زندگی کا ایک انمول سفر

کلام الٰہی کوسینے میں بسانے کی ایک دل پذیر روداد

حافظ حماد الدین ،حیدرآباد

جون2011 کی صبح تھی۔ نئے تعلیمی سال کا آغاز ہونے جا رہا تھا۔ دل خوشی و مسرت کے ساتھ ساتھ غم کے جذبات سے لبریز تھا۔ ہر سال ان دنوں چھٹیاں ختم ہونے کا غم اور پھر اسکول کا آغاز، دوستوں سے ملاقات اور نئی کلاس میں داخلے کی خوشی ہوا کرتی تھی- لیکن اس سال خوشی اور غم دونوں کا انداز کچھ نیا تھا۔ غم اس بات کا تھا کہ نئے تعلیمی سال میں اب دوبارہ اسکول نہیں جا پاؤں گا اور خوشی اس بات کی تھی کہ ایک دینی مدرسے میں حفظ قرآن کی سعادت سمیٹنے جا رہا ہوں۔ بچپن کی یہ دیرینہ خواہش بھی اکثر انگڑائی لے کر جوش دلاتی تھی کہ والد محترم جیسا حافظ قرآن بنوں۔ اسی نیک عزم کی سمت یہ میرا پہلا قدم تھا۔ صبح کچھ دیر گفتگو کے بعد والد صاحب نے یہ خوش کن فیصلہ سنا دیا کہ میرا داخلہ مدرسہ مسجد عزیزیہ، مہدی پٹنم میں ہوگا۔ والدہ محترمہ نے مدرسے کے ڈریس کوڈ کے مطابق لباس تیار کرکے دیا جسے میں نے بخوشی زیب تن کیا۔ ناشتے کے بعد والد صاحب کے ساتھ روانہ ہوا اور یوں میرا داخلہ مدرسہ مسجد عزیزیہ میں ہوا۔
مدرسہ کے ناظم، شہر کے معروف عالم دین مولانا عمادالدین محسن عمری مدنی ہیں۔ وہ والد صاحب کے اچھے رفیق اور دادا جان کے بھی ساتھی ہیں۔ ابتدائی گفتگو کے بعد داخلہ کی کارروائی مکمل ہوئی۔ حافظ جنید سے بھی ملاقات کروائی ان کا بھی حفظ جاری تھا اور وہ ہمارے پڑوسی بھی تھے۔ والد صاحب نے ان سے درخواست کی کہ وہ واپسی میں بس کے لیے میری مدد فرمادیں۔ جنید بھائی نے کہا! آپ فکر نہ کریں اس روٹ پر پبلک ٹرانسپورٹ کی تفصیل میں حماد کو سمجھا دوں گا۔
گھر اور مدرسہ کے درمیان تقریباً 10 کلو میٹر کا فاصلہ حائل تھا۔ مدرسہ کا پہلا دن اور میری عمر 10 سال! خود اعتمادی کی راہ پر والد صاحب کی اس خاموش رہنمائی نے مجھے اس دن زندگی کا ایک انمول سبق عملاً سکھایا کہ خود اعتمادی باتیں کرنے سے نہیں بلکہ عملی قدم اٹھانے سے پیدا ہوتی ہے۔
ابتداءً مدرسے کے اوقات صبح 7 تا 1 بجے اور شام میں مغرب تا 9:30 ہوا کرتے تھے چونکہ مدرسے اور گھر کا درمیانی فاصلہ زیادہ تھا اسی لیے ناظم صاحب نے رات کے نظام الاوقات سے مجھے مکمل طور پر رخصت دے دی تھی۔ تین مہینے بعد حفظ کا آغاز ہوا، قاعدہ اور ناظرہ میں زیادہ وقت نہیں لگا کیونکہ بچپن میں ہی ایک مرتبہ ناظرہ مکمل ہو چکا تھا۔ ساتھ ہی گھر میں تیسویں پارے کا حفظ بھی تقریباً مکمل ہوچکا تھا۔ حفظ کا آغاز جس استاد کی نگرانی میں ہوا تھا انہوں نے کچھ ہی دن بعد استعفیٰ دے دیا۔ غیر متوقع کیفیت آن پڑی تھی لیکن تدریس جلدہی معمول پر آگئی۔ ساتویں پارے کے حفظ کی تکمیل کے بعد ایک انہونا واقعہ یہ ہوا کہ شہر کے کچھ علاقے فرقہ وارانہ فسادات کی زد میں آگئے اور میرا مدرسہ جانا معطل ہوگیا۔ کچھ دن بعد جب حالات نارمل ہوگئے تو پھر مدرسے کا معمول بحال ہوا۔ ابھی کچھ ہی دن گزرے تھے کہ مدرسے کے نظام الاوقات (ٹائم ٹیبل) تبدیل ہو گئے۔ اب تدریسی اوقات صبح 7 تا رات 9.30 ہوگئے۔ دل اس بات پر بالکل راضی نہیں تھا کہ سارا دن مدرسہ میں بیٹھے رہیں۔ بہر حال والدہ محترمہ نے ہمت بندھائی، ان کی مشفقانہ تربیت نے اثر کیا اور آخر کار دل آمادہ ہوگیا۔
صبح والد صاحب مجھے بس اسٹاپ تک چھوڑ دیتے اور میں 7 بجے سے پہلے10 کلومیٹر کا سفر طئے کر کے مسجد عزیزیہ پہنچ جاتا اور طئے شدہ ٹائم ٹیبل سے ایک گھنٹہ پہلے مدرسہ سے گھر کی طرف واپس روانہ ہوجاتا۔ مدرسہ میں بہت شاندار ٹائم ٹیبل ترتیب دیا گیا تھا۔ صبح سبق سنانا، پھر ناشتہ، اسمبلی، پھر ظہر تک پڑھائی، ظہر کی نماز کے بعد طعام و قیلولہ، اس کے بعد کچھ دیر ریاضی اور انگریزی کی کلاسس ہوتیں۔ عصر کی نماز کے بعد طلباء کی دودھ اور بادام سے ضیافت ہوتی پھر مسجد عزیزیہ کے چھت پر ہم تمام طلباء مل کر خوب کھیلتے۔ مغرب تا 8.30 سبق یاد کرتے اور عشاء کی ادائیگی کے بعد گھر کے لیے روانہ ہوتے۔ گھر پہنچ کر کھانا کھا کر فوری سوجاتے۔ ایک سال جب مکمل ہوا تو کچھ پڑوسی طلباء نے بھی مدرسے میں داخلہ لے لیا۔ اب ہم تمام لوگ مدرسے کے لیے ایک ہی آٹو رکشا میں ساتھ سفر کرتے۔
اس سے پہلے جن استاد نے استعفیٰ دیا تھا ان کی جگہ ایک نئے استاد کا تقرر ہوا۔ کلاسس کا تبادلہ ہوا اور یوں ایک بہتر کلاس ترتیب پائی۔ ہر استاد کے 10 شاگرد ہوا کرتے تھے ہماری نئی کلاس میں کل 10 طلباء تھے، ان میں 6 طلباء کا تعلق تحریکی گھرانوں سے تھا۔ الحمدللہ آج وہ تمام لوگ اسلامی طلباء تنظیم کا حصہ بن کر ایک مبارک راہ پر گامزن ہیں۔
عصر کی نماز کے بعد وقفہ ہوا کرتا تھا۔ ملکی مزاج کے مطابق اسپورٹس کے نام پر کرکٹ اور فٹ بال ہی چھائے رہتے۔ یہ ممکن نہیں تھا کہ کرکٹ کی بیٹ آپ کے ہاتھ میں ہو اور آپ گیند کے ساتھ شفقت کا برتاؤ فرمائیں۔ ہمارے جوشیلے بیٹسمین جب باؤنڈریز کی پیمائش فرمانے لگے تو راہ چلتے لوگوں کے سر ہی عملاً چوکے کی باونڈری بن گئے۔ پھر کیا تھا گیند کے استعمال پر کرفیو لگ گیا۔ ہم نے بھی ٹھان رکھی تھی کہ گیند پر نافذ لاک ڈاؤن زیادہ لمبا نہ چلے۔ ہمارے دوستوں کی کاریگری نے کچھ ایسی گیندیں تخلیق کیں کہ نہ باونڈری کی پیمائش ہو نہ کسی کو چوٹ لگے نہ شکایت ہو اور نہ ہی کھیل کا سلسلہ رکے۔
