وحشیانہ مارپیٹ کے بعد فیضان کی پولیس تحویل میں موت

زبردستی جن گن من پڑھوانے کا ویڈیو مجرموں کے تعاقب کے لیے کافی :سپریم کورٹ ایڈووکیٹ، تشدد میں پولیس کے رول پر ہف پوسٹ کی چشم کشا گرائونڈ رپورٹ

انومیہا یادو

23 سالہ فیضان ایک مسلمان تھا جسے ایک ویڈیو کے اندر پولیس والوں کی بربریت کا شکار ہوتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ پولیس والے اسے پٹائی کے دوران قومی ترانہ پڑھنے پر مجبور کر رہے تھے، جو دہلی پولس کے ذریعہ 36گھنٹوں سے زائد طویل غیر قانونی حراست میں رکھے جانے اور فوری طبی مدد فراہم نہ کیے جانے کے سبب چل بسا، پیش ہے ہف پوسٹ انڈیا کی یہ رپورٹ:
جیسے ہی 28 فروری کو فیضان کی موت کی خبر منظر عام پر آئی، دہلی پولیس نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے ذمہ داری لینے سے انکار کر دیا کہ انہوں نے فیضان کو کبھی بھی حراست میں نہیں رکھا۔
ہف پوسٹ انڈیا نے پولیس اہلکاروں، چشم دید گواہوں، ڈاکٹروں، قانونی رضاکاروں اور فیضان کے اہل خانہ سے بات کی، جنہوں نے پولیس کے دعووں کے برعکس باتیں بتائیں اور ثابت کیا کہ فیضان کی موت پولیس تشدد کے سبب ہوئی بے۔ 24 فروری کو جب پہلی بار اسے زدو کوب کیا گیا تب سے لے کر 26فروری کی 11بجے رات تک، جب تک کہ وہ زخموں کی تاب نہ لاکر چل نہیں بسا، پولیس کے ذریعہ کی گئی کارروائیوں کا براہ راست نتیجہ تھی۔فیضان کی بہن سونم نے بتایا ’’دو دنوں تک وہ لاک اپ میں مدد کے لیے گڑگڑاتا رہا لیکن انہوں نے اسے نہیں چھوڑا‘‘ ۔
فیضان کی 61سالہ ماں قسمتن نے بتایا ’’جب انھوں نے اسے رہا کیا تو اس کا پورا جسم پوری طرح نیلا پڑ چکا تھا۔ اس کے کان اور سر پر ٹانکے لگے ہوئے تھے، پولیس والوں نے اس کے منھ میں لاٹھی ڈال دی تھی جس کی وجہ سے وہ اس قدر تکلیف میں تھا کہ جب ہم اسے گھر واپس لائے تو وہ پانی یا دودھ بھی نہیں نگل پا رہا تھا‘‘۔
جس طرح کے واقعے میں فیضان کی جان گئی ہے اسی طرح کا واقعہ ایک اور نوجوان کے ساتھ بھی پیش آیا، جو پولیس کی بربریت اور ظلم و زیادتی کا شکار ہوا اور اسے بھی اسی طرح کے زخم آئے لیکن وہ طبی امداد لینے سے گھبراتا ہے کیونکہ اسے پولیس کے انتقام کا خدشہ ہے۔
اب ذیل میں، فیضان کی موت کا سبب بننے والے کچھ واقعات کا ذکر، جو بتاتے ہیں کہ کس طرح دہلی پولیس کے کچھ اہلکاروں نے فرقہ وارانہ فسادات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور 23فروری سے 27 فروری 2020کے درمیان ہونی والی ہلاکتوں اور تشدد کے لیے براہ راست ذمہ دار ہیں۔ دہلی پولیس مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کو رپورٹ کرتی ہے۔ بی جے کے مرکزی وزیر مملکت برائے خزانہ انوراگ ٹھاکر اور دہلی کے انتخابی امیدوار کپل مشرا پر سپریم کورٹ میں دائر ایک عرضداشت میں فسادات سے عین قبل اشتعال انگیز تقریریں کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں نے فسادات کے دوران دہلی پولیس کی کارروائیوں کی روشنی میں شاہ کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔
ڈپٹی کمشنر آف پولیس (نارتھ ایسٹ دہلی) وید پرکاش سوریہ نے اس رپورٹر کے فون کالوں اور ہف پوسٹ انڈیا کی فائنڈنگس پر تبصرہ کرنے کے لیے اس کی ایس ایم ایس درخواستوں کا کوئی جواب نہیں دیا۔ ڈی سی پی سوریہ نے ان سوالوں کا جواب بھی نہیں دیا کہ آیا فیضان کی موت کی وجوہات بننے والے حالات کے بارے میں پولیس باضابطہ طور پر تفتیش کرے گی۔چوبیس فروری کو شمال مشرقی دہلی کے پڑوس میں واقع کردمپوری علاقے میں متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ہونے والے احتجاجی دھرنے کا 45واں دن مکمل ہوگیا تھا جب وہاں کے رہائشیوں کے بقول ان پر سڑک کے پار سے پتھروں کی بارش کردی گئی۔
کردمپوری میں پتھراو شہر کے اس حصے میں پھیلتے فسادات کی لہر کا ایک حصہ تھا۔ جب سڑک پر دھرنا دینے والے رہائشیوں جن میں بیشتر مسلمان تھے نے دیکھا تو ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے پولیس والوں کو مردوں کے ایک گروہ کے ساتھ کھڑے دیکھا جو پتھر بازی کر رہے تھے۔ فیضان کی ماں قسمتن نے جو احتجاجی دھرنے میں شامل تھی بتایا کہ ان کا بیٹا ان کی تلاش میں احتجاجی مقام پر پہنچا تھا۔مذکورہ بالا نوجوان جس کا نام نہیں بتایا جا رہا ہے، اس نے کہا کہ شام چار بجے کے قریب پولیس کی وردی میں ملبوس لوگوں نے کردمپوری محلہ کلینک کے باہر اس کو اور فیضان سمیت دیگر افراد کو بری طرح مارنا شروع کردیا۔اس نے بتایا کہ ٹھیٹھ ہریانوی لب و لہجہ کے ایک پولس اہلکار نے جو کوئی بیاچ بھی نہیں لگائے ہوئے تھا، اس نے ہمیں مجبور کیا کہ اگر ہم آزادی چاہتے ہیں تو قومی ترانہ گائیں۔آزادی سی اے اے کے خلاف بہت سے احتجاجوں میں ایک نعرہ بن چکا ہے۔
چشم دید گواہ اور تشدد کا نشانہ بننے والے اس نوجوان نے بتایا، ’’ایک زخمی شخص اسے صحیح طریقے سے نہیں گا سکا جس پر پولیس اہلکار غصے سے بھڑک اٹھا اور چیخنے چلانے لگا اور کہنے لگا کہ ہمیں قومی ترانہ تک نہیں معلوم ہے تو ہم کیسی ’’آزادی‘‘ چاہتے ہیں؟‘‘ اس نے مزید کہا کہ ان کے اوپر کھڑے پولیس اہلکاروں میں سے ایک نے متعدد ویڈیو کلپس بنائیں۔ ان میں سے ایک ویڈیو کلپ تیزی سے وائرل ہوگئی۔ ویڈیو کلپ کے حقیقی ہونے کی تصدیق حقائق کی جانچ کرنے والی سائٹ آلٹ نیوز نے اسی واقعے کی دوسرے زاویے سے بنائی گئی ایک اور ویڈیو سے موازنہ کرکے کی ہے۔
