مولانا مفتی سعید احمد پالن پوریؒ کی علمی خدمات

محمدکمال اختر قاسمی

موت ایک ایسی حقیقت ہے جس سے ہر جاندار کو دوچار ہونا ہوتاہے لیکن بعض حادثات ایسے ہوتے ہیں جو اپنے پیچھے ناقابل تلافی نقصانات چھوڑ جاتے ہیں ، استاذ گرامی حضرت مفتی سعید احمد پالن پوری کی وفات بھی علمی دنیا کے لیے بڑا خسارہ ہے۔ وہ اب اس دنیا میں نہیں رہے لیکن ان کی گراں قدر علمی خدمات ان کو ہمیشہ زندہ رکھیں گی، تفسیر ،حدیث اور فقہ تینوں علوم میں ان کو غیر معمولی ملکہ حاصل تھا ،احادیث کے مشکل ترین مقامات اور ابہامات کو بہت ہی آسان ترین اسلوب میں حل کر دیتے تھے،۔ منطق و فلسفہ اور نحو و صرف میں بھی ان کا درک نمایاں ہے ۔
درس و تدریس
درس وتدریس ان کااہم میدان تھا،وہ نہایت کامیاب مدرس اور شفیق مربی تھے،۱۳۸۴ھ بمطابق ۱۹۶۵ء سے آخری عمر(۵۵ سال) تک درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے، طویل عرصہ سے مادرعلمی دارالعلوم دیوبند میں ترمذی شریف جلد اول اور طحاوی شریف پڑھا رہے تھے، شیخ الحدیث شیخ نصیر احمد خان کی رحلت کے بعد بخاری جلد اول ان کے ذمہ کی گئی اور وہ شیخ الحدیث کے منصب پر بھی فائز ہوئے اور انہیں صدرالمدرسین کی ذمہ داری بھی سپرد کی گئی۔
طرز تدریس
تدریس میں سادگی اور بے پناہ سلاست تھی،افہام کی ایسی خداداد صلاحیت حاصل تھی کہ معمولی توجہ سے سننے والا بھی بات کو پورے طور پر سمجھ لیتا تھا، گفتگو میں شفافیت کے ساتھ دل کشی تھی اور طرز تخاطب محبت و الفت سے بھرا ہوا تھا۔احادیث کی تدریس میں فقہاء کی آراء اور ان کے دلائل اور طرز استدلال کے ذکر کے ساتھ اجتہادی طریقہ اختیار کرتے اور تحقیقی مواد سے بھرپور گفتگو کرتے ۔
تفسیروحدیث میں مہارت کے ساتھ فقہ اور اصول فقہ کی تمام باریکیوں پر ان کی گہری نظر تھی، ملک و بیرون ملک کے فقہی سیمیناروں میں ان کی رائے کو خاص اہمیت دی جاتی تھی،دارالافتاء دارالعلوم دیوبند کی فتاویٰ کمیٹی کے صدر تھے۔
تصنیف و تالیف
درس و تدریس میں مہارت کے ساتھ تصنیف و تحقیق میں بھی امتیازی مقام رکھتے تھے ، تفسیر ،اصول تفسیر، حدیث اور اصول حدیث، فقہ اور اصول فقہ، علم کلام اور فلسفہ ان سب موضوعات پر ان کی تصانیف موجود ہیں۔
تفسیر میں ’’ہدایت القرآن‘‘ نہایت اہم ترین تفسیر ہے،جس میں آیات احکام اور قصص القرآن پر تفصیلی بحث کے ساتھ قرآن مجید کے تذکیری پہلو پر خصوصی توجہ دی گئی ہے، اصول تفسیر میں ’’الفوز الکبیر‘‘(جو شاہ ولی اللہ کی فارسی تصنیف ہے )کو مرحوم نے عربی میں منتقل کیا ہے ،پھر اس کی اردو شرح بھی کی جو’’العون الکبیر‘‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔
تفسیر کے ساتھ حدیث اور اصول حدیث میں انہوں نے گراں قدر تصنیفی خدمات انجام دیں اور اس سے متعلق متعدد تصانیف منظر عام پر آئیں، ان میں سے مقدمہ مسلم کی اردو شرح’’ فیض المنعم‘‘ کافی اہم ہے ، ان کے در وس ترمذی کا مجموعہ’’ تحفۃالالمعی‘‘ کے نام سے آٹھ جلدوں میں شائع ہوچکا ہے، اس میں برسوں کی محنت سے گراں قدر علمی ذخیرہ کو جمع کیا گیا ہے، الفاظ حدیث کی تشریح کے ساتھ اور تمام احادیث کی مدلل ومفصل تحقیقی معلومات سے معمور شرح پیش کی گئی ہے ،کتاب العلل کی علمی و فنی تشریح کے ساتھ قیمتی مقدمہ سے اس کتاب کو مزین کیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ حدیث میں متعدد تصانیف ہیں، بطور خاص امام طحاوی کی شرح ’’شرح معانی الآثار‘‘ کی عربی تلخیص ’’زبدۃ الطحاوی‘‘ دروس بخاری کا مجموعہ’’ تحفۃ القاری شرح بخاری‘‘ نہایت مقبول اور ہیں۔
علم اصول حدیث میں مرحوم کی تصانیف ریفرنس کی حیثیت رکھتی ہیں خاص کر تحفۃ الدرر شرح نخبۃ الفکر ، شرح علل الترمذی اور تہذیب المغنی (جو علم رجال میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے) مقبول ترین ہیں۔فقہ اور اصول فقہ کے ممتاز استاذ تھے،اس میدان میں وہ بہت بلند مقام پر نظر آتے ہیں ، فقہ و افتاء کی تدریس کے ساتھ ان کی تصنیفی کاوشیں دنیائے فقہ کے لیے گراں قدر سرمایہ ہیں۔ان میں سے’’حواشی امداد الفتاوی‘‘ نہایت اہم ہے، اسی طرح ’’حرمت مصاہرت ‘‘ تحقیقی مواد پر مشتمل اہم تصنیف ہے، اس میں سسرالی اور دامادی رشتوں کے متعلق مفصل اور مدلل احکام بیان کیے گئے ہیں، اصول فقہ میں ان کی متعدد معرکۃ آراء تصانیف ہیں،ان میں سے کئی کتابیں دارلعلوم دیوبند کے علاوہ متعدد دینی مدارس میں شامل نصاب ہیں، بطور خاص’’ مبادی الاصول‘‘ اور اس کی شرح ’’معین الاصول‘‘اصول فقہ سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے نہایت اہم ہیں۔افتاء کے آداب اور اس کی بنیادی شرائط کی رہنمائی کے لیے مرحوم کی کتاب’’ آپ فتویٰ کیسے دیں‘‘ افتاء کے طالب علموں کے لیے نہایت قیمتی رہنمائی ہے۔ جو بنیادی طور پر علامہ شامی کی شہرہ آفاق کتاب’’ شرح عقود رسم المفتی‘‘ کی نہایت عمدہ شرح ہے۔ منطق اور فلسفہ میں بھی ان کو درک حاصل تھا، اس فن میں بھی ان کے تصنیفی جواہر بے مثل ہیں، ان میں سے ’’مبادی الفلسفہ‘‘ کو بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی،جس میں فلسفہ کی تمام اصطلاحات کی عربی زبان میں مختصر اور سلیس وضاحت کی گئی ہے،مبادی الفلسفہ کی شرح ’’معین الفلسفہ ‘‘کو بھی بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہے،جس میں حکمت و فلسفہ کے دقیق مسائل کی آسان اسلوب میں وضاحت کی گئی ہے اور فلسفہ کی فنی بحثوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے،ان کے علاوہ مفتاح التہذیب،آسان منطق، منطق کی معروف کتاب ’’سلم العلوم‘‘کی مقبول ترین شرح ’’ارشادالفہوم‘‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ صرف و نحو میں بھی مرحوم کو مکمل مہارت حاصل تھی، چنانچہ صرف و نحوسے متعلق ان کی متعددکتابیں منظر عام پر آچکی ہیں، خاص طور سے ابتدائی درجات کے لیے ’’ آسان نحو‘‘ اور’’ آسان صرف‘‘ بے حد مفید ہیں۔ فن نحو کی معروف کتاب’’ کافیہ‘‘ کی نہایت آسان اسلوب میں انہوں نے عربی اور اردو دونوں زبانوں میں شرح لکھی ،اردوشرح ’’ھادیہ‘‘ کے نام سے اور عربی شرح’’ وافیہ‘‘ کے نام سے شائع ہوئیں۔