ادھر حفظ کا معمول بھی خوب چل رہا تھا۔ ایک مہینہ میں اوسطاً 1 پارہ کی رفتار ہوتی تھی۔ نظام الاوقات نے اتنا باندھ رکھا تھا کہ شام ہوتے ہوتے طبیعت تھک جاتی تھی۔ اسی تکان کے مارے دل و ذہن پر شیطانی وسوسوں کا حملہ بھی ہوتا، کبھی خیال آتا کہ حفظ کے اس کٹھن سلسلے کو یہیں روک کر دوبارہ پرانی ڈگر پر لوٹ چلوں یا کم از کم مدرسہ ہی تبدیل کردوں تو کچھ راحت ملے۔ لیکن والدہ محترمہ کی مستقل حوصلہ افزائی نے ہمت ٹوٹنے نہ دی، یوں حفظ کا سلسلہ چلتا رہا۔
انہی دنوں ہمارے حوصلوں کا نیا امتحان یہ ہوا کہ مدرسے کے قوانین مزید سخت کر دیے گئے۔ ایک منٹ کی تاخیر بھی الٹے پاؤں گھر واپس بھیجنے کا قانونی سبب ٹھہری۔ ہم بھی اس نئے اصول کا شکار ہونے سے بچ نہ سکے۔ ایک دفعہ کسی وجہ سے جب پہنچنے میں دیر ہوگئی تو ہم تمام دوست اسی آٹو رکشا میں یو ٹرن کے حکم کے ساتھ گھر پلٹا دیے گئے۔ سخت قوانین ہمارے عزائم کے لیے نیا چیلنج تھے۔ کچھ طلباء سنبھل نہ سکے اور ڈراپ آؤٹ کا شکار ہوگئے۔ یوں ہمارے ہمراہیوں کی تعداد گھٹ گئی۔ آٹو رکشا کی نشستیں خالی ہوگئیں نتیجتاً آٹو رکشا کی سہولت باقی نہ رہی اور بسوں کی دوڑ کا ٹوٹا سلسلہ دوبارہ چل پڑا۔
اس خیال سے ہی بڑا رنج ہوتا کہ اتنی دورسے بس کے کٹھن سفرکے بعد بس ایک منٹ تاخیر کا یہ حوصلہ شکن جواب؟ لیکن ٹھنڈے دماغ سے آج غور کرتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ عمر اور کنڈیشننگ کے اس مرحلے میں ڈسپلن کی عملی تربیت کیوں ضروری ہے۔ اور اسی تربیت نے ہم تمام ساتھیوں کو عملی زندگی کے کتنے قیمتی تحفے دیے۔ سلسلہ صفحہ نمبر ۱5
ڈسمبر کے آغاز کے ساتھ اٹھائیس پارے مکمل ہوئے۔ منزل کی قربت کے خوش گوار احساس نے جوش بھی بڑھا دیا۔ جلد سے جلد حفظ کی تکمیل کی خواہش نے رفتار بھی بڑھادی۔ میں نے تیزی سے انتیسواں پارہ یاد کرنا شروع کیا۔ پچھلے چند سالوں سے معمول تھا کہ سونے سے پہلے سورۃ ملک کی تلاوت کرتا۔ اس وجہ سے سورہ ملک بہت جلد یاد ہوگئی اور کچھ ہی دنوں میں آدھا پارہ مکمل ہوگیا۔ جن طلباء کا حفظ تکمیل کے قریب ہوتا، اصول تھا کہ ان کا سبق ناظم صاحب خود روزآنہ سنا کرتے۔ 16ڈسمبر کو میں نے محترم ناظم مدرسہ سے کہا کہ میں آج قریب آدھا پارہ سناکر حفظ مکمل کرنا چاہتا ہوں۔ ناظم صاحب بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے والدہ محترمہ کو کال کیا، والدہ کی خواہش تھی کہ میرے حفظ کی تکمیل جمعہ کے دن ہو۔ ناظم صاحب نے مجھ سے کہا کہ جمعرات تک پارہ 21 تا پارہ 28 مکمل سناؤں اور اس کے بعد ہی اگلا سبق سنانا۔ اس مرحلہ پر یہ بہت مشکل کام تھا، بہرحال اعادے اور نئے سبق کے ساتھ یہ مرحلہ بھی مکمل ہوگیا۔ جمعہ 20 ڈسمبر 2013 کو بعد عصر میں نے ناظم مدرسہ کو سورۃ مرسلات سناکر اپنا حفظ مکمل کیا۔ الحمدللہ!
