خوشگوار معاشرے کی تعمیر سماج کے ہر فرد کی ذمہداری

اصلاح معاشرہکے لیے اصلاح ذات پر توجہ ضروری

محمد شعیب ندوی
اسکالر، ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی، علی گڑھ

 

موجود حالات میں انتشار و خلفشار، اضطراب و بے چینی، ذہنی تناؤ، تصادم و کشمکش، انارکی و سفاکی اور حق تلفی و ناانصافی بام عروج پر ہے۔ انسان ایک عجیب سی کشمکش و بے اطمینانی کا شکار ہے۔ فرد اور معاشرہ دونوں شمار خرابیوں اور بے اعتدالیوں سے دوچار ہیں۔ الغرض ہمارا پورا معاشرہ زوال و انحطاط کا شکار ہے جس کی وجہ سے انفرادی و اجتماعی زندگی اجیرن ہو گئی ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ تعلیم و تربیت کا فقدان نظر آتا ہے۔ بچہ کے سب سے پہلے مکتب (ماں کی گود) میں ہی بے اعتنائی و بے التفاتی دکھائی دیتی ہے۔ والدین کے ساتھ اولاد کا برتاؤ اور ان کی خدمت کے معاملے میں لاپروائی افسوسناک ہے۔ علاوہ ازیں صلہ رحمی کا فقدان، اعزاء میں اتحاد ویگانگت کی کمی اور خلوص کے بجائے بغض و عناد اور منافرت کا ماحول ہے۔ یہ تمام باتیں قرآن و حدیث کی تعلیمات کے مغائر ہیں۔ جس کی وجہ سے ہی ہمارا سماج زوال کے راستے پر ہے۔
صالح معاشرہ کی تعمیر وتشکیل قرآن و سنت کی تعلیمات کے ذریعہ ہی ممکن ہے اور انفرادی و اجتماعی زندگی کو اسلام کی روشن تعلیمات سے مزین کر کے ہی معاشرہ کی فضاء خوشگوار بنائی جا سکتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل و شعور کے جوہر سے آراستہ و پیراستہ کیا، اس کو خیر وشر میں امتیاز کرنے کی صلاحیت سے بھی نوازا ہے۔ اس اعتبار سے انسان کی سب سے پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ حقوق اللہ و حقوق العباد کا علم حاصل کرے اور خود کو اطاعت کا اور دیگر عبادات کا پابند بنائے تاکہ فلاح دارین سے ہمکنار ہو سکے۔چونکہ دینِ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے، اس لیے اس پر صدق دل سے عمل کرنے پر ہی انسانی سماج کی روحانی ترقی ممکن ہو سکتی ہے۔ معاشرہ جن عناصر میں تقسیم ہوتا ہے ان میں انسان کی اپنی ذات، اس کے والدین اور اہل خانہ، اعزاء و اقرباء، پڑوسی، غرباء و مساکین، برادران وطن، الغرض ہر کوئی شامل ہوتا ہے۔ فرد کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے جیسا کہ شاعر مشرق نے ہر فرد کو ملت کے مقدر کا ستارہ بتایا ہے۔
خوشگوار معاشرہ اور اچھے ماحول کے لئے ضروری ہے کہ انسان اخلاقِ فاضلہ سے متصف ہو اور صفاتِ رذیلہ سے مکمل اجتناب کرتا ہو۔ غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے اس کے لئے توبہ و استغفار کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ انسانی زندگی کی پہلی منزل ماں باپ کی آغوش ہے، معاشرہ کی اس اہم اکائی یعنی انسان کی نشوونما، تربیت و تعلیم، عادات و خصائل، طور و طریقہ سب یہیں انجام پاتے ہیں۔ اگر والدین اور اولاد میں تعلقات و روابط خوشگوار نہ ہوں تو معاشرے میں سکون و اطمینان، خوشی و مسرت اور ترقی کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ خالقِ کائنات نے اپنی معرفت اور طاعت و عبادت کے ساتھ ساتھ والدین کے حقوق کی ادائیگی اور ان کی خدمت کا حکم قرآن مجید میں بڑی تاکید کے ساتھ دیا ہے۔ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 23 و 24 کے مطابق ’’یہ تمہارے رب کا قطعی حکم ہے کہ وحدہٗ لا شریک کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہ کرو، والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ، ان میں سے ایک یا دونوں ضعیف ہو جائیں تو ان کے کسی بھی عمل پر ’اُف‘ تک نہ کہو اور ان کے لئے ہمیشہ اپنے کندھوں کو انکساری، خندہ پیشانی اور رحم و کرم کے جذبہ کے ساتھ جھکائے رکھو اور خبردار ان سے کبھی جھڑک کر گفتگو مت کرو۔اسی طرح اعزاء و اقرباء، پڑوسی اور غرباء اور مساکین معاشرے اور سماج کا ایک اہم حصہ ہیں۔ اس لئے قرآن کریم نے ان کے بارے میں بھی ضروری اور گرانقدر ہدایتیں دی ہیں تاکہ ایک اچھا معاشرہ وجود میں آ سکے۔ قرآن کی تعلیم یہ ہے کہ ’’(ائے مسلمانو!) اگر مشرک بھی تم سے پناہ مانگے تو اس کو پناہ دو۔
ان احکامات و تعلیمات کو معاشرہ میں اجاگر کیا جائے اور عملی طور پر خود بھی اس پر عمل کریں گے تو ایک اچھا معاشرہ وجود میں آسکتا ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 17 جنوری تا 23 جنوری 2021