مہنت نریندر گیری کی پراسرار موت و حیات

یوگی راج میں سادھو سنتوں کا سربراہ محفوظ نہیں تو عام آدمی کی کیا بساط

ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی

غیر جانبدارانہ تفتیش کا کیا امکان۔ الیکشن تک ہندو مسلم کھیل جاری رہے گا۔۔؟
ہندوستان میں سَنتوں کی سب سے بڑی تنظیم اکھل بھارتیہ اکھاڑا پریشد کے سربراہ مہنت نریندر گیری کے موت کی خبر تو پرانی ہوگئی مگر اس کے اطراف پائے جانے والے شکوک شبہات کے بادل دن بہ دن گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ یہ بادل کس پر آگ برسائیں گے یہ کوئی نہیں جانتا ؟ لیکن یوگی ادتیہ ناتھ کے لیے الیکشن کے موسم میں یہ کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔ مہنت کے بارے میں پہلے تو یہ بات سامنے آئی کہ وہ خودکشی تھی۔ اس کو اگر درست مان لیا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ یوگی کے رام راجیہ میں سادھو سنتوں کے سربراہ کو خودکشی کے لیے کیوں مجبور ہونا پڑا؟ مایوسی یا خوف کی انتہا پر پہنچ کر انسان جب اپنے آپ کو بے یار و مددگار پاتا ہے تو اس طرح کا انتہائی قدم اٹھاتا ہے۔ اس لیے سوال یہ بھی ہے کہ ’ڈبل انجن سرکار‘ میں مودی اور یوگی کے دلدادہ مہنت نریندر گیری پر یہ وقت کیوں آیا؟ دوسرا امکان قتل کا ہے؟ اگر یہ الزام درست نکل آتا ہے تب تو یوگی کے اس دعویٰ کی ہوا نکل جاتی ہے جو انہوں نے اقتدار سنبھالنے کے بعد کیا تھا کہ اب یا تو جرائم پیشہ لوگ صوبے سے فرار ہوجائیں گے یا پرلوک بھیج دیے جائیں گے۔ مہنت نریندر گیری کا اگر قتل ہوا ہو تو یہ سوال ضرور پوچھا جائے گا کہ یوگی راج میں اگر سادھو سنتوں کا سربراہ محفوظ نہیں ہو تو عام آدمی کی کیا بساط؟
یہ حسن اتفاق ہے کہ وطن عزیز میں امن و امان کے نام نہاد علمبردار سنت مہاتما مختلف اکھاڑوں سے منسلک ہیں اور کمبھ میلے کے موقع پر ان کے درمیان اکثر خونریز تصادم بھی ہوجاتا ہے۔ اس بار کورونا کے سبب کوئی جھگڑا فساد نہیں ہوا تو اس کو بہت بڑی کامیابی کے طور پر پیش کیا گیا۔ مہنت نریندر گیری نرنجنی اکھاڑے کے مہنت اور سکریٹری بھی تھے۔ ان کی موت کے 12 گھنٹے بعد ان کے خادم سرویش کمار دویدی نے نہایت پراسرار تفصیلات بتائیں۔ انہوں نے کہا کہ مدھیہ پردیش سے کچھ عقیدت مند ’گرومنتر‘ لینے کے لیے 5 بجے شام کا انتظار کررہے تھے مگر مہنت باہر نہیں آئے۔ کمرے کے دونوں دروازے اندر سے بند تھے ۔ اس کو دھکا دیا گیا تو اندر کی کنڈی کھل گئی اور کمرے میں مہنت کی لاش پنکھے سے لٹکی ہوئی ملی ۔ چھان بین کے دوران 7 صفحات پر مشتمل سوسائیڈ نوٹ بھی ملا۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ 13 صفحات کا تھا اور پھر بتایا گیا کہ دو صفحات خالی تھے اس لیے گیارہ صفحات کا تھا وغیرہ وغیرہ۔ یہ معاملہ سلجھنے کی بجائے الجھتا جا رہا ہے۔
