مولانا سید جلال الدین عمری ؒ ایک عظیم مربی، داعی اور رہنما

محب اللہ قاسمی
معاون شعبہ تربیت مرکز جماعت اسلامی ہند

جمعہ کا دن تھا دفتر بند تھا، میں کیمپس میں واقع اپنے رہائشی کمرے میں اکیلا پریشان بیٹھا تھا تبھی میرے موبائل فون کی گھنٹی بجی۔ ریسپشین سے فون تھا۔ فون اٹھایا، سلام کے بعد کسی نے کہا کہ محترم امیر جماعت آپ سے بات کریں گے۔ اتنے میں فون پر مولانا محترم کی آواز آئی۔ مولانا نے کہا: ’’بھئی آپ کے والد صاحب کے انتقال کی خبر ملی۔ بڑا دکھ ہوا۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور آپ کو صبر عطا کرے۔ آپ بھائی بہنوں میں بڑے ہیں سب کو سنبھالیے۔‘‘
یہ واقعہ 25 جنوری 2019 کا ہے۔ ان کی ان تعزیتی کلمات سے مجھے جو حوصلہ ملا میں بتا نہیں سکتا۔ مولانا محترم کوئی اور نہیں مولانا سید جلال الدین عمری سابق امیر جماعت تھے۔
اور آج 26؍ اگست 2022 بوقت شام برادر انوارالحق بیگ کا فون آیا:’’ ارے محب اللہ کہاں ہو جلدی الشفا اسپتال چلے آؤ سابق امیر جماعت کی طبیعت بہت خراب ہو گئی ہے آکر مل لو.‘‘میں دوڑا ہوا پہنچا تو پتہ چلا کہ ابھی ساڑھے آٹھ بجے 26 اگست 2022 مولانا محترم کا انتقال ہوگیا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون.
سابق امیر جماعت اسلامی ہند مولانا سید جلال الدین عمری صاحب جلیل القدر شخصیت، با وقار جید عالم دین، درجنوں کتاب کے مصنف، بے باک خطیب اور عظیم مربی داعی اور رہنما تھے۔ مولانا مرحوم کے خطبے کی وہ بے باک بات جو آج بھی اسی گرج کے ساتھ میرے کانوں میں گونجتی رہتی ہے یہ تھی کہ ’’ہم کوئی حرف غلط نہیں کہ جسے مٹا دیا جائے‘‘
مولانا محترم اسلام کی تفہیم و اشاعت اور اس پر عمل کے سلسلے میں تفردات اختیار کرنے کے بجائے دین کو اس کے اصل ماخذ سے پر عبور کے باعث اجتماع امت کی بھر پور اتباع کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جب جماعت اسلامی کے کیمپس میں واقع مسجد اشاعت اسلام میں ماہ رمضان کے دوران شعبہ تربیت مرکز کی جانب سے ہر اتوار کو دینی سوالات و جوابات کا پروگرام رکھا جاتا تھا جس میں عوام کی جانب سے سوالات ہوتے اور مولانا محترم اس کا جواب دیتے تھے۔ بہت سے سوالات میں ایک سوال تراویح کی بیس اور آٹھ رکعات سے متعلق تھا اور مسجد اشاعت اسلام میں بیس رکعات تراویح ہوتی تھی۔ آپ نے جواب میں فرمایا:
’’ جنہیں لگتا ہے کہ انہیں بیس کے بجائے آٹھ رکعات پڑھنا چاہیے تو وہ اس مقام پر جائیں جہاں آٹھ رکعات کا اہتمام ہوتا ہے اور بیس پڑھنے والے بیس بیس والے مقام پر پڑھیں اس پر بضد ہونا کہ آٹھ والی جگہ بیس ہو یا بیس والی جگہ آٹھ یہ بہتر نہیں‘‘۔
مولانا محترم مسلم پرسنل بورڈ کے نائب صدر تھے اور اپنی علمی و فکری صلاحیت و صالحیت کی بنا پر نہ صرف اپنے حلقہ یعنی جماعت اسلامی ہند میں معروف شخصیت تھے بلکہ دیگر مکاتب فکر میں بھی یکساں طور پر قابل قدر اور علم دوست کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے.
