!بھارتی سنیما کا ہندوکرن

انتخابات میں سیاسی ماحول سازی کے لیے فلم سازی

نور اللہ جاوید، کولکاتا

سیاسی ایجنڈے کے تحت فلموں میں مسلمانوں کے منفی کردار
حالیہ دنوں میں ہندوتو نظریہ کو قوت پہنچانے کے لیے دس فلمیں ریلیز کی گئیں
جھوٹی کہانیوں کی بنیاد پرذہنوں میں زہر گھولنے کی کوششیں ملک کے سماجی تانے بانے کے لیے نقصان دہ
سیاست اور سنیما کے درمیان تعلقات کوئی نئے نہیں ہیں۔ فلم انڈسٹری اور سیاسی و سماجی اشرافیہ کے درمیان ہمیشہ اچھا تال میل رہا ہے ۔کاروبار کے فروغ کے لیے فلم انڈسٹری کے لیے سیاسی طبقہ بالخصوص حکم راں طبقے کی سرپرستی ضروری رہی ہے، کیوں کہ فلم سازی کے بعد فلم کی منظوری اور نمائش کے لیے حکم راں طبقے کی سرپرستی کے بغیر صنعت کو فروغ دینا ممکن نہیں ہے۔دوسری جانب سیاسی گروپ کوبھی اپنے بیانیہ کو آگے بڑھانے اور عوامی طبقے تک اپنی پالیسی اور منشور کو پہنچانے کے لیے سنیما جیسے عوامی ذریعہ ابلاغ کی ضرورت ہوتی ہے۔بھارتی سنیماکی سوسالہ تاریخ انہی تعلقات کی عکاسی کرتی ہے۔آزادی کے بعدبھارتی سنیما مہاتما گاندھی اور جواہر لال نہرو کے نظریاتی اقدار وفکر کی کھل کر تائید کرنے کے ساتھ ساتھ بائیں بازو کے نظریات کی طرف اپنے جھکاو کا کھل کر اظہار بھی کرتی رہی ہے کیوں کہ اس وقت کی سیاسی و سماجی اشرافیہ کی اکثریت انہیں نظریات کی حامل تھیں۔بھارتی سیاست میں اتار چڑھاو اور سیاسی جماعتوں کے عروج و زوال کے ساتھ ساتھ بھارتی سنیما بھی اپنی وفاداری، طرز عمل اور فلموں کے مواد میں تبدیلی کرتی رہی ہے۔ان دونوں طبقات کے درمیان اس تعلق کو ’’موقع پرستی‘‘ سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔سیاست اور سنیماکے درمیان تعلقات شاید ہی کبھی نظریاتی اور فکری بنیاد پر رہے ہوں۔یہ تعلقات ایک دوسرے کی ضرورت کے مرہون منت رہے ہیں ۔ایک دوسری حقیقت یہ بھی ہے کہ سنیما کا بنیادی مقصد فکر و آگہی اور سماج و معاشرے میں تبدیلی کی لہراور فکر و نظرمیں ارتعاش پیدا کرنا اور حاشیائی کردار کے حاملین کی ترجمانی کبھی بھی نہیں رہا ہے۔بلکہ سنیما کا بنیادی مقصد سیر وتفریح اور انٹرٹینمنٹ ہے ۔بھارتی سنیما نے اپنے بنیادی مقصد کے ساتھ سماج و معاشرہ کے اثرات کو بھی دکھانے کی کوشش کی ہے۔چناں چہ فلم انڈسٹری کی سوسالہ تاریخ میں کوئی بھی فلم ایسی نہیں ہے جس کے تخلیق کار مواد سے متعلق صد فیصد یہ دعویٰ نہیں کرسکتے ہوں کہ وہ حقائق پر مبنی ہیں ۔کیوں کہ تفریح کے لیے کردار کو افسانوی و طلسماتی بنائے بغیر سامعین کو اپنی جانب متوجہ نہیں کیا جاسکتا ۔ تاہم کوئی بھی ادار اپنے سماج و معاشرہ سے بالکل بےنیاز نہیں ہوتا۔سماجی تغیر و تبدل کے اثرات سےوہ بھی متاثر ہوتے ہیں اور یہ عین فطرت ہے۔بھارتی سنیما کی سوسالہ تاریخ سماج و معاشرہ میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے متاثر ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔
آزادی کے بعد سیاسی اشرافیہ کی اکثریت فرقہ وارانہ ہم آہنگی، بھارت کی متنوع تہذیب و ثقافت اور سیکولرازم کی حامی تھی۔ اس دور کی بیشتر فلمیں سیاسی اشرافیہ کے مزاج سے ہم آہنگی کرتی ہوئی نظرآتی ہیں ۔50 اور 60 کی دہائیوں کے دوران بھارتی مسلمان ایک فروغ پذیر کمیونٹی تھے اور عوام اور حکومت کا نقطہ نظر کافی حد تک سیکولر تھا۔ چناں چہ اسی دور میں انارکلی، مغل اعظم اور ممتاز محل جیسی فلمیں بنیں جن میں مسلم تہذیب و ثقافت کی ترجمانی نظر آئی۔80کی دہائی بالخصوص بابری مسجد کی شہادت کے بعد بھارتی سیاست میں فرقہ واریت ، تعصب اور مسلمانوں کے تئیں منفی سوچ کا آغاز ہوا اور اب ہم اس کا نقطہ عرو ج دیکھ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دہائی سے بالی ووڈ کے مرکزی دھارے میں مسلمانوں کو تیزی سے شیطانی فطرت کے حاملین کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ حقیقی زندگی کے اسلاموفوبیا عناصر اب اسکرینوں پر بھی نظر آنے لگے ہیں۔مغل بادشاہ ترک نسل کے مسلمان حکم راں تھے جنہوں نے 16ویں سے 18ویں صدی تک ہندوستان پر حکومت کی۔ انہوں نے برصغیر ہند و پاک پر حکم رانی کرنے والا اب تک کا سب سے بڑا خاندان تشکیل دیا۔ جب کہ شہنشاہوں کے طور پر تاریخ کی کلاسوں میں ان کی تعظیم کی جاتی تھی اور ان کا مطالعہ کیا جاتا تھا جنہوں نے ہندوستان کی ثقافت اور تاریخ میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ انہیں فلموں میں بھی اسی طرح دکھایا گیا تھا۔ 2013 میں ریلیز ہونے والی فلم جودھا اکبر نے شہنشاہ اکبر اور ہندو شہزادی جودھا کی کہانی خوبصورتی سے بیان کی گئی تھی۔تاہم پدماوت، جو 2018 میں ریلیز ہوئی، نے علاؤالدین خلجی کو ایک بگڑے ہوئے، حیوان، خون کے بھوکے بادشاہ کے طور پر دکھایا گیا۔انتہا پسند دائیں بازو کے نظریات کے حامل سوشل میڈیا پیجز مسلسل یہ بیانیہ پیش کرتے ہیں کہ مغل دراصل ہندوستان کی تباہی کے ذمہ دار تھے۔
1960 کی دہائی میں’’ دو بیگھا زمین‘‘، جاگتے رہو، مدر انڈیا، نیا دور، اور دو آنکھ بارہ ہاتھ جیسی فلموں نے نئے ہندوستان کے مستقبل کے امکانات کا تصور پیش کرتے ہوئے نہروین-گاندھیائی اقدار کی نمائندگی کی۔ مشہور فن کار اور فلم ساز جیسے راج کپور، گرو دت، بمل رائے اور بی آر چوپڑا جیسی شخصیتیں سوشلسٹ سیکولر اقدار کی نمائندے کے طور پر سامنے آئیں۔ 1970 کی دہائی میں آرٹ ہاؤس سنیما کی آمد نے مارکسی نظریاتی اقدار کو مزید تقویت بخشی، خاص طور پر یہ وہ منزل تو نہیں، دمول، جانے بھی دو یارو، گرم ہوا اور نشانت جیسی فلموں میں، جن میں سماجی اور سیاسی حقائق کو بغیر کسی کتر بیونت کے پیش کیا گیا ۔جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام پر سخت تنقید کی گئی۔ 1980 کی دہائی میں بھی، فلم سازوں نے حکم راں طبقے کا مقابلہ کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی: قصہ کرسی کا، پرتیگھت، نئی دہلی ٹائمز اور آغا نے اس وقت کی طاقتور اندرا گاندھی کی قیادت والی کانگریس کے خلاف ایک جرأت مندانہ سیاسی موقف اختیار کیا۔