پنڈت آنند موہن زتشی گلزارؔ دہلوی

... ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

ڈاکٹر تابش مہدی، دلی

لیجیے! کتاب ماضی کے اوراق پلٹ کر، گزرے ہوؤں کی تصویریں دکھانے والے اور ان کے آئینے میں ہندو مسلم اتحاد کا درس دینے والے پنڈت آنند موہن زتشی گلزارؔ دہلوی بھی ہم سے رخصت ہو کر جماعتِ رفتگان میں شامل ہو گئے۔ اب اُنہیں بھی اُسی طرح نئی نسل کے سامنے مثالوں میں داستانِ پارینہ کے طور پر پیش کیا جایا کرے گا، جس طرح سے وہ اپنی گفتگوؤں تقریروں اور مضامین میں موقع بہ موقع ماضی کے اشخاص ورِ جال کو پیش کیا کرتے تھے۔
حضرتِ گلزارؔ دہلوی گرچہ ایک شخص تھے اور اُن کا تعارف ایک شاعر کے طور پر سامنے آتا رہا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے آپ میں ایک انجمن تھے۔ ایسی انجمن جس میں مختلف الجہات شخصیتوں کو دیکھا جا سکتا تھا۔ وہ ایک شاعر بھی تھے اور ایک شعلہ بیان خطیب و مقرر بھی۔ وہ مختلف مذاہب و مسالک کے رمز شناس بھی تھے اور ہندستانی تہذیبوں اورثقافتوں کے عالم بھی۔ وہ سیکولرزم کے علم بردار بھی تھے اور درگاہ حضرت نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ علیہ کے سرگرم حاضر باش بھی۔بل کہ وہ اپنے نام کے ساتھ نظامی کا لاحقہ بھی لگاتے تھے۔جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ وہ ایک کشمیری برہمن تھے، پنڈت ان کے نام کا جزو تھا، لیکن وہ مسلم تہذیب و ثقافت کے بھی عالم تھے۔ارکانِ اسلام سے نہ صرف واقف تھے، بل کہ میں نے کافی دیر تک انہیں ان کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے بھی دیکھااور سنا ہے۔ جہاں کہیں قرآنی آیات آجاتی تھیں، اس طرح تلاوت کرتے تھے، جیسے کوئی مولوی کرتا ہے۔ چند برس پہلے جب جناب انجم عثمانی دور درشن کے ذمے داروں میں تھے، انہوں نے دور درشن پر عید قرباں کے موقعے پر ٹی وی پر ایک نعتیہ مشاعرہ رکھا۔ مشاعرے میں حضرت گلزار دہلوی بھی تھے۔ شروع میں عیدالاضحی کے حوالے سے آدھے گھنٹے کی تقریر بھی تھی۔ تقریر کے لیے کوئی عالم مدعو تھے، وہ کسی وجہ سے بر وقت نہیں آسکے تو تقریر بھی حضرتِ گلزارؔ دہلوی نے فرمائی۔ انجم عثمانی کو ان پر پورا اعتماد تھا۔ انہوں نے عیدالاضحی کی پوری تاریخ، تکبیراتِ تشریق کی اہمیت و معنویت اور قربانی کی ایسی فضیلت بیان کی کہ شاید وہ مولوی صاحب بھی نہ بیان کرسکتے۔
نومبر ۲۰۰۶ میں بہار شریف میں ایک نعتیہ مشاعرہ تھا۔ اس کی صدارت تو پاکستان کے معروف نعت گو حضرت اعجازؔ رحمانی کو کرنی تھی لیکن نظامت کے فرائض حضرتِ گلزارؔ دہلوی کو انجام دینے تھے۔ گلزارؔ صاحب نے فہرست کے مطابق آغاز مشاعرہ کے لیے ایک حافظ قرآن کو دعوت دی۔ وہ حافظ صاحب کسی وجہ سے موجود نہیں تھے۔ گلزارؔ صاحب نے خود ہی تلاوتِ قرآنِ مجید کرکے مشاعرے کا آغاز کردیا۔