جلسے و اجتماعات میں آپ کی تقریر و گفتگو ایک عجیب سی روحانی کیفیت پیدا کر دیتی تھی جس سے دل اللہ کی طرف پوری طرح مائل ہو جاتا تھا اور آنکھیں گناہوں کو یاد کرتے ہی چھلکنے لگتی تھیں۔ کئی بار مرکزی تربیت گاہ کے اختتامی پروگرام میں جب آپ زاد راہ کے طور پر اظہار خیال کرتے اور دعا کرتے تو آنکھیں نم ہو جاتیں اور دل میں ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہوتی۔ تحریکی کارکنان سے گفتگو کرتے ہوئے بطور نصیحت انہیں ذاتی تربیت پر خصوصی توجہ دینے کی تلقین فرماتے اور انہیں احساس دلاتے کہ دفتر اور کام کاج کے بعد جو وقت آپ کو ملتا ہے اسے ضائع اور لغو کام میں برباد کرنے کے بجائے اسے مطالعہ کتب اور اپنی تربیت پر لگانا چاہیے۔
آپ یقیناً اس دار فانی سے رخصت ہو کر اپنے مالک حقیقی سے جا ملے ہیں مگر کتابوں کی شکل میں آپ نے جو علمی ذخیرہ چھوڑا ہے، خطبات کی شکل میں اسلامی موقف کی تائید و وضاحت کی ہے اور خدمت دین کے اپنے جذبوں سے امت کو جو پیغام دیا ہے لوگ اس سے مستفید ہوں گے جو ان شاءاللہ تعالیٰ آپ کے لیے صدقہ جاریہ اور ذخیرہ آخرت ثابت ہوگا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ پاک اپنے فضل و کرم سے مولانا محترم کی مغفرت فرمائے آپ کی خدمات کو شرف قبولیت بخشے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے آمین.

اپنے تو اپنے غیر بھی مولانا سے عقیدت رکھتے تھے
رضوان احمد اصلاحی، پٹنہ
مولانا سیدجلال الدین عمریؒ ایک بڑے اسلامک اسکالر اور علوم دینہ میں گہری بصیرت رکھتے تھے، اس کی شہادت کے لیے ان کی تحریریں اور تصانیف کافی ہیں، بالخصوص معاشرتی موضوعات پر آپ نے کافی کچھ لکھا ہے۔ تاہم موضوعات کے اندر غیر معمولی تنوع پایا جاتا ہے، بعض موضوعات تو ایسے ہیں کہ جن پر مولانا کے علاوہ کسی نے قلم نہیں اٹھایا یا کچھ لکھا بھی گیا ہو گا تو میری نظر نہیں پڑی سکی ہے مثلا ’’غیر مسلموں سے تعلقات اور ان کے حقوق‘‘ ، ’’غیر اسلامی ریاست اور مسلمان‘‘ اور ’’اسلام میں خدمت خلق کا تصور‘‘ ان موضوعات پر اردو زبان میں شاید مولانا واحد مصنف ہیں۔
مولانا نے جو کچھ لکھا ہے یقنیا اہل علم ان کی تحریروں کا علمی جائزہ لیں گے۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ ایک اچھا مصنف اچھا مقرر بھی ہو لیکن مولانا موصوف مصنف کے ساتھ اچھے مقرر بھی تھے، فن خطابت کی تمام خوبیاں آپ کی تقاریر اور خطابات میں پائی جاتی تھیں۔ آپ کی گفتگو اور تقاریر مدلل ہوتی تھیں،آپ اپنی باتوں کی تائید میں راست قرآن وحدیث پیش کرتے تھے،بالخصوص قرآنی آیات کے حوالوں سے آپ کی تقاریر مزین ہوتی تھیں۔ قرآنی آیات بروقت برجستہ اور قرآنی روح اور اسپرٹ کے ساتھ پیش کرتے تھے۔ مجھے آپ کی تقریر کا یہ پہلو سب سے نمایاں نظر آتا تھا۔روایتی مقرر کی طرح قصے کہانیاں بالکل نہیں سناتے تھے۔ آواز میں زبردست تاثیر اور شیرینی ہوتی تھی۔ انداز تذکیری اور تفہیمی ہوتا تھا۔ اپنی گفتگو اور تقاریر میں اکثر اسلام کو متبادل کے طور پر پیش کرنے کی تلقین کرتے تھے۔ایک مرتبہ ذمہ داران کو تقوی وللہیت کی نصیحت کرتے ہوئے گویا ہوئے: آپ حکومت مانگیں گے تو شاید اللہ نہ دے کیوں کہ آپ اس کے اہل نہیں ہیں۔ آپ دولت مانگیں گے تو شاید اللہ نہ دے کیوں کہ آپ اس کے اہل نہیں ہیں لیکن آپ تقوی وللہیت کی دعاء کریں تو اللہ تعالی آپ کی طلب کو مسترد نہیں کرے گا‘‘۔