معمول کے مطابق بعد عشاء مسجد عزیزیہ کی انتظامی کمیٹی کے صدر کو سبق سنایا اور پھر مدرسے میں مٹھائی کے ساتھ تکمیل حفظ کی خوشی منائی اور خوشیوں کے ڈھیر کے ساتھ گھرواپس چلا آیا۔ تکمیل حفظ کی دیرینہ تمنا جلد مکمل ہوجائے یہ ہمارا خواب تھا۔ آج اس کی تعبیر کی خوشیوں سے میں سرشار تھا۔
آج جب میں سورۃ یونس کی یہ آیت پڑھتا ہوں تو سب سے پہلے تکمیل حفظ کا وہ مبارک دن یاد آجاتا ہے اور ساتھ ہی وہ تمام لمحات بھی جب میں نے تراویح میں قرآن مکمل سنانے کی سعادت پائی۔
قُلۡ بِفَضۡلِ اللّٰهِ وَبِرَحۡمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلۡيَـفۡرَحُوۡا ؕ هُوَ خَيۡرٌ مِّمَّا يَجۡمَعُوۡن ۞
’’اے نبیؐ، کہو کہ اللہ کا فضل اور اس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اس نے بھیجی، اس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہیے، یہ اُن سب چیزوں سے بہتر ہے جنہیں لوگ سمیٹ رہے ہیں‘‘
جاریہ سال لاک ڈاؤن نے عوام کو نئی نئی الجھنوں سے دوچار کر دیا ہے۔ لیکن ادھر ہمارے گھر میں الجھن کی نوعیت کچھ الگ ہی تھی۔ اجتماعی فیصلہ تھا کہ نمازِ تراویح کا اہتمام اب گھروں میں ہوگا۔ مسئلہ ایک نئی مسابقت کا تھا۔ گھر میں دو حفاظ اور دونوں مکمل اور بلاشرکت تلاوت اور امامت کے لیے پرعزم!
