وراثت اور وصیت:اسلام کے تاکیدی احکام

وارثین کی حق تلفی اللہ کے غضب کو بھڑکانے والا گناہ

عتیق احمد شفیق اصلاحی، بریلی

 

اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے جو زندگی کے ہر پہلو میں رہ نمائی کرتا ہے۔ اسلام کا ایک اہم قانون، قانونِ وراثت ہے۔ اسلام کا نظام وراثت ایک منصفانہ نظام ہے جو انسانی فطرت کے عین مطابق ہے۔ وراثت کی تقسیم خاندان کی باہمی کفالت کے اصول پر مبنی ہے جس پر جتنی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس کے مطابق اس کا حصہ متعین کیا گیا ہے۔ اسلام خاندان کے تمام قریب ترین افراد، خواہ مرد ہو یا عورت یا بچہ، سب کا حصہ متعین کرتا ہے۔ اسلام محض بچہ ہونے یا عورت ہونے کی وجہ سے اس کو وراثت سے محروم نہیں کرتا۔ وہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ دولت کا ارتکاز ہو۔ وہ چاہتا ہے کہ دولت گردش میں رہے۔ وراثت کی تقسیم سے بھی یہ مقصد پورا ہوتا ہے اور اس کے ذریعے دولت تقسیم ہو جاتی ہے۔
وراثت:
مرنے والا جو کچھ جائیداد، مال، زمین یا دیگر چیزیں چھوڑ جاتا ہے وہ ترکہ، میراث یا وراثت کہلاتی ہیں۔
وارث:
میت کے وہ رشتہ دار جن کو وفات پانے والے کا مالِ میراث پہنچتا ہے وارث کہلاتے ہیں۔
مورث:
مرنے والا وہ شخص جس کا مال وراثت تقسیم ہوتا ہے۔
فرض:مقررہ حصہ کو کہتے ہیں۔ اس کی جمع فروض ہے۔
صاحب فرض:حصہ پانے والا شخص
اصحاب الفروض/ ذوی الفروض
وہ مرد اور عورت جن کا میت سے نسبی یا ازدواجی رشتہ ہو اور ان کا حصہ متعین ہو، اصحاب الفروض کہلاتے ہیں۔
وراثت کی تقسیم سے قبل کے امور:
ورثہ میں وراثت کے تقسیم کرنے سے پہلے متروکہ مال میں سے تین امور کی انجام دہی ضروری ہے ان کی ادائیگی کے بعد ہی ترکہ تقسیم کیا جائے گا:
۱۔ مرنے والے کے چھوڑے ہوئے مال میں سے اس کی تجہیز و تکفین کی جائے گی۔
۲۔ اگر میت پر قرض تھا تو اس کی ادائیگی کی جائے گی۔
۳۔ مرنے والے نے کوئی وصیت کی ہو تو اسے نافذ کیا جائے گا۔ بشرطے کہ وہ ایک تہائی مال سے زائد نہ ہو اور کسی وارث کی حق تلفی نہ ہو رہی ہو۔
وراثت کی تقسیم کی اہمیت:
تقسیم وراثت کا حکم ایک قرآنی حکم ہے، بعینہٖ اسی طرح جیسے کہ نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج ہیں۔ جس طرح ان کی ادائیگی میں غفلت اور سستی برتنا باعث عذاب ہے ٹھیک اسی طرح وراثت کے تعلق سے سستی، لاپروائی، عدم دل چسپی اور عدمِ ادائیگی باعث عذاب ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی متعدد آیات میں تفصیل اور وضاحت کے ساتھ وراثت کے مسائل اور حق داروں کی فہرست بتا کر ان کا حق متعین فرما دیا ہے۔ مزید یہ کہ ان آیات کے درمیان فریضۃً مِّن اللّٰہ (النساء:۱۱) وصیۃً مِّن اللّٰہ (النساء:۱۲) نصیباً مَّفروضاً (النساء: ۷) یُوصِیْکُمُ اللّٰہ (النساء:۱۱) کے الفاظ سے تاکید فرمائی ہے اور مِمَّا قَلَّ مِنْہٗ أوْکَثُرَ فرما کر یہ بات بھی واضح کر دی گئی ہے کہ مال تھوڑا ہو یا بہت زیادہ، بہر حال اس کو تقسیم ہی کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ’’مردوں کے لیے اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لیے بھی اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، خواہ تھوڑا ہو یا بہت اور یہ حصہ (اللہ کی طرف سے) مقرر ہے‘‘ (النساء:۷)