سی بی آئی فی الحال مہنت نریندر گیری کے فوت ہونے کی تحقیق کر رہی ہے لیکن اس سے قبل یہ بات ذرائع ابلاغ میں آچکی ہے کہ وہ اپنے شاگرد آنند گیری کی دھمکیوں سے عاجز آچکے تھے۔ رسی انہوں نے اپنے مٹھ کے شاگرد سے منگوائی تھی۔ خود کشی سے قبل از خود موبائل پر ایک ویڈیو ریکارڈ کیا۔ ان کو پھندے پر لٹکا دیکھ کر جب پولیس کے ایک بڑے افسر کو فون کیا گیا تو اس نے انہیں فوراً نیچے اتار کر اسپتال لے جانے کے لیے کہا چنانچہ ان کو اتارا گیا لیکن اس وقت تک موت ہوچکی تھی۔ سوسائیڈ نوٹ میں جن تین لوگوں کے نام ہیں ان کو پولیس نے حراست میں لے لیا۔ اس سانحہ سے یوں تو سارے ملک کے لوگ حیرت زدہ رہ گئے لیکن مٹھ کے لوگوں کو کوئی خاص تعجب نہیں ہوا کیونکہ پچھلے دو سال میں یہ دوسرا حادثہ ہے۔
2019 میں منعقد ہونے والے کمبھ میلے سے قبل مہنت نریندر گیری کے ساتھ نظر آنے والے نرجنی اکھاڑے کے سکریٹری آشیش گیری کی لاش میلے کے بعد اسی مندر میں ملی تھی۔ پولیس کے مطابق انہوں نے خود کو گولی مارکر ہلاک کرلیا تھا مگر بظاہر یہ قتل کا معاملہ لگتا تھا کیونکہ نرنجنی اکھاڑے کے سکریٹری کا خود کشی کرلینا ناقابلِ یقین واقعہ تھا۔ مہنت نریندر گیری کے اپنے شاگردِ خاص آنند گیری سے جب تعلقات خراب ہوگئے تو انہوں نے آشیش گیری کی موت کو خودکشی کے بجائے قتل قرار دیا تھا۔ سی بی آئی کی تفتیش کا مطالبہ کرتے ہوئے آنند گیری نے کہا تھا کہ اگر اس معاملے کی ٹھیک سے جانچ ہوجائے تو باگھنبری مٹھ کی بہت بڑی سازش کھل کر سامنے آسکتی ہے۔ ان کے مطابق چونکہ آشیش نے جائیداد کے غلط استعمال کا معاملہ اٹھایا اور کئی مواقع پر مہنت نریندر گیری کی مخالفت کی اسی لیے ان کے قتل کی سازش کی گئی۔ اس الزام میں قاتل کی جانب لطیف اشارہ موجود ہے۔ قدیم ترین نرنجنی اکھاڑہ 900 سال اور باگھنبری گدی 300 سال پرانی ہے۔ یہیں پر مہنت نریندر گیری اور مہنت آشیش گیری فوت ہوئے۔ اس کے لیے دھن دولت کی لڑائی کو ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے۔
ان دونوں اکھاڑوں کی ملکیت میں تقریباً 3ہزار کروڑ روپیوں کی جائیداد کا تخمینہ لگایا جاتا ہے۔ پریاگ راج کے اندر باگھنبری مٹھ کی 5 تا 6 بیگھا زمین بھی ہے۔ یہاں نرنجنی اکھاڑے کے نام پر ایک اسکول ہے۔ سنگم سے متصل داراگنج علاقہ میں بھی اکھاڑے کی زمین ہے۔ مانڈہ میں 100 بیگھا اور مرزا پور میں 400 بیگھا سے زیادہ زمین مٹھ کے نام پر ہے۔ اسی طرح مرزا پور کے نیڈی اور سگھڑا میں جملہ 140 بیگھا زمین ہے یعنی پریاگ راج کے آس ہاس ہی ان کے پاس 300 کروڑ سے زیادہ کی جائیداد ہے۔ اجین اور اونکیشور میں 250 بیگھا زمین ہے۔ ناسک میں 100 بیگھا زمین اور درجن بھر آشرم و مندرہیں۔ بڑودہ، جئے پور ماونٹ آبو میں بھی قریب 125 بیگھا زمین ہے۔ ہری دوار اور نوئیڈا میں بھی 50 بیگھا زمین ہے۔ وارانسی میں کئی مندر اور کروڑوں کی زمین ہے۔ الزام یہ ہے کہ اس قتل وغارت گری کے پسِ پشت یہی دھن دولت اور اس پر ہونے والی عیش وعشرت کار فرما ہے۔ اس پر کوئی ای ڈی کا چھاپہ نہیں پڑتا کیونکہ تمام سیاسی پارٹیاں ان سادھو سنتوں کے اثر و رسوخ کا فائدہ اٹھاتی ہیں۔