اس متاثر شخص نے بتایا ‘‘پولیس اہلکاروں نے زخمی ہونے والے ایک شخص کے منہ میں ایک لاٹھی ڈال دی، اس کی سانس روک دی۔ انہوں نے مجھے اس وقت تک مارا جب تک کہ میں بظاہر ہوش میں رہا اور پھر مجھے روڈ پر گھسیٹ ایک جپسی کی طرف لے گئے۔ انہوں نے ہمیں سڑک پر چند میٹر تک ایسے گھسیٹا جیسے ہم انسان نہیں کوئی جانور ہوں، اس سے میری بائیں کنپٹی اور آنکھ چِھل گئی۔’’ سڑک پر زدوکوب کیے جانے کے بعد فیضان سمیت سبھی کو پولیس جپسی میں گرو تیغ بہادر اسپتال لے جایا گیا۔ ابتدائی طبی معائنہ کیا گیا، اور فیضان کے سر پر ٹانکے لگے۔
ہف پوسٹ انڈیا جی ٹی بی اسپتال کے تیار کردہ فیضان کے میڈیکو لیگل سرٹیفکیٹ کی کاپی تک رسائی حاصل نہیں کر سکا، تاہم لوک نائک جے پرکاش نارائن اسپتال میں تعینات دہلی پولیس کے اسسٹنٹ سب انسپکٹر نریندر رانا کے پاس سے اس سرٹیفکٹ کا نمبرD-23-113844272حاصل کر لیا۔ فیضان کے اہل خانہ نے بتایا کہ اسپتال نے انہیں سرٹیفکیٹ کی ایک کاپی ابھی فراہم نہیں کی ہے۔ میڈیکو لیگل سرٹیفکیٹ یا ایم ایل سی ایک قانونی دستاویز ہوتا ہے جسے ان اسپتالوں سے جاری کیا جاتا ہے جہاں زخمی مریضوں کو لایا جاتا ہے۔
ایک بار جب فیضان اور دیگر افراد کو بالکل ابتدائی فرسٹ ایڈ مل گیا تو عینی شاہد کا کہنا ہے کہ انہیں جیوتی نگر پولیس اسٹیشن لے جایا گیا اور لاک اپ میں بند کر دیا گیا۔اگلے دن 25فروری کی صبح فیضان اور عینی شاہد کو ایک ہی کوٹھری میں رکھا گیا تھا۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ دونوں پہلے سے ایک دوسرے کو نہیں جانتے تھے۔ ایک دوسرے چشم دید گواہ نے بتایا کہ وہ فیضان اور پہلے عینی شاہد کی طرح ہی جیوتی نگر پولیس اسٹیشن کے اسی سیل میں تھا۔ اس نے بتایا کہ ’’وہ دونوں چل بھی نہیں سکتے تھے کیونکہ انہیں سخت چوٹیں آئیں تھیں۔ مجھے 25فروری کو ان دونوں کو بیت الخلا جانے میں مدد کرنی پڑی۔ لاک اپ کے اندر فیضان نے پانی پینے کی کوشش کی لیکن اس نے قئے کر دی۔ دوپہر تک اس کی تکلیف بڑھتی چلی گئی‘‘۔
اس دوسرے عینی شاہد نے بتایا کہ وہ ’’قومی ترانے کی ویڈیو‘‘ میں نہیں تھا لیکن 24فروری کو دہلی پولیس نے اسے بھی زدوکوب کیا تھا۔
دوسرے عینی شاہد نے بتایا ’’جب چوبیس فروری کو سہ پہر سے پتھراو اور آنسو گیس کی شیلنگ شروع ہوئی تو میں اپنے آپ کو بچانے کے لیے عوامی بیت الخلا میں چھپ گیا۔ کچھ پولیس والوں نے مجھے باہر آتے دیکھا اور سڑک پر ہی مجھے پیٹنا شروع کر دیا۔ پولیس نے مجھے ایک بس میں بٹھایا اور مجھے جیوتی نگر لے آئی جہاں مجھے بند کردیا گیا۔ اگلی صبح فیضان اور دوسرے شخص کو میرے جیسے ہی سیل میں منتقل کردیا گیا۔
