ڈونلڈ ٹرمپ: کہانی ختم ہوئی اور ایسے ختم ہوئی

نسل پرستی کا علاج قوم پرستی نہیں بلکہ خدا پرستی ہے

ڈاکٹر سلیم خان

 

امریکہ کے سابق صدر براک اوباما نے اپنی کتاب میں لکھا کہ: ’’تشدد ہندوستانی سماج کاحصہ بن چکا ہے‘‘۔ یہ سوءِ اتفاق ہے کہ مذکورہ جملہ فی الحال ان کے اپنے ملک امریکہ پر صد فیصد منطبق ہو رہا ہے۔ اپنی کتاب میں اوباما یہ بھی لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے ان سے کہا تھا ”جناب صدر! غیر یقینی کے اس ماحول میں مذہبی اور ذات برادری کے اتحاد کی اپیل عوام کو بہکا سکتی ہے، ایسے میں سیاست دانوں کے لیے اس صورتِ حال کا استحصال زیادہ مشکل نہیں ہوتا۔ خواہ وہ بھارت میں ہو یا کہیں اور ہو“۔ براک اوباما نے سمجھا کہ یہ ’کہیں اور‘ پاکستان ہے لیکن حالیہ واقعات نے ثابت کر دیا کہ اس سے مراد امریکہ بھی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ بے مثال مہارت کے ساتھ امریکہ میں نسلی امتیاز کی آگ بھڑکا کر اس کا استحصال کر رہے ہیں۔ محبت اور سیاست میں فرق یہ ہے محبت میں لوگ مل جل کر زندگی گزارنے کا عزم کرتے ہیں اور جنگ میں محبت کو قربان کرنا پڑتا ہے۔ نو منتخبہ صدر جو بائیڈن کی تاجپوشی کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کی رخصتی لازم ہے لیکن جاتے جاتے انہوں نے بیچ چو راہے پر جمہوری نظام کے دیو ستبداد کو بے نقاب کرنے کا جو کارنامہ انجام دیا ہے اس کے لیے تاریخ میں ان کا نام محفوظ رہے گا۔ ٹرمپ نے اپنے عمل سے علامہ اقبال کے اس شعر کی تفسیر بیان کر دی ہے؎
ہے وہی سازِ کُہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری
دیو استبداد جمہوری قبا میں پاے کوب
تُو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
امریکی حکومت اپنی نیلم پری کی اس نقاب کشائی سے حواس باختہ ہے۔ صدر ٹرمپ اب بھی اس انتخابی نتیجے کو مسروقہ مانتے ہیں اور حلف برداری میں شریک ہونے کا ارادہ نہیں رکھتے لیکن قانون کے مطابق انتقالِ اقتدار پر راضی ہیں اس کے باوجود ان کو ذلیل ورسوا کرکے رخصت کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی نے آئین کی 25 ویں ترمیم کے تحت صدر ٹرمپ کو عہدہ صدارت کے لیے نا اہل قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے۔پیلوسی نے ٹرمپ کے دست راست نائب صدر مائیک پینس کو دھمکی دی ہے کہ اگر وہ پر راضی نہیں ہوتے تو ان کا مواخذہ کیا جائے گا۔ ٹرمپ کے لیے مواخذہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یوکرین کے صدر سے اپنے مد مقابل جو بائیڈن کے خلاف ’سیاسی گند‘ تلاش کرنے کی درخواست پر صدر ٹرمپ دسمبر 2019 میں مواخذے کا سامنا کر چکے ہیں مگر ریپبلکن کی اکثریتی سینیٹ نے انہیں مواخذے کے نتائج سے بچالیا تھا۔ ٹرمپ کو روندنے کی جو تیاری چل رہی ہے اس کو دیکھ کر سلمان فارس کا یہ شعر یاد آتا ہے؎
پھر اس کے بعد زمانے نے مجھ کو روند دیا
میں گر پڑا تھا کسی اور کو اٹھاتے ہوئے
