دہلی فسادات: عدالت نے مقدمات میں ’’الجھے ہوئے طرز عمل‘‘ کے لیے پولیس کو کھری کھوٹی سنائی

نئی دہلی، اکتوبر 14: دہلی کی ایک عدالت نے منگل کو پولیس کی سرزنش کی کہ وہ فروری 2020 میں شہر میں ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد سے متعلق کیس میں استغاثہ کے ساتھ صحیح طور پر ہم آہنگی نہیں کر رہی ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ اس کیس میں ملوث پولیس افسران ’’الجھا ہوا طرز عمل‘‘ رکھتے ہیں۔

دہلی پولیس نے کیس کو مجسٹریٹ عدالت میں منتقل کرنے کے لیے سیشن کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ پولیس کے وکیل نے استدلال کیا کہ تعزیرات ہند کی دفعہ 436 جو کہ ’’گھر کو تباہ کرنے کے ارادے سے آگ یا دھماکہ خیز مواد سے شرارت‘‘ سے متعلق ہے، اس معاملے میں لاگو نہیں ہے۔

دی انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق پولیس کے ذریعے درخواست جمع کرانے کے بعد ایڈیشنل سیشن جج امیتابھ راوت نے کہا کہ اس کیس کے دیگر تمام جرائم قابل ضمانت ہیں اور ملزم کو ’’تحویل میں نہیں بھیجا جانا چاہیے تھا۔‘‘

لائیو لاء کے مطابق جج نے پوچھا ’’کیا یہ مذاق ہے؟ کیا پولیس کی حراست ایک مذاق ہے؟ آپ خود نہیں جانتے کہ کیا کرنا ہے۔ دفعہ 436 IPC کب نافذ ہے؟ کیا یہ ایف آئی آر سیکشن 436 کے اجزاء پر مشتمل ہے؟‘‘

بعد ازاں منگل کو پولیس نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اس نے خصوصی پبلک پراسیکیوٹر سے بات کی ہے اور کیس کی منتقلی کے لیے درخواست واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق جج نے پولیس کو بتایا کہ یہ معاملہ سنبھالنے کا صحیح طریقہ نہیں ہے۔

عدالت نے کہا ’’متعلقہ پولیس عہدیدار خود الجھن میں ہیں کیوں کہ انھوں نے سب سے پہلے ایک درخواست دی جس میں کہا کہ تعزیرات ہند کی دفعہ 436 نہیں بنائی گئی ہے اور اس کیس کو متعلقہ میٹروپولیٹن مجسٹریٹ کو منتقل کرنے کو کہا، اور اس کے کچھ دیر بعد خصوصی پبلک پراسیکیوٹرز سے بات کرنے کے بعد وہ اپنی درخواست کو بے معنی قرار دیتے ہوئے واپس لینا چاہتے ہیں۔‘‘

اس کے بعد ایڈیشنل سیشن جج نے پولیس کی درخواست خارج کردی۔

واضح رہے کہ دہلی کی عدالتوں نے فسادات سے متعلق مقدمات کی تحقیقات میں خامیوں کی وجہ سے کئی بار پولیس کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

28 ستمبر کو چیف میٹروپولیٹن مجسٹریٹ ارون کمار گرگ نے دہلی پولیس کمشنر سے کہا تھا کہ وہ انکوائری کریں اور اس افسر کی تنخواہ سے 5 ہزار روپے کاٹیں جو ان کے سامنے پیش نہ ہو سکا اور ایک کیس میں التوا کی درخواست کرتا رہا۔

گرگ نے 17 ستمبر کو فرقہ وارانہ تشدد سے متعلقہ معاملات کو سنبھالنے میں پولیس کے ’’جانبدارانہ رویے‘‘ کی وجہ سے بھی پولیس کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

اس سے دو ہفتے قبل ایڈیشنل سیشن جج ونود یادو نے کہا تھا کہ پولیس فسادات کے مقدمات کی منصفانہ تحقیقات کرنے اور متاثرین کو انصاف ملنے کو یقینی بنانے میں ناکام رہی ہے۔

کم از کم تین مقدمات میں عدالتوں نے ایف آئی درج کرنے میں بے ضابطگیوں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