کتاب ’مروج الذہب و معادن الجواہر‘تقابل ادیان اور ہند شناسی کا بیش بہا خزانہ

متعدد تہذیبوں کا مطالعہ۔عظیم محقق المسعودی کا گراں قدرکارنامہ

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی،علیگڑھ

 

ابو الحسن علی بن حسین المسعودی (345-280یا 346) کوعظیم محقق، تاریخ نویس اور جغرافیہ دان کی حیثیت سے دنیائے اہل علم جانتی ہے۔ یقیناً انہوں نے تاریخ و جغرافیہ اور دیگر سائنسی علوم و فنون پر انتہائی وقیع اور عالمانہ کام کیا ہے۔ ان کی کتب کا مطالعہ مصنف کی متنوع جہات اور علمی رتبہ و قد کو اجاگر کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسعودی کو مشہور فرانسیسی مورخ فان کریمر ’عرب کے ہیروڈ وٹس‘ کالقب دیتے ہیں ۔ ان کی متعدد کتب ہیں جن میں بہت ساری نایاب ہیں ۔ لیکن معلوم تالیفات کی فہرست درج ذیل ہے۔ 1- مقدمہ التنبیہ الاشراف۔ 2- اخبار الزمان و حوادث عالم۔3- کتاب القضایا والتجارب ۔4- ذخائر العلوم وماکان فی سالف الدھور۔5- کتاب الرسائل۔ 6- کتاب التاریخ فی اخبار الامم من العرب والعجم۔ 7- کتاب الخزائن الملک وسرالعالمین۔8- کتاب المقالات فی اصول الدیانات وغیرہ وغیرہ ۔ مسعودی نے اخبار الزمان و حوادث عالم، کتاب المقالات فی اصول الدیانات اور مروج الذہب و معادن الجوہرمیں تقابل ادیان پر کافی بحث کی ہے۔ تفصیل سے اقوام کی خصال اور ان کے عبادت و اصنام کو قلمبند کیا ہے ۔ ان میں سب سے زیادہ مسعودی کی ’مروج الذہب‘ کافی معروف و متداول ہے۔ اس کو ’تاریخ مسعودی‘ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا۔ عموماً یہ تصور ہے کہ یہ کتاب تاریخ پر لکھی گئی ہے۔ برعکس اس کے اگر اس کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے یہ کتاب تقابل ادیان اور ہند شناسی کا بیش بہا خزانہ ہے۔ اس کتاب کے اندر مصنف نے متعدد ادیان اور تہذیبوں کا مطالعہ پیش کیا ہے۔ ابوریحان البیرونی سے قبل تقابل ادیان پر انتہائی جامع نکات بیان کیے ہیں۔ ضمناً یہ عرض کرنا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آج مغرب کا یہ دعویٰ ہے کہ تقابل ادیان جیسے اہم شعبہ کو ہم نے دنیا کے سامنے پیش کیا۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ جب ہم ابن ندیم کی کتاب ’الفہرست‘ کا مطالعہ کرتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ بہت سارے مسلم مفکرین نے اس باب و شعبہ سے دنیا کو کافی پہلے متعارف کرایا دیا تھا اگرچہ وہ کتب منگولوں کے حملے میں ضائع ہوگئیں لیکن یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ تقابل ادیان پراولین خدمت مسلم علماء کی ہے۔ اسی سلسلہ الذہب کہ ایک کڑی مسعودی ہے۔ اس نے اپنی کتاب ’مروج الذہب و معادن الجواہر‘ میں نہ صرف تقابل ادیان پر وقیع اور علمی بحثیں کی ہیں بلکہ دیگر اقوام و ملل کی تہذیبوں اور ان کی عادات و خصائل کو بھی نہایت تفصیل سے بیان کیا ہے۔ مسعودی کی اس کتاب کے متعدد زبانوں میں ترجمے ہوچکے ہیں ۔ جن میں انگریزی، فرانسیسی اور اردو سر فہرست ہیں۔ اس کے علاوہ بلادِ یورپ اور بلادِ مشرق کی جامعات میں کافی تحقیقی مقالے بھی لکھے جاچکے ہیں ۔ اس وقت راقم کے سامنے جو نسخہ ہے وہ اردو ترجمہ ہے۔ کتاب کا اردو ترجمہ پروفیسرشادانی ایم اے نے کیا ہے۔ اس کو نفیس اکیڈمی اسٹریچن روڈ کراچی نے 1985 میں شائع کیا ہے۔ اس کی پہلی اور دوسری جلد 760 صفحات پر مشتمل ہے۔ کتاب کے اردو مترجم نے مقدمہ تحریر کیا ہے جو نہایت اہم معلومات پر مشتمل ہے۔ اب ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بعض دیگر گوشوں پر گفتگو کی جائے۔
مروج الذہب کے قلمی نسخے
یہ بات آ چکی ہے کہ یہ کتاب اصلاً عربی میں ہے۔ چنانچہ ذیل میں یہ بتانا ضروری ہے کہ اس کے قلمی نسخے کہاں کہاں پائے جاتے ہیں اور ان کی تحقیق و تدوین کس کس نے کی۔ محققین نے اس کتاب کے چار قلمی نسخوں دریافت کیے ہیں۔ ’مروج الذہب و معادن الجوہر‘ کا فرانسیسی نسخے سے عربی میں ترجمہ یوسف اسعد داعز معتمد دارالطباعت والاشاعت دارالاندلس، لبنان بیروت نے کیا تھا انہوں نے ایک قیمتی مقدمہ درج کیا جس میں انہوں نے بتا یا ہے کہ مسعودی کی اس کتاب کے قلمی نسخے کہاں ہیں۔ ’مروج الذہب و معادن الجوہر‘ کا اولین نسخہ پیرس کے شاہی کتب خانے میں تین جلدوں کی صورت میں موجود تھا۔ اسی نسخے کو فرانسیسی زبان میں منتقل کرنے سے قبل ایک جلد میں مرتب کیا گیا۔ اسی نسخہ کا ذکر موسیو رینو نے اپنی فہرست مخطوطات میں 714 کے تحت درج کیا ہے۔ اس فہرست کے مطابق اس کی کتابت کی تکمیل 1708 میں ہوئی۔ یوسف اسعد نے دونسخوں کا اور ذکر کیا ہے لیکن ان کی تفصیل یہاں ترک کرتے ہیں۔ البتہ چوتھے نسخہ کے متعلق لکھا ہے کہ۔ موسیو رینو کی فہرست اندراج کے مطابق حروف تہجی (د ) کے تحت درج کیا ہے۔ اور اس کو ایشیائی سوسائٹی کی ملکیت بتایا ہے۔ اس نسخے کی کتابت ہبة اللہ بن محمد بن علی بن حسین القرشی نے 591 ھ میں مکمل کی ہے۔ یوسف اسعد داعز کی تحقیق کے مطابق یہی نسخہ قابل اعتبار ہے۔انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس میں اکثر مقامات وہ ہیں جنہیں’مروج الذہب و معادن الجوہر‘ کے مؤلف نے ہندوستان کے مشہور شہر بنارس میں اور خراسان
( ایران ) میں لکھا ہے۔
( دیکھیے تفصیل مروج الذہب کا اردو ترجمہ، صفحہ 29-31)
مسعودی ، تہذیبوں وادیان کا شناور
مسعودی نے اپنی کتابوں میں جن تہذیبوں اور ادیان کی تحقیق و تفتیش کی ہے وہ صرف دوسری کتابوں و مصادر کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ اس نے مختلف ممالک اور شہروں کا سفر کیا اور وہاں کے حالات سے از خود واقفیت حاصل کی اور دس سال کی محنت شاقہ کے بعد ’مروج الذہب‘ جیسی اہم کتاب تصنیف کی۔ یوسف اسعد داعز اپنے عربی ترجمہ میں مسعودی کے اسفار اور سیر و سیاحت کا تذکرہ کرتے ہیں۔’’ تیسری صدی شروع ہوتے ہی وہ سیر و سفر کی طرف مائل ہوا اور دنیا کی سیاحت کے لیے نکل کھڑا ہوا، پہلے ملتان گیا، وہاں سے شہر منصورہ پہنچا اور اس کے اطراف و جوانب کی تین سال کی مدت سیاحت کے بعد ، بلادِ فارس کی طرف روانہ ہوا اور کرمان وغیرہ دیکھتا ہوا پھر ہندوستان کی طرف پلٹا اور کمبا و سیمور کے شہروں میں تھوڑے عرصے قیام کرتا ہوا جزیرہ سراندیپ گیا، پھر وہاں سے بحری سفر کرتا ہوا کمبا کو اور مدغاسکر گیا اور وہاں سے عمان جا نکلا ۔ اسی طرح وہ کچھ دن ملائشیا میں بھی رہا اور پھر بحری راستے سے چین گیا اور ان سب جگہوں پر خطیر معلومات سے متمتع ہوتا ہوا بحر احمر یا بحر قلزم کے مشرقی سواحل سے گزرا اور جنوب میں بحر قزوین کو بھی دیکھا ۔اس کے بعد اسلامی ممالک کا رخ کیا تاکہ اپنی لامحدود سیاحت اور سفر کے حالات و واقعات کو قلم بند کرسکے۔ اس کے احوال سفر سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے 314 میں فلسطین کے شہر طبریہ کا بھی سفر کیا ، پھر وہاں سے انطاکیہ کے علاوہ شام کے شمالی حصوں کی برسوں سیر کی اور وہاں سے 332 میں بصرہ پہنچ کر اپنی تصنیفات وتالیفات کو تدوین و ترتیب کے زیور سے آراستہ کیا۔ اسی دوران اس نے اپنی اہم اور نادر تصنیف مروج الذہب کو صفحہ قرطاس کیا‘‘ ( ایضاً ،27)۔ مذکورہ اقتباس کی روشنی میں یہ کہنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مسعودی کو ادیان و اقوام کی تہذیب اور ان کے احوال جاننے کا کافی شوق تھا۔ اسی غرض سے اس نے مختلف ممالک اور شہروں کا دورہ کیا وہاں کی آب و ہوا کو سمجھا، اقوام کی نفسیات اور بود وباش کی تحقیق کی۔ ان کی عبادت و پرستش کے مسائل سے واقفیت حاصل کی۔ ملکوں اور قوموں کے سیاسی ، سماجی اور معاشی صورت حال کو قریب سے دیکھا ۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنی اس کتاب میں، چین، ہندوستان، عرب ، جیسے ممالک کا مشاہدہ کرکے ان کی دینی اور اخلاقی حیثیت کو پیش کیاہے ۔ اس وجہ سے مسعود ی کی اس کتاب کو تقابل ادیان اور مطالعہ تہذیب پر دستاویز قرار دیا جاسکتا ہے۔
کتاب کے مباحث
ذیل میں ان مباحث کو پیش کرنا مقصود ہے جن میں ادیان و مسالک پر بحث کی ہے۔ چنانچہ مصنف نے کتاب کو دوسرے باب میں موضوعاتی فہرست درج کی ہے۔ کتاب کے جملہ مضامین 122 بتائے ہیں۔ جن میں سے چند کا ذکر کرنا یہاں مقصود ہے۔
1- ہندوستان اور دوسرے ممالک کے حالات و کوائف، وہاں کی سیر و سیاحت اور عبادات سے متعلق وہاں کے باشندوں کی رائیں ۔ 2- چینی و ترکی سلاطین، ان کے حالات و کوائف اور سیاست کا ذکر۔ 3 سریانی سلاطین ۔4- ملوک موصل و نینوا ۔ 5- ملوک بابل ۔ 5- فارس کے اولین بادشاہ ان کی سیرت وغیرہ۔7- ملوک الطوائف جو اشغانی کہلاتے ہیں 8 ساسانی سلاطین ،9 ملوک یونان اور ان کے حالات۔ 10 ہندوستان میں سکندر کی لڑائی کا حال ، 11- سکندر کے بعد یونانیوں کے حالات۔ 12- روم کے احوال اور ان کی تاریخ و سیرت قومی۔ 13- سوڈان ، وہاں کی نسلیں وغیرہ وغیرہ۔ گویا مضامین کتاب اس بات پر شاہد ہیں کہ مسعودی نے تقریباً اس وقت پوری دنیا کے احوال اور ادیان و تہذیب کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔
اس وقت راقم ہندو ازم پر مسلم علماء کی خدمات کو قلم بند کررہا ہے۔ لہٰذا دیگر ادیان و تہذیب کو نظر انداز کرتے ہوئے۔ ہندوستان اور یہاں کے احوال کے متعلق مسعودی کے افکار جاننے کی کوشش کریں گے۔
ہندوستان کا علمی مقام
ہندوستان کے متعلق مسعودی نے انتہائی اہم معلومات اپنی کتاب مروج الذہب و معادن الجوہر میں فراہم کی ہیں۔
چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ ’’اہل ہند ابتدائے کائنات اور تخلیق موجودات عالم کے بارے میں اپنے جدا گانہ مخصوص نظریات رکھتے ہیں۔ ان کے اولین سات حکماء کی آراء میں تضاد ہونے کے باوجود پانی سے ابتدائے کائنات کے سلسلے میں سب متفق ہیں۔ قدیم حکمائے ہند کی رائے میں دنیا کی قدیم ترین سر زمین ، سر زمین ہند ہے جہاں سے کوہ صحرا جنگلات اور جملہ حیوانات کی ابتدا ہوئی ہے۔ کائناتی علوم پر تحقیق و جستجو کے سلسلے میں ان کے پیش کردہ نتائج سے بحیثیت علمی کسی کو اتفاق ہو یا نہ ہو لیکن ان کی تحقیقی کا وشیں قابل غور و فکر ضرور ہیں۔ ان کے نزدیک ابو البشر حضرت آ دم علیہ السلام پہلی بار انہی کی زمین پر اترے تھے۔ ان کے خیال میں علمی قدامت کے لحاظ سے ارض ہند قدیم ترین ہے۔ وہیں کی کانوں سے لوہا اور جواہرات نکلے ہیں۔ ہندوستان کا پہلا بادشاہ برہمن نسل سے ہوا تھا۔ اسی کے دور میں کانوں سے لوہا نکالا گیا جس سے آ لات حرب تیار کئے گئے ۔ اسی کے زمانے میں منادر تعمیر کیے گئے جنہیں چمکتے دمکتے مشرقی جواہرات سے سجایا گیا۔ ان منادر میں کواکب کے بارہ برجوں کے نقشے اور انسانی و حیوانی مجسمے تیار کر کے رکھے گئے اور دیواروں پر ان کے نقش و نگار ابھارے گئے ۔ اہل ہند کا مدبر اعظم شمس نامی ایک شخص تھا جس نے مسائل کائنات پر اپنی ایک کتاب میں کچھ عام فہم اور کچھ خواص کے لیے علمی زبان میں بحث کی ہے۔ حکماء ہند نے اسی کے زمانے میں اجتماعی طور پر کتاب السند ہند (واضح رہے کہ رجال السند والہند کے نام سے ایک اہم ترین کتاب قاضی اطہر مبارک پوری نے تصنیف کی ہے) اور اس کی شرح دہر الدھور لکھی ہے۔ اسی زمانے میں محبطی کی کتاب الارجہید الارکند اور بطلیموس کی طرز پر دوسری کتابیں لکھی گئیں ۔ انہیں دو کتابوں سے اہل ہند میں علم ہندسہ اور ریاضی کے ان نو قاعدوں کی ابتدا ہوئی جو ہندوستان سے مخصوص ہیں۔ ہندوستان کا پہلا شخص شمس ہی تھا جس نے آفتاب کی بلندی کی نشاندہی کی اور یہ بتایا کہ سورج اپنے ہر برج میں تین ہزار سال رہتا ہے۔ اور پورے آ سمان کی مسافت 36 ہزار سال میں طے کرتا ہے۔ اس کے حساب کے مطابق ہمارے زمانے میں اس وقت یعنی 332 ہجری میں سورج کا قیام برج ثور میں ہے۔ اس کا سفر آسمان میں جنوب سے شمال اور شمال سے جنوب کی طرف ہوتا ہے۔ اس نے عناصر اور اس کے ضعف توانائی پر بھی گفتگو کی ہے‘‘۔ (ایضاً صفحہ 92-93)یہ بات تو طے ہے کہ سر زمین ہند ابتدا ہی سے تہذیب و ثقافت اور علم و فن کی بہترین آماج گاہ رہی ہے۔ یہاں ہر دور میں اصحاب علم و فضل پیدا ہوتے رہے ہیں جنہوں نے ہندوستان کی علمی طور پر پوری دنیا میں شناخت و امتیاز بنایا ہے۔ مسعودی کی درج بالا معلومات بھی اسی کا حصہ ہیں۔ یہ تمام چیزوں کا مسعودی نے مشاہدہ کیا اور اپنے ذاتی تجربات کی روشنی میں ان حقائق کو قلم بند کیا ہے۔