ایک دوسرے عینی شاہد نے بتایا کہ 25 فروری کی رات کو ساڑھے دس بجے جیوتی نگر پولیس اسٹیشن کے اسٹیشن ہاؤس آفیسر شیلندر تومر نے سبھی لوگوں کو بلایا، ان سے ان کے نام ان کے والد کے نام اور ان کے پتے پوچھے۔اس کے بعد دوسرے عینی شاہد کو یاد آیا کہ تومر کے پاس عام آدمی پارٹی کے میونسپل کونسلر ساجد خان کا فون آیا تھا۔
دوسرے عینی شاہد نے بتایا کہ رات دیر گئے ہم تینوں افراد کو گھر والوں کے حوالے کر دیا گیا۔ ہم آٹو رکشہ میں 26 فروری کی صبح ایک بجے کردمپوری واپس آئے۔جب کہ پولیس یہ کہنے سے ہچکچائی کہ فیضان کی حالت لاک اپ میں تیزی سے خراب ہوئی۔
ایس ایچ او تومر نے تصدیق کی کہ ان افراد کو 24 فروری کو ان کے اسٹیشن لایا گیا تھا لیکن انھوں نے دعویٰ کیا کہ انہیں اسی رات رہا کر دیا گیا تھا۔
تومر نے جمعہ کے روز 28 فروری کو ہف پوسٹ انڈیا کو بتایا کہ یہ لوگ فساد کرنے کے قصوروار پائے گئے تھے۔ 24 فروری کی شام کو انہیں گرو تیغ بہادر اسپتال لے جایا گیا تھا اور پھر انہیں تھانے لایا گیا، لیکن ہم نے ان کے اہل خانہ کو اسی رات انھیں لے جانے کی اجازت دے دی تھی اور ان میں سے کسی کو بھی یہاں نہیں رکھا گیا۔عینی شاہدین اور فیضان کے اہل خانہ کے بیانات تومر کے بیان سے مختلف ہیں۔فیضان کی 61 سالہ ماں قسمتن نے بتایا کہ اسے پہلی بار معلوم ہوا کہ اس کے بیٹے کو پولیس نے اس وقت اٹھایا جب اس کے پڑوسی نے 24 فروری کو اسے گرو تیغ بہادر اسپتال میں دیکھا۔
قسمتن نے بتایا کہ اسی شام وہ پہلے اسپتال گئی تھی لیکن فیضان کو نہیں پایا۔ وہ اپنے بیٹے کی تلاش کے لیے 24 فروری کی رات سے لے کر 25 فروری کی رات تک تین الگ الگ مواقع پر جیوتی نگر پولیس اسٹیشن گئی۔ قسمتن نے بتایا کہ پولیس اہلکاروں نے تصدیق کی کہ اس کا بیٹا پولیس تحویل میں ہے لیکن انہوں نے اس سے ملنے نہیں دیا۔
قسمتن بتاتی ہے کہ ‘‘چوبیس فروری کی رات میں نے انہیں فیضان کی تصویر دکھائی۔ جیوتی نگر اسٹیشن کے پولیس اہلکاروں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ اندر ہے لیکن انہوں نے مجھے اس سے ملنے نہیں دیا۔ ایک اور فیملی اپنے بیٹے کے انتظار میں وہاں کھڑی تھی جسے انہوں نے جانے دیا تو میں نے ان سے پوچھا کہ وہ فیضان کو جانے کیوں نہیں دے رہے ہیں تو انہوں نے مجھے بتایا کہ دوسرے لڑکے کی حالت اتنی نازک ہے کہ وہ اسٹیشن کے اندر ہی دم توڑ سکتا تھا لیکن میرا بچہ ٹھیک ہے۔ میں نے التجا کی کہ مجھے ایک بار اس سے ملنے دو لیکن انہوں نے انکار کر دیا، انہوں نے مجھے چلے جانے کو کہا۔ میں رات 1 بجے تک وہاں کھڑی رہی۔
