ناموں کی تبدیلی یا تاریخ کا الٹ پھیر

اورنگ آباد اور عثمان آباد کا نام بدلنے کی تحریک 3دہوں سے جاری

سید افتخار احمد، مہاراشٹرا

 

تہذیبیں بنتی ہیں، سنورتی ہیں، ٹکراؤ ہوتا ہے۔ فاتح اقوام اپنی تہذیب و تمدن کو رواج دیتی ہیں۔ یہی زمانے کا دستور ہے اور یہی قوموں اور ان کی تہذیبوں کا اتار چڑھاؤ ہے۔
جب کوئی نئی تہذیب بام عروج پر پہنچتی ہے تو ظاہر ہے کہ وہ اپنی تہذیبی و ثقافتی اقدار کو رواج دینا چاہتی ہے۔ نئے شہر بسائے جاتے ہیں۔ پرانے شہروں کو نئے نام دیے جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہتا ہے اور ہمیشہ چلتا رہے گا اس لیے کہ یہ بھی تہذیبوں کے عروج و زوال کا ایک حصہ ہے۔ کبھی پرانے شہروں کو نئے نام دیے جاتے ہیں یا ان کے ان قدیم ناموں کو بحال کیا جاتا ہے جو فاتح قوم کے تمدن کا حصہ ہوا کرتے تھے۔
ہمارے ملک میں یہ عمل آزادی کے بعد سے ہی شروع ہوا۔ یہ الگ بات ہے کہ کبھی بڑے پیمانے پر ان پر عمل نہیں کیا گیا۔ ہو سکتا ہے کہ اس کی وجوہات دوسری ہوں۔ جب سے مرکز میں بی جے پی کی حکومت آئی ہے اس نے یہ اپنے پروگرام میں رکھا ہے کہ جن شہروں، شاہراہوں کے ناموں سے یہاں کے گزشتہ حکمرانوں کی ستائش ہوتی ہو ان کو بدل دیا جائے یا ان کے پرانے نام بحال کیے جائیں۔ الہ آباد کے نام کو تبدیل کرکے اسکو پریاگ راج کا نام دینا فیض آباد کو ایودھیا کے نام سے تبدیل کردینا اسی سلسلے کی مثالیں ہیں۔ دلی میں چند سڑکوں کے نام بھی تبدیل کیے گئے ہیں۔
مہاراشٹرا میں دو مقامات ایسے ہیں جن کے نام تبدیل کرنے کی تحریک گزشتہ ۲۵ تا۳۰ سال سے چل رہی ہے۔ ان میں ایک ضلع عثمان آباد اور دوسرا ضلع اورنگ آباد ہے۔ مومن آباد کے نام سے ایک تحصیل تھی جس کا نام تبدیل کرکے امبا جوگائی رکھ دیا گیا مگر یہ پرانی بات ہے۔ ۷۰ کی دہائی میں اس وقت کسی نے اس کی مخالفت نہیں کی تھی۔ مگر ان دو ناموں کی تبدیلی کی مخالفت میں مسلمانوں نے انتہائی کوشش کی جس کی وجہ سے یہ معاملہ عدالت میں ہی رہا۔ وہاں سے اسٹے (Stay) حاصل کرنے میں اورنگ آباد اور عثمان آباد کے لوگ کامیاب ہو گئے۔ اُسی سینا اور بی جے پی کی حکومت میں البتہ بمبئی کے نام کو تبدیل کرکے ممبئی کر دیا گیا مگر چونکہ حکومت کے اس فیصلے کو کسی نے چیلنج نہیں کیا تھا اس لیے معاملہ عدالت تک پہنچا ہی نہیں۔ برخلاف اس کے اورنگ آباد اور عثمان آباد سے یہاں کے مسلمانوں کا جذباتی لگاؤ ہے اس لیے پوری طاقت کے ساتھ اس کی مخالفت کی گئی اور بالآخر عدالت سے رجوع کرکے مضبوط دلائل کے ساتھ پیروی کی۔ اس لیے عدالت نے ایک سال پہلے اورنگ آباد کے نام کو تبدیل کرنے پر روک لگائی اور ایک سال کی مسلسل کوششوں کے بعد بالآخر عثمان آباد کے نام کی تبدیلی پر بھی روک لگا دی گئی۔ اس وقت کی حکومت کے پاس اس مقدمے کو آگے بڑھانے کے لیے مضبوط دلائل نہیں تھے اس لیے اس نے آگے کی کارروائی نہیں کی۔
اصل وجہ یہ ہے کہ ۱۹۵۳ میں مرکزی حکومت نے شہروں کے ناموں کی تبدیلی کے لیے کچھ گائیڈ لائنس طے کی تھیں جس کے مطابق اب تک یعنی ۱۹۵۳ تک جو نام تبدیل ہو گئے وہ ہو گئے۔ آئندہ کسی شہر کا نام تبدیل نہیں کیا جائے گا۔ الا یہ کہ تبدیلی کی وجوہات بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہوں یا ان کے پیچھے کوئی تاریخی جواز ہو تو صرف اسی صورت میں نام تبدیل کئے جاسکتے ہیں۔
