چین نے کوروناجنگ میں فتح حاصل کرلی!

بھارت کوکامیابی کے لیے امن و امان اوربھائی چارہ کی فضا پیدا کرناضروری

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتہ

صرف بھارت ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کے دماغ میں چین کلبلا رہا ہے۔ کورونا وائرس کی شروعات چین کے صوبہ ووہان سے ہوئی۔ چین نے کورونا وائرس کو قابو میں کرنے میں کسی طرح کی کمی نہیں کی، کمال ہوشیاری سے اسے کنٹرول کیا مگر اس وبا نے دنیا کے ترقی پسند ممالک اور غریب ممالک سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ امریکہ، برطانیہ، اٹلی، اسپین، جاپان، کوریا، کینیڈا اور برازیل ہر ملک میں اس وائرس نے دہشت پھیلائی جس سے اب تک تین لاکھ سے زائد لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔ بعض ممالک نے اس پر قابو پانے کے لیے مکمل لاک ڈاؤن کا نفاذ کیا اور بعض نے جزوی۔ ایک اندازے کے مطابق انڈیا میں اس وبا پر قابو پانے کے لیے جو لاک ڈاؤن کیا گیا تھا اس کی وجہ سے اب تک ۱۳ کروڑ لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں۔ دہلی کی جواہر لال یونیورسٹی میں ڈیولپمنٹ اکانومکس کی پروفیسر جیوتی گھوش کے مطابق لاک ڈاؤن کا نفاذ کرنے میں تاخیر کی گئی اور ایک جمہوری ملک ہوتے ہوئے اپنے کروڑوں غریب مزدوروں کے بارے میں کچھ نہیں سوچا گیا۔ ان مزدوروں کو ۴۵ دنوں تک پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت سے محروم رکھا گیا۔ بھوکے پیاسے لوگ جہاں تھے وہیں پھنسے رہے۔ لاک ڈاؤن کا فیصلہ گھبراہٹ اور جلد بازی میں کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس لاک ڈاؤن سے وبا کو روکنے میں زیادہ کامیابی نہیں ملی مگر دنیا کی اور ہماری دونوں معیشتیں تباہ ہوگئی اور اب جب کہ بیماری شباب پر ہے تو معیشت کو بچانے کے لیے لاک ڈاؤن کو اٹھایا جا رہا ہے۔
لاک ڈاؤن وبا کا علاج نہیں ہے یہ وہ وقت ہوتا ہے جب حکومتیں وائرس سے نمٹنے کے لیے تیاری کرتی ہیں تاکہ طبی بحران سے ملک کو بچایا جا سکے۔ فی الوقت بھارت میں اس وبا سے متاثرہ افراد کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ ہے اور مرض سے ساڑھے چار ہزار لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔ بنگلورو میں بایوکون لمیٹیڈ کے صدر دفتر میں ایگزیکٹیو چیرمین کرن مجمدار شا نے جو بائیو ٹکنالوجی کی ماہر ہیں کہا ہے کہ مزدوروں کی بے قابو نقل مکانی سے انفکشن میں اضافہ ہوگا۔ بہار، اتر پردیش اور راجستھان کو وبا میں ممکنہ اضافہ کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اس کے بر خلاف ووہان کے علاقے میں ۲۰۶ لوگ ابھی حال ہی میں کووڈ-۱۹ انفکشن سے متاثر ہوئے۔ پچھلے دنوں بھی چین نے جم کر ٹیسٹنگ کی تھی اور ابھی حال کے ۱۲ دنوں میں وہاں ۶۷ لاکھ لوگوں کی ٹیسٹنگ کرائی گئی جبکہ ہم ۱۰۰ دنوں میں پورے دیش بھر میں صرف ۳۱ لاکھ ٹیسٹنگ کروا پائے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم طبی بحران سے نبرد آزما ہونے کے معاملے میں کتنے سنجیدہ ہیں۔ معاشی بحران سے نکلنے کا اس وائرس کے قہر نے راستہ ہی نہیں چھوڑا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بھارت ۱۹۵۰ کی طرح ہر طرح کے ذرائع و وسائل سے محروم بہت سارے چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے۔ کیونکہ ہمارے پاس مواقع کو استعمال کرنے کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے جب کہ چین ان دونوں محاذوں پر رہنمائی کے مقام پر فائز نظر آتا ہے اور زیادہ بہتر حال میں ہے۔ بہتر حکم رانی، اچھے قوانین، حالات میں نظم ونسق، انتظامیہ میں چستی، سرمایہ دوست ماحول، ملک کے ہر طبقہ کے ساتھ بقائے باہم، باہمی محبت واحترام،، عالمی سرمایہ کاروں کے لیے کشش کا باعث ہوتا ہے۔ مگر یہ سب ہمارے یہاں عنقا ہیں۔ بھارت کا طبی نظام دباؤ میں ہے، معیشت بد حال ہے۔ معاشرہ منقسم اور خستہ ہے۔ وفاقیت تیزی سے زوال پذیر ہے ملک میں آمریت تیزی سے بڑھ رہی ہے بر آمدات ماہ اپریل میں گزشتہ ۳۰ سالوں میں سب سے خراب رہیں اور محنت کش مہاجر مزدوروں کی نقل مکانی کا کیا کہنا؟ وہ کئی کئی دنوں سے بھوکے ہیں شہر شہر در بدر کی ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں۔ وہ اپنی بیوی بچوں کے ساتھ تپتی سڑکوں پر اور ریل گاڑیوں میں بھوکے پیاسے سفر کرتے ہوئے جو صعوبتیں اور تکلیفیں برداشت کر رہے ہیں اس نے پوری دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس کا مقابلہ چین کے ۱۹۱۹ کے چوتھے مئی کی تحریک سے کیا جا سکتا ہے جو ابھی بھی چینی قوم کو بد ترین دور کی یاد دلاتی رہتی ہے۔ فی الوقت بھارت نے چین کو انسانی ہلاکتوں کی تعداد کے مقابلے میں پس پشت ڈال دیا ہے۔
کورونا قہر کے نازل ہونے سے بہت پہلے سے ہی بھارت کی معیشت قریب المرگ ہو کر نشیب کی طرف لڑھک گئی تھی۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے ملک کو مصائب کے منجدھار سے نکالنے کے لیے ۲۰ لاکھ کروڑ روپیوں کا ایک بڑا ہی اسٹیمولسن پیکیج دیا۔ مگر اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ راحتی پیاکیج کو جی ڈی پی کا ۱۰ فیصد بتایا جا رہا ہے جب کہ وہ اصلاً ۲ فیصد ہی ہے۔ ہماری مرکزی معیشت بہتر حالت میں نہیں ہے بلکہ بری طرح تباہ حال ہے۔ ادھر ملک کو کورونا وائرس سے لڑنے کے لیے ورلڈ بینک کی طرف سے ایک بلین ڈالر کا قرض دوسری قسط کے طور پر دیا جا رہا ہے۔ ملکی ریاستوں کی معیشت بھی خطر ناک حد تک خستہ ہے۔ بھارت کی طرح ساری دنیا اس وبا کی وجہ سے معاشی کشمکش میں الجھ کر رہ گئی ہے۔ امریکہ بری طرح تباہ ہو کر غیر یقینی صورتحال سے دوچار نظر آ رہا ہے۔ مگر چین کی پوزیشن کاروبار اور دیگر شعبوں میں بہتر نظر آ رہی ہے۔ موجودہ حالات میں چین ہر محاذ پر بہت ہی پھونک پھونک کر اور محتاط قدم اٹھا رہا ہے۔ چین کے تجربہ گاہ سے کووڈ-۱۹ کی ابتدا ہوئی ہے اس الزام سے بچنے کے لیے چین بڑی قوت سے سفارتی اور سیاسی تدبیریں کر رہا ہے کیونکہ چین شک کے دائرے میں ہے۔ ادھر امریکہ بین الاقوامی عدالت میں چین کے خلاف مقدمہ چلانے کی تیاری میں ہے۔ امریکہ کی یہ بھی کوشش ہوگی کہ وہ چین کے خلاف عالمی ناکہ بندی میں کامیاب ہو جائے۔