پچیس فروری کو صبح 8 بجے قسمتن جیوتی نگر تھانے میں واپس آئی لیکن پولیس نے اس کی بات سننے سے انکار کر دیا۔ وہ اسی دن دوپہر کو تیسری بار وہاں گئی وہاں اس بار پہلے عینی شاہد کے چچا اور دوسرے عینی شاہد کے ایک رشتہ دار بھی تھے۔قسمتن نے بتایا کہ اس نے اپنے بیٹے کی بے گناہی کی التجا کی لیکن پولیس نے اسے وہاں سے چلے جانے کے لیے کہا اور دھمکی دی کہ اس کو اور اس کے ساتھ وہاں جانے والوں کو بھی گرفتار کر لیا جائے۔قسمتن کے پڑوسی ابرار خان نے اس بیان کی تصدیق کی کہ فیضان اور جیل میں بند اس کے دیگر ساتھیوں کو 25 فروری اور 26 فروری کی درمیانی شب عام آدمی پارٹی کے کونسلر ساجد خان کی مداخلت کے بعد رہا کیا گیا۔ ابرار خان نے بتایا کہ ایس ایچ او تومر نے 25 فروری کی رات تقریبا ساڑھے 10 بجے ساجد خان کو فون کیا اور کونسلر سے کہا کہ فیضان اور اس کے ساتھیوں کے اہل خانہ کو جیوتی نگر پولیس اسٹیشن پہنچنے کے لیے کہا جائے تاکہ وہ اپنے بچوں کو واپس لے جائیں۔ ابرار خان نے بتایا کہ’’میں نےاولا آٹو رکشہ چلانے والے اپنے ایک ہندو پڑوسی شیلیش سے درخواست کی، شیلیش تین رشتہ دار عورتوں کو جیوتی نگر تک لے گیا۔‘‘
ساجد خان کے ایک قریبی شخص نے تصدیق کی کہ کونسلر نے ایس ایچ او تومر سے فیضان کی رہائی کے بارے میں 25 فروری کو گفتگو کی تھی۔
قسمتن نے بتایا کہ پولیس نے فیضان کو اس کے حوالے کرنے سے پہلے اس کا انگوٹھے کا نشان کاغذ کے ایک ٹکڑے پر لیا تھا لیکن اس کاغذ کی کوئی نقل انہیں نہیں دی۔ فیضان اور ان دونوں عینی شاہدین کو شیلیش کے آٹو رکشہ میں ڈال کر کردمپوری واقع ان کے گھر واپس لایا گیا۔
جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے، قسمتن کا کہنا ہے کہ ان کے بیٹے کا جسم اسی وقت نیلا پڑ گیا تھا جب پولس نے اسے چھوڑا تھا۔اس نے بتایا کہ فیضان کے کان اور سر پر ٹانکے لگے تھے۔ پولیس والوں نے اس کے گلے میں لاٹھی ڈال کر اسے مارا تھا۔ جب ہم 26 فروری کو رات 1 بجے گھر واپس آئے تو اسے اتنی تکلیف تھی کہ وہ پانی یا دودھ جیسی سیال چیزیں بھی گھونٹ نہیں سکتا تھا۔ اس وقت تک فیضان کو پولیس کے زدوکوب کا شکار بنے ڈیڑھ دن گزر چکا تھا۔ قسمتن کہتی ہیں کہ فیضان کی حالت لگاتار خراب ہوتی جا رہی تھی۔ وہ درد کے مارے کبھی اٹھتا کبھی بیٹھ جاتا۔
ذمہ دار کون؟
