مہمان اداریـہ

رمضان ،قرآن اور تقویٰ کا مثلث

سید سعادت اللہ حسینی

 

ہم یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ رمضان کے تعارف میں سب سے اہم بات جو قرآن مجید کہتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ ’’ ماہ قرآن ‘‘ ہے۔ اس وقت مسلمان ساری دنیا میں جس بات کو لے کر پریشان ہے وہ یہ ہے کہ ’ہم بہت کمزور ہیں، بے بس و لاچار ہوگئے ہیں‘۔ یہ ہر سنجیدہ مسلمان کے غور و خوض کا موضوع ہے کہ یہ کمزوری، بے بسی و لاچاری کیسے دور کی جائے؟ کیسے ہم طاقت اور وزن حاصل کریں؟ ۔رمضان المبارک کے موقع پر یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ یہ کتاب جو اس ماہ میں نازل ہوئی ’’قرآن مجید‘‘ اس کی ایک بڑی اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ طاقت اور قوت کا سرچشمہ ہے جو اسے تھام لیتا ہے وہ آخرت میں تو کام یاب ہوتا ہی ہے لیکن اس دنیا میں بھی وہ حیرت ناک ،تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کرتا ہے ۔ اس کی قوت اور طاقت بڑھتی ہے ۔ یہی تاریخ کی بھی گواہی ہے کہ صحابہ کرام نے ، دنیا کے کمزور ترین لوگوں نے اسے تھام لیا تو وہ وقت کی طاقت ور ترین ، مضبوط ترین اور بااثر ترین قوم بن گئے قرآن مجید خود کہتا ہے کہ وہ طاقت و قوت کا سرچشمہ ہے اور اپنے ماننے والوں کو کام یابی کی ، سربلندی کی عظیم الشان بلندیوں تک پہنچاتا ہے ۔
’’وَاِنَّہ الکِتاَبُ العَزیز‘‘ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک زبر دست کتاب ہے ۔ اس ہستی کی طرف سے نازل کی گئی ہے جو زبردست ہے اور جس کی شفقت و رحمت ابدی ہے ۔ قرآن کہتا ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو اچھے انجام کی طرف ، کام یابی کی طرف لے کر جاتا ہے۔ قرآن اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ وہ ناکام ہونے کے لیے ، یا اپنے ماننے والوں کو ناکام کرنے کے لیے نہیں آیا ہے ۔
ایک دفعہ نبی کریم ﷺ تشریف فرما تھے۔ آپ نے صحابہ کی محفل میں خبر دار کیا کہ ’’الا انھا فتکون فتنہ‘‘ آگاہ ہوجاؤ ! عنقریب ایک بہت بڑا فتنہ برپا ہونے والا ہے ۔ صحابہ چونک گئے ۔ حضرت علی فرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا ’’اے اللہ کے رسول اس فتنہ سے نکلنے کا راستہ کیا ہے ؟ ‘‘ اللہ کے رسول نے جواب دیا ’’ ’کتاب اللہ‘ اس سے نکلنے کا راستہ اللہ کی کتاب ہے ۔ اس میں تم سے پہلو کی خبریں ہیں ، تم سے بعد والوں کے حالات ہیں ، اور تمھارے قبروں کا فیصلہ ہے ، یہی سیدھا راستہ ہے ، یہ حکمت کا ذکر ہے ، یہ اللہ کی انتہائی مضبوط رسی ہے۔ ‘‘ نبی ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ ’’ اللہ تعالی اس کتاب کی بدولت قوموں کو بلندی عطا کرتا ہے ، اس کو ترک کرنے کی پاداش میں انھیں زوال ، نامرادی ، ذلت و خواری کا شکار بنا دیتا ہے ۔ ‘‘