یقیناً چین انوکھے طریقے سے بڑی خود اعتمادی کے ساتھ عالمی سیاست میں اپنی قابل اعتماد سائنس اینڈ ٹکنالوجی اور صنعتی صلاحیت کی بناء پر بہت جلد سوپر پاور بننے جا رہا ہے۔ چین عالمی سپلائی کی بحالی کے لیے نچلی سطح کی مینو فیکچرنگ میں بڑی حکمت اپنا رہا ہے۔ اپنا دبدبہ قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس نے فیصلہ کر لیا ہے کہ مینو فیکچرنگ شعبے میں ترقی یافتہ ٹکنالوجی پر نشانہ لگا کر عالمی رہنما بننے کے خواب کو پورا کر دکھائے گا۔ چین کے ۲۰۳۵ کے منصوبے میں انڈسٹریل انٹرنیٹ آف تھنکس کے ذریعے نئی نسل کے لیے انفارمیشن اور بائیو ٹیکنالوجی میں 5G سپر کمپیوٹنگ، آرٹیفشیل انٹلیجنس (مصنوعی عقل) خود مختار گاڑیاں، روبوٹکس، آٹو میشن بائیو ٹیکس فارما وغیرہ کے ساتھ چوتھے صنعتی انقلاب کا راستہ کھل رہا ہے۔ اس کے علاوہ چین کو ایک عالمی قوانین کی نوشتِ جدیدہ کے ذریعے کووڈ-۱۹ سے تباہ حال صنعتی ممالک پر بھی انٹرنیشنلائزیشن آف چائنیز اسٹینڈرڈ سے ایک طرح کی برتری حاصل ہو جائے گی جس کا اطلاق بغیر انسانی والی گاڑی، نئی مشینیں، سائبر سلامتی (Cyber Security) وغیرہ پر ہوگا۔ اس سے عالمی معیشت میں چین کو برتری حاصل ہونے کا امکان ہے۔
اس کے علاوہ چین وقفے وقفے سے نئے خیالات کو بھی دنیا کے سامنے لاتا رہتا ہے۔ تقریباً ۵ سال قبل چینی صدر زی جن پنگ نے اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی ۲۰۱۵ سے خطاب کرتے ہوئے ایک تصور ’’اے کمیونٹی آف کامن ڈسٹینی آف مین کائنڈ‘‘ پیش کیا تھا جس میں چینی صدر نے معاشی عالمگیریت اور انفارمیشن ٹکنالوجی انقلاب پر اپنے نظریے کو رکھا اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو کے ذریعے پالیسی، اس کا بنیادی ڈھانچہ، تجارت، مالیہ اور فرداً فرداً تعلیم اور سلامتی معاہدے کو اجاگر کیا۔ کمیونسٹ پارٹی آف چائنا ۲۰۱۷ کی ۱۹ویں نیشنل کانگریس میں چین کی عالمی امور میں خاص اہمیت پر بحث کی گئی۔ اس کے بعد چین نے محض معاشی اور ٹکنالوجی میں ترقی کا ذکر نہیں بلکہ یہ بھی واضح کیا ہے کہ نئے عالمی افق پر نئی عالمی ضابطہ بندی کے ذریعے ابھرتے ہوئے شعبوں میں کس طرح رہنمائی کرنا ہے۔ مثلاً سائبر اسپیس(Cyberspace) اور مصنوعی عقل وغیرہ۔
واضح رہے کہ چین بڑی ہوش مندی کے ساتھ کورونا وائرس سے لڑ کر کامیاب وکامران ہوا۔ زخم خوردہ معیشت کو صحت یاب اور مستحکم کرکے صنعت، سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں زور دار دھماکہ کیا جس کی ستائش کرتے ہوئے یوروپی یونین کے وزیر خارجہ جوزف بوریل نے کہا کہ ماہرین جس ’’ایشیائی صدی‘‘ کی آمد کی پیشن گوئی کر رہے تھے اس کا شاید کورونا وائرس کی شکل میں ظہور ہو چکا ہے۔ چنانچہ اب یوروپی یونین کو اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے چین کے حوالے سے ایک مستحکم پالیسی بنانی ہوگی۔ انہوں نے جرمنی کے سفارت کاروں کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ماہرین کافی عرصے سے امریکہ کی سربراہی میں چلنے والے عالمی نظام کے خاتمے اور ایشیائی صدی کی آمد کی باتیں کر رہے تھے۔ موجودہ حالات میں ہم پر کسی ایک سائیڈ کے انتخاب کا دباو بڑھتا جا رہا ہے کیونکہ کوائف بتا رہے ہیں کہ چین عالمی طاقت کے طور پر امریکہ کی جگہ پر براجمان ہونے والا ہے۔ اس لیے یوروپی یونین کو چین کے حوالے سے بہت ہی مضبوط اور مستحکم پالیسی بنانی ہوگی۔ یونین کو اپنے مفادات اور اپنی قدروں کو سامنے رکھنا ہوگا۔ چین کا عروج متاثر کن ہے۔ مگر یوروپی یونین اور چین کے درمیان موجودہ تعلقات میں اعتماد، شفافیت اور باہمی تعاون کا فقدان ہے۔ اگر یوروپی یونین اجتماعی نظم وضبط کے ساتھ چین سے معاملات طے کرے تبھی ہمارے پاس بہتر مواقع ہوں گے۔
