بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری، فرقہ وارانہ منافرت، حجاب تنازعہ اور روس-یوکرین جنگ پر جماعت اسلامی ہند نے تشویش کا اظہار کیا

نئی دہلی، اپریل 6: جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مشاورتی کونسل (سی اے سی) نے حجاب کے معاملے پر کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے، مہنگائی، بے روزگاری، بڑھتی ہوئی فرقہ وارانہ منافرت اور روس یوکرین جنگ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ مرکزی مشاوتی کونسل ہندوستانی مسلمانوں کی ایک سرکردہ سماجی مذہبی تنظیم جماعت اسلامی ہند کا فیصلہ ساز ادارہ ہے۔

ان مسائل پر بات چیت JIH-CAC کے تین روزہ اجلاس کے دوران ہوئی، جو حال ہی میں امیرِ جماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی کی صدارت میں اختتام پذیر ہوا۔

حجاب کے معاملے پر کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے جے آئی ایچ ایڈوائزری کونسل نے کہا ’’ایک طرف یہ فیصلہ ہندوستان کے آئین کی دفعہ 15 (جو مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کو محفوظ رکھتا ہے) کے بالکل برعکس ہے۔ دوسرے یہ دفعہ 14 (مساوات کا حق)، دفعہ 19 (اظہار رائے کی آزادی)، آرٹیکل دفعہ (رازداری) اور دفعہ 25 (ضمیر کی آزادی) میں درج دیگر بنیادی حقوق کی بھی خلاف ورزی کرتا ہے۔‘‘

کونسل نے مزید کہا ’’خواتین کی تعلیم ہمارے ملک کی اولین ترجیحات میں سے ایک ہے۔ اس کے باوجود یونیفارم کے نام پر طالبات کے لیے اس طرح کی رکاوٹیں پیدا کرنا ملک کے لیے بہت نقصان دہ ہے۔ اس فیصلے نے طالبات کے سامنے حجاب اور تعلیم کے درمیان انتخاب کرنے کا سوال کھڑا کر دیا ہے۔ ملک کی بیٹیوں کو ایسے حالات میں ڈھکیلنا، جہاں انھیں اپنے مذہب اور ضمیر کے مطابق تعلیم اور لباس میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے، ملک کے باضمیر شہریوں کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ عدالت کو اس بات میں الجھنا نہیں چاہیے کہ مذہب میں کیا ضروری ہے اور کیا نہیں ہے۔ یہ علمائے کرام اور مذہبی اسکالرز پر منحصر ہے کہ وہ ایسے مسئلے کا فیصلہ کریں۔‘‘

جے آئی ایچ-سی اے سی نے امید ظاہر کی کہ سپریم کورٹ نچلی عدالت کی طرف سے پیدا کی گئی الجھن کو دور کرتے ہوئے جلد از جلد مسلم طالبات کو اپنی مذہبی شناخت کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے کے بنیادی حق کو بحال کرے گا۔

وہیں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کونسل نے کہا ”پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کے بعد پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کیا گیا ہے، جس سے بنیادی ضروریات کی نقل و حمل مہنگی ہو گئی ہے۔ کھانا پکانے کی گیس، دال، چاول اور روزمرہ استعمال کی دیگر اشیا کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ دودھ، سبزیوں، کوکنگ آئل اور روٹی وغیرہ کی قیمتیں تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ اسی طرح ادویات کی قیمتوں میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے جس سے عام آدمی کے لیے علاج کروانا مشکل ہو گیا ہے۔ مہنگائی پر قابو پا کر شہریوں کو سہولیات فراہم کرنا حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ غیر منصفانہ ٹیکس کی شرح، بلیک مارکیٹنگ، ذخیرہ اندوزی، سرمایہ داروں کے مفادات کے دباؤ میں معاشی پالیسیاں بنانا اور زراعت، زرعی معیشت اور روزگار پیدا کرنے والے دیگر اہم شعبوں کو نظر انداز کرنا، یہ سب مہنگائی کے لیے یکساں طور پر ذمہ دار ہیں۔‘‘

جے آئی ایچ ایڈوائزری کونسل نے حکومت سے ٹیکس کی شرح کو فوری طور پر کم کرنے، پیٹرول اور ڈیزل کو جی ایس ٹی کے تحت لانے اور کھانا پکانے والی گیس پر سبسڈی بحال کرنے کا مطالبہ کیا۔

جے آئی ایچ ایڈوائزری کونسل نے کہا ’’ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری نے مہنگائی سے متاثرہ لوگوں کی زندگی کو مزید بدحال بنا دیا ہے۔ مرکزی حکومت کے دعوؤں کے باوجود نہ تو روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں اور نہ ہی سرکاری اداروں اور کمپنیوں میں خالی نشستوں کو پُر کیا گیا ہے۔

جے آئی ایچ کی مشاورتی کونسل نے مطالبہ کیا کہ آئین کی دفعہ 21 کے تحت ملازمت کو بنیادی حق کے طور پر شمار کیا جانا چاہیے اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کے ذریعے امیر اور غریب کے درمیان فرق کو ختم کیا جانا چاہیے۔

ملک میں زندگی کے مختلف شعبوں میں منصوبہ بند طریقے سے پھیلائی جا رہی نفرت پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے جے آئی ایچ ایڈوائزری کونسل نے کہا ’’آج ہمارے ملک میں، چاہے وہ سیاسی ہو، تعلیمی میدان ہو یا ثقافتی ملاپ کی جگہ یا میڈیا کی نشریات، فرقہ پرستی، نفرت، اشتعال انگیزی اور تفرقہ انگیز چیزیں ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں۔ ملک میں نفرت پھیلانے کے لیے تاریخ کو پامال کیا جا رہا ہے، منصوبہ بند طریقے سے غلط فہمیوں کو بڑھایا جا رہا ہے اور بڑے پیمانے پر جھوٹ اور جعلی خبریں پھیلانے کی دانستہ کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔

دریں اثنا روس یوکرین جنگ پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے جے آئی ایچ ایڈوائزری کونسل نے متحارب ممالک سے اپیل کی کہ وہ فوری جنگ بندی کا اعلان کریں اور اپنے باہمی تنازعات کو پرامن طریقوں اور بامعنی بات چیت سے حل کریں۔

جے آئی ایچ ایڈوائزری کونسل نے اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ بڑی طاقتوں کے مفادات کے تصادم کے دوران شہریوں کی جان و مال کے نقصان کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں۔ اس نے بھارتی حکومت پر بھی زور دیا کہ وہ خطے میں امن کے لیے اپنے سفارتی اثر و رسوخ کا موثر استعمال کرے۔