ڈالر راج کے خاتمہ کی طرف بڑھتے قدم۔۔!

یوکرین پر حملہ کے بعد روس پر عائد پابندیوں سے ڈالر کی اجارہ داری ختم کرنے کے عزائم کو تقویت

ارشد شیخ، نئی دلّی

طاقت کا توازن بدل رہاہے۔ دنیاکو ایک نئےمنصفانہ’ ورلڈ آرڈر‘ کی ضرورت
ارشد شیخ نے ’ڈی ڈالرائزیشن‘ اور آنے والے دنوں میں عالمی ریزرو کرنسی کے طور پر ڈالر کے انحطاط کے بارے میں حالیہ خبروں کا جائزہ لیا ہے۔ یوکرین کے بحران نے اس امر پر روشنی ڈالی ہے کہ کس طرح ہندوستان سمیت بعض ممالک آہستہ آہستہ اپنی باہمی تجارت میں ڈالر سے دور ہو رہے ہیں، یہ پالیسی کئی سال پہلے روس کی طرف سے شروع کی گئی تھی۔ اگرچہ ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈالر کو کم کرنا آسان نہیں ہوگا اور یہ ایک طویل اور کٹھن جنگ ہے، لیکن سپر پاور کے طور پر امریکا کے گھٹتے قد سے یہ اشارے مل رہے ہیں کہ ’ڈالر راج‘ کے خاتمہ کا عمل تیزی سے آگے بڑھ سکتا ہے۔
بہت سے لوگوں کو یاد نہیں ہو گا کہ یوکرین پر روسی جارحیت سے تقریباً 8 سال قبل یعنی 2014 میں روس نے یوکرین سے جزیرہ نما کریمیا کو الگ کرکے اس کا الحاق کیا تھا۔ روس پر تحدیدات نافذ کرنے کے بعد اس نے ڈالر پر ضرب لگانے کی کوششیں شروع کردی تھیں۔ اس نے ڈالر والے اثاثوں میں اپنے حصص کو گھٹانا شروع کیا۔ نیز اس نے قومی کرنسیوں میں باہمی تجارت کی حوصلہ افزائی کی اور روسی برآمدات میں ڈالر کا استعمال کم کر دیا۔ روس نے اس کے بینکوں کو ادائیگیاں انجام دینے والی کئی کمپنیوں تک رسائی نہ دینے پر اپنے ذاتی نیشنل الکٹرانکس و پیمنٹس سسٹم قائم کرنے کی کوشش کی۔ یوکرین کے خلاف جنگ کے ردعمل میں یوروپین کمیشن نے مختلف ممالک میں کمپنیوں کے زیر استفادہ بینکوں اور سرحد پار ادائیگیوں میں سہولت کے لیے متعارف پیغام رساں سرویس سوسائٹی کا ورلڈ وائیڈ انٹر بینک فینانشیل ٹیلی کمیونیکشین (Swift) سے روسی بنکوں کا رابطہ منقطع کر دیا۔ چین نے موقع غینمت جانا اور Swift کے اپنے ورژن یعنی چائنا نیشنل اڈوانسڈ پیمنٹ سسٹم (CNAPS) کی پیشکش کرتے ہوئے روس کی مدد کے لیے فوری طور پر آگے آیا۔ یہ تمام واقعات ڈالر کو بے حیثیت کرنے اور اپنے محفوظات (Reserves) کو ڈالر کی جگہ دیگر کرنسیوں جیسے یورو، رینمنبی اور حتی کہ سونے سے متنوع بنانے کی مختلف مرکزی بینکوں کی جستجو کو روشنی میں لے آنے کا سبب بنے۔
ڈالرائزیشن کیسے ختم ہوگا؟
ڈالرائزیشن یا ڈالر کی بالادستی کا عمل 1970 کی دہائی کے اوائل میں اس وقت شروع ہوا جب امریکا نے تیل کی دولت سے مالا مال سعودی عرب کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ اپنا تیل صرف ڈالر میں فروخت کرے اور دیگر کسی کرنسی کو قبول نہ کرے۔ بریٹن ووڈس کے نظام کے خاتمے کا اشارہ صدر نکسن نے دیا تھا کیونکہ انہوں نے اگست 1971 میں اعلان کیا تھا کہ وہ ڈالر کی سونے میں تبدیلی کو معطل کر رہے ہیں تاکہ بڑی کرنسیوں کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال میں رکھا جا سکے۔ اس اقدام کے ساتھ ہی عالمی ریزرو کرنسی کے طور پر امریکی ڈالر کی پوزیشن پر مہر لگ گئی۔
اس وقت زر مبادلہ کے تقریباً 60 فیصد ذخائر اور تقریباً 70 فیصد عالمی تجارت امریکی ڈالر کے ذریعے کی جاتی ہے۔ امریکا کی طرف سے بہت زیادہ قومی قرضوں اور تجارتی خسارے کے ڈھیر ہونے کے باوجود، امریکی ڈالر ’’محفوظ پناہ گاہ‘‘ کے ٹیگ سے لطف اندوز ہو رہا ہے اور دنیا بھر کے مرکزی بینکوں کے لیے پسند کی کرنسی بنا ہوا ہے جیسا کہ روس کے معاملے سے ظاہر ہوتا ہے۔ ڈالر کی تانا شاہی ختم کرنے کے پس پردہ مختلف ممالک کی یہ ضرورت کارفرما ہے کہ وہ مالی طور پر امریکی ڈالر کے اپنے خلاف جارحیت کے آلہ کے طور پر استعمال سے بچنا چاہتے ہیں۔