مولانا کی سادگی، منکسرالمزاجی اور وضع داری نے ان کو ہردلعزیز بنا دیا تھا۔ اپنے تو اپنے غیر بھی ان سے عقیدت ومحبت سے پیش آتے تھے۔ ایک مرتبہ پٹنہ آمد پر ایک بڑے آئی اے ایس آفسر نے مجھے فون کر کے بتایا کہ انہیں مولانا سے ملنے کی خواہش ہے، ہم نے ملنے کا نظم کرایا۔ افسر صاحب نے تخلیہ میں ملنے کی اجازت مانگی، مولانا نے ملاقات کا موقع دے دیا۔ چند سال قبل محترم نیرالزماں صاحب کے دور امارت میں فارغین ایس آئی او کا ایک پروگرام دارجلنگ میں رکھا گیا، پروگرام کا معمول یہ بنایا گیا تھا کہ دن کے ایک حصے میں پروگرام ہوتا اور ایک دوسرے حصے میں سیر وسیاحت۔ ہم لوگ مولانا کے ساتھ سیاحتی مقامات کی سیر کر رہے تھے، ایک 18یا 20 سال کا نوجوان لپک کر آیا اور مولانا کو سلام کیا اور کہا ہم نے آپ کو دہلی کے جماعت اسلامی ہند کے مرکز میں دیکھا ہے اور آپ کا خطبہ بھی سنا ہے۔ جماعت اسلامی میں تو پیری مریدی نہیں ہے تاہم حلقہ طلبہ کے زمانے کے بعض لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ’’ہم مولانا کے مرید ہیں‘‘۔
مولانا کو جماعت اسلامی ہند بہار سے ایک گونہ تعلق خاطر تھا۔ حلقہ طلبہ اسلامی بہار کے زمانے سے وہ بہار کی جماعت اور طلبہ تنظیم کے پروگراموں میں شرکت کے لیے آتے تھے چنانچہ آج بھی فارغین حلقہ طلبہ اسلامی بہار کا مولانا سے عقیدت کا تعلق ہے۔ مولانا نے بہار کے بارے میں کئی مرتبہ اس تاثر کا اظہار فرمایا کہ بہار فکری لحاظ سے بہت مضبوط ریاست رہی ہے۔ بہار میں افراد سازی کے لیے مولانا فکر مند رہتے تھے۔ بلاصلاحیت لوگوں کے بہار سے باہر یا بیرون ممالک جانے پر تنقید کرتے ہوئے فروری 2019 کے اجلاس شوری بہار میں آپ نے آن ریکارڈ فرمایا ’’ڈاکٹر ضیاء الہدیٰ صاحب کی اتنی اچھی تربیت کے باوجود ہم افراد حاصل نہیں کرسکے، سارے تربیت یافتہ لوگ جن کے پاس ڈگریاں تھیں باہر چلے گئے۔ یہاں صرف وہی لوگ رہ گئے جن کے پاس سندیں نہیں تھیں‘‘ یقینا یہ بات ہمارے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔
مولانا کے زیادہ تر دورے اور اسفار کسی پروگرام،اجلاس اور اجتماعات کی غرض سے ہوتے تھے۔ متعلقہ اجلاس ختم ہوتے ہی واپسی کا پروگرام طے ہوتا تھا۔ چلتے ہوئے یہ بات ضرور کہتے کہ پروگرام ختم ہوتے ہی ٹکٹ پکڑا دیتے ہو۔ یقینا اس جملے میں جو اپنایت محبت اور تعلق پایا جاتا ہے وہ جگ ظاہر ہے۔ اللہ تعالی مولانا مرحوم کی مغفرت فرمائے اور پسماندگان سمیت ہم سب کو صبر جمیل عطا فرمائے، ملت اسلامیہ ہند اور تحریک اسلامی ہند کو مولانا کا نعم البدل عطا فرمائے آمین۔

نرم دم گفتگو گرم دم جستجو
مولانا کوثر صاحب قاسمی(امام و خطیب مسجد قلعہ، وانم باڑی)