کورونا وائرس کے قہر کے درمیان ایک دھیمی آواز بھی سنائی دے رہی ہے۔ چین کی عالمی گھیرا بندی بھی ممکن ہے جس کا فائدہ بھارت کو ہوگا۔ اور یہ تصور غلط بھی ہو سکتا ہے کیونکہ چین نے سالہا سال سے محض فوجی ہی نہیں بلکہ معاشی اور ٹکنیکل میدانوں میں جو کامیابیاں حاصل کی ہیں انہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس وقت چین کو مؤثر ٹکر دینے کے لیے ہمیں بہت اچھی طرح مضبوط منصوبہ بندی کرنی ہوگی تاکہ ہم چین ہی کی طرح سائنس اور ٹکنالوجی کے ذریعے چوتھے صنعتی انقلاب کی طرف گامزن ہو سکیں۔ مگر بد قسمتی سے ایسے ٹکنالوجی کے میدان میں ہم امریکہ، یوروپ اور چین کے مقابلے میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں اگرچہ خود انحصاری کی طاقت ہمارے پاس بہت سارے میدانوں میں موجود ہے۔ مثلاً الکٹرک گاڑیاں، فیول سیل گاڑیاں، الکٹرک اسٹوریج سسٹم، سولار سیل، موڈلس، ایر کرافٹ کے ساتھ روبوٹکس اور آٹو میشن، بائیو ٹیک فارما وغیرہ۔ خود انحصاری کے لیے بہت زیادہ محنت اور مستقل جد وجہد کی ضرورت ہوگی۔ ریاستی فنڈ سے تیار شدہ آر اینڈ ڈی، بنیادی ریسرچ انسٹی ٹیوشن اور یونیورسٹیز کو اپنے جی ڈی پی کا کم از کم چھ فیصد دینا ہوگا محض ایک فیصد سے کام نہیں چلے گا۔ شعبہ تعلیم کی بہتری کے لیے ہنر مندی کی ترقی اور بہتری پر توجہ دینا ہوگا۔ کوئی بھی ملک خود انحصاری کو حاصل نہیں کر سکتا جب تک بہتر نظامِ تعلیم اور مضبوط نظمِ صحت نہ ہو۔
یہ حقیقت ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے چین اور بھارت کی معیشت پر بہت برا اثر پڑا ہے۔ آئی ایم ایف کے اندازے کے مطابق دونوں ملکوں کا شرح نمو 1.8-1 کے درمیان رہ سکتا ہے مگر چین کی معیشت کا جو سائز ہے وہ بھارت کے حق میں نہیں جاتا۔ کورونا وائرس وبا کے بعد بہت سارے ملکوں کے چین سے رخصت ہونے کی وجہ سے بھارت کو جزوی طور پر فائدہ ہو سکتا ہے۔ مگر بھارت ایسے رخصت پزیر ملکوں کو صنعتی ماحول دینے میں کتنا کامیاب ہوگا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ بہت سارے متبادلات ان کمپنیوں کے لیے ہو سکتے ہیں وہ صرف ہمارے یہاں جگہ تلاشی کریں گے یہ سوچنا کچھ زیادہ ہی خوش فہمی پر مبنی ہوگا۔ کیونکہ ہمارے ملک کی فضا امن، سکون، اخوت، بھائی چارگی اور بقائے باہم کے اصولوں سے خالی ہوتی جا رہی ہے۔ ہمارے ملک کا اصل بحران مذہبی منافرت، خوف ودہشت، دنگا فساد، خون خرابہ، مار دھاڑ، قتل وغارت گری کا ہے۔ کوئی بھی ملک ایسے ماحول میں ہمارے یہاں صنعت کاری اور سرمایہ کاری کیوں کرے گا؟ جب تک ملک میں امن وامان قائم نہ ہوگا ملک ترقی کرے گا اور نہ ہی ’’آتم نربھر‘‘(خود مکتفی) ہوگا۔


 

اس لاک ڈاؤن سے وبا کو روکنے میں زیادہ کامیابی نہیں ملی۔ مگر دنیا کی اور ہماری دونوں معیشتیں تباہ ہوگئیں اور اب جب کہ بیماری شباب پر ہے تو معیشت کو بچانے کے لیے لاک ڈاؤن کو اٹھایا جا رہا ہے۔ لاک ڈاؤن وبا کا علاج نہیں ہے یہ وہ وقت ہوتا ہے جب حکومتیں وائرس سے نمٹنے کے لیے تیاری کرتی ہیں تاکہ طبی بحران سے ملک کو بچایا جاسکے۔