چھبیس فروری کی صبح قسمتن فیضان کو ڈاکٹر شیروانی کے پاس لے گئی جو کردمپوری میں کلینک چلانے والے ایک فزیشین ہیں۔ ڈاکٹر شیروانی نے بتایا کہ جب وہ فیضان کا معائنہ کر رہے تھے تو وہ بڑی مشکل سے جواب دے پا رہا تھا۔شیروانی نے بتایا کہ ’’اس کی نبض ختم ہوتی جارہی تھی، اس کا بلڈ پریشر گر گیا تھا۔ اس کے سر پر ایک کھلا ہوا زخم تھا اور ہر جگہ خون کے گتے جمے ہوئے تھے۔‘‘ ڈاکٹر شیروانی نے کہا کہ پٹائی کے دوران فیضان کو اندرونی طور پر چوٹیں آئی تھیں اور خون بہہ رہا تھا جس کا پتہ اس وقت نہیں چل سکا جب پولیس اسے گرو تیغ بہادر اسپتال لے گئی تھی۔شیروانی نے بتایا کہ ’’جی ٹی بی میں داخلی چوٹوں کے لیے اس کا اسکین نہیں کیا گیا اور پیچیدگیوں کا پتہ نہیں چل سکا۔ میں نے اس کی فیملی سے کہا کہ فوراً کسی سرکاری اسپتال لے جائیں اور ایمبولینس کو کال کر دیا۔‘‘
فیضان کے اہل خانہ نے اسے دوپہر تک لوک نائک جے پرکاش نارائن اسپتال پہنچایا۔ حقیقت یہ ہے کہ ابتدائی طور پر گرو تیغ بہادر میں اس کا معائنہ کیا گیا تھا لیکن اس کے علاج میں تاخیر ہوئی۔ ان کی آمد کی تصدیق لوک نائک اسپتال کے قانونی رضاکار دھرو ایس نے ہف پوسٹ انڈیا کے سامنے کی۔وہاں تعینات پولیس اہلکار نے کہا کہ یہ ایک میڈیکیو قانونی معاملہ تھا۔ فیضان کو پیر کو جی ٹی بی اسپتال کی موجودہ ایم ایل سی کی بنیاد پر ایڈمٹ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ کیوں کہ اس کا مطلب یہ ہوتا کہ وہ اسپتال کے ریکارڈ کے مطابق لاپتہ یا فرار تھا۔ دھرو ایس نے مجھے بتایا، اگرچہ ہم نے دیکھا کہ وہ پیدل چلنے حالت میں بھی نہیں تھا۔ایل این جے پی اسپتال میں تعینات اسسٹنٹ سب انسپکٹر نریندر رانا نے بتایا کہ فیضان کو ایڈمٹ نہیں کیا جا سکتا تھا کیوں اس کے لیے 24 فروری سے جی ٹی بی اسپتال کی ایک ایل سی پہلے سے موجود تھی۔تب ایک رضاکار سماجی کارکن نے چیف کیزوئلٹی آفیسر سے درخواست کی، جس نے فیضانW کو بنیادی علاج کے لیے داخل کرانے میں مدد کی۔ اس کی ماں کے مطابق ایل این جے پی کے وارڈ میں فیضان کو ایک گلوکوز ڈرپ دیا گیا۔قسمتن نے بتایا کہ ’’اس کا درد اس قدر بڑھ گیا کہ وہ پورے جسم کا ایکسرے کرانے کے لیے چند منٹ بھی لیٹ نہیں سکتا تھا۔‘‘
فیضان کا 26 فروری کو اسی روز گیارہ بجے انتقال ہو گیا۔ اگلے دن پولیس نے فیضان کی موت سے متعلق ایف آئی آر درج کی، لیکن اس نے اس کے اہل خانہ کو اس کی کوئی نقل دینے سے انکار کردیا۔فیضان کے اہل خانہ کو اس کی لاش کردمپوری میں ان کے گھر پر 29 فروری کو ملی۔فیضان کی موت کے بعد متعدد پولیس افسران نے اس بات پر ماتھا پچی کی کہ کون سا پولیس اسٹیشن اس کی لاش ریلیز کرنے کی خاطر کاغذی کارروائی کے لیے ذمہ دار ہوگا۔