یُوصِیْکُمُ اللّہُ فِیْ أَوْلاَدِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَیَیْْن (النساء :۱۱)
’’تمہاری اولاد کے بارے میں اللہ تمہیں ہدایت کرتا ہے کہ مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے‘‘
اور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے: ألحِقُوا الفَرائِضَ بِأھْلِھَا (بخاری و مسلم)’’شریعت کے مقررہ حصے ان کے مستحقین تک پہنچا دو۔‘‘ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَۃَ أُوْلُواْ الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِیْنُ فَارْزُقُوہُم مِّنْہُ(النساء :۸)
’’جب وراثت کی تقسیم کے موقع پرکنبہ کے لوگ اور یتیم اور مسکین آئیں تو اس مال میں سے ان کو بھی کچھ دو۔
٭ وارثت کے تعلق سے چند اہم اصول یہ ہیں:
۱۔ وراثت صرف مردوں ہی کا حصہ نہیں بلکہ عورتیں بھی اس کی حق دار ہیں۔
۲۔ وراثت ہر حال میں تقسیم ہونی چاہیے خواہ وہ کتنی ہی کم ہو۔
۳۔ وراثت کا قانون ہر قسم کے اموال و املاک پر جاری ہوگا خواہ وہ منقولہ ہوں یا غیر منقولہ، زرعی ہوں یا صنعتی یا کسی اور صنف مال میں شمار ہوتے ہوں۔
۴۔ وراثت کا حق اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وارث نے کوئی مال چھوڑا ہو۔ کوئی شخص کسی کی زندگی میں اس کا وارث نہیں ہو سکتا۔
۵۔ میت کے مال میں حصہ پانے کی بنیاد میت سے قریب ترین رشتہ ہے اس کی بنیاد صرف رشتہ نہیں ہے اور نہ ہی رشتہ دار کی غربت و ضرورت ہے۔
۶۔ قریب تر رشتہ دار کی موجودگی میں بعید تر رشتہ دار وراثت نہ پائے گا ۔
۷۔ عصبہ میں مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے یہ اس لیے ہے کہ مرد پر گھر کے جملہ اخراجات، بیوی بچوں کے نان و نفقہ اور بچوں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
تقسیم وراثت دخول جنت کا ذریعہ:
قرآن مجید نے وراثت کی ادائیگی کو حدود اللہ قرار دیا ہے اور اس کی ادائیگی پر جنت کی بشارت دی ہے اور ادائیگی نہ کرنے پر جہنم کی سزا سنائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : تِلْکَ حُدُودُ اللّہِ وَمَن یُطِعِ اللّہَ وَرَسُولَہُ یُدْخِلْہُ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الأَنْہَارُ خَالِدِیْنَ فِیْہَا وَذَلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْم (النساء : ۱۳) ’’یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اسے اللہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہے گا اور یہی بڑی کام یابی ہے۔‘‘
عدم تقسیم پر جہنم کی وعید:
اگر وراثت تقسیم نہیں کی جاتی ہے اور کی جاتی ہے لیکن شریعت کے مطابق نہیں تو ایسے لوگوں کے لیے سخت وعید ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں سے تجاوز کرے گا اسے اللہ آگ میں ڈالے گا، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رسوا کن سزا ہے‘‘۔(النساء : ۱۴)
اسلام نے وراثت کی تقسیم کے سلسلے میں جذباتی طور سے بھی متوجہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔: ’لوگوں کو اس بات کا خیا ل کر کے ڈرنا چاہیے کہ اگر وہ خود اپنے پیچھے بے بس اولاد چھوڑتے تو مرتے وقت انہیں اپنے بچوں کے حق میں کیسے کچھ اندیشے لاحق ہوتے۔ پس چاہیے کہ وہ اللہ کا خوف کریں اور راستی کی بات کریں۔ جو لوگ ظلم کے ساتھ یتیموں کے مال کھاتے ہیں درحقیقت وہ اپنے پیٹ آگ سے بھرتے ہیں اور وہ ضرور جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونکے جائیں گے‘‘۔(النساء: ۱۰-۹)
