چین، بھارت اور نیپال کا سرحدی تنازعہ

نیپال کی بیجنگ سے قربت اور دلّی کےساتھ رویہ تبدیل !

بھارت چین کا سرحدی تنازعہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، 2017 میں ڈوکلام تنازعہ نے اسے اور واضح انداز میں پیش کیا تھا لیکن نیپال اور بھارت کے رشتے چند تنازعات کو چھوڑ کر ہمیشہ خوشگوار رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ’تہذیب، ثقافت، تاریخ اور جغرافیہ کے اعتبار سے کوئی بھی دو ممالک اتنی قربت نہیں رکھتے ہیں جتنا کہ نیپال اور بھارت۔‘ مگر نیپالی کابینہ کے نئے سیاسی نقشے کی توثیق کے بعد جس میں لیپولیکھ، کالا پانی اور لیمپیادرا کو نیپال کا حصہ ظاہر کیا گیا ہے نیپال اور بھارت کے رشتے میں کافی ترشی آئی ہے۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 1850 اور 1856 میں انڈیا اور نیپال کے اہلکاروں نے مل کر ایک نقشہ تیار کیا تھا، ان کے مطابق مہاکالی ندی لمپیا دھورا (کالا پانی سے شمال مغرب میں 16 کلومیٹر دور) سے بہہ کر نکلتی ہے اور سوگولی کے معاہدے میں اس ندی کو دونوں ممالک کی سرحد قرار دیا گیا تھا، جس سے یہ ثابت ہوا تھا کہ کالا پانی نیپال کا حصہ ہے لیکن بھارت اس نقشے کو ثبوت کے طور قبول کرنے سے انکار کرتا ہے، بھارتیہ موقف ہے کہ اس کے بدلے 1857 کے نقشے پر غور کرنا چاہیے جس میں مہا کالی ندی کو کالا پانی کے مشرق میں دکھایا گیا ہے، واضح رہے کہ 1857 کے نقشے پر نیپال کے دستخط نہیں ہیں وہیں جموں وکشمیر کی تقسیم کے وقت جو سیاسی نقشہ جاری کیا گیا تھا اس میں سرکاری طور پر کالا پانی علاقے کو بھارتی سرحد کے اندر دکھایا گیا تھا، نیپال نے چند روز قبل بھارت کے خلاف اس وقت سخت ناراضگی کا اظہار کیا جب وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے آٹھ مئی کو حقیقی کنٹرول لائن پر واقع لیپو لیکھ کے قریب سے ہو کر گزرنے والی اتراکھنڈ۔کیلاش مانسرور سڑک کا افتتاح کیا۔ بھارت کے حالیہ اقدام سے نیپالی عوام کی ناراضگی دور کرنے کے لیے نیپال کے وزیر اعظم کے پی شرما اولی کو ملکی پارلیمان میں یہ وضاحت دینی پڑی کہ ‘نیپال اپنی زمین کا ایک انچ حصہ بھی نہیں چھوڑے گا۔‘ دوسری طرف بھارت نے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اس نے کسی بھی نیپالی علاقے میں مداخلت نہیں کی ہے اور یہ سڑک کیلاش مانسرور کے روایتی یاترا کے روٹ پر ہی تعمیر کی گئی ہے، دوسری جانب نیپال کے وزیر اعظم کے پی اولی نے بھارت کے خلاف جارحانہ بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت سے آنے والا وائرس چین اور اٹلی سے زیادہ مہلک لگ رہا ہے، انہوں نے بھارت پر نیپال میں کورونا وائرس پھیلانے کا الزام بھی عائد کیا۔ نیپال اور بھارت میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے بعد لداخ اور شمالی سکم کے مختلف متنازع علاقوں پر چین اور بھارت میں کشیدگی بتدریج بڑھنے لگی، دونوں ملکوں نے متنازع سرحدی علاقوں میں مزید فوج تعینات کر دی، چین اور بھارت نے دولت بیگ اولڈی، ڈمچوک کے علاوہ دریائے گلوان اور جھیل پانگونگ تسو جیسے حساس علاقوں میں مزید فوجی دستے تعینات کر دیے۔ 9 مئی کو شمالی سکم میں انڈین اور چینی فوجیوں کے درمیان جھڑپ ہوئی تھی۔ اسی دوران لداخ میں ایل اے سی کے قریب چینی فوج کے ہیلی کاپٹر دیکھے گئے۔ اس کے بعد انڈیا نے بھی دوسرے لڑاکا طیاروں بشمول سوکھوئی کے ساتھ فضائی گشتیں لگانا شروع کر دیں۔ اسی دوران آرمی چیف جنرل ایم ایم ناروانے نے کہا کہ "ان جھڑپوں میں دونوں ملکوں کی افواج کے جوانوں کا سلوک جارحانہ تھا لہٰذا انھیں معمولی چوٹیں آئیں ہیں”
نیپال کی اہمیت کی بات کی جائے تو نیپال جنوبی ایشیا میں پہاڑی ملک ہے جس کی شمالی سرحد پر چین اور باقی اطراف پر بھارت واقع ہے۔ سلسلہ کوہ ہمالیہ اس کے شمالی اور مغربی حصہ میں سے گزرتا ہے اور دنیا کا عظیم ترین پہاڑ ماؤنٹ ایورسٹ اس کی سرحدوں میں پایا جاتا ہے۔ یہاں بدھ مت اور ہندو دھرم کے حامیوں کی تعداد برابر ہے۔ نیپال کی دفتری زبان نیپالی ہے مگر یہاں 26 زبانیں بولی جاتی ہیں اور تمام زبانیں قومی زبانیں سمجھی جاتی ہیں ۔ نیپال ایک غریب ملک تصور کیا جاتا ہے،
2019 میں چین کے صدر جن پنگ نے بھارتی دورے کے بعد کھٹمنڈو نیپال کا بھی دورہ کیا تھا، دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تعلقات کو مضبوط کرنے اور ترقی اور باہمی شراکت میں تعاون کرنے پر اتفاق ظاہر کیا گیا تھا۔ اس وقت چینی صدر نے کہا تھا کہ "میں نیپال کے لوگوں کے چہروں پر ہنسی دیکھ سکتا ہوں اور یہ مجھے دوستی کا احساس کراتی ہے امید ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی دوستی بڑھے گی اور اس دورہ سے ہمارے دو طرفہ تعلقات نئی بلندیوں تک پہنچیں گے” جن پنگ گزشتہ 23 برسوں میں نیپال کا دورہ کرنے والے پہلے چینی صدر تھے، گزشتہ چند روز قبل آرمی چیف جنرل ایم ایم ناروانے نے ایک بیان میں نیپال کے اعتراض کو کسی اور کی شہ کا نتیجہ قرار دیا تھا یعنی ان کا اشارہ چین کی طرف تھا جس کے جواب میں نیپال کے وزیر دفاع نے اعتراض کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ بیان ملکی تاریخ کی توہین ہے، یہ تو واضح ہے کہ اس سہ طرفہ سرحدی تنازعے کا لنک ایک دوسرے سے کہیں نہ کہیں ملتا ضرور ہے اور یہ بھی غور طلب ہے کہ بھارت کے اپنے پڑوسی ممالک پاکستان اور چین کے ساتھ ایک عرصے سے جاری سرحدی تنازعات کی فہرست میں نیپال کے شامل ہو جانے سے مودی حکومت کی سر دردی میں
اضافہ ہوا ہے۔
***

 

یہ تو واضح ہے کہ اس سہ طرفہ سرحدی تنازعے کا لنک ایک دوسرے سے کہیں نہ کہیں ملتا ضرور ہے اور یہ بھی غور طلب ہے کہ بھارت کے اپنے پڑوسی ممالک پاکستان اور چین کے ساتھ ایک عرصے سے جاری سرحدی تنازعات کی فہرست میں نیپال کے شامل ہو جانے سے مودی حکومت کی سر دردی میں اضافہ ہوا ہے۔