وہ اگر کسی مسلم جلسے میں موجود ہوں، وہاں کسی نماز کا وقت ہو جائے اور لوگ مل کر نماز ادا کررہے ہوں تو انہیں شریک جماعت ہونے میں کوئی عذر نہیں ہوتا تھا۔مجھے متعدد بار گلزار صاحب کے دولت خانے پر حاضری کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔ جب بھی کسی پروگرام کے دوران میں یا پروگرام کے پہلے یا بعد میں اُنہیں احساس ہوا کہ نماز کا وقت ہوگیا ہے۔ میں نماز کے بارے میں سوچ رہا ہوں تو وہ فوراً اٹھے بہترین مصلیٰ نکالا اُسے مناسب جگہ پر قبلہ رو بچھادیااور مجھے بلاکر فرمایا: تابش میاں! میں نے مصلّٰی بچھا دیا ہے، آپ نماز پڑھ کر آجائیے۔ جب تک میں نماز میں مشغول رہتا تھا، پروگرام یا تو روک دیتے تھے یا حاضرین کو آہستگی کی تاکید فرمادیتے تھے۔
گلزارؔ دہلوی اسلام اور اسلامی تعلیمات سے کس درجہ تعلق رکھتے تھے، اس کا اندازہ اس وقت بہ خوبی کیا جاسکتا تھا، جب وہ اپنی عام گفتگو میں قرآنی آیات، احادیث رسول اور ملفوظاتِ اکابر اولیاء پیش کرتے تھے۔ برسوں سے ان کے ہاں ماہِ رمضان المبارک میں ایک دن روزہ رواداری کا معمول تھا، اُس دن وہ خود بھی روزہ رکھتے تھے اور بڑی تعداد میں علماء اور قومی و ملّی رہ نماؤں اور شعرا و ادبا کو بھی مدعو کرتے تھے۔
گلزار دہلوی ایک سو تیس کروڑ والی ہندوستانی آبادی میں ایسے ہندو تھے، جسے ہم ہندو مسلم اتحاد کا عظیم نمونہ کہہ سکتے ہیں۔ جب بھی مسلمانوں پر کسی قسم کا کوئی برا وقت آتا تھا وہ تڑپ اٹھتے تھے۔ ان کا یہ رنگ ان کے ان اشعار میں بہ خوبی دیکھا جاسکتا ہے:
فلاحِ آدمیت میں صعوبت سہہ کے مرجانا
یہی ہے کام کر جانا، یہی ہے نام کر جانا
جہاں انسانیت وحشت کے ہاتھوں ذبح ہوتی ہو
وہاں تذلیل ہے جینا، وہاں بہتر ہے مرجانا
ہماری سادہ لوحی تھی، خدا بخشے کہ خوش فہمی
کہ ہر انسان کی صورت کو مافوق البشر جانا
چمن میں اس قدر سہمے ہوئے ہیں آشیاں والے
کہ جگنو کی چمک کو سازش برق و شرر جانا
ہمیں خار وطن گلزارؔ پیارے ہیں گلِ تر سے
کہ ہر ذرّے کو خاکِ ہند کے شمس و قمر جانا
پنڈت آنند موہن گلزار دہلوی ذہنی و فکری طور پر کانگریسی تھے۔ بڑے بڑے کانگریسی رہ نماؤں سے ان کے خانگی مراسم تھے۔ پنڈت جواہر لال نہرو، اندراگاندھی اور لال بہادر شاستری سے ان کے خصوصی مراسم تھے۔ وہ زندگی بھر کانگریسی رہے۔ لیکن ۱۹۹۲ میں بابری مسجد کے ظالمانہ انہدام کے بعد وہ اعلان کر کے کانگریس سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کنارہ کش ہو گئے۔ اس کا نام لینا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔
پنڈت آنند موہن زتشی گلزارؔ دہلوی اُن علماء و صلحا سے قریبی تعلق رکھتے تھے اور ان کی صحبتوں سے فیض اٹھایا تھا، جو اپنے اپنے دور میں آفتاب و ماہ تاب کی حیثیت رکھتے تھے۔ وہ جب بھی ان علماء کا تذکرہ کرتے، پورے ادب و احترام اور ان کے معروف القاب کے ساتھ کرتے تھے۔ ان میں مصور فطرت حضرت خواجہ حسن نظامی، ابوحنیفۂ ہند حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی، سحبان الہند حضرت مولانا احمد سعید دہلوی، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی، مجاہد ملت حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی اور امام الہند حضرت مولانا ابوالکلام آزاد رحمہم اللہ تعالیٰ خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں۔ وہ جب بھی اِن بزرگوں کا ذکر کرتے تھے، اِسی آن بان اور اچھے القاب کے ساتھ کرتے تھے۔ کبھی کبھی ان کی آنکھیں نم ہوجاتی تھیں۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اُنہیں اس لیے بہت پسند تھے کہ وہ خاندانی طور پر دلّی والے تھے۔ ان سے ملاقات کا بھی شرف حاصل تھا۔ فرماتے تھے جو لوگ مودودی کے اسلوب کو سمجھ نہیں سکے انہوں نے بس فتویٰ جڑ دیا۔
حضرتِ گلزارؔ دہلوی دلّی کے کشمیری برہمنوں کے اس خانوادے سے تعلق رکھتے تھے، جن کے اسلاف اپنے علم و فضل کی وجہ سے شاہ جہانی عہد میں مغل شہزادوں کے اتالیق و مربی مقرر تھے۔ اردو کے ساتھ عربی و فارسی میں انہیں مہارتِ تامہ حاصل تھی۔ اِس اعتبار سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ گلزارؔ دہلوی خاندانی طور پر علم و فضل والے تھے اور اردو ان کی گھٹی میں شامل تھی۔ وہ اردو والے بھی تھے اور اردو تہذیب و تمدن والے بھی۔ اردو ہی ان کی زندگی تھی، اور ان کا اوڑھنا بچھونا تھی۔ ان کی زبان پر سبحان اللہ، ما شاء اللہ، اِلّا اللہ، کا مسلسل ورد رہتا تھا۔ یہ صرف مسلمانوں کی محفلوں میں نہیں، غیر مسلموں کی محفلوں میں بھی ان کا یہی انداز ہوتا تھا۔گلزار دہلوی ۷؍جولائی ۱۹۲۶ کو دہلی کے استاذ شاعر اور دہلی یونی ورسٹی میں شعبۂ اردو و فارسی کے استاذ پنڈت تربھون زتشی زارؔ دہلوی کے گھر پیدا ہوئے۔ جو دہلی میں مولوی صاحب کے طور پر جانے اور یاد کیے جاتے تھے۔ وہ فصیح الملک حضرت داغؔ دہلوی کے ارشد تلامذہ میں تھے۔ گلزارؔ صاحب کی والدہ محترمہ برج رانی صاحبہ بھی قادر الکلام شاعرہ تھیں۔ بے زارؔ تخلص کرتی تھیں۔ انہیں بھی حضرت داغؔ سے تلمذ حاصل تھا۔ داغ صاحب کی وفات کے بعد ان کے شاگرد مرزا سائلؔ دہلوی سے وابستہ ہوگئی تھیں۔ گلزارؔ صاحب کے ماموں پنڈت گردھاری لعل عاشقؔ دہلوی بھی اردو کے قادر الکلام شعرا میں تھے۔گلزارؔ دہلوی بہت کم عمری سے شعر گوئی کرنے لگے تھے۔ انہیں جناب سائل دہلوی سے بھی شرفِ تلمذ حاصل تھا اور خواجہ الطاف حسین حالیؔ کے نام ور شاگرد پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفیؔ دہلوی سے بھی۔ وہ اپنے اساتذہ اور مربیوں کا بھی جب کبھی تذکرہ کرتے تو پورے القاب و احترام کے ساتھ کرتے تھے۔ بل کہ وہ خود سراپا ادب و احترام نظر آتے تھے۔ فصیح الملک حضرت داغؔ دہلوی کے شاگردوں کو وہ بالعموم چچا ہی کہتے تھے۔ میں نے اکثر ان کی زبان سے چچا نوحؔ ناروی، چچا احسنؔ مارہروی اور چچا سیمابؔ اکبر آبادی ہی سنا ہے۔ اس لیے کہ یہ سب ان کے استاذِ محترم کے بھی استاذ بھائی (خواجہ تاش) تھے اور ان کے والدِ محترم مولوی زارؔ دہلوی کے بھی۔
گلزارؔ دہلوی دلّی والے تھے، انہیں اس بات پر فخر تھا کہ وہ دہلی والے ہیں۔ وہ خود کو ہمیشہ ’دہلی کا روڑا‘ کہتے تھے۔ انہوں نے اپنے تعارف میں کہاہے:
دس پُشت سے پالا ہے مرے آبا نے
اردو کی حسیں طرز و طرح ڈالی ہے