اب آپ دیکھیے کہ اس حدیث میں بہت صاف صاف کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کی کمزوری ، ذلت و رسوائی اور ان کے زوال کا سبب کبھی دنیا کی کوئی حکومت نہیں بن سکتی ، کسی کی سازشیں نہیں بن سکتی کبھی کسی بیرونی تحریک کے نتیجے میں مسلمان کمزور نہیں ہوسکتا ، مسلمان اگر زوال اور کمزوری کا شکار ہوں گے تو صرف اور صرف قرآن سے دوری کے نتیجے میں ہوں گے ۔ قرآن سے تعلق مضبوط ہوگا تو عروج کی منزلیں میسر ہوگی اور اسی سے تعلق کمزور ہوگا تو زوال ، نامرادی ، پستی ، ذلت و رسوائی ان کا مقدر بنے گی ۔ علامہ اقبال نے کہا تھا ؎
خوار از مہجوری قرآن شدی
شکوہ سنج گردش دوران شدی
(اے مسلمان تو اپنے خواری اور پستی کا الزام زمانہ کی گردش پر رکھتا ہے لیکن تیری ذلت و رسوائی کا اصل سبب بس یہ ہے کہ تو قرآن سے بے تعلق ہوگیا ہے ۔ )
ماہ قرآن، رمضان المبارک اس لیے آتا ہے کہ اس زندہ کتاب سے زندہ تعلق قائم کریں اللہ سے اپنے تعلق کو مضبوط بنائیں ۔ اس ماہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآنی کردار اور قرآنی معاشرہ کی تشکیل و تربیت کا خصوصی انتظام کروایا ہے ۔ قرآن کہتا ہے کہ ماہ قرآن میں روزے فرض کیے گئے ہیں اور روزے کا مقصد تقویٰ کی افزائش ہے ۔ تقویٰ پیدا کرنا یہ رمضان کا ، روزے کا مقصد ہے ۔
اگر غور کریں گے تو ہمیں محسوس ہوگا کہ قرآن مجید ایک واضح عقیدہ دیتا ہے ، پاکیزہ زندگی ، پاکیزہ معاشرہ ، پاکیزہ تہذیب کا ویژن دیتا ہے۔ قرآن کی اس اسکیم کو روبہ عمل لانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کے اندر اور پورے معاشرہ کے اندر اللہ کا ڈر ہو ، محتاط زندگی گزارنے کی عادت ہو ، اپنے اصولوں پر جمے رہنے کی صلاحیت ہو ۔ انہیں صلاحیتوں کو قرآن مجید ’ تقویٰ ‘ کہتا ہے ۔ تقویٰ پیدا ہوگا تو قرآنی زندگی ، قرآنی معاشرہ ، قرآنی تہذیب یہ زمین پر نمودار ہوگی ۔ رمضان ’تقوی‘ کی افزائش کا ذریعہ ہے ۔ تو قرآن، تقویٰ اور رمضان کے اس مثلث کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ رمضان ایک ماہ ٹریننگ کورس ہے جس سے اللہ تعالیٰ ہر سال مسلمانوں کو گزارتا ہے تاکہ وہ تقویٰ حاصل کریں ، قرآنی زندگی اختیار کریں ۔