علاقائی سنیما میں خاص طور پر تمل اور تلگو فلم انڈسٹری میں داستانوں، کرداروں اور فن کاروں کو تمل ناڈو میں دراوڑی تحریک جیسی سیاسی تحریکوں کی تعمیر کے لیے کلیدی وسائل کے طور پر استعمال کیا گیا۔ سنیما نے ایم جی جیسے سیاسی رہنماؤں کے قد کو بلند کیا۔ تمل ناڈو میں ایم جی رام چندرن اور جے للیتا اور آندھرا پردیش میں این ٹی راما راو ایک خاص سیاسی پارٹی کے حق میں عوام کو متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے تھے۔ فلم اسٹار چرنجیوی نے اپنی مقبولیت اور پرستاروں کی بنیاد پر سیاسی پارٹی شروع کرنے کا حوصلہ کیا۔دراصل حکم راں اشرافیہ نے ہمیشہ سنیما کو پروپیگنڈے کے لیے ایک اہم ذریعہ کے طور پر استعمال کیا ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد کے دور میں جوزف گوئبلز کی رہنمائی میں نازی پبلسٹی ڈیپارٹمنٹ نے فلم سازوں کو ہدایت کی کہ وہ ایسی فلمیں بنائیں جو سنسنی خیز جذبات اور قوم پرستانہ بیان بازی کو جنم دیں اور سامعین کو ہٹلر کے ماتحت جرمنی کی عظمت کے بارے میں حوصلہ بخشیں ۔
80کی دہائی میں اور 2014کے بعد فلم انڈسٹری میں کئی طرح کی تبدیلیاں رونما ہوئیں ۔80کی دہائی کے بعد بننے والی بیشتر فلموں میں مسلم کرادر اور مسلم شناخت کا سوال دقیانوسی سوچ اور تنگ نظری کی نذر ہوا۔ بیشتر فلموں میں مسلم کردار کی آنکھوں کے گرد ہمیشہ بھاری سرمہ ، سفید کرتا، سرپر ٹوپی اور گلے میں تعویذ نظرآتا۔جب کہ بھارتی مسلمانوں کی ایک فیصد آبادی کا بھی اس طرح کا لباس نہیں ہے۔مسلم کردار ’’جناب‘‘، ’’بھائی جان‘‘ اور ’’بیگم‘‘ اور روانی سے اردو بولتے نظر آتے ہیں جبکہ زیادہ تر ہندوستانی مسلمان دراصل اپنی علاقائی زبانوں اور بولیوں میں بات کرتے ہیں۔ اردو زیادہ تر ملک کے بعض علاقوں تک محدود ہے اور تمام ہندوستانی مسلمانوں کی زبان نہیں ہے ۔ 9/11 کے بعد بننے والی بیشتر فلموں میں مسلم کردار کو دہشت گردی سے جوڑا گیا۔بھارتی سماج مجموعی طور پر مردوں کے غلبہ والا سماج ہے۔تاہم فلموں میں مسلم مردوں کو ہی پیٹریاٹک سماج کے نمائندے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔عورتوں کے ساتھ زیادتی کرنے والا مسلم کردار ہی ہوتا ہے۔حجاب پہننے والی ہر مسلم خاتون اپنے خاندان کے جبر کا شکار نظر آتی ہے ۔مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز غلط بیانی نے نہ صرف مسلمانوں کے تئیں سماج میں دقیانوسی تصور کو پیدا کیا بلکہ تیزی سے مسلمانوں کو غیر ثابت کرنے میں بھی معاون ثابت ہوئی۔سوال ان مسلم کرداروں کی نمائندگی کا نہیں ہے جو گناہ کرتے ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا ان کی نمائندگی کا واحد طریقہ یہی ہے؟ہندوستانی سنیما پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگار پروفیسر معیدالاسلام کہتے ہیں کہ ’’جب آپ لوگوں کو بار بار ایک چیز دکھاتے ہیں، ایک طبقے سے متعلق ایک ہی کہانی بناتے ہیں تو یہ واحد کہانی دقیانوسی تصورات پیدا کرتی ہے اور دقیانوسی تصورات کا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ وہ غلط ہیں، بلکہ وہ نامکمل ہیں اور نامکمل کہانیاں سماج و معاشرہ دونوں کو تباہی کے دہانے پر پہنچادیتی ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو ایک مخصوص شکل میں دکھانا غیر ضروری علامت پرستی ہے۔