مسئلہ بھی پیچیدہ تھا آخر یہ طئے ہوا کہ والد صاحب مرد حضرات کی امامت کریں گے اور ہم خواتین کے امام ڈکلیر کیے گئے۔ میرا دل مطمئن نہ تھا۔ جس دن تراویح کا آغاز ہونا تھا اس دن ایک پڑوسی کی جانب سے تراویح کی امامت کے لیے مطالبہ ہوا۔ والد صاحب سے مشورہ کے بعد میں نے ان پر اپنی رضا مندی ظاہر کردی۔ اللہ نے اس طرح ایک نیا انتظام کر دیا۔ 27 ویں شب کے موقعہ پر جب دوران قیام میں آخری سورتوں کی تلاوت کر رہا تھا توکئی واقعات ذہن میں گردش کررہے تھے اور خوشی اور شکر الٰہی کے جذبات سے آنکھیں اشکبار ہو رہی تھیں کہ اللہ نے مجھ جیسے ایک حقیر و معمولی بندے کو اپنے کلام کی حفاظت کے لیے مامور کیا۔ اسی دن طئے کیا کہ تکمیل حفظ کی روداد سفر آپ حضرات کے ساتھ بھی شیر کروں گا۔ اس سال بھی الحمد للہ مکمل قرآن سنانے کی سعادت نصیب ہوئی اور پھر وہی فرحت، اور خوشی کا احساس میسر ہوا جس کا موازنہ کسی اور احساس سے ممکن نہیں۔ دسویں جماعت میں رب کریم نے CGPA 10/10 کے ساتھ شاندار کامیابی بھی عنایت فرمائی لیکن میرا احساس ہے کہ یہ خوشی بھی اس خوشی کے سامنے ہیچ ہے ۔
خوشی، فرحت اور لطف ہی نہیں محبت عزت و تکریم بھی حفظ قرآن کے اضافی تحفے ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے وہ اقوال کہ اللہ رب العزت اس کتاب کے ذریعے عزت بھی دیتا ہے اور ذلت بھی اس بات کو میں نے کئی مرتبہ محسوس کیا ہے۔ حفظ کے بعد اسکول میں تمام طلباء اور اساتذہ کی قدر شناس نگاہوں کا میں ممنون رہا ہوں۔ سلطان العلوم پبلک اسکول کے ہمارے پرنسپل اپنے اصولوں کے حوالے سے سخت ترین استاد مانے جاتے تھے(اللہ ان کی مغفرت فرمائے) ان کی خصوصی شفقتیں بھی مجھے صاف محسوس ہوتی تھیں۔
اسکول اور کالج کی مصروفیات کے دوران جب کبھی قرآن کی تلاوت اور تفہیم کے حوالے سے کوتاہی ہوئی محترم والدین اور محترم ناظم صاحب کی بر وقت توجہ دہانی فوری اصلاح کا سبب بن جاتی۔ میں تمام حفاظ کو یہ مشورہ ضرور دینا چاہوں گا کہ اپنے آپ کو کتاب مبین سے کبھی دور نہ کریں۔ مصروفیات کے بہانے کوتاہی کا ڈر ہمیشہ لگا رہتا ہے اگر اس کوتاہی کو بروقت کنٹرول نہ کریں تو پھر یہ دوری بڑھ جاتی ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یکسوئی کے ساتھ نظر ڈالنے کا موقعہ ہی نہ ملے۔ خدا نہ کرے۔ اگر ہم قرآن کو تھامے رہیں گے تو دنیا میں خوشی، عزت، رزق اور محبت کا انعام تو ہے ہی لیکن آخرت کی نوازشوں کے کیا کہنے۔ اور اگر یہ سلسلہ چھوٹ جائے گا تو پھر دونوں ہی جہانوں میں بدبختی افسوس اور نقصان بھی بہت ہے۔ مدرسہ کے وہ پر لطف لمحات آج بہت یاد آتے ہیں۔ ناظم صاحب کے سخت قوانین، والدہ کی کبھی ڈانٹ اور کبھی حوصلہ افزائی، والد صاحب کی شفقت اور تربیت۔
اگر تربیت کا ایسا قیمتی ماحول میسر نہ ہوتا تو اس سفر کی تکمیل مشکل تھی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اس شاندار دعا کے الفاظ پر اپنی اس تحریر کا اختتام کرتا ہوں: ’’اے اللہ قرآن کے ذریعہ میرے سینے کو کھول دے اور میری ذات سے قرآن کی خدمت لے لے اور قرآن سے میری آنکھوں کو منور کردے ۔قرآن کو میری زبان پہ جاری کردے اور جب تک تو مجھے زندہ رکھے قرآن کی ذمہ داری نبھانے میں میری مدد کر کیونکہ تیری ذات کے علاوہ کسی کے پاس کوئی طاقت نہیں ہے‘‘۔


اگر ہم قرآن کو تھامے رہیں گے تو دنیا میں خوشی، عزت، رزق اور محبت کا انعام تو ہے ہی لیکن آخرت کی نوازشوں کے کیا کہنے۔۔!