عثمان آباد کے نام کی تبدیلی کی مخالفت میں جو تحریک شروع کی گئی تھی اس کے ذمہ داروں نے انہیں گائیڈ لائنس کا سہارا لیا تھا نیز ساتھ میں کچھ ایسی دستاویز بھی پیش کی گئی تھیں جن کا علم خود اس وقت کی حکومت کو بھی نہ تھا۔ ضلع عثمان آباد کرناٹک اور تلنگانہ دونوں کی سرحدوں پر واقع ہے۔ یہ ویسے تاریخی مقام نہیں ہے تاہم یہاں حضرت خواجہ شمس الدین ؒکی درگاہ ہے جس کی زیارت کے لیے قرب و جوار سے لوگ آتے رہتے ہیں۔ موجودہ وقت میں اس کے ۸ تعلقہ جات ہیں۔ ۱۹۸۴ میں مہاراشٹرا کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ عبدالرحمن انتولے نے ضلع عثمان آباد کی تقسیم کر کے لاتور کو نیا ضلع بنا دیا تھا۔ تب مہاراشٹرا میں عثمان آباد رقبہ اور تحصیل کے لحاظ سے سب سے بڑا ضلع تھا۔ موجودہ لاتور کے ساتھ اس کے دیگر تعلقہ جات، اودگیر، احمد پور، رینا پور، اوسہ وغیرہ بھی اسی ضلع عثمان آباد میں شامل تھے۔
تاریخی اعتبار سے ۱۹۰۴ سے پہلے عثمان آباد کا موجودہ ضلع اس وقت محض ایک گاؤں تھا موجودہ تعلقہ پرانڈہ اور نلدرگ میں یہ ضلع تقسیم تھا۔ اس وقت اسی کا نام دھارا شیو تھا (موجودہ حکومت اسی نام کو بحال کرنا چاہتی ہے)۔ دھارا شیو کے بارے میں سرکاری دستاویز سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کسی راکھشس کا نام تھا۔ البتہ قدیم تحریروں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ راکھشس یوں ہی مشہور ہوگیا تھا جبکہ ’دھار‘ اس گاؤں کا اصلی نام تھا۔ دھار بدھ مت کے معبدوں کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ آج بھی عثمان آباد میں پہاڑوں میں جو غار ہیں ان میں بدھ کی مورتیاں بنی ہوئی ہیں۔ لیکن یہ تحریریں نجی قسم کی ہیں ان کی کوئی دستاویزی حیثیت نہیں ہے۔
۱۹۰۴ میں اس وقت کے نظام حکمراں آصف جاہ ششم نے اپنے یہاں لڑکے کی پیدائش کے بعد اپنے صاحبزادے کا نام عثمان رکھا۔ یہ وہی میر عثمان علی خان ہیں جو آخری نظامِ حیدرآباد تھے۔ انہی کے نام پر نلدرگ اور پرانڈہ تعلقوں کو ضم کر کے ضلع عثمان آباد بنایا گیا۔ گو یہ تاریخ بہت زیادہ پرانی نہیں ہے۔ آج بھی دیہاتوں میں دھارا شیو نام رائج ہے اور آپسی گفتگو میں دیہاتی ہندو دھارا شیو ہی کہتے ہیں۔
۱۹۴۷ میں ہندوستان کی آزادی کے بعد ۱۹۴۸ میں ریاستِ حیدرآباد کا بھی خاتمہ ہوا۔ تب ضلع عثمان آباد کو اس وقت بمبئی پروونس (Bombay province )میں شامل کر دیا گیا۔ اس کے بعد 1960 میں جب لسانی بنیادوں پر ہندوستان کی ریاستوں کی تنظیم نَو عمل میں آئی اور مہاراشٹرا کے نام سے نئی ریاست کا وجود ہوا تو عثمان آباد کو بھی اسی مہاراشٹرا کی نئی ریاست میں شامل کر دیا گیا۔
مہاراشٹرا کی نئی ریاست کے وجود میں آنے کے بعد صرف دو شہروں کے نام تبدیل کیے گئے جن پر ایک مومن آباد کو بدل کر امبا جوگائی کیا گیا جس کا ذکر اوپر آ چکا ہے دوسرے عادل آباد سے بدل کر مکتائی نگر رکھا گیا۔