یہ سادھو سنت کس طرح سیاستدانوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں اس کی سب سے واضح مثال مہنت نریندر گیری کے متنازع بیانات ہیں لیکن یہ معاملہ صرف زبانی جمع خرچ تک محدود نہیں ہوتا ۔2012 میں جب اتر پردیش کے اندر سماجوادی پارٹی کی حکومت تھی تو مہنت نریندر گیری نے 8 بیگھا زمین ایس پی کے رکن اسمبلی کو 40 کروڑ روپیوں میں فروخت کردی تھی۔ یہ کوئی الزام تراشی نہیں ہے بلکہ اس کا حساب انہوں نے عدالت میں پیش کیا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ مہنت نریندر گیری کے موت کی خبر ملنے پر جہاں اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے تعزیت کی وہیں سماجوادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو سمیت متعدد سیاسی و سماجی ہستیوں نے افسوس کا اظہار کیا ۔ مہنت کی موت سے صرف ایک دن قبل ان سے ملاقات کرنے والے اترپردیش کے نائب وزیر اعلی کیشو پرساد موریہ نے مہنت نریندر گیری کی موت پر گہرے رنج و غم کا اظہا کرتے ہوئے کہا کہ اس حادثے کے سلسلے میں کچھ کہنے کو ان کے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ موریہ کو آشیرواد دینے اور ان کے ساتھ اپنی تصویر کھچوانے والے مہنت نریندر گیری کا دوسرے ہی دن خود کشی کرلینا مختلف شکوک وشبہات کو جنم دیتا ہے لیکن جب سیاّں بھئے کوتوال تو ڈر کاہے کا؟
مہنت نریندر گیری نے بی جے پی کے اقتدار میں آنے سے قبل مئی 2016 میں بابری مسجد کے مدعی ہاشم انصاری سے ان کے گھر پانجی ٹولہ میں واقع گھر پر جاکر ملاقات کی تھی۔ اس وقت مہنت نریندر گیری نے ہاشم انصاری کو مٹھائی کھلا کر یہ کہا تھا کہ وہ ہاشم انصاری کے بیٹے کی طرح ہیں۔ ایک زمانہ ایسا تھا کہ مختلف مذاہب کے لوگوں سے ان کے اچھے تعلقات تھے لیکن وقت کے ساتھ سب کچھ بدل گیا۔ اتر پردیش میں جب حکومت بدلی ہے تو اس کے ساتھ رشتے بھی تبدیل ہو گئے ۔مارچ 2017 میں جب یوگی ادتیہ ناتھ نئے وزیر اعلیٰ بنائے گئے تو اکھاڑا پریشد کے سر براہ مہنت نریندر گیری نے کہاتھا کہ یو پی میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم رکھنا یوگی حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ریاستی حکومت کو تمام مذاہب کے لوگوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا اور تمام مذاہب کا مساوی طور پر احترام کرنا ہوگا۔ نریندر گیری نے یہ بھی کہا تھا کہ سبھی فرقوں میں اعتماد پیدا کرنے کے لیے یوگی ادتیہ ناتھ کو اپنی ’’ہندو تو وادی‘‘ شبیہ چھوڑنی ہوگی ۔
مہنت کو اس وقت شاید یہ توقع رہی ہوگی کہ آگے چل کر یوگی اپنی اصلاح کریں گے تو اس کا کریڈٹ ان کو ملے گا لیکن وزیر اعلیٰ نے اس نصیحت کو نظر انداز کر کے خود کو بدلنے سے انکار کیا تو مہنت نے اپنا موقف تبدیل کردیا۔ گویا سیاست نے دھرم کرم پر سبقت حاصل کرلی ورنہ یہ کیونکر ممکن تھا ایک معمولی وزیر اعلیٰ اکھل بھارتیہ (کل ہند) اکھاڑا پریشد کا مشورہ ٹھکرا دے۔مہنت نریندر گیری کے بدلے ہوئے تیور کی کچھ مثالیں دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ یہ وہی شخص ہے جو تمام مذاہب کے مساوی احترام اور سبھی فرقوں کے باہمی اعتماد کی تلقین کرتا تھا؟ پچھلے سال 5؍ اگست کو ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے بھومی پوجن میں وزیر اعظم نریندر مودی کی شمولیت پر اعتراض کرنے والے ایم آئی ایم کے صدر اسدالدین اویسی پر پلٹ وار کرنے کا کام مہنت نریندر گیری نے ہی کیا تھا۔