آپ اسلام کے بارے میں کچھ نہیں جانتے لیکن ہمیشہ ٹوپی والے مرد کو فلموں میں بے عزت کرتے ہیں اور اس کی تابعداری کرنے والی حجاب میں ملبوس خاتون کو خوفزدہ دکھاتے ہیں تو یہی تصور ناظرین اپنے ساتھ گھر لے جاتے ہیں۔ مسلم مردوں اور خواتین کے تئیں پیدا ہونے والی سوچ اور تاثرات نسل در نسل سفر کرتے رہیں گے۔ یہ حقیقی معنوں میں جبر ہے۔فلمی تماش بینوں کے ساتھ ناانصافی ہے کیوں کہ انہیں آدھا ادھورا سچ دکھایا جارہا ہے۔فلموں کی کہانی کے مصنفین اور ہدایت کاروں کی جانب سے تحقیق کا فقدان ہے۔صرف مفروضے کی بنیادپر فلمیں بن رہی ہیں ۔اس سے جس چیز کا امکان نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں سے متعلق غلط بیانی کو دانستہ طور پر سیاسی انجام تک پہنچانے کی کوشش کی جائے گی۔ معیدالاسلام کہتے ہیں ہم ان سے صرف یہ کہیں گے کہ اگر آپ اپنی فلموں میں مسلمانوں کو نمائندگی دے رہے ہیں تو انہیں صحیح طریقے سے پیش بھی کریں۔ دقیانوسی تصورات کو ہوا نہ دیں، اسلاموفوبیا میں اپنا حصہ نہ ڈالیں اور ہمیں ایسی چیز کی طرح نہ دکھائیں جو ہماری نہیں ہے۔ ہمیں اپنے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے بطور آلہ استعمال نہ کریں۔
فلموں کا سیاسی استعمال
سیاسی نظریہ اور پالیسی کے فروغ کے لیے سنیما کے استعمال کی ایک تاریخ ہے۔ اس کی شروعات آزادی کے بعد ہی ہوگئی تھی مگر اس کا سب سے بہترین استعمال کرنے کا سہرا تلگو فلموں کے سپراسٹار اور متحدہ آندھرا پردیش کے سابق وزیر اعلی این ٹی راما راو کے سر جاتا ہے۔دراصل 16ویں صدی کے آندھرا پردیش کے سنت پٹلوری ویرا براہمم نے فرانسیسی نجومی نوسٹراڈیمس کی طرح پیش گوئیوں پر ایک کتاب لکھی ہے ۔اس کتاب میں 20ویں صدی کی سیاسی پیش رفت سے متعلق ایسی کئی علامات ذکر کی گئیں جس کی تشریح سیاسی منظرنامے کے مطابق کی جاتی ہے۔ ویربراہمم نے اپنی کتاب، کالگننم میں دیگر پیش گوئیوں کے علاوہ ایک پیش گوئی یہ بھی کی ہے کہ ایک بنیا (سوداگر) ملک کو آزادی کی طرف لے جائے گا، اور ایک بیوہ ہندوستان پر حکومت کرے گی۔این ٹی راما رائو کوکڑپہ کے رہنے والے اس سنت کی زندگی پر بننی والی فلم میں ہیرو کے کردار کی پیش کش ہوئی۔سنت کے کردار کی تیاری کے لیے این ٹی آر نے کلاگننم پڑھنا شروع کیا، اور جب وہ اس حصے پر پہنچے جس میں یہ پیشن گوئی کی گئی تھی کہ آندھرا پردیش پر ایک رنگین چہرے والا شخص حکومت کرے گا تو وہ چونک گئے۔ این ٹی آر افسانوی فلموں میں مختلف دیوتاؤں کا کردار ادا کرتے ہوئے اسٹارڈم تک پہنچ چکے تھے۔اس کے لیے وہ بہت ہی زیادہ میک اپ کرتے تھے۔این ٹی آر کو فوری طور پر یہ احساس ہوا کہ رنگین چہرے والا آدمی تو وہ خود ہیں اور یہ پیش گوئی انہی سے متعلق ہی ہے۔پھر چند ہفتوں کے اندر ہی انہوں نے تلگو دیشم پارٹی (ٹی ڈی پی) قائم کی۔ 