جیوتی نگر کے ایس ایچ او تومر نے کہا کہ حملہ کے ابتدائی واقعے کو ملحقہ اسٹیشن بھجن پورہ کی پولیس کے ماتحت ایک علاقے میں فلمایا گیا تھا۔بھجن پورہ پولیس اسٹیشن کے اسٹیشن ہاؤس آفیسر آر ایس مینا نے بتایا کہ یہ جیوتی نگر پولیس اسٹیشن کی پولیس تھی جو ان افراد کو جی ٹی بی اسپتال لے گئی تھی اور وہی ذمہ دار ہیں۔ مینا نے کہا کہ یہ ایک ایسا واقعہ تھا جس کے بارے میں انہوں نے ہمیں آگاہ کیا اور ہمیں اس کا کچھ پتہ نہیں تھا۔آخر کار کنبہ کو 28 فروری کو عدالت میں جانا پڑا۔ 29 فروری کو ایک حکم کے تحت کرکڑڈوما میں چیف میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ عدالت نے بھجن پورہ پولیس اسٹیشن کو ویڈیو شوٹنگ کے ساتھ پوسٹ مارٹم میں مدد کرنے کی ہدایت کی۔ تفتیشی افسر مالتی بانا نے بتایا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ اہل خانہ کو دو ہفتوں میں دے دی جائے گی۔
پریشان کن ترتیب
قانونی ماہرین نے فیضان کے کیس میں دہلی پولیس کی کارروائیوں اور بظاہر من مانا رویہ پر، جس میں اسے جیوتی نگر پولیس اسٹیشن میں رکھا گیا اور پھر رہا کیا گیا، پر سوال اٹھائے ہیں۔سپریم کورٹ کی ایک سینئر وکیل ربیکا جان کے مطابق قانون کہتا ہے کہ آپ کسی کو ریکارڈ کے بغیر تھانے میں نہیں رکھ سکتے۔ اگر آپ نے کسی کو پوچھ گچھ کے لیے بلایا ہے، جیسے کہ اگر کوئی زخمی شخص ہے جس پر آپ کو شک ہے کہ وہ فسادات میں ملوث ہے تو آپ اس کو گرفتار کرلیں۔ آپ اس کو محض تحویل میں نہیں رکھ سکتے۔ چاہے وہ گواہ ہوں یا کوئی ملزم۔ریبیکا جان کہتی ہیں کہ اگر حراست میں کوئی زخمی ہو تو اس طرح کے واقعات میں انہیں علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ ریبیکا جان کہتی ہیں کہ ’’قانونی نظام اور طبی نظام کو کسی شہری کی حفاظت کے لیے تیار کیا جانا چاہیے، کسی شہری کو مارنے کے لیے نہیں۔ لیکن یہاں نظام نے ایک نوجوان کی موت کو ہی یقینی بنا دیا ہے‘‘
حقیقت یہ ہے کہ فیضان کے اہل خانہ کے لیے فیضان کی حراست اور رہائی سے متعلق پولیس سے کوئی دستاویزات نہ ملنا پریشان کن ہے۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ یہ پولیس کے قصوروار ہونے کا مظاہرہ ہے۔ سپریم کورٹ کی ایڈووکیٹ ربیکا جان نے کہا ’’مجھے امید ہے کہ دوسرے افراد جو فیضان کے ساتھ تھے وہ گواہی دینے کے اہل ہیں کہ وہ زیرحراست تھے۔ یہ بالکل ہاشم پورہ فسادات کے طرز کا معاملہ ہے جہاں پولیس نے واقعے کے وجود سے ہی انکار کی کوشش کی تھی۔ لیکن یہ ویڈیو پولیس کو بہت نقصان پہنچانے والی ہے۔ نئے پولیس کمشنر کو فوری طور پر جانچ کے احکامات جاری کرنے چاہئیں۔‘‘