قسط۔(2)-علی گڑھ تحریک اور سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ

مولانا کی تحریروں کی بدولت ملک کی عظیم دانش گاہ میں اسلامی فضا کی تشکیل میں مدد ملی

نعمان بدر فلاحی

متکلم اسلام نے اردو زبان کو حیات بخش خیالات کے ساتھ ساتھ ایک دلکش اسلوب تحریر سے بھی مالامال کیا
پروفیسر سیدمحمد سلیم،شکار پور ،سندھ زمانہ ٔ طالب علمی کا تفصیلی تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’۱۹۴۴ء میں دہلی سے بی -اے کرنے کے بعد میں ایم اے، ایل ایل بی کرنے کے لیے علی گڑھ گیا۔ وہاں انگریزی کے استاد پروفیسر جلیل الدین احمد خاں سے ملاقات ہوئی جو وہاںجماعت اسلامی کے کارکن تھے۔ علی گڑھ میں کچھ عرصہ قبل اشتراکیت زدہ طلبہ کی سرگرمیاں بہت بڑھ گئیں تھیں، اس لیے یونیورسٹی کے ارباب اختیار نے طلبہ کی انجمن سازی پر سخت بندشیں عائد کررکھی تھیں۔ طلبہ کی صرف ایک انجمن ’مجلس اسلامیات‘ کے نام سے قائم تھی جس کے سربراہ شعبۂ فلسفہ کے سربراہ ڈاکٹر سید ظفر الحسن صاحب تھے۔ ڈاکٹر صاحب کافی ضعیف تھے،انہوں نے نگرانی کے فرائض ڈاکٹر افضال قادری کے سپرد کر رکھے تھے۔ خود ڈاکٹر افضال صاحب بے حد مصروف آدمی تھے اس لیے انہوں نے پروفیسر جلیل الدین احمد خاں کو متعین کردیا تھا کہ مجلس اسلامیات کی نگرانی کریں۔
پروفیسر جلیل الدین احمد خاں جونیئر لکچرار تھے اور اپنی طویل داڑھی کی وجہ سے نمایاں تھے۔ انہوں نے گویا ’مجلس اسلامیات‘ پر قبضہ کرلیا تھا۔نام تو اس کا وہی رہا مگر عملاً اس کو’ حلقۂ ہمدردان جماعت اسلامی‘ میں تبدیل کردیااور راقم کواس حلقہ کاناظم مقرر کیا۔ ایک کلاس روم میں ہفتہ وار اجتماع ہوتا تھا، راقم درس قرآن دیتا تھا،رپورٹیں لی جاتی تھیں۔ناظم نشر واشاعت کتابوں کا تھیلا ساتھ لاتے تھے۔رفقاء پڑھی ہوئی کتابیں واپس کرتے تھے اور نئی کتابیں لے جاتے تھے۔ سارا زور مطالعہ اشتراکیت کی تردید پر تھا۔
اس حلقہ میں اچھے اچھے لوگ شامل تھے۔ فروغ احمدصاحب، صفدر صدیقی صاحب، کاظم سباق، آسی ضیائی ، معظم علی علوی(انگلستان)وغیرہ۔ علی گڑھ کی مشہور نمائش میں ہم نے جماعت اسلامی کی کتابوں کی بک اسٹال پہلی مرتبہ لگائی تھی۔صفدر صدیقی ناظم نشرو اشاعت اس کے انچارج تھے۔ ایک ہفتہ میں ہم نے تین ہزار روپیہ کی کتابیں فروخت کی تھی۔ ہمیں اس کی بڑی خوشی ہوئی تھی، ہمارے خزانچی ہادی عطا بڑے ذہین اور محنتی طالب علم تھے، حافظ قرآن تھے، تراویح ہم نے ممتاز ہوسٹل میں ان کے پیچھے پڑھی تھیں۔ جب نتیجہ برآمد ہوا تو بی اے، بی ایس سی دونوں میں وہ سرفہرست تھے۔ مگر وائے افسوس نتیجہ نکلنے سے قبل ہی وہ فوت ہوگئے تھے۔ وہ ندوۃ العلماء لکھنؤ کے محدث شاہ حلیم عطا کے وہ فرزند تھے اور شاہ حسن عطا کے وہ بڑے بھائی تھے۔