جماعت اسلامی کے سابق امیر اور مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائب صدر مولانا سید جلال الدین عمری کی پیدائش 1935ء میں تمل ناڈو کے شہر وانم باڑی سے 40 کلومیٹر دور اور ترپاتور سے 3 کلومیٹر کے فاصلہ پر پتگرم نامی گاؤں میں ہوئی. آپ کے والد کا نام مولوی سید حسین تھا۔ مولانا کے ایک چھوٹے بھائی ہیں جن کا نام مولانا سید سراج الدین ہے۔ آپ بر صغیر ہند و پاک کے مستند بزرگ اور معروف عالم دین تھے ابتدائی تعلیم گاؤں ہی کے اسکول میں ہوئی۔ پھر دینی تعلیم کے لیے جامعہ دارالسلام عمر آباد میں داخلہ لے کر 1954ء میں فضیلت کا کورس مکمل کیا۔ اسی دوران مدراس یونیورسٹی میں بھی امتحانات دیے اور فارسی زبان و ادب کی ڈگری منشی فاضل حاصل کی، بعد ازاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں گریجویشن اور ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ مولانا مرحوم 1952ء میں جماعت اسلامی ہند سے وابستہ ہوئے اور 1990ء سے 2007ء تک نائب امیر رہے. 2007ء سے 2019ء تک امیر جماعت کے منصب جلیلہ پر فائز رہے۔ اس کے علاوہ آپ بہت سے اداروں کے سربراہ بھی رہے۔ آپ کا شمار ہندوستان کے جید اور بڑے عالموں میں ہوتا تھا۔ دعوتی اور تحریکی سرگرمیوں میں انتہائی مصروف رہنے کے باوجود آپ نے اسلام کے مختلف پہلوؤں پر درجنوں کتابیں لکھیں، یہ آپ کی عظمت و قابلیت کا ثبوت ہے۔
آپ اسم با مسمی تھے۔ آپ خدا کی بخشی ہوئی نعمت عظمیٰ تھے۔ آپ بڑے رحیم و شفیق انسان تھے۔ آپ بڑے نرم دل واقع ہوئے تھے۔ آپ بڑے ہی خوش اخلاق تھے۔ آپ قوم و ملت کے ہمدرد تھے۔ آپ بزرگانہ وضع قطع رکھتے تھے۔ آپ بڑے صابر و شاکر انسان تھے۔ آپ جماعت اسلامی ہند کے لگ بھگ 18 سال نائب امیر اور 12 سال امیر رہے۔ آپ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائب صدر بھی تھے۔ آپ بڑے متحمل اور بردبار انسان تھے۔ آپ تحریک اسلامی کے میر کارواں تھے۔ آپ دیانت داری اور امانت داری کے ساتھ معاملہ کرتے تھے۔ آپ صلہ رحمی و مہمان نوازی میں بے حد مقبول تھے۔ آپ سینہ کو کینہ سے پاک رکھتے تھے۔ آپ چھوٹوں کے لیے انتہائی شفیق اور بڑوں کے لیے انتہائی مودب تھے۔ آپ علمی و فکری میدان میں اسلام کی بالادستی کے خواہشمند تھے۔ آپ بردباری، ملنساری اور عجز و انکساری رکھنے والے تھے۔ آپ خاندان میں با اثر اور منفرد شخصیت تھے۔مولانا عمری ہمارے خاندان کے قیمتی ورثہ تھے۔ وہ ہم سب کے بڑے ہی مشفق اور مربی پھوپھا تھے۔ انہوں نے ملت کی بیداری اور غیر مسلموں تک اسلام کو پہنچانے کی عمدہ سعی کی۔ نئے نئے موضوعات پر کتابیں لکھیں۔ وہ ایک مرنجان مرنج شخصیت تھے۔ صبر و ضبط کا مادہ بدرجہ اتم موجود تھا۔ وہ انعمت علیہم صف کے عالم دین تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی کو اسلام کے لیے وقف کردیا تھا۔ یقیناً وہ بڑی شخصیت تھے۔ مولانا جلال الدین عمری انتہائی نرم خو تھے۔ انہوں نے قومی اور بین الاقوامی میگزین کے لیے کئی مقالے لکھے۔