ہندوستان کا سیاسی نظام
مسعودی کی تحقیق کے مطابق ہندوستان کا پہلا بادشاہ برہمن نسل سے تھا اس کے متعلق اہل ہند کی آراء متضاد ملتی ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ وہ ابو البشر آدم علیہ السلام تھے اور بعض کا خیال یہ ہیکہ وہ بادشاہ ہی تھا۔ پہلے بادشاہ کے ہلاک (برہمن) ہوجانے کے بعد اہل ہند نے حد درجہ گریہ وزاری کی اور اس کا جا نشین اس کے سب سے بڑے بیٹے باہور کو بنایا جس کے لیے اس کا باپ پہلے ہی کہہ گیا تھا سیرت کے لحاظ سے اپنے باپ کی طرح تھا۔ اس نے حکماء کی بڑی توقیر کی بلکہ ان کے جاہ وحشم میں اور اضافہ کیا اور انہیں اہل ہند کو حکمت کی تعلیم دینے پر مامور کیا اور خود انہیں بھی علم و حکمت میں مزید تحقیق کا حکم دیا اس نے اپنے مذہبی عقائد کے مطابق بہت سی نئی عبادت گاہیں تعمیر کرائیں۔ جب وہ ہلاک ہوا تو اس وقت اس کی عمر سو سال تھی۔ اسی کے زمانے میں پانسہ پھینکنے کا رواج ہوا۔ باہور کے بعد زامان تخت نشین ہوا اس کی حکومت تقریبا 150 پر محیط تھی۔ فارس اور چین کا بادشاہوں سے اس کی متعدد جنگوں کا ذکر علماء نے کیا ہے۔ اس کے بعد فور (پورس) مسند سلطنت پر متمکن ہوا اسی سے سکندر کی جنگ بھی ہوئی تھی۔ سکندر نے اسے شکست دے کر قتل کر دیا تھا اس وقت اس کی حکومت کے 140 سال گزر گئے تھے۔ اس کے بعد وبشلیم بادشاہ ہوا جس نے کتاب کلیلہ و دمنہ لکھی ہے۔ جسے ابن مقفع سے منسوب کیا جاتا ہے۔ یہی وہ کتاب جس کے بہت سے افسانے وغیرہ عباسی خلیفہ المامون کے کاتب سہل بن ہارون نے اپنی کتاب ثعلہ و عضرہ میں ترجمہ کرکے پیش کئے ہیں نیز ان پر کچھ اضافے کرکے کتاب کی منظومات میں مزید حسن پیدا کردیا ہے۔ اس کی حکومت کی مدت تقریباً 120 سال ہے۔ پھر اس کے بعد بلہت ہندوستان کا راجا بنا۔ اس نے شطرنج کے کھیل کو ایجاد کیا۔ اس کا دور حکومت صرف 30 سال ہے۔ بلہت کے بعد کورش ہندوستان کا بادشاہ ہوا ۔ اس نے معاشرتی اصلاحات کے علاوہ مذہبی روایات میں بہت ساری اصلاحات کیں اور اپنی رعایا کی بہت سی سماجی و معاشی تکالیف رفع کرنے کا باعث بنا۔ کورش ہی کے زمانے میں سند باد بھی تھا۔ جو اس کا مشیر تھا۔ اسی نے کورش کے لیے سات وزاراء ، معلمین، غلام اور بیویوں کی تعداد کے سلسلے میں ایک کتاب مرتب کی تھی جس کا نام بھی اس کے نام پر سند باد ہی تھا۔ اس نے کورش کے لیے جو سب سے بڑی کتاب لکھی تھی وہ مختلف امراض کے اسباب و علل اور ان کے علاج کے لیے دواؤں کی تجاویز وغیرہ پر مشتمل تھی۔ اس میں جسم انسانی کے مختلف اعضاء اور ان کی کار کردگی کے سلسلے میں اشکال و تصاویر دی گئی تھیں اس بادشاہ کی عمر اس کے انتقال کے وقت 120 سال تھی۔ آگے مسعودی نے لکھا ہے کہ اس کے بعد اہل ہند اختلاف کے شکار ہوگئے اور لوگوں نے مرکز سے الگ الگ اپنی حکومتیں قائم کرلیں۔ سندہ کی الگ ، قنوج کی الگ حکومت قائم ہوئی کشمیر کی الگ حکومت قائم ہوئی سب سے بڑی حکومت کا پایہ تخت شہر مانکیر تھا (دیکھیے تفصیل ایضاً صفحہ 94-97)