علی گڑھ میں میں نے ایم اے عربی میں داخلہ لیا۔اس سال قمرالدین خاں نے بھی وہاں داخلہ لیا۔ دو سال تک ہم ساتھ رہے۔ قمرالدین خاں پہلے ایم اے انگریزی‘ علی گڑھ میں تھے، مگر بعض وجوہ کی بنا پر چھوڑ کر ڈی اے وی کالج لاہور چلے گئے۔وہاں داخلہ لیا لیکن وہاں بھی تکمیل نہ کرسکے۔ پھر مدرسۃ الاصلاح سرائے میر میں عربی کی تعلیم حاصل کی اور مولانا اصلاحی کے ساتھ جماعت اسلامی کے رکن بن گئے بلکہ پہلے قیم مقرر ہوئے۔ ایک کتاب کا انگریزی میں ترجمہ بھی انہی کے قلم کا ہے۔ پھر مولانا نعمانی کے ساتھ جماعت سے علیحدہ ہوگئے۔ میں نے جماعت اسلامی سے ان کی اور مولانا منظور نعمانی کی علیحدگی سے متعلق معلومات حاصل کرنے کوشش کی مگر انہوں نے کوئی خاص بات بتاکر نہیں دی ۔
اپریل ۱۹۴۶ء میں جماعت اسلامی ہند کا سالانہ اجتماع الٰہ آباد میں منعقد ہوا تو مجلس اسلامیات کے پندرہ طالب علموں کے ہمراہ میں نے بھی اس اجتماع میں شرکت کی‘‘۔ (۱۱)
پدم شری حکیم سید ظل الرحمن( سابق پرنسپل طبیہ کالج علی گڑھ وڈائریکٹر ابن سینا اکیڈمی ) کے مطابق :
’’میں ۱۹۵۵ء سے۱۹۶۰ء تک یونیورسٹی کا طالب علم رہا ہوں ۔ اس زمانے میں مولانا مودودیؒ کی کتابیں طلبہ میں بہت مقبول تھیں۔ پردہ، سود، تنقیحات، تفہیمات، اور تفہیم القران وغیرہ کا مطالعہ کیا جاتا تھا۔ ذہین اور با صلاحیت طالب علم حتیٰ کہ شیعہ اور بوہرہ طلبہ بھی مولانا مودودی کی کتابوں کو ذوق و شوق سے پڑھتے تھے۔شمشاد مارکیٹ میں واقع دار المطالعہ سے میرا تعلق ۱۹۵۵ء میں قائم ہوگیا تھا ۔لائبریری عصر کے بعد کھلتی تھی ،طلبہ اور اساتذہ سبھی وہاں مطالعہ کے لیے آتے تھے ۔میں اُس زمانے میں طلبہ کی اسلامی تنظیم ایس آئی او کاذمہ دار بھی رہا‘‘ ۔ (۱۲)
۵۰ کی دہائی میں یونیورسٹی کے ایک سنجیدہ طالب علم حکیم شاکر حسین عباسی (ناگپور) نے جو بوہرہ فرقے سے تعلق رکھتے ہیں‘ایک مضمون میں لکھا ہے’’ یہ وہ زمانہ تھا جب مولانا مودودیؒ کی شخصیت مسلم نوجوانوں کو پرکشش لگ رہی تھی۔ ان کا انداز ِتحریر بڑا دلکش اور مؤثر ثابت ہورہا تھا اور پڑھا لکھا سنجیدہ نوجوان طبقہ ان کی طرف مائل تھا۔ مولانا کی اس وقت کی تحریروں میں اصلاحی‘ سماجی‘ اور معاشی پہلوؤں پر زور تھا اور ان کی تحریر کے ادبی انداز کو امتیاز مل رہا تھا۔ (۱۳)
چالیس اور پچا س کی دہائی میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ذہین اور ممتاز طلبہ کے درمیان مولانا موددی کی مقبولیت اپنے عروج پر تھی ۔ علی گڑھ میگزین کے متعدد شماروں میں مولانا کی تحریروں کے اقتباسات شائع ہوتے ۔سید زین العابدین‘ انور صدیقی ،انوار علی خاں سوز وغیرہ علی گڑھ میگزین کے ایڈیٹر رہے ۔(مولانا کے نظریات سے متاثراور ان کے افکار کے علم بردار نام ورطلبہ کے علمی کارناموں اور خدمات پر علیحدہ تحقیق کی ضرورت ہے ۔)
مولانا مودودی اساتذہ کی نگاہ میں
یونیورسٹی میں شعبۂ فارسی کے سابق صدرپروفیسر سید ضیاء احمد بدایونی نے ۱۹۶۱ء میں مولانا مودودی کی تحریروںپر تبصرہ کرتے ہوئے اپنے ایک طویل مضمون میں لکھا تھا :