اس آیت میں نفسیاتی اور جذباتی انداز میں آدمی کو اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ وہ حق دار یتیموں کا حق نہ مارے، کیو ں کہ موت کسی کو بھی آسکتی ہے۔ وہ خود تصور کرے کہ اگر خود وہ مر رہا ہو اور اس کی اولاد چھوٹی ہو تو وہ اپنی اولاد کے سلسلے میں کیسا متفکر ہو گا۔ گویا تقسیم ترکہ و وراثت کے وقت موت کو یاد دلا کر انسان کو جھنجھوڑا گیا ہے۔ صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا ہے بلکہ ظلم اور وراثت میں حق تلفی کے انجام سے بھی ڈرایا گیا ہے کہ اگر کوئی حق تلفی کرتا ہے تو در حقیقت وہ آگ کھا رہا ہے اور وہ ضرور دوزخ میں جائے گا۔ دوزخ میں جانا اور آگ کھانا صورتِ حال کی الم ناکی اور ہول ناکی کو واضح کر رہا ہے۔ یہ منظر کشی کر کے انسانوں کو وراثت کے درست قرآنی طریقہ سے تقسیم پر ابھارا گیا ہے۔
تقسیم وراثت کے فوائد:
٭ احکام الہی پر عمل آوری ہوتی ہے۔
٭ اللہ کی رضا نصیب ہوتی ہے۔
٭ جنت حاصل ہوتی ہے۔
٭ دولت کی تقسیم ہوتی ہے۔
٭ مستحقین (ورثہ) مرحوم سے خوش ہوتے ہیں اور اس کے لیے دعائیں کرتے ہیں۔
٭ خاندان جھگڑے اور انتشار سے بچ جاتا ہے۔
وراثت تقسیم نہ کرنے کے نقصانات
٭ قرآن کریم کے حکم کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
٭ آدمی اللہ کے غضب کا مستحق ہوتا ہے۔
٭ دولت کا ارتکاز ہوتا ہے۔
٭ محروم ورثا مرحوم کو بد دعا دیتے ہیں اور قیامت کے دن اللہ کی عدالت میں اس کے خلاف مقدمہ دائر کرنے والے ہوں گے۔
٭ وراثت کی تقسیم نہ کرنا جہنم میں جانے کا سبب بنے گا۔
مستحقین ورثا کی فہرست قرآن کی روشنی میں:
ورثہ کے حصوں کی تفصیل سورہ نساء کی آیات ۱۱،۱۲ اور ۱۷۶ میں مذکور ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’تمہاری اولاد کے بارے میں اللہ تمہیں ہدایت کرتا ہے کہ: مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔ اگر (میت کی وارث) دو سے زائد لڑکیا ں ہوں تو انہیں ترکے کا دو تہائی دیا جائے۔ اور اگر ایک ہی لڑکی وارث ہو تو آدھا ترکہ اس کا ہے۔ اگر میت صاحب اولاد ہو تو اس کے والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملنا چاہئے۔ اور اگر وہ صاحب اولاد نہ ہو اور والدین ہی اس کے وارث ہوں تو ماں کو تیسرا حصہ دیا جائے گا۔ اور اگر میت کے بھائی بہن بھی ہوں تو ماں چھٹے حصہ کی حق دار ہو گی۔ (یہ سب حصے اس وقت نکالے جائیں گے) جب کہ وصیت جو میت نے کی ہو پوری کر دی جائے اور قرض جو اس پر ہو ادا کر دیا جائے۔ تم نہیں جانتے کہ تمہارے ماں باپ اور تمہاری اولاد میں کون بہ لحاظ نفع تم سے قریب تر ہے۔ یہ حصے اللہ نے مقرر کر دیے ہیں اور اللہ یقیناً سب حقیقتوں سے واقف اور ساری مصلحتوں کا جاننے والا ہے۔ اور تمہاری بیویوں نے جو کچھ چھوڑا ہو اس کا آدھا حصہ تمہیں ملے گا اگر وہ بے اولاد ہوں ورنہ اولاد ہونے کی صورت میں ترکہ کا ایک چو تہائی حصہ تمہارا ہے، جب کہ وصیت جو انہوں کی ہو پوری کر دی جائے اور قرض جو انہوں نے چھوڑا ہو ادا کر دیا جائے۔ اور وہ تمہارے ترکہ میں سے چوتھائی کی حق دار ہوں گی اگر تم بے اولاد ہو ورنہ صاحب اولاد ہونے کی صورت میں ان کا حصہ آٹھواں ہو گا بعد اس کے کہ جو وصیت تم نے کی ہو وہ پوری کردی جائے اور جو قرض تم نے چھوڑا ہو وہ ادا کر دیا جائے۔ اور اگر وہ مرد یا عورت (جس کی میراث تقسیم طلب ہے) بے اولاد بھی ہو اور اس کے ماں باپ بھی زندہ نہ ہوں مگر اس کا ایک بھائی یا ایک بہن موجود ہو تو بھائی اور بہن ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا اور بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو کل ترکہ کے ایک تہائی میں وہ سب شریک ہوں گے جب کہ وصیت جو کی گئی ہو پوری کر دی جائے اور قرض جو میت نے چھوڑا ہو ادا کر دیا جائے بشرطے کہ وہ ضرر رساں نہ ہو۔ یہ حکم ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ دانا و بینا اور حلیم ہے۔‘‘(النساء: ۱۱-۱۲)
سورۃ النساء آیت ۱۷۶میں مزید فرمایا گیا: ’’لوگ کلالہ، کے معاملہ میں فتویٰ پو چھتے ہیں۔ کہو! اللہ تمہیں فتویٰ دیتا ہے۔ اگر کوئی شخص بے اولاد مر جائے اور اس کی ایک بہن ہو تو وہ اس کے ترکے میں سے نصف پائے گی اور اگر بہن بے اولاد مر جائے تو بھائی اس کا وارث ہو گا۔ اگر میت کی وارث دو بہنیں ہوں تو وہ تر کے میں سے دو تہائی کی حقدار ہوں گی اور اگر کئی بھائی بہن ہوں تو عورتوں کا اکہرا اور مردوں کا دوہرا حصہ ہو گا۔ اللہ تمہارے لیے احکام کی توضیح کرتا ہے تا کہ تم بھٹکتے نہ پھرو اور اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے‘‘ –
وصیت:
اسلام کے قانون وراثت کا ایک حصہ وصیت ہے۔ یہ بھی اسلام کا ایک اہم قانون ہے۔ وراثت کے احکام کے درمیان بار بار اس کی تاکید کی گئی ہے۔ اپنی کسی چیز کا یا اس کے منافع یا آمدنی کا اپنی وفات کے بعد کسی دوسرے کو بلا عوض مالک بنا دینا وصیت کہلاتا ہے۔ وصیت تجہیز و تکفین اور قرض کی ادائیگی کے بعد ہی جاری ہو گی۔
وصیت کی اہمیت:
اسلام اپنے ماننے والوں کو وصیت کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے:’’تم پر فرض کیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آئے اور وہ اپنے پیچھے مال چھوڑ رہا ہو تو والدین اور رشتہ داروں کے لیے معروف طریقے سے وصیت کرے۔ یہ حق ہے متقی لوگوں پر۔‘‘
(ابقرہ: ۱۸۰)
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ اس کے پاس کوئی چیز ہو جس کے بارے میں وہ وصیت کرنا چاہتا ہو اور اس پر دو راتیں گز ر جائیں مگر اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی نہ ہو۔‘‘ (بخاری ومسلم)
حضرت عبدﷲ ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے سنا رسول اﷲ ﷺ سے، آپؐنے فرمایا کسی مسلمان کے لیے یہ بات درست نہیں ہے کہ جس کے پاس کوئی شے ہو وصیت کرنے کے لیے اور وہ تین راتیں گزار دے اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہونی چاہیے۔ (مسلم کتاب الوصیۃ)
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ ﷺ نے میری عیادت حجۃ الوداع میں کی اور میں درد کی وجہ سے موت کے قریب ہو گیا تھا۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول ﷲ میں جس تکلیف اور درد میں مبتلا ہوں آپ جانتے ہیں، میں مال دار آدمی ہوں اور میرا وارث سوائے ایک بیٹی کے اور کوئی نہیں ہے۔ کیا میں دو تہائی مال خیرات کر دوں؟ آپؐ نے فرمایا نہیں۔ میں نے کہا آدھا مال خیرات کر دوں؟ آپ نے فرمایا نہیں، ایک تہائی خیرات کرو اور ایک تہائی بھی بہت ہے۔ اگر تو اپنے وارثوں کو مال دار چھوڑ جائے تو بہتر ہے اس سے کہ تو ان کو محتاج چھوڑ جائے، لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں اور تو جو خرچ کرے گا ﷲ کی رضا مندی کے لیے اس کا ثواب تجھے ملے گا۔ (مسلم کتاب الوصیۃ)