ڈالر کا زور ختم کرنے سے عالمی تجارت میں ڈالر کی بالادستی کم ہو گی۔ یہ دراصل بین الاقوامی تجارت، غیر ملکی زر مبادلہ کے محفوظات کو برقرار رکھنے، دو طرفہ تجارتی معاہدوں اور ڈالر سے متعین اثاثوں کے لیے ڈالر کو حاصل پسند کی کرنسی کی حیثیت کو تبدیل کرنے کا عمل ہے۔ ڈالر کا دبدبہ ختم کر دینے سے ممالک پر امریکا کا جغرافیائی سیاسی اثر ورسوخ کمزور پڑ جائے گا اور ایک ایسے مالیاتی نظام کے ساتھ جو غیر بے لگام اجارہ داری سے عاری ہو، کثیر قطبی دنیا وجود میں آسکتی ہے۔
ایک طویل جنگ
چین، روس اور حتیٰ کہ بھارت جیسے بڑے ممالک کی کوششوں کے باوجود ڈالر کا دبدبہ ختم کم کرنے کا راستہ طویل اور مشکل ہے۔ آئی ایم ایف کے اعداد وشمار کے مطابق عالمی زر مبادلہ کے محفوظات میں امریکی ڈالر کا حصہ 1995 سے اب تک تقریباً 59 فیصد پر بر قرار ہے۔
کسی بھی ملک کے لیے ڈالر کی بالا دستی میں گہرا اثر ڈالنے کے لیے اس کی معیشت کو امریکی معیشت کے حجم سے مماثلت رکھنا چاہیے۔ مثال کے طور پر روس کی جی ڈی پی 1.71 ٹریلین امریکی ڈالر کا اب بھی 2021 میں امریکا کی تقریباً 23 ٹریلین ڈالر جی ڈی پی سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔
سونا اور ڈیجیٹل کرنسی ڈالر کو بے حیثیت کرنے کی مہم میں اہم ہتھیار ہوں گے۔ اگر حریف مرکزی بینک اچانک اپنے ڈالر کے اثاثوں کو پلٹ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ان کی زیر ملکیت اثاثوں کی بیلنس شیٹ کو خطرات لاحق ہو جائیں گے کیونکہ ان کی قدر وقیمت کا تعین ڈالر ہی سے ہوتا ہے۔
مرکزی بینکس مقامی کرنسی کا استعمال پھر سے بحال کرنے سے گریزاں ہیں، کیونکہ دوبارہ لین دین پر آنے والی لاگت اس وقت تک زیادہ ہی رہے گی جب تک کہ ڈالر بے اثر نہ کر دیا جائے یا مقامی کرنسیوں میں لین دین قابل لحاظ حد تک پٹری پر نہ آجائے۔
انڈیکس کا نظم (Indexation) یا ایک مقررہ شرح مبادلہ غیر ملکی کرنسی کی مقامی کرنسی میں تبدیلی میں مدد کرتی ہے، لیکن یہ ممکن ہے کہ معاملہ انڈیکس میں الجھ جائے اور مقررہ شرح مبادلہ کی موروثی ضمانت پھر سے ڈالر کی اجارہ داری کو تقویت دے ۔
پیٹرو ۔یوآن
چین نے ان ممالک کا ایک نیٹ ورک تشکیل دیا ہے جو اسکی کرنسی رینمنبی کو اپنے دو طرفہ تبادلہ معاہدوں (BSA) کے ذریعے تجارت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ڈالر کو بے حیثیت کرنے کے حصے کے طور پر چین کے دور اندیش اقدامات میں سے ایک بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو اور ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک کے ذریعے یوآن پر مبنی تجارتی اور سرمایہ کاری کے نظام کی تشکیل ہے۔ یوآن پر مبنی تجارت زیادہ تر چین اور وسطی ایشیائی اور افریقی ممالک کے درمیان ہوتی ہے۔
چین 2016 میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ-اسپیشیل ڈرائنگ رائٹس، میں رینمنبی کی شمولیت کو یقینی بنانے میں بھی کامیاب رہا تاکہ اسے بین الاقوامی مالیات اور تجارت میں زیادہ کردار ادا کرنے کے قابل بنایا جاسکے۔ 2018 میں یوآن کی قیمت والے تیل کے معاہدوں کے آغاز کے ذریعے شنگھائی انٹرنیشنل انرجی ایکسچینج نے ’’پیٹرو یوآن‘‘ تشکیل دیا۔