فارس توخیر کسی اور اٹھاتے ہوئے گر پڑے تھے مگر ٹرمپ کو اپنے سوا کوئی نظر ہی نہیں آتا اس لیے وہ اپنے آپ کو دوبارہ کرسیٔ صدارت پر فائز کرتے ہوئے گر پڑے۔ عوام نے انہیں روند دیا ہے لیکن وہ اس حقیقت سے منہ پھیر کر الیکشن کی چوری کا الزام لگا رہے ہیں۔ ٹرمپ جیسے نرگسیت کا شکار لوگ حقیقی نہیں خیالی دنیا میں جیتے ہیں۔ ٹرمپ سے خوفزدہ امریکی انتظامیہ جو بائیڈن کی حلف برداری سے قبل نہ صرف کیپیٹل ہل بلکہ سپریم کورٹ کی عمارت تک کو سات فٹ سے اونچی جالی سے گھیر رہی ہے۔ ڈیموکریٹ اسپیکر پیلوسی کا یہ بیان کہ ’جیسے جیسے دن گزرتے جا رہے ہیں صدر ٹرمپ کے ذریعے ہماری جمہوریت پر جاری حملوں کی شدت بڑھتی جا رہی ہے اور اسی لیے فوری طور پر کارروائی کی ضرورت ہے۔‘ یعنی انہیں اس عہدے سے ہٹا دینا چاہیے درست تو ہے لیکن کیا پہلی بار ہوا ہے؟ امریکہ نے دنیا کے کس حصے میں عوام کے ذریعہ منتخبہ حکومت کا تختہ نہیں الٹا اور اس کے لیے کیا نہیں کیا؟ کبھی سازش کی گئی، کبھی دھماکے کروائے گئے تو کبھی ڈھٹائی کے ساتھ فوج کشی کردی گئی۔ پیلوسی بتائیں کہ ایسا کرنے والے صدور کا مواخذہ کیا گیا یا تعریف و توصیف کی گئی؟ کیا یہی مساوات ہے کہ دنیا بھر میں جو چاہو کرتے پھرو وہ سب جائز اور وہی خود کے اپنے ملک میں ہو تو نا جائز؟ کیا دیگر ممالک کی عوام کو یہ نظامِ جمہوری انسان نہیں سمجھتا؟ ٹرمپ پر کارروائی کرنے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ امریکی نظامِ جمہوریت اپنی اس منافقت اور دوہرے پیمان کا محاسبہ کرے۔
اس میں شک نہیں کہ سیاستداں نت نئے مسائل پیدا کرتے ہیں لیکن ان کا زیادہ تر وقت موجودہ مسائل کے استحصال میں صرف ہوتا ہے۔ عام طور پر حکمرانوں سے یہ توقع ہوتی ہے کہ وہ مسائل کو حل کریں گے لیکن جمہوری سیاستداں انتخاب میں کامیابی کی خاطر ملک کے اندر ان مسائل کو تلاش کرتے ہیں جن کو اپنے حق میں استعمال کرکے وہ انتخاب جیت سکیں۔ ٹرمپ نے بھی یہی کیا۔ انہوں نے نسل پرستی کے عفریت کو ختم کرنے کے بجائے اس کا استحصال کرکے انتخاب جیتنے کی کامیاب کوشش کی۔ یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ وہ خود نسل پرست ہیں۔ انہوں نے ایک اخباری نامہ نگار کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ اعتراف کیا تھا کہ: ’میں نسل پرست نہیں ہوں۔ میں آپ کے انٹرویو کیے گئے تمام لوگوں میں سب سے کم نسل پرست ہوں‘۔ اس جملے میں پہلے انکار کے بعد پھر اعتراف ہے کہ نسل پرست تو ہوں مگر کم۔ اب یہ فیصلہ وہ خود تو نہیں کرسکتے کہ ان کی نسل پرستی دوسروں سے کم ہے یا زیادہ ہے؟ لیکن وہ امریکہ میں نسل پرستی کے موجد نہیں ہیں۔ یہ تو صدیوں سے چلی آرہی ہے بلکہ جمہوریت کے سائے تلے پھل پھول رہی ہے۔
ٹرمپ کے سابق وکیل مائیکل کوہن کے مطابق امریکی صدر کا رویہ غنڈوں والا ہے اور وہ ‘تمام سیاہ فام افراد کے بارے میں بری رائے رکھتے ہیں، چاہے وہ موسیقی و ثقافت سے تعلق رکھتے ہوں یا سیاست سے۔ نسلی تفریق کی بابت وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے۔ جنوبی افریقہ کے صدر نیلسن منڈیلا کو وہ کوئی لیڈر نہیں مانتے۔ کوہن کے مطابق ایک مرتبہ ٹرمپ نے کہا تھا ’مجھے کسی سیاہ فام کے زیرِ انتظام کوئی ایسا ملک بتاؤ جو غلاظت کا ڈھیر نہ ہو۔ وہ تمام مکمل طور پر ٹوائلٹس ہیں۔ افریقی سیاہ فام تو دور خود اپنے پیشرو صدر براک اوباما کے لیے بھی ان کے دل میں ’نفرت اور ہتک‘ کے جذبات پائے جاتے تھے۔ اس کے ثبوت میں کوہن اپنی کتاب کے اندر ٹرمپ کے ایک ویڈیو کا حوالہ دیتے ہیں جس میں اوباما کے ایک ہم شکل کو ملازم کی حیثیت سے مقرر کرنے کے بعد ذلیل کرکے برطرف کر دیا جاتا ہے۔ یہ ویڈیو ذرائع ابلاغ میں چل چکا ہے۔ ان الزامات کے باوجود یہ نہیں کہا جاسکتا کہ امریکی معاشرے میں نسل پرستی کا وجود صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دین ہے۔ ہاں یہ ایک سچائی ہے کہ ٹرمپ نے اس برائی کا اپنے سیاسی مفاد کے لیے بھر پور استعمال کیا۔
امریکی قوم کے رگ رگ میں نسل پرستی کس طرح بھری ہوئی ہے اس کا اندازہ نومبر 2016 کے دارالحکومت واشنگٹن میں ایک قوم پرست سفید فام گروپ کے زیر انعقاد ایک کانفرنس سے کیا جا سکتا ہے جس میں شرکاء نے ملک میں بسنے والے دیگر نسلی اور مذہبی گروہوں کے خلاف دل کھول کر زہر افشانی کی۔ شرکاء کا یہ دعویٰ تھا کہ یہ ملک ’سفید فاموں کے لیے بنا تھا۔‘ مگر دیگر گروہوں نے انہیں اپنے ہی ملک میں اقلیت بننے پر مجبور کر دیا ہے۔ یہی باطل نظریہ دراصل فتنے کی جڑ ہے کیونکہ امریکہ کے بنانے والے سفید فام لوگ تو تھے نہیں۔ یہ تو اللہ کی زمین ہے جس نے اس کو قدرتی وسائل سے مالا مال کیا۔ ان سفید فام لوگوں نے تو وہاں جا کر تباہی مچائی۔ 1492 میں کولمبس کے ذریعہ امریکہ کی دریافت کے بعد وہاں ساڑھے پانچ کروڑ یعنی کل مقامی آبادی کے 90 فیصد لوگ ہلاک کردیے گئے۔ ان صحت مند لوگوں کی بڑی تعداد آبادکار لوگوں کے ساتھ آنے والی بیماریوں کا شکار ہوئی اور برسوں کی جنگ، معاشرتی انہدام اور غلامی نے اس براعظم کو مقامی آبادی سے تقریباً خالی کر دیا۔ اس کے علاوہ ان درندوں نے ساڑھے پانچ لاکھ مربع کلومیٹر کی زر خیز زمین بنجر کر دی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ سفاک اور ظالم اپنی تہذیب پر فخر جتا کر دوسروں کو حقیر سمجھتے ہیں۔ امریکہ پر مکمل تسلط حاصل کرنے کے بعد بھی وہ خونخوار ذہنیت باقی ہے اور صدر ٹرمپ نے اپنے مفاد کی خاطر ان شعلوں کو پہلے بھی ہوا دی اور اب بھی دے رہے ہیں۔ اس کی تازہ مثال اگست 2017 میں ریاست ورجینیا کے اندر منعقد ہونے والا نسل پرستوں کا جلوس تھا۔ اس موقع پر شہر میں تشدد اور ہنگامہ آرائی کے سبب ایک خاتون ہلاک اور 19 دیگر افراد زخمی ہو گئے تھے۔ اس جلوس کا اہتمام دائیں بازو کی ’یونائیٹ دی رائٹ‘ (یعنی دایاں اتحاد) نامی تنظیم نے امریکی خانہ جنگی کے دوران غلامی کی حمایت کرنے والے رہنما جنرل رابرٹ ای لی کے ایک مجسمے کو ہٹانے کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے کیا تھا۔ سفید فام مہم کے حامی انتہائی دائیں بازو کے لوگ نعرہ لگا رہے تھے کہ ’آپ ہماری جگہ نہیں لے سکتے‘اور ’یہودی بھی ہماری جگہ نہیں لے سکتے۔‘ ان کی مخالفت میں جمع ہونےوالوں پر ایک شخص نے اپنی کار چڑھا دی۔ اس حرکت کو ریپبلکن پارٹی کے ہی سینیٹر کوری گارڈننر نے بھی سفید فام نسل پرستی اور گھریلو دہشت گردی قرار دیا تھا۔امریکہ کے اندر فی الحال سفید فام قوم پرست تنظیموں کا جال بچھا ہوا ہے۔ یہ گروہ بائیں بازو کی سوچ اور اعتدال پسند خیالات کو رد کرتے ہیں۔ ان کے پھیلاؤ میں پچھلی بار ڈونلڈ ٹرمپ کی امریکی صدارتی انتخابات میں کامیابی سے آسانی ہوگئی تھی۔ سوشل میڈیا نے بھی ایسے گروہوں کی ترویج و اشاعت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔امریکہ کے معروف ادارے سدرن پاورٹی لا کے مطابق وہاں ایسے 1600 شدت پسند گروہوں سرگرمِ عمل ہیں جن پر وہ نظر رکھے ہوئے ہے۔ کسی نظریہ کو فروغ دینے کے لیے جب اتنی بڑی تعداد میں با رسوخ افراد پر مشتمل تنظیمیں سماج کے اندر جد وجہد کر رہی ہیں تو ان کے اثرات مرتب ہو کر رہتے ہیں۔ بقیہ سلسلہ صفحہ نمبر ۲۱
ایسے میں اگر سرکاری سرپرستی بھی حاصل ہو جائے تو یہ آگ دو آتشہ ہو جاتی ہے اور پچھلے چار سالوں کے اندر بلکہ ایک ٹرمپ کی انتخابی مہم کا ایک سال بھی ملا دیں تو پانچ سالوں میں یہ کام خوب ہوا ہے اور امریکہ فی الحال اس کے نتائج بھگت رہا ہے۔
امریکہ کے اندر فی الحال سفید فام نسل پرست گروہوں میں سب سے اہم گروہ آلٹرنٹیو رائٹ (آلٹ رائٹ) ہے۔ ان متعصب سفید فام قوم پرستوں کی محبوب ترین شخصیت صدر ٹرمپ ہیں۔ 2016 میں ٹرمپ نے یہودیوں کی مخالفت کر کے ان کا دل جیت لیاتھا۔ یہ اشتعال انگیزی میں یقین رکھتے ہیں اور انہیں سیاسی لحاظ سے درست زبان کے استعمال سے نفرت ہے۔ ویسے دکھاوے کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ نے 2016 میں اس گروہ کے خیالات سے عدم اتفاق کا اظہار بھی کیا تھا لیکن وہی ہاتھی کے دانت والی بات۔ اس گروہ کی داغ بیل ڈالنے والے رچرڈ برٹرینڈ سپنسر کے مطابق گروہ کا مقصد ’سفید فام افراد کا تشخص‘ اور ’روایتی مغربی معاشرے کی بقا‘ ہے۔ ان کا نصب العین آزادی، آزادیِ اظہار اور دوسروں کی دل آزاری کرنے کا حق حاصل کرنا ہے۔ ان میں سے دلآذاری کے حق کا خوب استعمال ہوتا ہے۔ ناقدین اس کو نسل پرست، عورتوں کو کم تر سمجھنے والا یہودیت مخالف گروہ مانتے ہیں۔
سرزمینِ امریکہ پر یہودیت کا مخالف، ہٹلر اور نازی جرمنی سے محبت رکھنے والا نیو نازی گروہ بھی پایا جاتا ہے۔ متعدد نیو نازی اداروں میں سے ’امیرکن نازی پارٹی اور دوسری نیشنل سوشلسٹ مومنٹ خاصی مشہور ہیں۔ ان لوگوں نے ایک قومی وفاق قائم کر رکھا ہے ’یونائیٹ دا رائٹ‘ اس کا ایک فریق ہے۔ امریکی سپریم کورٹ نے انہیں دو صوبوں میں سواستیکا کا نازی نشان اُٹھا کر یہودی بستیوں میں جلوس نکالنے اجازت دے رکھی ہے۔ 1865 میں امریکی خانہ جنگی کے بعد جنوبی ریاستوں کے سابق فوجیوں نے کو کلکس کلین نامی امریکہ کے سب سے معروف سفید فام نسل پرست گروہ کی بنیاد ڈالی تھی۔ اس گروہ کے لوگ سیاہ فام امریکیوں، یہودیوں اور مہاجرین کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے ہیں۔اپنے مخالفین کو مساوی حقوق محروم کرنا اس کا نصب العین ہے۔ اس گروہ کے ارکان مخصوص لباس سے چہرے چھپاتے تھے اور سفید فام قوم پرستی پر اعتراض کرنے والوں کو قتل کر دیتے تھے۔
