پنجاب میں کسان تنظیمیں بڑے دھرنے دینے کے لیے متحد، بعض مظاہرین کا کہنا ہے کہ کوویڈ 19 ان کے احتجاج کو خاموش کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے

جالندھر، ستمبر 12: کسان مزدور جدوجہد کمیٹی نے کوویڈ 19 قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ضلع ترن تارن میں دھرنا دیتے ہوئے مرکز اور ریاستی حکومت پر ان کے مظاہروں اور کوششوں کو خاموش کرنے اور دبانے کے لیے وبائی مرض کو استعمال کرنے کا الزام لگایا۔

پنجاب میں کسان تنظیمیں اقتدار میں رہنے والوں تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے بڑے اجتماعات کے انعقاد پر متحد نظر آ رہی ہیں۔ ان سبھی کا کہنا ہے کہ کسان مخالف پالیسیوں سے ہونے والا نقصان ان کے لیے کوویڈ 19 کے مقابلے میں زیادہ بڑا خطرہ ہے۔

کچھ لوگ اس وبائی مرض کو ایک ’’کارپوریٹ سازش‘‘ قرار دیتے ہوئے اسے وبا ماننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ مرکز کے فارم آرڈیننس کے خلاف ان کا احتجاج جاری رکھے گا، خواہ اس سے سماجی دوری کے اصول ہی کیوں نہ ٹوٹیں۔

کسان مزدور جدوجہد کمیٹی ایسی ہی ایک کسان تنظیم ہے جو پنجاب کے نو اضلاع میں بڑے دھرنے کا اہتمام کرتی رہی ہے اور ان میں سے کچھ کی قیادت بغیر ماسک پہنے بچے اور خواتین کر رہی ہیں۔

انڈین ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے کمیٹی کے سربراہ ستنم سنگھ پنّو نے کہا ’’جب سے حکومت نے مارچ میں لاک ڈاؤن کا اعلان کیا ہے، ہم اپنی خواتین اور بچوں کے ساتھ نو اضلاع میں مسلسل مظاہرے کررہے ہیں اور تب سے ہی ہم نے کوئی ماسک نہیں پہنا ہے… حکومتی پالیسیوں کے خلاف ہمارے دھرنے کسی بھی کوویڈ اصولوں پر عمل کیے بغیر معمول کے مطابق جاری رہیں گے۔‘‘

انھوں نے مزید کہا ’’کورونا وائرس سرمایہ دارانہ دنیا کی ایک سازش کے سوا کچھ نہیں ہے اور ہماری حکومتیں انھیں زراعت کے میدان میں داخل ہونے دے کر ان کی حمایت کر رہی ہیں تاکہ کاشت کاروں سے ایک بڑی لوٹ مار ہوسکے۔ وہ پہلے تین زراعت کے آرڈیننس کے ذریعے تجارت میں داخل ہوں گے اور پھر وہ کسانوں کو اپنی زمین بیچنے پر مجبور کریں گے۔‘‘

مالوا میں مقیم ایک اور کسان تنظیم، جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتی ہے، وہ گاؤں کی سطح پر اجلاسوں کا انعقاد کر رہی ہے تاکہ لوگوں کو بتایا جا سکے کہ ’’امیر کارپوریٹ گھرانوں کی مدد کے لیے جان بوجھ کر کوویڈ کا خوف پھیلایا جارہا ہے۔‘‘

اس تنظیم کے ایک سینئر رہنما نے انڈین ایکسپریس سے کہا کہ اگرچہ وہ معاشرتی فاصلاتی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مظاہرے کررہے ہیں، اس کے باوجودہ ان کے کارکنوں میں سے کسی نے بھی کوویڈ 19 کے لیے مثبت تجربہ نہیں کیا ہے۔

کیرتی کسان یونین کے صدر نربھیر سنگھ دوڈائیک نے کہا کہ کورونا وائرس کے خوف سے مرکز کے آرڈیننس کے خلاف احتجاج ختم کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ گندم اور دھان آدھے ایم ایس پی ریٹ پر بیچے جائیں گے اور ان فصلوں کی ذخیرہ اندوزی ہوگی جس کی ان آرڈیننسز سے پہلے اجازت نہیں تھی۔‘‘

بی کے یو اگرہن کے جنرل سکریٹری سکھدیو سنگھ نے کہا کہ وہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ وبائی بیماری ایک خطرہ ہے، لیکن انھوں نے مزید کہا ’’حکومت وبائی مرض کو ایک سنہرے موقع کے طور پر دیکھتی ہے جو میں کارپوریٹیشن اور نجکاری کو فروغ دینے اور کاشتکاری کی پالیسیاں بنانے کا ایک بہت بڑا موقع ہے۔‘‘

دلچسپ بات یہ ہے کہ تمام کسان تنظیمیں مختلف ریاستی پارٹیوں سے سیاسی وابستگی کے باوجود اگلے ہفتے سے مرکز کے زرعی آرڈیننس کے خلاف مظاہرے تیز کرنے کے حق میں ہیں۔