وصیت کا مقصد:
وصیت کا مقصد یہ کہ ایسے رشتہ دار جو شرعی لحاظ سے وراثت کے حصہ دار نہیں بنتے ہیں، مگر ضرورت مند ہیں ان کے لیے اگر کوئی شخص چاہے تو ایک تہائی مال میں سے وصیت کر سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو لوگ شرعی لحاظ سے حق دار بن رہے ہوں ان کے سلسلہ میں وصیت نہیں کی جائے گی۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے ’’اللہ تعالی نے ہر حق دار کا حق متعین کر دیا ہے اس لیے کسی وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں ہے‘‘ صدقہ جاریہ کی غرض سے جائیداد کا تہائی حصہ اللہ کے راستے میں وقف کرنے کی وصیت کی جاسکتی ہے، تاکہ فرد کی نیکیوں میں اضافہ ہو سکے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : ’’یہ سب حصے اس وقت نکالے جائیں گے جب کہ وصیت جو میت نے کی ہو پوری کردی جائے اور قرض جو اس پر ہے اس کو ادا کر دیا جائے۔ تم نہیں جانتے کہ تمہارے ماں باپ اور تمہاری اولاد میں سے کون بلحاظ نفع تم سے قریب تر ہے۔ یہ حصے اللہ نے مقرر کر دیے ہیں اور اللہ یقیناً سب حقیقتوں سے واقف اور ساری مصلحتوں کا جاننے والا ہے‘‘ (النساء :۱۱)
وصیت میں ضرر گناہ کبیرہ ہے:
اللہ تعالیٰ کا یہ بھی حکم ہے کہ وصیت کرنے کا مقصد کسی کو نقصان پہنچانا نہیں ہونا چاہیے۔ارشاد ہے:’’جب کہ وصیت جو کی گئی ہو پوری کر دی جائے اور قرض جومیت نے چھوڑا ہو ادا کر دیا جائے، بشرطے کہ وہ ضرر رساں نہ ہو۔یہ حکم ہے اللہ کی طرف سے اللہ دانا و بینا اور نرم خوہے‘‘-(النساء: ۱۲)
وصیت میں ضرر رسانی یہ ہے کہ اس طرح وصیت کی جائے کہ اس سے مستحق رشتہ داروں کے حقوق تلف ہوں اور قرض میں ضرر رسانی یہ ہے کہ محض حق داروں کو محروم کرنے کے لیے آدمی خواہ مخواہ ایسے قرض کا اقرار کرے جو اس نے فی الواقع نہ لیا ہو یا کوئی ایسی چال چلے جس سے مقصود ہوکہ حق دار وراثت سے محروم ہو جائیں۔ اس قسم کے ضرر کو گناہ کبیرہ قرار دیا گیا ہے۔
یہ ضرر اور حق تلفی اگرچہ ہر حال میں گناہ ہے، مگر خاص طور پر کلالہ (یعنی جس شخص کی نہ اولاد ہو نہ ماں باپ) کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر اس لیے فرمایا ہے کہ اس صورت میں عموماً یہ میلان پیدا ہو جاتا ہے کہ اپنی جائیداد کو کسی نہ کسی طرح تلف کر دیا جائے تاکہ نسبتاً دور کے رشتہ دارحصہ پانے سے محروم ہو جائیں۔
(دانا و بینا): اللہ کی صفت’ علیم‘ اس بات کو واضح کر رہی ہے کہ اگر اس قانون کی خلاف ورزی کی گئی تو اللہ کی گرفت سے آدمی نہ بچ سکے گا۔ دوسرے یہ کہ اللہ نے جو حصے جس طرح مقرر کیے ہیں وہ بالکل صحیح ہیں کیوں کہ بندوں کی مصلحت جس چیز میں ہے اللہ اس کو خود بندوں سے زیادہ بہتر جانتا ہے۔
دوسری صفت حلیم (نرم خو) سے یہ واضح کرنا مقصد ہے کہ اللہ نے یہ قوانین مقرر کیے ہیں جن میں بندوں کے لیے زیادہ سے زیادہ سہولت ہے تاکہ وہ مشقت اور تنگی میں مبتلا نہ ہوں۔
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 21 فروری تا 27 فروری 2021