اردو کے بگڑتے ہوئے ماحول میں بھی
جو لفظ زباں پر ہے، وہ ٹکسالی ہے
گلزار ؔدہلی ایسے دلّی والے تھے کہ انہیں دلّی کی سر زمین سے بھی محبت تھی اور دلّی کے اشخاص و رجال سے بھی، خواہ وہ کسی بھی قوم و ملّت سے تعلق رکھتے ہوں۔ انہیں دلّی کے علما و صوفیا سے بھی محبت تھی اور سادھو سنتوں سے بھی، دلّی کے میلوں ٹھیلوں سے بھی اُنھیں عشق تھا اور دلّی کی زبان و تہذیب سے بھی۔ حتیٰ کہ یہاں کے در و دیوار سے بھی۔ ان سب کے خلاف وہ ایک لفظ بھی سننے کے روادار نہیں تھے۔ خصوصاً اردو تو انہیں جان سے بھی زیادہ عزیز تھی۔ وہ اسے ہندوستان کی شان و آبرو سمجھتے تھے۔ میری اس رائے کی تصویب ان کے درج ذیل قطعوں سے ہو سکتی ہے:
تاریخ وطن، حسنِ وفا ہے اردو
ہر ذرّے پہ بھارت کے فدا ہے اردو
آزادی کی تحریک پہ ڈالو تو نظر
کھل جائے گا یہ راز کہ کیا ہے اردو
اِس دیس کی سب ہم کو زبانیں پیاری
پیارے ہمیں سب دیس کے علم و فن ہیں
تاریخ یہ کہتی ہے وطن کی لیکن
اردو کے جو دشمن ہیں وطن دشمن ہیں
پنڈت آنند موہن زتشی گلزارؔ دہلوی دبستانِ داغؔ دہلوی کے نمایاں اور البیلے سخن ور تھے۔ وہ جب تک زندہ رہے ہندوستان اور ہندوستان سے باہر کے مشاعروں میں اردو اور دبستانِ داغ کی بہترین اور بھر پور ترجمانی کرتے رہے۔ اپنی غزلوں، نظموں اور رباعیات سے سامعین کے دل جیت لیتے تھے۔جس مشاعرے میں بھی جاتے تھے، سامعین بے چینی کے ساتھ ان کی باری کا انتظار کرتے رہتے تھے اور جب باری آتی تھی تو ایک ایک ڈیڑھ گھنٹے تک سامعین انہیں چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتے تھے۔ وہ بھی نہایت کیف و مستی کے ساتھ اُنہیں محظوظ و مسرور کرتے رہتے تھے۔ وہ اپنی اسی خوبی کی وجہ سے دنیا کے اُن تمام ممالک اور شہروں میں مدعو کیے جا چکے تھے، جہاں اردو زبان بولی یا سمجھی جاتی ہے۔ نمونے کے طور پر چند اشعار ملاحظہ کریں:
زندگی راہِ وفا میں جو مٹا دیتے ہیں
نقش الفت کا وہ دنیا میں جما دیتے ہیں
اِس طرح جرم محبت کی سزا دیتے ہیں
وہ جسے اپنا سمجھتے ہیں مٹا دیتے ہیں
دل سلگتا ہے اشک بہتے ہیں
آگ بجھتی نہیں ہے پانی سے
حسرتِ عمر جاوداں لے کر
جارہے ہیں سرائے فانی سے
ہائے کیا دورِ زندگی گزرا
واقعے ہوگئے کہانی سے
کافرِ عشق ہی اچھے تھے صنم خانوں میں
شانِ ایماں نہ ملی صاحبِ ایماں ہو کر
کیا ہوا گر کوئی ہندو کہ مسلماں ٹھہرا
آدمیت کا نہیں پاس جو انساں ہو کر
کیا گلستاں میں نیا حکم زباں بندی ہے
باغباں بھی ہوا صیاد نگہباں ہو کر
میں نے نمونے کے طور پر گلزارؔ دہلوی کے ذخیرۂ شعری سے محض چند اشعار نقل کیے ہیں۔ آپ ان میں عشق و محبت کا روحانی رنگ بھی دیکھیں گے اور تغزل کی وہ چمک بھی جو اچھی شاعری کی پہچان ہے اور اِن میں حالاتِ حاضرہ پر ناقدانہ اشارے بھی ملیں گے اور اتحاد و اتفاق کا واضح درس بھی اِن میں ملے گا۔ یہی ان کی شاعری تھی۔ انہی افکار و خیالات سے ان کی پوری شاعری مہک رہی ہے۔ اس لیے کہ وہ بنیادی طور پر عشق و محبت اور اتحاد و اتفاق کے شاعر تھے۔