1983 کے اسمبلی انتخابات میں ٹی ڈی پی نے کانگریس کو شکست دی۔کانگریس آندھرپردیش کی 1956میں تشکیل کے بعد سے ہی اقتدار میں تھی ۔این ٹی آر کانگریس کو شکست دینے میں کامیاب ہوگئے۔وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے جب ان کی مستقبل کی پالیسیوں کے بارے میں ایک انٹرویو میں سوال کیا گیا تو این ٹی آر نے مبینہ طور پر جواب دیاکہ آپ نے فلم (بوبلی پلی) دیکھی ہے جس میں ایک آدمی ہے جو ہمیشہ عوام کے مظلوم طبقے کا ساتھ دیتا ہے تو قدرتی طور پر ہیرو کے لیے ہمدردی پیدا ہو جاتی ہے۔ یہی وہ انداز ہے جو میں ادا کرنا چاہتاہوں۔ تاکہ لوگ میری خدمت سے اچھی چیزوں کی توقع کریں۔ بوبلی پُلی، میں این ٹی آر اور سری دیوی نے اداکاری کی ہے ۔اس فلم میں سیول سوسائٹی میں بدعنوانی کو ختم کرنے کے لیے ہیرو کو جدوجہد کرتے ہوئے دکھایا گیا ۔اگرچہ جنوبی ہند میں فلموں کو نظریاتی طور پر استعمال کرنے کی یہ کوئی پہلی مثال نہیں ہے۔
بھارت کی فلم انڈسٹری میں ایسا وقت کبھی نہیں آیا جس میں سنیما سیاسی نہیں تھا۔ماضی میں بھی سنیما سیر و تفریح کے ساتھ سیاسی نظریات کی ابلاغ کرتا ہوا نظرآتا ہے مگر 2014کے بعد سیاسی تعلقات کے نتیجے میں جو تبدیلی بھارتی سنیما میں آئی ہے وہ فلم سازوں کا دائیں بازو کی طرف جھکاو ہے۔اگر یہ صرف جھکاو تک ہی محدود رہتا تو معاملہ اتنا حساس نہیں ہوتا۔ چوں کہ مقابلہ آرائی اور زیادہ سے زیادہ فلم سازی کی ذہنیت نے فنکارانہ خوبیوں اور تحقیقی سوچ کا خاتمہ کردیا ہے اس لیے دائیں بازو کی ضروریات کو پوری کرنے کے لیے فلم ساز تحقیق اور زمینی حقائق کا پتہ لگائے بغیر صرف مفروضوں اور آدھے ادھورے سچ اور سنی سنائی کہانیوں کی بنیاد پر فلم سازی کرنے لگے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دائیں بازو کی نظریات کی حامل بیشتر فلمیں ’’پروپیگنڈے‘‘ کے زمرے کا حصہ بن گئیں۔یہ سوال الگ ہے کہ اس طرح کہ پروپیگنڈائی فلموں کے کیا اثرات مرتب ہوں گے ؟ کیا اس سے سیاسی مقاصد حاصل ہوں گے ۔ان سوالوں پر بعد میں گفتگو کی جائے گی مگر یہ وہ نکتہ ہے جو ماضی کی فلموں اور آج کی فلموں میں خط فاصل کھینچتا ہے۔آج کی فلمیں نہ صرف سیاسی ہیں بلکہ جھوٹ، گم راہ کن دعوؤں اور زمینی حقائق سے عاری ہیں ۔جھوٹ و مکر کو ایک عادت میں تبدیل میں کرنے کی اس کوشش نے سب سے زیادہ بھارتی فلم انڈسٹری کو یہ نقصان پہنچایا کہ آج بھارتی سنیما زوال پذیر ہے۔جدید ٹکنالوجی کے باوجود یہ فنکارانہ خوبیوں سے عاری ہے جوکبھی بالی ووڈ کی پہچان تھی۔آج کے سنیما میں نہ تخلیقی صلاحیتوں کی جلوہ افروزی ہے اور نہ کہانی کے پلاٹ مستحکم ہیں اور نہ کرداروں میں کشش ہے ۔