اکھاڑا پریشد کے صدر نے کہا تھا کہ اویسی کو سناتن دھرم کے اعتقاد پر سوال اٹھانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ مہنت نے کہا تھا کہ اویسی ہر چیز پر سیاست کرتے ہیں حالانکہ پوری رام مندر کی تحریک سیاست کے سوا کچھ اور نہیں تھی۔ مہنت نریندر گیری نے اویسی پر الزام لگایا تھا کہ ہندوستان میں کوئی بھی کام اویسی کو پسند نہیں ہے حالانکہ ایسی کوئی بات اسدالدین اویسی نے کبھی نہیں کہی۔ بی جے پی کے ہر جورو ظلم کی تائید سادھو سنت تو کرسکتے ہیں لیکن کوئی خود دار مسلم رہنما نہیں کرسکتا اور یہ کیونکر ممکن ہے جبکہ مہنت اویسی کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ 5 اگست کو نہ صرف ٹی وی پربھومی پوجن کی نشریات کو براہ راست دیکھیں بلکہ پورا وقت رام نام کا جاپ کریں۔ انہیں 5؍ اگست کو اللہ کا نام لینے کے ساتھ رام رام بھی بولنا چاہیے۔ ایسے اوٹ پٹانگ مشورے پر کوئی عام مسلمان بھی عمل نہیں کر سکتا۔
اس موقع پر مہنت نریندر گیری نے وزیر اعظم نریندر مودی کی وکالت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ پہلے ہندو ہیں، پھر ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ یہی بات اگر کوئی مسلمان وزیر یا افسر کہہ دے ہندوتوادی آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مہنت وزیر اعظم مودی کو پہلے ہندو بتاتے ہیں لیکن انہیں طالبان کے پہلے مسلمان ہونے سے پریشانی ہوتی ہے۔ اپنے ملک کے بارے میں تو وہ کہتے تھے بھارت ہندو راشٹر تھا اور ہندو راشٹر رہے گا۔ اویسی کو سمجھاتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان مسلم اکثریتی ہونے کے سبب مسلم راشٹر ہوسکتا تو بھارت ہندو راشٹر کیوں نہیں؟اس کے باوجود انہوں نے امسال اگست میں افغانستان کے اقتدار کی تبدیلی کے بعد معروف شاعر منور انا کا نام لے کر ان کے خلاف سخت کاروائی کا مطالبہ کیا تھا۔ ان کے مطابق رانا لگا تار بھارت کے خلاف زہر اگل رہے تھے۔ مہنت کو ایسا لگ رہا تھا کہ منور رانا کا ہندوستان کے آئین پر بھروسہ نہیں رہ گیا اس لیے انہیں ہندوستان چھوڑ کر طالبان یعنی افغانستان چلے جانا چاہیے۔ مہنت کے مطابق رانا جیسے لوگ ملک کے غدار ہیں۔ ان کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کرکے انہیں فوراً جیل میں ڈال دینا چاہیے۔ ایسی عدم رواداری کا مظاہرہ تو یوگی نے بھی نہیں کیا۔