یہ گروہ اپنے آپ کو ’سفید فام محب وطن عیسائی‘ ادارے کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اس کی موجودگی امریکہ کی ہر ریاست میں ہے۔ اس کے ارکان کی تعداد پانچ سے آٹھ ہزار ہے۔ کو کلکس کلین (کے کے کے) سے منسلک گروہوں میں کانفیڈریٹ وائٹ نائٹس اور ٹریڈیشنل امیرکن نائٹس شامل ہیں۔ ان گروہوں کے بارے میں پڑھتے ہوئے دماغ اچانک داعش کی طرف چلا جاتا ہے جس میں سفید فام لوگ ایسی سفاکی کا مظاہرہ کرتے دکھائی دیتے تھے جن کا اسلام اور مسلمانوں سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔ یہ ایک اتفاق ہے کہ ٹرمپ نے انتخاب سے قبل ہیلری کلنٹن پر آئی ایس آئی ایس کو منظم کر کے بھیجنے کا الزام لگایا تھا نیز واپس بلانے کا وعدہ بھی کیا تھا۔ بعید نہیں کہ امریکیوں نے اسلام کو بدنام کرنے کے لیے ان کی خدمات حاصل کی ہوں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں اسلاموفوبیا پھیلانے اور القاعدہ اور اسلامی دہشت گردی کا شور مچانے والوں کو یہ انتہا پسند گروہ نظر نہیں آتے۔ لیکن اب ٹرمپ کی حمایت میں یہ بلی خود تھیلے سے باہر آگئی ہے۔ دنیا بھر میں دہشت گردی کے خلاف جنگ چھیڑ کر دہشت گردی پھیلانے والے امریکہ کو اب اپنے دامن میں جھانک کر دیکھنا ہوگا ورنہ یہ آگ خود اس کو جلا کر بھسم کر دے گی۔
ابلیس لعین کا سب سے موثر حربہ طاقتور قوموں کو نسلی تفاخر میں مبتلا کرنے کا ہے اور اس میں اسے آسانی سے کامیابی بھی مل جاتی ہے۔ یوروپ اور امریکہ نے نسل پرستی کا علاج قوم پرستی میں تلاش کیا جو اسی قبیل کی دوسری برائی ہے۔ جمہوریت کے ذریعہ اس مرض کا علاج کرنے کی کوشش کی مگر امریکہ میں کیپیٹل ہل پر کیا جانے والا حالیہ حملہ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ دنیا کا عظیم ترین اور قدیم ترین جمہوری ملک اپنے اس میں مقصد کے حصول میں ناکام ہو گیا ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ قوم پرستی کو خدا پرستی سے بدل کر جمہوریت کےبجائے خلافت علیٰ منہاج النبوة کے ذریعہ اس فتنہ کی بیخ کنی کی جائے۔ ماضی میں بھی نسل پرستی کا خاتمہ اسی نسخۂ کیمیا سے ہوا تھا اور مستقبل میں بھی ایسے ہی ہوگا۔ خیر ڈونلڈ ٹرمپ کی کہانی جس دلچسپ اختتام کو پہنچی اس پر سلمان فارس کی اسی غزل کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
کہانی ختم ہوئی اور ایسی ختم ہوئی
کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے
***

دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے خود ساختہ سیاسی بحران میں سمجھنے کے لئے بہت کچھ ہے
ابلیس لعین کا سب سے موثر حربہ طاقتور قوموں کو نسلی تفاخر میں مبتلا کرنے کا ہے اور اس میں اسے آسانی سے کامیابی بھی مل جاتی ہے۔ یوروپ اور امریکہ نے نسل پرستی کا علاج قوم پرستی میں تلاش کیا جو اسی قبیل کی دوسری برائی ہے۔ جمہوریت کے ذریعہ اس مرض کا علاج کرنے کی کوشش کی مگر امریکہ میں کیپیٹل ہل پر کیا جانے والا حالیہ حملہ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ دنیا کا عظیم ترین اور قدیم ترین جمہوری ملک اپنے اس میں مقصد کے حصول میں ناکام ہو گیا ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ قوم پرستی کو خدا پرستی سے بدل کر جمہوریت کےبجائے خلافت علیٰ منہاج النبوة کے ذریعہ اس فتنہ کی بیخ کنی کی جائے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 17 جنوری تا 23 جنوری 2021