ایک رپورٹ کے مطابق حالیہ چند مہینوں میں دس سے زائد ایسی فلمیں آئی ہیں جو حکم راں جماعت کے نظریات اور فکر کی ترجمانی کرنے کے ساتھ ساتھ انتخابی ماحول سازی میں معاون ثابت ہوسکتی ہیں۔ان میں ’’بستر: نکسل اسٹوری‘‘،’’ آرٹیکل 370‘‘، سواتنتریہ ویر ساورکر، ’’جے این یو: جہانگیر نیشنل یونیورسٹی‘‘، دی سابرمتی رپورٹ، آخر پالیان کب تک، رضاکار: حیدرآباد کی خاموش نسل کشی، حادثہ یا سازش: گودھرا… شامل ہیں۔ ان فلموں کے ریووز پڑھنے کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سیاسی فلمیں اسی طرح ہیں جس طرح ہم نےاوپر جنوبی ہند کی فلموں کے بارے میں بتایا ہے؟ کیا ان فلموں کو بھی سیاسی منشور سمجھا جا سکتا ہے جس طرح بوبلی پلی کو ٹی ڈی پی کے منشور کے طور پر پیش کیا گیا تھا؟
اگر حالیہ دنوں میں دائیں بازو کے نظریات کو فروغ دینے والی فلموں کا تجزیہ کیا جائے تو دوطرح کی فلمیں نظرآتی ہیں ۔ایک وہ ہیں جن میں مودی کی پالیسیوں اور ان کی حکومت کی کارکردگی کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔ان میں آرٹیکل 370جیسی فلمیں شامل ہیں مگر ایسی فلموں کی فہرست طویل ہے جن میں آر ایس ایس کے نظریات اور ہندتو کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ ان فلموں کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ ان میں مسلمانوں اور سیکولرکردار کے حاملین پر حملہ کیا گیا ہے۔جے این یو پر بننے والی فلم میں نہ صرف ایک تعلیمی ادارہ کی شبیہ کو نقصان پہنچایا گیا ہے بلکہ جہانگیر کے نام کو جوڑکر مسلم مخالف ذہنیت کو بھی آگے بڑھا گیا ہے۔اسی طرح گجرات فسادات پر بننے والی فلموں میں نریندر مودی پر لگے سب سے بڑے داغ کو مٹانے کے ساتھ ساتھ ایک بار پھر ملک کے بھیانک ترین فسادات کا ساراملبہ مسلمانوں پر ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اگرچہ ایک دو فلموں کو چھوڑ کر زیادہ تر فلمیں پردہ سیمیں پر ناکام رہی ہیں مگر میڈیا آؤٹ لیٹس کے ذریعہ رپورٹ کردہ پروڈکشن اور باکس آفس کے اعداد و شمار درست ہیں، تو اس سال ہندی اور تلگو کی فلموں کو 100 کروڑ روپے سے زیادہ کا نقصان ہوگا۔باکس آفس پر تباہ کن کارکردگی کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ اس طرح کی فلمیں بننا بند ہو جائیں گی۔ بھارتی فلم پروڈیوسروں کے لیے تجارتی ناکامی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ زیادہ تر فلمیں پیداواری لاگت کی وصولی نہیں کرپاتی ہیں۔ فلمی صنعتیں اس لیے زندہ رہتی ہیں کیونکہ پروڈیوسرز فلموں کے ٹکٹ کے علاوہ دوسرے ذرائع سے بھی آمدنی حاصل کرتے ہیں ۔ انتخابی موسم درحقیقت پروڈیوسروں کے لیے کچھ ذرائع سے فنڈ اکٹھا کرنے کا موقع ثابت ہوتا ہے ۔اگر پروپیگنڈہ فلموں کے پرڈیوسروں اور اس سے وابستہ افراد کو دیکھیں تو ان میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو براہ راست بی جے پی اور آر ایس ایس سے وابستہ ہیں ۔مثال کے طور پر، رضاکار حیدرآباد کی خاموش نسل کشی، تلگو میں بنائی گئی اور ہندی، تمل، کنڑ اور ملیالم میں ڈب کی گئیں ہیں۔ مبینہ طور پر اس کی لاگت 40 کروڑ روپے ہے اور اس رقم کی وصولی کا امکان نہیں ہے۔ فلم کا پروڈیوسر خود کو بی جے پی کا ایک فخریہ کارکن کے طور پر پیش کرتا ہے اور وہ تلنگانہ کے بھونگیر اسمبلی حلقہ سے پارٹی کا امیدوار تھا۔