معروف محدثین، فقہاء اور راویان کتب کے تفصیلی سوانح پر مشتمل نہایت مبسوط دستاویز تیار کی ہے، جو’’ مشاہیر محدثین و فقہاء کرام اور تذکرہ راویان کتب حدیث‘‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہے، جس میں خلفائے راشدین ،عشرہ مبشرہ، ازواج مطہرات، بنات طیبات، مدینہ کے فقہاء سبعہ ،مجتہدین، محدثین ،راویان کتب حدیث، شارحان حدیث، معروف فقہاء و مفسرین، متکلمین اسلام اور دیگر مشہور ترین شخصیات کے جامع ترین تذکرے پر مشتمل ہے۔اس کے علاوہ مشہور محدثین کی تفصیلی حالات زندگی پرمشتمل متعدد تصانیف ہیں،ان میں حیات امام ابو داود،حیات امام طحاوی وغیرہ معروف و مقبول ہیں۔ان کی تالیفات میں’’ محفوظات‘‘ جو تین جلدوں پر مشتمل ہے، طالبان علوم نبوت کے لیے بیش قیمت تحفہ ہے ،اس میں ان منتخب آیات و احادیث کو جمع کیا گیا ہے جو بطور خاص طالبان علوم دینیہ کے ایمانیات و اخلاقیات کی درستگی کے لیے نہایت اہم ہیں،’’محفوظات‘‘ میں موجود آیات و احادیث کو مدارس میں حفظ یاد کرایا جاتا ہے اور یہ اکثر دینی مدارس کے نصاب میں داخل ہے۔
مسلم یونیورسٹی علی گڑھ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے سیمیناروں میں پیش کیے گئے چار اہم مقالوں کا مجموعہ’’ اسلام تغیر پذیر دنیا میں‘‘ کے نام سے شائع ہوا، جس میں عصر حاضر میں اسلام کو درپیش چیلنجز اور ان چیلنجز زدہ حالات میں اسلام کے قائدانہ کردار کی بحالی پر نہایت تفصیل سے مدلل اور محقق گفتگو کی گئی ہے، ان کے علاوہ مختلف موضوعات پر ان کی اور بھی قیمتی تالیفات، شروحات اور حواشی ہیں، جو متعلقہ موضوع سے دلچسپی رکھنے والے اہل علم کے لیے مفید ہیں۔ان میں سے تسہیل ادلہ کاملہ،حواشی و عناوین ایضاح الادلہ،افادات نانوتوی،رحمۃ اللہ الواسعۃ،کامل برہان الٰہی،حجۃ اللہ البالغہ عربی،مجموعہ علمی خطبات،دین کی بنیادیں اورتقلید کی ضرورت،مسلم پرسنل لاء اورنفقہ مطلقہ وغیرہ اہم ترین علمی و تحقیقی تالیفات ہیں۔
ایک طرف جہاں وہ کثیر التصانیف محقق اور باکمال مدرس تھے وہیں متنوع علمی جہات پر کامل دسترس رکھتے تھے، مدارس دینیہ میں متداول تمام فنون میں ان کی حیثیت ایک مرجع کی تھی، ان کا درس نہایت مقبول اور عام فہم ہوتا تھا، معلومات سے پر اور نہایت موثر گفتگو کرتے تھے، اندازہ تحریر اوراسلوب بیان بھی اسی طرح آسان، عام فہم ، معلومات سے پراور نہایت موثر تھا، اللہ تعالیٰ مرحوم کی خدمات سے دنیا کو فیض یاب کرے اور ان کے لیے باعث مغفرت اور بلندی درجات کا ذریعہ بنائے۔ آمین۔
مضمون نگار ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی،علی گڑھ کے رفیق ہیں۔ [email protected]


فقہ و افتاء کی تدریس کے ساتھ ان کی تصنیفی کاوشیں دنیائے فقہ کے لیے گراں قدر سرمایہ ہیں۔ان میں سے’’حواشی امداد الفتاوی‘‘ نہایت اہم ہے