مہنت کی مودی بھکتی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پچھلے سال نومبر میں انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کے ترقیاتی کاموں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ آئین کی حفاظت کرتے ہوئے مذہب کی پیروی کر رہے ہیں۔اس کے علاوہ گری نے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ کے حیدرآباد کا نام بدل کر بھاگیہ نگر کرنے والے نفرت انگیز بیان کی حمایت بھی کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ مغلوں نے سینکڑوں سال تک ملک پر حکمرانی کی اور ملک کے بہت سے قدیم شہروں کا نام بدل کر ان کا اسلامائزیشن کردیا اور اب یہ ملک آزاد ہے ایسے میں جس طرح الٰہ آباد کا نام تبدیل کرکے پریاگ راج رکھ دیا گیا ہے اسی طرح حیدر آباد کا نام بھی بدل کر بھاگیہ نگر کر دیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ممکن ہے حیدرآباد کا نام بھاگیہ نگر رکھنے سے حیدرآباد کا بھاگیہ (تقدیر) بدل جائے اور ساتھ ہی حیدرآباد سے آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے رکن اسد الدین اویسی کا بھاگیہ بھی بدل جائے۔ یہ سوال قابلِ غور ہے کہ کیا الٰہ آباد کا نام بدلنے سے خود مہنت نریندر گری کی قسمت بدل گئی؟ اگر بدلی تھی تو انہیں خود کشی پر کیوں مجبور ہونا پڑا یا ان کا قتل کیسے ہو گیا؟
اویسی کے ذریعہ حیدرآباد کا نام تبدیل کرنےکی مخالفت کرتے ہوئے انہوں نے اس کو غیر منصفانہ قرار دے دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھاکہ حیدر آباد کا قدیم نام بتانے میں کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ حیدرآباد کا نام بدل کر بھاگیہ نگر کیے جانے کے بعد اس شہر میں بھی ترقی ہوگی۔ انہیں سوچنا چاہیے تھا کہ اگر الٰہ آباد کا نام بدلنے سے وہ شہر ترقی نہیں کرسکا تو حیدر آباد کے ساتھ یہ چمتکار کیونکر ممکن ہے۔ اپنے اس بیان کے بعد انہوں نے عوام سے بلدیاتی انتخابات میں بی جے پی کو مضبوط بنانے کے لیے اس کو ووٹ دینے کی درخواست کرکے اپنے وقار کو ٹھیس پہنچائی تھی اور بی جے پی کی شکست و ایم آئی ایم کی فتح سے یہ بات سامنے آگئی کہ عوام نے ان کے مشورے کو مسترد کردیا۔ لو جہاد کے خلاف یوگی کے متنازع قانون کی حمایت میں انہوں نے کہا تھا کہ ایسا قانون بننا چاہیے کہ آنے والی نسلیں اسے یاد رکھیں۔ وہ لو جہادیوں کا رام نام ستیہ کرنا چاہتے تھے مگر نو ماہ بعد تک وہ قانون تو نہیں بن سکا یہاں تک کہ وہ خود پرلوک سدھار گئے۔
امسال جون میں جب آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما نے یہ اعلان کیا کہ ریاست میں سرکاری منصوبوں سے صرف وہی خاندان فائدہ اٹھا سکیں گے جن کے دو سے زائد بچے نہ ہوں اور اتر پردیش میں بھی ’دو بچوں‘ والے خاندانوں کو ترجیح دینے کا معاملہ زیر بحث آیا تو مہنت نریندر گیری نے بھی اس کے سُر میں سُر ملا کر دو سے زیادہ بچوں والی فیملی کو ووٹ دینے کے حق سے محروم کرنے کا مشورہ دے کر سرکاری سہولتوں سے محروم کرنے کی سفارش کردی۔ ان کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ وہ آبادی پر قابو پانے کو بہت سارے مسائل کا حل سمجھتے تھے۔ کانوڑ یاترا سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد انہوں نے کہا تھا لوگ محفوظ رہیں گے تو یاترا ہوتی رہے گی۔ انہوں نے شیو بھکتوں کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے گاوں میں شیوالیہ بناکر جل ابھیشیک کرتے ہوئے سرکاری گائیڈ لائن کا لحاظ کریں۔ کانوڑ یاترا کو معطل کرنے پر انہوں نے یوگی تعریف کی تھی۔