اللہ چاہتا ہے کہ رمضان آئے تو مسلمان ہر طرف سے ، ساری دنیا سے یکسو ہو جائیں ۔ قرآن پڑھیں اس پر خوب غور کریں ، رات کی تنہایوں میں خدا کے دربار میں پوری طرح یکسو ہو کر کھڑے ہو جائیں اور قیام کی حالت میں قرآن پڑھیں ۔ اس طرح اس ماہ میں وہ پورے قرآن سے گزریں ۔ ہوسکے تو آخری عشرے میں اعتکاف میں بیٹھ جائیں اور قرآن میں غرق ہوجائیں ، ڈوب جائیں ، گہرائیوں سے اس پر تدبر کریں اور قرآنی تعلیمات کی روشنی میں اپنا احتساب کریں ، اپنے معاشرے کا جائزہ لیں ۔ نبی ﷺ نے رمضان سے استفادہ کی شرط یہ بتائی ہے کہ قیام اللیل احتساب و ایمان کے ساتھ ہونا چاہیے ۔ روزے سے ہم پاور حاصل کریں اوراسے قرآن مجید کی تعلیمات کو عملاً جاری و ساری کرنے کے لیے استعمال کریں ۔ یہ اسکیم ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالی ہمارے تعلق کو مضبوط کرنا چاہتا ہے ۔ قرآن کو ہماری زندگی کا دستور بنانا چاہتا ہے۔
آپ دیکھیں کہ قرآن مجید سے عملاً ہمارا تعلق کیاہے ؟ پہلے ہم نے قرآن مجیدکو مقدس منتر سمجھ لیا تھا (نعوذ باللہ ) جو صرف جھاڑ پھونک کے کام آتا ہے ۔ پھر تھوڑی بیداری پیدا ہوئی تو ہم نے اسے تلاوت کی کتاب بنادیا ۔ جسے بلا سوچے سمجھے پڑھنا اور نیکیاں بٹورنا یہ واحد مقصد قرار پایا ۔ اب اور بیداری آگئی ہے تو زیادہ سے زیادہ ہم اسے علم و حکمت کی کتاب سمجھتے ہیں جسے بنیاد بنا کر علمی بحثیں کی جائیں اور اپنی برتری ثابت کی جائے ۔
قرآن مجید محض کتاب مقدس ، کتاب تلاوت ، علم و دانشوری کی کتاب نہیں ہے ۔ یہ اصلاً ’’الھدی‘‘ ہے۔ واحد رہنمائی، ہر موڑ پر راستہ دکھانے والی، ہماری زندگی کے سفر کا نقشہ ہے ۔ قرآن ہم میں سے ہر ایک کی انفرادی زندگی اور پوری ملت کے سفر کا GPS ہے ۔ اس کا تقاضا ہے کہ اسے صرف تلاوت کے لیے نہ اٹھائی جائے بلکہ زندگی کے ہر فیصلے کے لیے، ذاتی زندگی کے ہر اہم فیصلے کے لیے، اور ملت کے ہر پالیسی کے لیے اس کی طرف رجوع کیا جائے ۔
ہمارے کیرئیر کی ترجیح کے لیے ، ہمارے بچے کی شادی کیسے ہو؟ بہو کو گھر میں کیا مقام ملے ؟ ، یہ سب قرآن سے پوچھا جائے ۔ اسی طرح ہماری ملت کی ترجیحات کیا ہوں؟ کس مرحلے پر ہم کیا پالیسی اختیار کریں؟، دشمنوں کے کس اقدام کا کیسے جواب دیں؟، یہ ہم کسی سیاسی لیڈر سے نہیں، اپنے جذبات سے نہیں بلکہ قرآن مجید سے پوچھیں، قرآن سے روشنی حاصل کریں رہنمائی حاصل کریں۔ قرآن کہتا ہے کہ تم قوم نہیں ہو ایک داعی امت ہو۔ اس کا تقاضا ہے کہ ہم ہر طرح کے قومی جھگڑوں اور فرقہ وارانہ کش مکش سے باز آجائیں ۔ اور ساری دنیا کو ، ساری انسانیت کو خدا کا پیغام پہنچانا یہ ہماری زندگی کی سب سے بڑی دلچسپی بن جائے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ قرآن ہماری زندگی کا فارمولا بنے ، ہمارے مزاج کا عنوان بنے ، ہماری سوچ کا ، تمناؤں کا ، دلچسپیوں کا ، یہ محور و مرکز بن جائے ۔ ان سب پر سب سے گہرا ، واضح رنگ قرآن مجید کا چڑھ جائے ۔ یہی مطلب ہے کتاب ہدایت کا ۔
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآں

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 18 تا 24 اپریل 2021