جمیعۃ العلماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ مولانا جلال الدین عمری مرحوم سے میں نے بارہا ملاقاتیں کیں وہ ایک انفرادی صلاحیت کی حامل شخصیت تھے۔ میرے دل میں ان کی بڑی قدر ہے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات کو بلند فرمائے۔

مولانا اخلاق حسنہ کا پیکر تھے حوصلہ افزائی خاص وطیرہ تھا
عبداللہ باشا(وانم باڑی، تمل ناڈو)
راقم الحروف ایک عرصہ سے جماعتِ اسلامی کا متفق رہا ہے۔ 2015ء میں پہلی مرتبہ جب میں نے مولانا سے ان کے گھر پر ملاقات کی تو ان سے گفتگو کے دوران بعض امور پر ان کی یادداشت دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔ اس وقت گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے مجھے انہوں نے بتلایا کہ مجھ ناچیز سے ان کی پہلی ملاقات ایک پہاڑی پر ہوئی تھی۔ میں یہ سن کر حیرت زدہ رہ گیا۔اس وقت سوچا تو مجھے یہ بات یاد آئی کہ ہم دونوں کی یہ ملاقات تمل ناڈو کے اُس وقت کے ضلع ویلور میں واقع ایک پہاڑی علاقہ ’’اَیلگِری‘‘ میں 1980ء میں منعقدہ ایک تربیتی اجتماع کے دوران ہوئی تھی۔ مولانا وہاں شرکائے اجتماع کی تعلیم و تربیت کے لیے تشریف لائے تھے۔ مجھے یہ جان کر بڑی حیرت ہوئی کہ مولانا نے مجھ سے تقریباً 35 سال قبل ہوئی اس ملاقات کو یاد رکھا ہے اور اس ملاقات کا تذکرہ اس خوش گوار انداز میں کیا کہ جیسے وہ ملاقات ابھی بھی جاری ہے۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ مولانا اپنی تقریباً ستّر سالہ تحریکی زندگی میں ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد سے مل چکے ہوں گے لیکن لگتا ہے کہ آپ نے ہر ایک ملاقاتی کو ذاتی اور شخصی طور پر یاد رکھا تھا۔
مولانا کو جب معلوم ہوا کہ ایک ریل حادثہ میں میرا ایک پیر کٹ جانے کے بعد میں ایک مصنوعی پیر لگوا کر کسبِ معاش کی تگ ودو میں لگا رہتا ہوں تو آپ نے اس حادثہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے میری بڑی ہمت افزائی کی تھی۔ایک اور ملاقات میں انہوں نے مجھے سے کہا کہ جسمانی آزمائش سے دوچار دو ایسے افراد دیکھے ہیں جو اپنی آزمائشوں کے باوجو ہمیشہ متبسّم رہتے ہیں۔ انہوں نے بتلایا کہ اُن میں سے ایک ریاستِ اڈیسہ کے ہیں اور دوسرا میں ہوں یعنی یہ احقر۔ یہ سن کر میری خوشی اور مسرت کا ٹھکانہ نہ رہا اور میں پھر مزید حیرت میں پڑگیا کہ یہ کیسی بلند شخصیت ہے کہ وہ معمولی سے معمولی فرد کو بھی یاد رکھتی ہے اور ان کی چھوٹی چھوٹی خوبیوں کو بھی یادرکھ کر ان کی ہمت افزائی کرتی ہے۔
یقیناً اللہ کی طرف سے ایک نشانی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی شخصیت کو ایک بلند مقصد کے تحت چن لیتا ہے تو ایسی شخصیات سے ایسے قابل تقلید اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فطری طورپر ہونے لگتا ہے تاکہ ملنے والے اور دیکھنے والے بھی ان اوصاف کو اختیار کرسکیں اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے لگیں۔