مہنت جہاں ایک طرف یوگی کے ہر فیصلے کی آنکھیں موند کر تائید کرتے تھے وہیں آر ایس ایس کو آنکھیں بھی دکھاتے تھے۔ حال میں چتر کوٹ کے اندر آر ایس ایس کے ’منتھن شیور‘ (غور وخوض کا اجتماع) کے دوران مہنت نریندر گیری نے رام مندر ٹرسٹ میں سادھو سنتوں کی نامناسب نمائندگی کا شکوہ کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ٹرسٹ میں اکھاڑہ پریشد کے سربراہ اور جنرل سکریٹری کو بھی شامل کیا جائے۔اس کےعلاوہ دو جگت گرو اور تین اکھاڑوں نرموہی، دگمبر اور نروانی اکھاڑہ کے مہنتوں کی شمولیت پر بھی اصرار کیا۔ مہنت کے مطالبات پر آرایس ایس کے سربراہ نے کہا کہ وہ نہ تو ٹرسٹ کا حصہ ہیں اور نہ کوئی دیگر عہدیدار ٹرسٹ میں شامل ہے۔سنگھ کے سربراہ نے یہ مطالبات حکومت تک پہنچانے کی یقین دہانی کروا کر خود کو ڈاکیہ بنادیا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ دونوں رہنماوں نےرام مندر ٹرسٹ پر لگنے والے بدعنوانی کےالزامات پراظہار تشویش کرنے کے بعد حکومت سے اس معاملے میں ضروری اور مناسب کارروائی کرنے کی امید کا اظہار کیا لیکن حکومت تو مولانا کلیم صدیقی اور مولانا عمر گوتم کے پیچھے پڑی ہوئی ہے۔ کہاں تو کھلے عام سینکڑوں کروڑ کے گھپلے ہورہے ہیں مگر سرکار کو دکھائی نہیں دیتے اور کہاں مولانا کلیم صدیقی کے ساتھی مولانا ادریس کوگرفتار کرکے پوچھا جاتا ہے کہ موٹر سائیکل کے لیے ڈھائی لاکھ روپے کہاں سے آئے؟ اس کو کہتے ہیں اندھیر نگری کہ آنند گیری کی مہنگی گاڑیوں سے اس کا حساب تک نہیں پوچھا جاتا۔ آنند گیری کے شوق ساری دنیا میں مشہور ہیں اور یہ کہا جاتا ہے کہ 2012 سے وہ مہنت پر حاوی تھا۔ اس کو لڑکیوں سے چھیڑ چھاڑ کے الزام میں آسٹریلیا میں گرفتار بھی کیا گیا تھا ۔ اس طرح اس نے عالمی سطح پر اپنے دھرم پرچار کے فرائض انجام دیے۔
آنند گیری ایک زمانے میں مہنت نریندر گیری کا چہیتا تھا اور پٹرول پمپ کھولنا چاہتا تھا مگر استاد کے منع کرنے پر ناراض ہوگیا ۔ 14 مئی 2021 کو اس پر چڑھاوے کی رقم اپنے گھر والوں پر خرچ کرنے کا الزام لگا کر مٹھ سے نکال دیا گیا ۔ یہاں بھی معاشی بدعنوانی لیکن جواب میں آنند گیری نے بھی وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کو خط لکھ کر اپنے گرو پر سنگین الزامات لگائے جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ اسے آسٹریلیا میں جیل سے چھڑانے کی خاطر مہنت نریندر گیری نے چار کروڑ روپے جمع کرلیے۔ اس نے اپنے گرو پر مٹھ کی کروڑوں کی زمین فروخت کرنے کا الزام بھی لگایا۔ اپنے خط میں اس نے لکھا کہ گرو نریندر کے کئی بڑے اور مہنگے شوق ہیں۔ ان کو پورا کرنے کےلیے مٹھ کا سرمایہ استعمال ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کسی ایسے مہنت کے خلاف جو سرکار دربار کے نہایت قریب ہو جھوٹے الزامات لگانے کی جرأت ممکن ہے؟
