کسانوں نے احتجاج کے خلاف ہتک آمیز تبصروں کے لیے بی جے پی کے مرکزی وزیر سمیت بی جے پی کے 3 لیڈروں کو قانونی نوٹس بھیجے

نئی دہلی، جنوری 3: اے این آئی کی خبر کے مطابق ہفتے کے روز نئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والے پنجاب کے کسانوں نے مرکزی وزیر گری راج سنگھ، گجرات کے نائب وزیر اعلی نتن پٹیل اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر رام مادھو کو قانونی نوٹس بھجوائے ہیں۔

کسانوں نے بھگوا پارٹی کے تینوں لیڈروں سے غیر مشروط معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے۔ نوٹس میں کہا گیا ہے کہ ’’متعدد سیاسی لیڈروں کے بیانات نیک نیتی یا ذمہ داری کے ساتھ نہیں کیے گئے، بلکہ معاشی مفادات اور احتجاج کرنے والے کسانوں کو بدنام کرنے کے لیے ترغیبی عزائم اور بدنیتی کے ساتھ بیان جاری کیے گئے ہیں۔‘‘

واضح رہے کہ اگرچہ وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی پارٹی کے لیڈروں نے نئے قوانین کے بارے میں کسانوں کے خدشات کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن ان میں سے کئی نے کسانوں کو ’’گمراہ‘‘ کہا ہے اور ان پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ علاحدگی پسندوں، خالصتانیوں اور ’’ملک دشمن‘‘ عناصر کے ذریعہ حوصلہ پا رہے ہیں۔

امرتسر کے ایک کسان جسکرن سنگھ نے گری راج سنگھ کو قانونی نوٹس بھجوایا اور کسانوں سے متعلق انٹرویو میں کیے گئے ان کے تبصروں کے لیے ان سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا۔ گری راج سنگھ نے دعوی کیا تھا کہ ’’احتجاج میں کسانوں کے فائدے کے بارے میں کوئی بات نہیں کی جارہی ہے۔ احتجاج میں غیر ملکی طاقتیں بھی آ گئی ہیں۔ مظاہروں میں خالصتان اور شرجیل امام کے پوسٹر لگائے جارہے ہیں۔‘‘

جالندھر کے ایک اور کسان رمنیک سنگھ رندھاوا نے نتن پٹیل کے ذریعے یہ الزام عائد کرنے کے لیے نوٹس بھجوایا کہ ’’ملک دشمن عناصر‘‘ مظاہرین کو پیسے دے رہے ہیں۔ گجرات کے نائب وزیر اعلی نے کہا تھا ’’کسانوں کے نام پر ملک دشمن عناصر، دہشت گرد، خالصتانی، کمیونسٹ اور چین نواز لوگ اس احتجاج میں گھس چکے ہیں۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ان میں پیزا، پکوڈا … جو کچھ بھی ہے، مفت میں آرہا ہے۔‘‘

سنگرور کے کسان سکھوندر سنگھ سدھو نے اپنے ٹویٹر ہینڈل کے ذریعہ احتجاج کے خلاف ہتک آمیز بیان دینے کے الزام میں بی جے پی لیڈر مادھو کو قانونی نوٹس بھجوایا۔

دریں اثنا عام آدمی پارٹی کے پنجاب کے نئے انچارج راگھو چڈھا نے ہفتے کے روز اعلان کیا کہ ان کی پارٹی کسانوں کو ان تینوں معاملات میں قانونی مدد فراہم کررہی ہے۔

نئے زرعی قوانین پر اب تک کسانوں اور حکومت کے درمیان کئی دور مذاکرات ناکام رہے ہیں اور مذاکرات کا اگلا دور کل یعنی 4 جنوری کو ہونا ہے، جس سے امید کی جارہی ہے کہ اس تعطل کو ختم کرنے کی سمت کوئی پیش رفت ہوسکتی ہے۔ کسان تینوں قوانین کی منسوخی کے مطالبے پر قائم ہیں جب کہ حکومت صرف ترمیم پر راضی ہے۔