مجھے مولانا محترم کے اخلاقِ عالیہ و فاضلہ کا مشاہدہ کرنے کا ایک اور موقع اس وقت ملا جب غالباً 2015ء ہی میں دلی کی اردو اکیڈمی کی جانب سے ملک بھر چنندہ نعت گو شعراء کو تہنیت و اعزاز و اکرام پیش کرنے کے لیے ایک بڑی تقریب منعقد کی گئی تھی۔ ان اعزاز پانے والوں میں ہماری ریاست تمل ناڈو کے شہر چنئی کے مشہور شاعر و ادیب جناب علیم صبا نویدی بھی تھے۔ اس تقریب کا انعقاد بستی نظام الدین میں تبلیغی جماعت کے مرکز کے روبرو واقع ’’غالب اکیڈمی‘‘ میں ہوا تھا۔ تقریب میں کئی جماعتوں اورمختلف مکاتب فکر کے بزرگوں کو شرکت و خطابت کی دعوت دی گئی تھی۔ جماعتِ اسلامی کی جانب سے مولانا جلال الدین انصر عمری نے شرکت کی تھی۔ بعدِ نمازِ مغرب تقریب کا آغاز ہوا تھا۔ ایک یا دو مقرر ین نے اپنی تقریریں ختم کی تھیں کہ اچانک سامعین کے ایک طبقہ نے گڑبڑ شروع کردی اور ہال میں افراتفری مچ گئی۔ تحقیق سے پتہ چلا کہ ایک مقرر کی نعت گوئی میں مبالغہ آرائی کے مذمتی تذکرہ نے سامعین کے ایک طبقہ کو مشتعل کردیا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ اشتعال انگیزی شہ نشین تک پھیل گئی۔ ایک دو مقررین نے بھی سامعین کے ایک طبقہ کو نشانہ بنا کر ان پر الزامات کی بوچھاڑ کردی اس طرح وہاں ایک لفظی جنگ چھڑ چکی تھی۔ تاہم شہ نشین پر موجود بقیہ مقررین اور سامعین کے سنجیدہ طبقے کی اپیل پر یہ افراتفری دھیرے دھیرے کم ہونے لگی ۔جب مولانا جلال الدین انصر عمری کی تقریر کی باری آئی تو انہوں نے سامعین کو موقع کی نزاک اور نعت گوئی کے مرکزی کردار یعنی رسولِ خدا حضرت محمد ﷺ کی فضیلت کو برقرار رکھنے کی کچھ ایسے نرم انداز میں مخلصانہ اپیل کی کہ افراتفری کی وجہ سے جو لوگ ہال سے باہر چلے گئے تھے وہ بھی اس اپیل پر لبیک کہتے ہوئے دوبارہ ہال میں مقررین کو سننے کے لیے جمع ہوگئے۔ اپنی تقریر کے دوران مولانا نے رسولِ خدا اور آپؐ کی شان میں نعت گوئی کی ایسی معقول انداز میں مدحت فرمائی کہ نعت گوئی میں مبالغہ آرائی کے حامیوں نے بھی مولانا کی پوری تقریر انتہائی ادب و احترام کے ساتھ سماعت کی اور تقریب کے اختتام تک شریک رہ کر یہ پیغام پیش کیا کہ ان سب نے اختلافات کو بھلا دیا ہے۔ دراصل یہ مولانا کے عالمانہ اور مبنی بر اعتدال پرخلوص خطاب کا ثمرہ تھا۔ آپ کے اِس پُر مغز خطاب نے سامعین کے تمام طبقات پر باہمی فکری اختلافات کو بھلانے اور ملی اتحاد قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
***

 

***

 مولانا عمری ہمارے خاندان کے قیمتی ورثہ تھے۔ وہ ہم سب کے بڑے ہی مشفق اور مربی پھوپھا تھے۔ انہوں نے ملت کی بیداری اور غیر مسلموں تک اسلام کو پہنچانے کی عمدہ سعی کی۔ نئے نئے موضوعات پر کتابیں لکھیں۔ وہ ایک مرنجان مرنج شخصیت تھے۔ صبر و ضبط کا مادہ بدرجہ اتم موجود تھا۔ وہ انعمت علیہم صف کے عالم دین تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی کو اسلام کے لیے وقف کردیا تھا۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  11 ستمبر تا 17 ستمبر 2022