حکومت نے جب ان الزامات پر کارروائی نہیں کی توایک خبر کے مطابق وہ اپنے گرو کو بلیک میل کرنے لگا ۔ آگے چل کر آنند گیری نے معافی مانگ لی لیکن اس سے الزامات تو ختم نہیں ہوتے۔ شاگرد اگر جھوٹاہے تو اس پر کارروائی ہونی چاہیے۔ ویسے کاشی کے پیٹھا دھیشور جگت گرو شنکراچاریہ سوامی نریندرانند سرسوتی کے مطابق آنند گیری کو بلی کا بکرا بنایا جارہا ہے۔ مہنت نریندر گیری اور آنند گیری کے درمیان معافی تلافی کرانے والوں میں سماجوادی پارٹی کی سابق وزیر اندو مشرا، بی جے پی رہنما سشیل مشرا اور آئی پی ایس اوم پرکاش پانڈے کا نام آتا ہے ۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ گرواور چیلے میں من مٹاو کرانے میں کون لوگ دلچسپی رکھتے تھے۔ آنند گیری کو جھٹلانا مشکل ہے کیونکہ مہنت نریندر گیری کا محافظ اجئے کمار سنگھ بھی کروڑوں کا مالک ہے۔ اس کی شکایت ڈاکٹر نوتن ٹھاکر لوک آیوکت سے دوبار کرچکی ہیں ۔مولانا ادریس کے پاس تو ایک موٹر سائیکل ہے مگر یہ معمولی سپاہی ایک فورچیونر جیپ ، ایک آلٹو کار اور نئی بلیٹ موٹر سائیکل کا مالک ہے۔ اس نے دو سال قبل 39 لاکھ اور سات سال قبل 22 لاکھ کے دو فلیٹ خریدے ۔ اس کے علاوہ اور بھی خرد برد کے الزامات ہیں لیکن اس کی تفتیش نہیں ہوتی ۔ کوئی اس سے نہیں پوچھتا کہ اتنا پیسہ کہاں سے آیا؟ جب ایک معمولی محافظ کے یہ ٹھاٹ ہیں تو اس کے مالک کے عیش کا کیا عالم ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ بے قصور لوگوں کو پریشان کرنے کے بجائے ان کی جانب توجہ کرے ۔ مہنت نریندر گیری کی زندگی جس قدر پراسرار تھی موت اس سے بھی زیادہ پراسرار ہو گئی ۔ حکومت کا کام ہے کہ غیر جانبدارانہ تفتیش کرکے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردے اور انہیں خودکشی پر مجبور کرنے والوں یا قاتلوں کو قرار واقعی سزا دے۔ اس میں چونکہ سیاسی نقصان ہے اس لیے الیکشن تک وہی ہندو مسلم کا کھیل اور مسلمانوں کی گرفتاریاں جاری رہنے کا امکان ہے۔ اس کے باوجود امید ہے کہ اتر پردیش کے انتخابی نتائج چونکانے والے ہوں گے اور اس کے بعد یہ ظلم وجبر کا سلسلہ تھمے گا۔

 

***

 مہنت نریندر گیری کی زندگی جس قدر پراسرا رتھی موت اس سے بھی زیادہ پراسرار ہو گئی ۔ حکومت کا کام ہے کہ وہ غیر جانبدارانہ تفتیش کرکے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردے اور انہیں خودکشی پر مجبور کرنے والوں یا قاتلوں کو قرار واقعی سزا دے۔ اس میں چونکہ سیاسی نقصان ہے اس لیے الیکشن تک وہی ہندو مسلم کا کھیل اور مسلمانوں کی گرفتاریا ں جاری رہنے کا امکان ہے۔ اس کے باوجود امید ہے کہ اترپردیش کے انتخابی نتائج چونکانے والے ہوں گے اور اس کے بعد یہ ظلم وجبر کا سلسلہ تھمے گا۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 03 اکتوبر تا 09 اکتوبر 2021