کو بیرون ملک جانے سے دہلی کے ہوائی اڈے سے انٹلی جنس بیورو کی درخواست پر روک دیا گیا تھا ۔واضح رہے گوہر گیلانی کو میڈیا تنظیم ڈوئچے ویلے (DW)میں دوبارہ شامل ہونے کے لیے جرمنی جانا تھا۔اسی طرح سے زاہد رفیق کو تعلیم کے سلسلے میں باہر جانے سے روک دیا گیا۔گزشتہ سال اپریل میں کشمیر پولیس نے آزاد فوٹو جرنلسٹ مسرت زہرا اور گوہر گیلانی کے خلاف ملک مخالف سوشل میڈیا پوسٹس کے الزام میں یو اے پی اے کے تحت کیس درج کیا تھا۔ اسی طرح سے درجنوں صحافیوں کو قیدو بند سے بھی گزرنا پڑا جن میں ’’آصف سلطان‘‘ نامی صحافی گزشتہ تین سالوں سے جیل میں ہیں۔ اسی طرح سے قاضی شبلی کو آٹھ ماہ تک قید کیا گیا ،عرفان ملک کو کچھ وقت کے لیے قید کیا گیا۔ گوہر وانی کو بھی قید و بند کی سختیاں جھیلنی پڑیں ایک اور صحافی کامران یوسف کو این آئی اےنے گرفتار کر کے قید کیا تھا جو بعد میں ضمانت پر رہا کر دیے گئے تھے۔ ایسے بہت سارے نام ہیں جنہیں زنداں کی ہوا کھانی پڑی ہے لیکن وہ کشمیر میں اپنے فرائض برابر انجام دے رہے ہیں ۔
اس ساری نازک اور پیچیدہ صورتحال کے دوران جموں وکشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے پریس کونسل آف انڈیا کو ایک خط ارسال کیا جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ’’کشمیر میں صحافیوں کو بغیر کسی جواز کے ہراساں کرنا اب روز کا معمول بن گیا ہے۔ ان کے گھروں پہ چھاپے مارے جا رہے ہیں اور ایک معمولی ٹویٹ کو بہانہ بنا کر اُن سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے ۔سی آئی ڈی کے ذریعے صحافیوں اور اُن کے خاندان کے اراکین کا بیک گراونڈ معلوم کرنے کے ساتھ ساتھ چند سینئر صحافیوں کی رہائش گاہوں سے موبائل فون ،لیپ ٹاپ اور پاسپورٹ وغیرہ بھی ضبط کیے جا رہے ہیں ۔اس خط میں انہوں نے جموں وکشمیر حکام کے ہاتھوں صحافیوں کو ہراساں کیے جانے کی مثالیں درج کیں ساتھ ہی انسداد دہشت گردی کے سخت قانون (UAPA) ایکٹ کے تحت صحافیوں کے خلاف درج مقدمات کا بھی ذکرکیا ہے ۔اس خط کے جواب میں پریس کونسل آف انڈیا نے تین رُکنی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے جنہیں کشمیر بھیج کر صحافیوں کو ہراساں کرنے اور ڈرانے دھمکانے کے الزمات کی تحقیقات کی جائے گی ۔اس کمیٹی میں نیو انڈین ایکسپریس کے صحاٖفی’’ گُربیر سنگھ‘‘، دینیک بھاسکر کے کنوینر اورگروپ ایڈیٹر ’’پرکاش دھوبے‘‘ اور جن مورچہ کے ایڈیٹر ’’ڈاکٹر سمن گپتا ‘‘شامل ہوں گے ۔
چند تجزیہ نگاروں طرف سے پریس کونسل آف انڈیا کی جانب سے اس خط کے جواب میں یہ قدم کشمیر کے صحافیوں کے لیے حوصلہ افزا قرار دیا جا رہا ہے ۔ تاہم کچھ لوگ اس قدم کو ماضی کی طرح وقت کا ضیاع مانتے ہیں۔ کشمیر کے ایک صحافی نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پہ بتایا کہ ’’کسی بھی ملک کے لیے آزاد صحافت بہت ضروری ہوتی ہے جب کسی صحافی کو آزدی کے ساتھ لکھنے کی اجازت دی جاتی ہے تو وہ احساس ذمہ داری کا مظاہرہ بھی کرتا ہے کیوں کہ وہ یہ جانتا ہے میں جو بھی لکھوں یا کہوں گا اس کے اچھے یا بُرے نتائج بھی نکلیں گے ۔پڑھا لکھا صحافی کبھی یہ کوشش نہیں کرے گا کہ اُس کی صحافت سے کسی کے لیے مشکلات پیدا ہوں ۔جب کوئی صحافی سچائی لکھنے کی کوشش کرتا ہے اور اُس کو سیکیورٹی ایجنسیز کی طرف سے تنگ کیا جاتا ہے تو اس صحافی کے کام کرنے کا طریقہ متاثر ہو جاتا ہے۔ کشمیر میں حالات اس حد تک متاثر ہو گئے ہیں کہ ابھی تک کسی سرکاری ایجنسی نے یہاں کے اخبارات کو یہ نہیں کہا ہے کہ کون سی خبر چلانی ہے اور کون سی نہیں، لیکن یہاں کے صحافیوں کو ایجنسیز کی طرف سے طلب کیا جا رہا ہے جس کے سبب صحافتی اداروں کے مالکان خوف کا شکار ہو گئے ہیں، نتیجے میں صحافتی ادارے دباو میں آ گئے ہیں اور اُنہوں نے اپنے اوپر آپ ہی پابندیاں عائد کر لی ہیں ۔جس طرح کی آزاد صحافت کشمیر میں ہونی چاہیے تھی وہ نہیں ہو رہی ہے بلکہ اگر کوئی کوشش بھی کرتا ہے بے باکی سے لکھنے کی اُس کوبھی یہ ڈر ستاتا ہے کہ نہ جانے اس کے نتائج کیا نکلیں گے؟ پریس کونسل آف انڈیا کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے متعلق ان کا کہناتھا کہ یہ کونسل حکومت پر اثر انداز نہیں ہو سکتی ہے کیوں کہ اس کے پاس وہ طاقت نہیں ہے جو حکومت کو اپنی بات منوانے کے لیے مجبور کرے یا حکومت پر اثر انداز ہو سکے ۔ہاں کشمیر میں آزاد صحافت کو ایک ہی چیز زندہ رکھ سکتی ہے اور وہ میرے خیال میں صحافیوں کا اتحاد ہے۔ اس طرح کی کمیٹیاں پہلے بھی بنی ہیں لیکن وہ کوئی خاص تبدیلی لانے میں کامیاب نہیں ہو پائیں ۔‘‘ ایک اور صحافی نے نام نہ ظاہرکرنے کی شرط پہ بتایا کہ’’پریس کونسل آف انڈیا نے پہلے بھی یہاں اس طرح کی کمیٹیاں تشکیل دی ہیں لیکن اُن کے دوروں اور اس طرح کے بیانات سے کشمیر میں صحافیوں پر عتاب کم نہیں ہوئے اور نہ ہی خاطر خواہ نتائج سامنے آئے ۔پریس کونسل آف انڈیا کی بے بسی اور صحافیوں کے لیے کچھ کرنے میں کامیابی نہ ملنا اپنے آپ میں ہی قابل تشویش امر ہے‘‘
مجموعی طور پر کشمیر میں صحافیوں میں خوف پایا جا رہا ہے ۔کھل کے بات کرنے سے بھی صحافی کترا رہے ہیں بلکہ غیر جانبداری سے اپنی رائے دینے میں بھی ہچکچا رہے ہیں ۔ ظاہری طور پر حکومت کی طرف سے کوئی قدغن یا سنسر شپ صحافتی اداروں پہ عائد نہیں کی گئی ہے لیکن صحافیوں کو انفرادی سطح پہ مسائل کا سامنا ہے اور آزادی سے لکھنے کا حق چھیننے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس کے سبب صحافتی اداروں کے لیے ایک خوف کاماحول پیدا ہو گیا ہے اور وہ حقائق کو سامنے لانے سے ہچکچا رہے ہیں ۔کشمیر میں ان صحافیوں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جو بیرون ممالک جانا چاہتے ہیں یا جو بین الاقوامی صحافتی اداروں کے ساتھ کام کرتے ہیں اب اُن کو بھی کشمیر سے باہرجانے سے روکا جا رہا ہے ۔ صورتحال ا نتہائی مایوس کن ہے، تاہم کشمیر میں صحافت ابھی مری نہیں بلکہ زندہ ہے اور بقا کی جنگ لڑرہی ہے اور اگر صحافی اتحاد کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں تو صحافت یہ جنگ ایک دن جیتنے میں ضرور کامیاب ہوگی۔
***

 

***

 مجموعی طور پر کشمیر میں صحافیوں میں خوف پایا جا رہا ہے ۔کھل کے بات کرنے سے بھی صحافی کترا رہے ہیں بلکہ غیر جانبداری سے اپنی رائے دینے میں بھی ہچکچا رہے ہیں ۔ ظاہری طور پر حکومت کی طرف سے کوئی قدغن یا سنسر شپ صحافتی اداروں پہ عائد نہیں کی گئی ہے لیکن صحافیوں کو انفرادی سطح پہ مسائل کا سامنا ہے اور آزادی سے لکھنے کا حق چھیننے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس کے سبب صحافتی اداروں کے لیے ایک خوف کاماحول پیدا ہو گیا ہے اور وہ حقائق کو سامنے لانے سے ہچکچا رہے ہیں ۔ صورتحال ا نتہائی مایوس کن ہے، تاہم کشمیر میں صحافت ابھی مری نہیں بلکہ زندہ ہے اور بقا کی جنگ لڑرہی ہے اور اگر صحافی اتحاد کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں تو صحافت یہ جنگ ایک دن جیتنے میں ضرور کامیاب ہوگی۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 17 تا 23 اکتوبر 2021