ممبئی میونسپل کارپوریشن میں شیو سینا کو جب پہلی بار کامیابی ملی تو اس کی طاقت میں اضافہ ہوا۔ اس وقت کے سینا پرمکھ بالا صاحب ٹھاکرے نے ممبئی سے باہر کا رخ کیا تو سب سے پہلے وہ اورنگ آباد پہنچے۔ وہاں کے بلدی انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے انہوں نے پہلی مرتبہ اورنگ آباد کے نام کو سمبھا جی نگر سے بدلنے کی تحریک شروع کی اسی کے ساتھ اس تحریک میں عثمان آباد کا نام بھی شامل کر دیا۔ ۱۹۹۵ میں شیوسینا اور بی جے پی نے اتحاد کر کے مہاراشٹرا کے اسمبلی انتخابات میں جیت حاصل کی تو یہ معاملہ قانونی طور پر شروع کیا گیا۔ ۱۹۹۹ میں حکومت کی جانب سے عوام سے اسی مسئلے پر اپنی تجاویز اور مشورے دینے کے لیے نوٹیفکیشن جاری کیا۔ اسی نوٹیفکیشن کو عثمان آباد کی تبدیلی نام مخالف تحریک نے ممبئی ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بنچ میں مقدمہ داخل کیا۔ تبدیلی نام مخالف تحریک کے صدر عبدالرشید قاضی صاحب تھے جو اس وقت مراٹھواڑہ وقف کمیٹی کے چیرمین بھی تھے۔ دیگر اراکین میں شیخ مسعود، مہرالدین قاضی، سرفراز احمد صدیقی تھے۔ کمیٹی کے صدر عبدالرشید صاحب کے بشمول شیخ مسعود صاحب کے علاوہ باقی تین ارکان اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ کمیٹی کی طرف سے دائر رٹ پٹیشن (writ petition) کے علاوہ ایک اور مقامی سیاسی کارکن خلیل احمد نے بھی ایک علیحدہ پٹیشن داخل کی۔ مقدمہ کی سماعت کے دوران حکومت مہاراشٹرا کی طرف سے یہ کہا گیا کہ ہم نے صرف نام تبدیل کرنے کے لیے عوام سے ان کی تجاویز اور مشورے طلب کیے ہیں نام تبدیل نہیں کیا ہے۔ اس پر عدالت نے یہ حکم جاری کیا کہ اگر مستقبل میں نام تبدیل کرنا طے ہو جائے تو اس فیصلہ کے نفاذ کے دس دن بعد تک کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی تاکہ فریق مخالف کو عدالت سے رجوع کرنے کا موقع ملے۔ یہ ۱۹۹۹ کی بات ہے۔ اس سے پہلے ۱۹۹۸ میں اس وقت کے مہاراشٹرا کے وزیر علیٰ منوہر جوشی نے تبدیلی نام کی مخالفت میں ۴۳۰۰۰ اعتراضات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے مہاراشٹرا کی کابینہ میں قرارداد پاس کر کے نام کی تبدیلی کا اعلان کر دیا تو فوراً ہی تبدیلی نام مخالف تحریک نے عدالت سے رجوع کر کے پٹیشن داخل کردی تھی جس کے نتیجے میں کابینہ کے فیصلے کے نفاذ پر اسٹے لگا دیا گیا تھا۔ قانونی اور عدالتی کارروائیوں کا یہ سلسلہ چلتا رہا۔ اسی درمیان ۲۰۰۰ میں مہاراشٹرا اسمبلی کے انتخابات ہوئے اور سینا بی جے پی کی حکومت کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ریاست میں انڈین نیشنل کانگریس اور راشٹر وادی نیشنلسٹ پارٹی کی حکومت قائم ہو گئی۔ اس حکومت نے اورنگ آباد اور عثمان آباد کے ناموں کی تبدیلی سے متعلق کابینہ کی قرارداد کو رد کر دیا۔ اس سلسلہ میں ممبئی ہائی کورٹ میں باضابطہ حلف داخل کیا گیا۔ عدالت نے اس فیصلے کو منظوری دیتے ہوئے موجودہ ناموں کو برقرار رکھا۔
اب جبکہ شیوسینا حکومت میں آگئی ہے اور اگرچہ کہ موجودہ حکومت انہیں دو کانگریس پارٹیوں کے تعاون سے بنی ہے تاہم شیوسینا کے صدر ادھو ٹھاکرے اپنے اس پرانے ایجنڈے پر ہر حال میں عمل کرنا چاہتے ہیں۔ راشٹروادی کانگریس کے صدر سے جب اس سلسلے میں اخبار نویسوں نے ان کا موقف معلوم کرنا چاہا تو شرد پوار نے کہا کہ سمبھا جی نگر ہو کہ دھارا شیو یا اور کوئی نام اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ یعنی گلاب تو گلاب ہی رہے گا۔ آپ نام چاہے کوئی دے دیں۔ ظاہر ہے کہ شرد پوار ہندو ووٹ کی قیمت پر تبدیلی نام کی مخالفت نہیں کر سکتے۔ ادھر کانگریس کے ریاستی صدر بالا صاحب تھوراٹ نے اعتراض کیا کہ موجودہ سرکار میں کانگریس پارٹی اپنے سیکولر ایجنڈہ کے ساتھ شامل ہوئی اس لیے اورنگ آباد کے نام میں تبدیلی کی حمایت کرنا مشکل ہوگا۔ اس کا برجستہ جواب وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے یہ دیا کہ چونکہ اورنگ زیب کوئی سیکولر حکمراں نہیں تھے اسی لیے ان کے نام سے جو شہر موسوم ہے اس کے نام کوتبدیل کرنا ہے۔ کانگریس پارٹی نے سب کچھ کھویا ہوا ہے۔ بچا کھچا سیاسی وقار اور طاقت وہ نہیں کھو سکتی۔ زبانی جمع خرچ کے علاوہ تبدیلی نام کی مخالفت میں وہ بہت آگے نہیں جا سکتی۔ شرد پوار نے اپنا موقف پہلے ہی واضح کر دیا ہے کہ ان کو کسی نام سے کوئی دلچسپی نہیں۔ صحیح ہے ان کو شیو سینا کے ووٹوں سے زیادہ دل چسپی ہے۔ رہے وزیر اعلیٰ تو ہندوتوا کے نام پر ان کے پاس لے دے کر ہی ایک ہی پیشہ باقی ہے۔ لہذا وہ اس کی ہر قیمت پر حفاظت کریں گے۔ عثمان آباد کی تاریخی اہمیت پر مختصر سی بات اوپر آئی ہے۔
مزید یہ کہ یہاں کے تعلقہ تلجا پور میں تلجا بھوانی کا مندر ہے جس کی شہرت تقریباً ملک بھر میں ہے۔ ہر سال جاترا کے موقع پر مہاراشٹرا کے تمام مقامات کے علاوہ جنوبی ہند کی ریاستوں کرناٹک، آندھرا پردیش، تلنگانہ اور تمل ناڈو سے بھی عقیدت مند لاکھوں کی تعداد میں ہر سال آتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی سال بھر یہ تانتا لگا رہتا ہے۔ سالانہ جاترا کے موقع پر سینکڑوں میل سے عقیدت مند پیدل ہی تلجا پور آتے ہیں۔ یہاں کے نلدرگ مقام پر ایک قلعہ بھی ہے جس کو نل راجہ نے تعمیر کروایا تھا اس قلعے میں ایک پان محل ہے جو ندی پر بندھ باندھ کر اس کے اندر بنایا گیا ہے۔ یہ کسی مسلم حکمراں نے بنایا ہے۔ بارش کے دنوں میں جب محل کے اوپر اور اندر سے ندی کا پانی دوسری جانب آبشار کی شکل میں گرتا ہے تو اس کو دیکھنے کے لیے مہاراشٹرا کے ہر علاقے سے بڑی تعداد میں لوگ آتے ہیں۔
تعلقہ پرانڈہ بڑی تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ ضلع کا صدر مقام رہ چکا ہے جس کا تذکرہ ہوچکا ہے۔ یہاں کا قلعہ بھی تاریخی اعتبار سے بڑی اہمیت کا حامل ہے چالوکیہ خاندان کے حکمرانوں نے اس کی تعمیر کی تھی بعد میں احمد نگر کے نظام شاہی بادشاہوں نے اس کو فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کیا۔ ویسے جنوبی ہند کی مسلم ثقافتی تاریخی عمارتیں جن قلعوں میں تعمیر ہیں وہ سارے قلعے تقریباً چالوکیہ خاندان کے حکمرانوں نے ہی تعمیر کراوئے تھے جن پر مسلمانوں نے قبضہ کیا تھا۔
***

مہاراشٹرا میں دو مقامات ایسے ہیں جن کے نام تبدیل کرنے کی تحریک گزشتہ ۲۵ تا۳۰ سال سے چل رہی ہے۔ ان میں ایک ضلع عثمان آباد اور دوسرا ضلع اورنگ آباد ہے۔ مومن آباد کے نام سے ایک تحصیل تھی جس کا نام تبدیل کرکے امبا جوگائی رکھ دیا گیا مگر یہ پرانی بات ہے۔ دھارا سیون سے بدل کر عثمان آباد نام رکھنے کی تجویز ١٩١١ ء میں نظام حکومت نے رکھی تھی جو ١٩١٤ میں منظور ہو گئی

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 31 جنوری تا 6 فروری 2021