مجھے یہ تو یاد نہیں ہے کہ گلزارؔ دہلوی کو میں نے کب جانا یا ان کے نام سے میرے کان کب آشنا ہوئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جب سے میں سنِ شعور کو پہنچا ہوں گلزارؔ دہلوی کا نام سنتا آرہا ہوں۔ اخبارات و جرائد میں گاہے گاہے ان کے تبرکات بھی نگاہ کو روشن کرتے رہے ہیں۔ خصوصاً اُس وقت وہ زیادہ میرے ذہن و دل میں گھر کر گئے، جب ۱۲؍،۱۳؍اپریل ۱۹۷۵ کی درمیانی شب میں پونا (مہاراشٹرا) کے انجمن خیر الاسلام ممبئی کے مشاعرے میں استاذِ محترم مولانا عامر عثمانی( مدیر ماہ نامہ تجلی دیوبند) رحمۃ اللہ علیہ اپنی مشہور و معرکہ آرا نظم ’جسے سحر نگل گئی وہ خواب ڈھونڈتا ہوں میں‘ پڑھ کر بیٹھے اور داعی اجل نے اُنہیں اپنی آغوش میں لے لیا۔ اس مشاعرے کی نظامت جناب گلزارؔ دہلوی نے فرمائی تھی اور کئی منٹ تک اِس نظم پر اظہار خیال فرمایا تھا۔
گلزارؔ صاحب کو دیکھنے، ان کا بالمشافہ کلام سننے اور ان کے سامنے اپنا کلام سنانے کی سعادت مجھے جولائی ۱۹۷۹ میں دہلی کی ایک نشست میں حاصل ہوئی تھی۔ اس کے بعد سے ان سے مسلسل ملاقاتیں رہیں۔ ان کی بے پناہ شفقتیں اور محبتیں میرے ساتھ رہیں۔ متعدد بار ان کے ساتھ دور و نزدیک کے اسفار بھی ہوئے۔ مجھے وہ ہمیشہ اور ہر جگہ ایک مشفق و کرم فرما نظر آئے۔ مجھے وہ اس لیے خصوصیت کے ساتھ عزیز رکھتے تھے کہ میں سلطانِ سخن علامہ شہباز صدیقی امروہوی سے شرفِ تلمذ رکھتا ہوں۔ استاذ محترم کی ان کے ہاں غیر معمولی عظمت تھی۔ وہ بعض فنّی اختلافات کے سلسلے میں ان سے رجوع بھی کرتے رہتے تھے۔ مجھ سے ان کے تعلقِ خاطر کی ہی بات تھی کہ وہ مجھے اپنے ہر چھوٹے بڑے پروگرام میں بہ اصرار مدعو کرتے تھے۔ پروگرام سے پہلے کئی کئی بار فون بھی کرتے تھے اور جب میں پہنچتا تو غیر معمولی محبت و پزیرائی کا معاملہ کرتے تھے۔ مجھے وہ اکثر مولوی تابش مہدی کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔
افسوس ہمارے درمیان سے ایک ایسی شخصیت اٹھ گئی جو ہندوستان جنت نشان میں سیکولرزم اور ہندو مسلم مشترکہ اتحاد کا روشن چراغ تھی۔ جو ہندستان کی شعری و ادبی، علمی و تہذیبی اور مذہبی و روحانی تاریخ کا خزانہ اپنے اندر سمیٹے ہوئے تھی اور اس سے مل کر یا اس کے پاس بیٹھ کر محسوس ہوتا تھا کہ یہ تاریخیں ہمارے اندر جذب ہو رہی ہیں۔ اب ایسی کوئی منفرد شخصیت دور دور تک دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ بہ قول شاد عظیم آبادی:
ڈھونڈوگے ہمیں ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
جو یاد نہ آئے بھول کے پھر اے ہم نفسو! وہ خواب ہیں ہم
***


 

وہ جب بھی اِن بزرگوں کا ذکر کرتے تھے، اِسی آن بان اور اچھی القاب کے ساتھ کرتے تھے۔ کبھی کبھی ان کی آنکھیں نم ہوجاتی تھیں۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒاُنھیں اس لیے بہت پسند تھے کہ وہ خاندانی طور پر دلّی والے تھے۔ ان سے ملاقات کا بھی شرف حاصل تھا۔ فرماتے تھے جو لوگ مودودی کے اسلوب کو سمجھ نہیں سکے انھوں نے بس فتویٰ جڑدیا۔