گزشتہ ایک دہائی میں آر ایس ایس اور ہندتو نظریاتی فلموں کے تجزیے میں ایک حقیقت یہ بھی سامنے آتی ہے زیادہ تر فلموں میں مسلمانوں کا خوف دکھایا گیا ہے۔دراصل ’’خوف کی سیاست‘‘ ہمیشہ استدلال، امید اور بھائی چارے کے مقابلے میں ہمیشہ زیادہ مقبول رہی ہیں ۔ 9/11 کے بعد کی دنیا میں کوئی بھی چیز سیاسی منافع کے لیے اتنی نفع بخش نہیں رہی جتنی ’’سازشی تھیوری‘‘۔ پروپیگنڈہ صرف جزوی طور پر موثر ہوتا ہے جس میں کسی حکم راں طاقت کی خوبیوں کی تعریف کی جاتی ہے مگر خوف و نفرت انسانی ذہن و دماغ پر دستک دیتی ہے۔اس لیے زیادہ تر فلموں میں مسلمانوں کا خوف دکھاکر ملک کی اکثریتی طبقے کو پیغام دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اگر انہوں نے اس کی حساسیت کو نہیں سمجھا تو ان کی شناخت خطرات سے دوچار ہوجائے گی۔چوں کہ کئی سالوں سے ہندوؤں کے دماغوں میں مسلمانوں کے خلاف زہریلے بیج بوئے گئے ہیں اور وحشی، درندہ اور سماج دشمن کے طور پر پیش کیا گیا ہے اس لیے خوف اور سازش کی تھیوری جلد ہی مقبول عام ہوجاتی ہے۔
آخر حل کیا ہے؟
بالی ووڈ کی طرف سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ چونکہ انڈسٹری کا مطلب کاروبار ہے، دی کشمیر فائلز اور دی کیرالا اسٹوری کی باکس آفس پر کامیابی کے بعد پرڈیوسروں کو سیاسی بیانیے پر مبنی فلموں نے سرمایہ کاری کی طرف راغب کیا ہے۔انہیں لگتا ہے کہ اس طرح کی فلموں سے وہ اپنے نقصانات کی بھرپائی کرسکتے ہیں ۔تاہم یہ نصف سچائی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر سیاسی بیانیے والی فلمیں پردہ سیمیں پر فلاپ ہورہی ہیں ۔اس لیے یہ دلیل عبث ہے مگر سوال یہ ہے کہ یہ فلمیں بنتی کیوں ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اب فلمیں روایتی سنیما ہال سے نکل کر اس کے چھوٹے سے چھوٹے کلپ منٹوں میں وائرل ہوتے ہیں ۔اس لیے فلموں کے چھوٹے چھوٹے کلپ کی مدد سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کے دل و دماغ پر دستک دیا جاسکتا ہے۔ایوارڈ یافتہ دستاویزی فلم ساز متین احمد کہتے ہیں فلموں کا اثر زیادہ دیر تک رہتا ہے۔ ’کیرالا اسٹوری‘ ریلیز ہونے کے بعد یہ موضوع زہر بحث ہوگیا۔اگرچہ بڑے طبقے نے اس فلم کے مواد کو سچ کے طور پر قبول نہیں کیا مگر موضوع بنانے اور بحث کا آغاز کرنے میں ضرور کامیاب رہی ہے ۔2019کے عام انتخابات سے قبل یہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی اور اب 2024میں بھی اس کو دہرانے کی کوشش کی جارہی ہے۔متین احمد نے مزید کہا کہ کسی کی سچائی کو چھپانا، آدھا سچ دکھانا اور جھوٹ دکھانا سب پروپیگنڈا ہے۔دی کشمیر فائلز اور دی کیرالا اسٹوری جیسی فلموں کو سمجھنے کے دوران یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ان کے ارادے مالی فوائد سے بڑھ کر ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کا مقصد مخصوص آراء کو متاثر کرنا، وسیع تر ایجنڈا تجویز کرنا ہے۔فلمیں عقائد، رویوں اور سماجی معیارات کو متاثر کرتی ہیں۔ میڈیا کی دوسری شکلوں کے مقابلے میں ان میں رائے پر اثر انداز ہونے اور خیالات کو پھیلانے کی صلاحیت زیادہ ہے۔ تاہم، فلمی صنعت کے اندرونی ذرائع یہ بھی دعوے کرتے ہیں کہ فلموں کی اس نئی صنف کی وجہ بے چینی، موقع پرستی اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے مدد اور ٹیکس میں چھوٹ کی امید نے اس طرح کی فلم سازی کی حوصلہ افزائی کی ہے۔بالی ووڈ کے متعدد اندرونی افرادنے نشان دہی کی ہے کہ بالی ووڈ، حالیہ چند سالوں میں اکثر ہائی ڈیسیبل مہموں کا شکار رہا ہے، جن کی اکثر بی جے پی لیڈروں نے تائید کی ہے ۔ فلموں کے بائیکاٹ سے لے کر ان پر پابندی لگانے تک۔ ہندو دائیں بازو کے گروپوں نے کو ہندو مخالف موادکے الزام میں اکثر فلموں و شوز کا حشر و نشر کیا ہے۔اور جب فلمیں حکم راں جماعت کے نظریے کے مطابق ہوتی ہیں تو انہیں اکثر حکومت کی طرف سے ٹانگ اوپر مل جاتی ہے۔ ماضی میں، کشمیر فائلز اور دی کیرالا اسٹوری جیسی متنازعہ فلموں کو بی جے پی حکومتوں نے انعام دیا تھا اور ٹیکس معاف کیا تھا۔ بی جے پی یونٹوں نے ان فلموں کی مفت اسکریننگ کا بھی اہتمام کیا، جس سے انہیں بڑی تعداد میں سامعین حاصل کرنے میں مدد ملی تھی۔ اس لیے اس وقت بالی ووڈ خوف وہراس میں مبتلا ہے۔ کچھ ایسے پرڈیوسر بھی اس طرح کی فلم سازی کررہے ہیں جن کی ماضی میں دوسری قسم کی شبیہ رہی ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ اس کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟سب سے پہلے ان فلموں کے ذریعہ مسلمانوں کی شبیہ بگاڑنے کی جو کوششیں کی جارہی ہیں اور تاریخ کے ساتھ جو کھلواڑ کیا جارہا ہے اس کے لیے بڑے پردہ سمیں کے بجائے تاریخی دستاویزی ڈکیومنٹری بنانے کی ضرورت ہے اور سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک، یوٹیوب ، ایکس ہینڈل اور دیگر ذرائع اس کی ترسیل میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں ۔یہ کا م صرف مسلمانوں کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ فلمی صنعت سے وابستہ سیکولر افراد کو بھی یہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔

 

***

 حالیہ چند مہینوں میں دس سے زائد ایسی فلمیں آئی ہیں جو حکم راں جماعت کے نظریات اور فکر کی ترجمانی کرنے کے ساتھ ساتھ انتخابی ماحول سازی میں معاون ثابت ہوسکتی ہیں۔ان میں ’’بستر: نکسل اسٹوری‘‘،’’ آرٹیکل 370‘‘، سواتنتریہ ویر ساورکر، ’’جے این یو: جہانگیر نیشنل یونیورسٹی‘‘، دی سابرمتی رپورٹ، آخر پالیان کب تک، رضاکار: حیدرآباد کی خاموش نسل کشی، حادثہ یا سازش: گودھرا… شامل ہیں۔ ان فلموں کے ریووز پڑھنے کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سیاسی فلمیں اسی طرح ہیں جس طرح ہم نےاوپر جنوبی ہند کی فلموں کے بارے میں بتایا ہے؟ کیا ان فلموں کو بھی سیاسی منشور سمجھا جا سکتا ہے جس طرح بوبلی پلی کو ٹی ڈی پی کے منشور کے طور پر پیش کیا گیا تھا؟


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 اپریل تا 04 مئی 2024