پتہ یہ چلا کہ ہندوستان کا قدیم زمانے سے ایک منظم سیاسی نظام تھا۔ اور تمام اہل ہند اس کی تابع داری کرتے تھے۔ اسی کے ساتھ ان بادشاہوں کی ایک اچھی عادت یہ تھی کہ وہ علم پروری کے بھی دل دادہ تھے۔ اہل علم کی قدر و وقعت کرتے تھے۔ نیز اہل علم کو جدید تحقیق کی راہ بھی ہموار کرتے تھے۔ البتہ مسعودی نے اس بات کو قطعی نظر انداز کرڈالا ہے کہ ان بادشاہوں کا اپنی رعایا کے ساتھ رویہ کیسا تھا۔؟
ہندوستان کے قدیم حکماء کا فلسفہ
مسعودی نے لکھا ہے کہ ہندوستان کے پہلے بادشاہ کی نسل کے لوگ براہمہ کہلاتے ہیں۔ ان کے سات پسندیدہ دانشور گزرے ہیں۔ جن کا قول ہے کہ ہمارا وجود خالق کی حکمت پر مبنی ہے۔ لہذا ہمارا عدم اس کی حکمت کے زوال یا نقص کا باعث ہوگا۔ ان میں سے ایک دانشور کہتا ہے کہ ایسا کون ہے جو وجود عالم اور حقائق اشیاء کا کلی طور پر ادراک کرسکے؟ دوسرا کہتا ہے کہ عقل و حکمت کسی ایک شخص تک محدود نہیں ہوسکتی ۔
بقیہ سلسلہ صفحہ نمبر1۵
تیسرا کہتا ہے کہ ہمارے لیے انہی اشیاء کا ادراک کافی ہے جو ہمارے اجسام و اذہان سے قریب تر ہیں ۔ چوتھا کہتا ہے کہ اشیاء کی معرفت ہمارے لیے اسی حد تک ضروری ہے۔ جہاں تک ہمیں ان کی احتیاج ہو۔ پانچواں کہتا کہ ہمیں ان حکماء کی صحبت اختیار کرنی چاہیے جو حقیقت اشیاء کے ادراک ہر قادر ہیں۔ چھٹا کہتا ہے کہ اس دنیا میں ہمارا وجود حصول سعادت نفس کے لیے وقف ہونا چاہیے کیونکہ یہاں سے ایک دن جانا ضروری ہے۔ ساتویں کا کہنا ہے کہ ہم نہ اپنی خوشی سے آئے ہیں نہ یہاں سے جانے پر ہمیں اختیار ہے۔ رہی زندگی تو اس میں پریشانیوں اور تکالیف کے سوا رکھا کیا ہے (ایضاً صفحہ 93-94)
خصائل و رسوم
مسعودی نے لکھا ہے کہ ہندوستان میں شراب کی ممانعت ہے اور پینے والے کو سزا دی جاتی ہے لیکن یہ مذہبی نقطہ نظر سے نہیں کیا جاتا بلکہ ان کے نزدیک شراب پی کر نشے کی حالت میں انسان عقل و خرد سے عاری ہوجاتا ہے اور اسے ملکی قوانین اور روایات کا پاس ولحاظ نہیں رہتا ۔ البتہ حکمران کے لیے ضرورتاً سیاسی سوجھ بوجھ اور تدابیر ملکی پر غور و خوض کے لیے اس کا تھوڑا بہت استعمال صحیح سمجھا جاتاہے۔ ہندوستان میں گانے بجانے کا رواج بہت ہے جس کے لیے انہوں نے بہت سے آلات بنا رکھے ہیں۔ گانا بجانا خوشی اور غمی دونوں میں ہوتا ہے نیز پڑوسیوں کے یہاں تقریبات کے موقعوں پر گانا بجانا ضروری ہوتا ہے۔ ( ایضاً صفحہ 99) مسعودی نے ایک رسم کے متعلق اور لکھا ہے۔’’ میں نے ارض ہند کے خطہ سراندیپ میں دیکھا اور وہ ایک سمندری جزیرہ ہے۔ کہ جب وہاں حکمران فوت ہوجاتا تو اسے ایک خاص مقام پر لے جاتے ہیں جو اسی کام کے لیے مقرر ہے اور اس کی لاش وہاں رکھ دیتے ہیں ۔ اس کی بیوی کے ہاتھ میں ایک پوٹلی ہوتی ہے جس میں سے مٹی نکال نکال کر وہ اپنے مردہ خاوند کے سر پر ڈالتی جاتی ہے اور کہتی جاتی ہے۔ اے لوگو! دیکھو یہ آج تک تمہارا حاکم تھا اس کا ہر حکم تمہارے لیے واجب العمل تھا اب اس نے دنیا چھوڑ دی اس لیے اس کے احکام بھی آج سے ختم ہوگئے کیونکہ ملک الموت نے اس کی روح قبض کرلی ہے۔ اگرچہ وہ زندہ ہوکر دوبارہ نہیں مرے گا لیکن اس کے مرنے سے تم نہ بدل جانا‘‘۔ اس قسم کے الفاظ وہ لوگوں سے نیک چلنی پر پابند رہنے کے لیے کہتی ہے۔ اس کے بعد تمام مذہبی رسوم ادا کرکے اس کی لاش کو آگ لگا دی جاتی ہے۔ یہ رسوم و رواج آ ج بھی زندہ ہیں ۔ بہر حال یہ ان کے رسم ورواج ہیں جن پر ہم کو کوئی تعرض نہیں۔ سچ بات تو یہ ہے کہ وطن عزیز تہذیبوں، ادیان اور ثقافتوں کا سنگم ہے۔ یہی ہمارے ملک کی اصل شناخت اور امتیاز ہے۔ یہ ہماری جمہوری اور آئینی قدروں کو یقنی بناتی ہیں۔
مسعودی کے افکار کی افادیت
آ خر میں یہ عرض کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ موازنہ ادیان اور تہذیبی دریافت کے حوالے سے مسلم مفکرین وعلماء نے ہر دور اور ہر زمانے میں گران قدر خدمات انجام دی ہیں۔ مذکورہ مباحث کو پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ دوسرے ادیان اور ان کی تہذیبوں کا مطالعہ مسلمانوں نے نہایت اعتدال اور غیر جانب دار ہوکر کیا ہے۔ آج ہمارے درمیان جو لوگ افتراق و خلیج پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ان کو یہ بتانا کافی ہوگا کہ مسلمانوں نے غیر مسلم اقوام کے ادیان و تہذیب اور ان کے سیاسی و سماجی نظام کو جان کر مثبت پیغام دیا ہے۔ وہیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مسالک و ادیان کی خوش گوار روایت کو ایک درست سمت دینے میں مسلم علماء کی خدمات کو سراہنا اور انہیں بروئے کار لانا نہایت ضروری ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اب نفرت اور تشدد کی آندھی چل رہی ہے۔ لوگ باہم ادیان و تہذیب کے مابین غلط فہمیاں پھیلا رہے ہیں۔ ان کا سد باب اسی وقت ہوسکتا ہے جب ہم مکالمہ جیسی خوش گوار روایت کو فروغ دیں۔ سماجی طور پر نکتہ اتحاد پر عمل کریں۔

مختلف ادیان اور ان کی تہذیبوں کا مطالعہ مسلمانوں نے نہایت اعتدال اور غیر جانب دار ہوکر کیا ہے۔ آج ہمارے درمیان جو لوگ افتراق و خلیج پیدا کرنا چاہتے ہیں ان کو یہ بتانا کافی ہوگا کہ مسلمانوں نے غیر مسلم اقوام کے ادیان و تہذیب اور ان کے سیاسی و سماجی نظام کو جان کر مثبت پیغام دیا ہے۔۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اب نفرت اور تشدد کی آندھی چل رہی ہے۔ لوگ باہم ادیان و تہذیب کے مابین غلط فہمیاں پھیلا رہے ہیں۔ ان کا سد باب اسی وقت ہوسکتا ہے جب ہم مکالمہ جیسی خوش گوار روایت کو فروغ دیں۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 20 تا 26 دسمبر، 2020