تیل دنیا کی سب سے بڑی تجارت کی جانے والی شے ہے، جس کا تخمینہ اس وقت 14 ٹریلین ڈالر ہے۔ تاہم، خام تیل کی منڈی میں اب بھی ویسٹ ٹیکساس انٹرمیڈیٹ (WTI) اور برینٹ کے ڈالر سے متعلق بین الاقوامی بینچ مارکس کا غلبہ ہے۔ چین اور سعودی عرب کے درمیان کئی سالوں سے بات چیت چل رہی ہے کہ تیل کی قیمت ڈالر کے بجائے یوآن میں طے کرنے پر اتفاق کیا جائے۔ یہ ڈی ڈالرائزیشن کی سمت ایک بہت اہم پیش رفت ہے۔
یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ چین اور سعودی عرب دونوں اب بھی ڈالر کی معیشت چلاتے ہیں اور سعودی ریال اور چینی رینمنبی دونوں اب بھی امریکی ڈالر سے جڑے ہوئے ہیں۔ پھر بھی، پٹرو یوآن کا ظہور Pax-Americana کے لیے ایک ناگزیر خطرہ ہے اور تیزی سے بدلتے ہوئے جغرافیائی سیاسی منظر نامے کا ایک اہم عنصر ہے۔ یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ چینی یوآن 2030 تک عالمی زر مبادلہ کے محفوظات کے اثاثوں کا 5 فیصد سے 10 فیصد ہو گا۔ فی الحال عالمی زرمبادلہ کے محفوظات میں اس کا حصہ تقریباً 3 فیصد ہے جو امریکی ڈالر اور یورو سے پیچھے ہے۔
ایک منصفانہ نظم عالم
معاشی سامراج اور انتہائی قوم پرستی کے راستے پر چلتے ہوئے سیاسی بالادستی کی ہوس کے نتیجے میں دو عالمی جنگیں ہوئیں اور مفید وسائل کے بے تحاشا ضیاع کے ساتھ ناقابل بیان تباہی بھی ہوئی۔ سرد جنگ اور اس کے نتیجے میں تجارت اور اثاثوں کی تخلیق میں امریکی کرنسی کے غلبہ کے ذریعے امریکی توسیع پسندی سے عبارت ایک اقتصادی نظام دیکھا گیا ہے۔
عراق اور افغانستان میں اپنی غلط مہم جوئی کے بعد امریکی بالادستی کے زوال اور چین اور بھارت کے عروج کے ساتھ، ’’ڈالر راج‘‘ کو شدید چیلنج کیا جا رہا ہے اور وہ دن دور نہیں جب ہم ڈالر کی قدر میں گراوٹ دیکھیں گے۔
تاہم، ہمیں پٹرو ڈالر سے پٹرو یوآن کی طرف بڑھنے کو پسند نہیں کرنا چاہیے۔ دنیا کو ایک ایسا نظام تیار کرنا چاہیے جو منصفانہ اور شفاف ہو اور ایک ایسا ریگولیٹری میکانزم ہو جو عالمی مالیات اور تجارت میں کسی ایک قوم کے ابھرنے اور تسلط جمانے کو روک سکے۔
ممتاز امریکی ماہر معاشیات مائیکل ہڈسن نے ایک مسلط کرنسی کے خارجی منفی مضمرات کو درست طور پر بیان کیا ہے ’’یہ بات عجیب ونامعقول محسوس ہو سکتی ہے کیونکہ یہ عالمی سفارت کاری کا زیادہ منطقی نظام ہو گا۔ ڈالر کی بھرمار کا مطلب یہ ہے کہ اس سے امریکا کی عالمی فوجی تشکیل کو مالی اعانت فراہم ہو گی۔ اس سے غیر ملکی مرکزی بینک امریکا کی وسعت پذیر فوجی سلطنت کے اخراجات برداشت کرنے پر مجبور ہوں گے، جس کا نتیجہ نمائندگی کے بغیر ٹیکس لگانے کی ایک نئی شکل کے طور پر سامنے آئے گا۔ بین الاقوامی محفوظات کو ڈالر میں رکھنے کا مطلب ہے امریکی ٹریژری بلز خریدنے کے لیے ڈالر کی آمد کو ری سائیکل کرنا -1950 میں کوریائی جنگ شروع ہونے کے بعد سے امریکی حکومت کا قرض، جو زیادہ تر فوجی اخراجات کی مالی اعانت کے لیے جاری کیا جاتا ہے، خسارے کی پابجائی کے لیے امریکی بیلنس میں ایک محرک رہا ہے۔
غرض خلاصہ یہ ہے کہ ہمیں ’ڈالر راج‘ کو ختم کرنے کی ضرورت ہے لیکن ’یوآن راج‘ لا کر نہیں۔
***

 

***

 ڈالر کو بے حیثیت کرنے کاعمل دراصل تجارت، محفوظات اور اثاثوں کے لیے ’پسند کی کرنسی‘ کے طور پر
ڈالر کے استعمال کو مقامی کرنسیوں سے تبدیل کرنا ہے۔
ڈالر کا دبدبہ ختم کرنے کا راستہ طویل اور صبرآزما ہے۔
چین تجارتی سودوں میں ڈالر کی جگہ اپنی کرنسی کو فروغ دینے کے لیے تگ ودو کر رہا ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  10 تا 16 اپریل  2022