’’یہ حقیقت ہے کہ ہمارے اہل قلم عموماً تین قسم کے ہیں، ایک وہ جن کے یہاں موضوع کو خاص اہمیت حاصل ہے مگر فن یا اسلوب کی حقیقت ثانوی ہے جیسے حالیؔ ۔ دوسرے ان کے برعکس ہیں مثلاً محمد حسین آزادؔ اور ان کے برخلاف کچھ اصحاب ایسے بھی ہیں جن کے یہاں موضوع اور اسلوب دونوں اہم ہیں جیسے شبلی۔ ہمارے خیال میں مولانا مودودی کا شمار آخر الذکر طبقے میں ہے۔ انھوں نے ہماری زبان کو نئے حیات بخش خیالات سے مالا مال کیا ہے۔ اسی کے ساتھ ایک مؤثر دلکش اسلوب بھی دیا ہے جس کا اثر یہ ہے کہ نئی تعلیم یافتہ جماعت جس قدر موصوف کے افکار سے متاثر ہوئی ہے‘ اس قدر کسی دوسرے سے نہیں ہوئی۔ اس لیے بے جا نہ ہوگا اگر ان کو دَورحاضر کا’متکلمِ اسلام‘کہا جائے۔(۱۴)
شعبۂ عربی میں پرفیسر عبد العزیز میمنی کے شاگرد رشید اور کراچی یونیورسٹی میں عربی کے استاذڈاکٹر سید محمد یوسف اپنے ایک مضمون بعنوان ’’مولانا مودودی بحیثیت ایک ادیب‘‘ میں رقم طراز ہیں :
’’مولانا مودودی‘‘ میرے لیے یہ دو جادو کے بول ہیں جن سے ۳۷ء تا ۴۷ء کے علی گڑھ کی تصویر نظروں میں گھوم جاتی ہے۔ہندوپاکستان کے مسلمانوں کی تاریخ میں یہ دور ہرلحاظ سے فیصلہ کن تھا۔ علی گڑھ کو نصف صدی سے وہ حیثیت حاصل تھی جو جسم انسانی میں قلب کی ہوتی ہے۔ اس دَور میں ملت اسلامیہ ہند کا قلب امنگوں اور آرزوئوں سے معمور تھا۔ ہر نوجوان مستقبل کے متعلق مصروف فکر نظر آتا تھا۔ ’’دانش فرنگ‘‘کے ساتھ ساتھ ’’شاہین کا تجسس‘‘ رکھتا تھا۔ کانگریس شکست کھاچکی تھی لیکن لہو گرم رکھنے کے بہانے کی حد تک باقی تھی۔ کمیونزم اپنے خلیہ یا یوں کہیے کہ بِل میں سمٹا اور دبکا پڑا تھا،مسلم لیگ کا بول بالا تھا۔ سیاسی پہلو سے قطع نظر اس کا ایک نمایاں ا ثر یہ تھا کہ اسلام کے مطالعہ کا شوق عام تھا۔ گپ اور مزاج بھی نظریاتی کش مکش کا آئینہ دار ہوتا تھا۔ عین اس دور میں مجھے اپنے تعلیمی مراحل طے کرنے کا موقع ملا اور اسی عہد میں میرے بحر کی موجیں طوفان آشنا ہوئیں۔ مجھے خوب یاد ہے کہ کوئی تقریر، مباحثہ اور جھڑپ ایسی نہ ہوتی تھی جس میں مولانا مودودی کا حوالہ کسی نہ کسی پیرایہ سے نہ دیا جاتا ہو۔ اسلامی رجحانات رکھنے والوں کے لیے مولانا مودودی ؒکے ارشادات چراغ راہ تھے اور مخالفین بھی اس چراغ پر پھونک مارنے کے لیے مجبور تھے۔سب سے بڑی بات یہ تھی کہ مسلم لیگی بھی مسلم لیگ پر اگر کسی کے نقد اور تبصرہ کو قابل اعتنا سمجھتا تھا اور ٹھنڈے دل سے سنتا تھا تو وہ مولانا مودودی کا نقد اور تبصرہ تھا۔ الغرض ہر جماعت اور ہر محفل کی گرمی انہی کے دم سے تھی‘‘۔( ۱۵)
سید ابوالخیر کشفی’’مولانا مودودی کی ادبی حیثیت‘‘کا تعین کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :
یہاں گفتگو مولاناکی ادبی حیثیت سے ہے۔ سرسید جدید ا دب کے بانی قرار دیے جاتے ہیں، مودودی صاحب کے افکار و تصورات سرسیدؒ کے ذہنی معتقدات سے کتنے ہی مختلف سہی‘لیکن ان کا اسلوب سرسید کے اسلوب کی ایک ارتقا یافتہ صورت ہے۔ سرسید نے اسلام سے متعلق بہت کچھ لکھا ہے۔ اُن کے دینی خیالات سے ممکن ہے کہ آپ کو اختلاف ہو،لیکن شاید یہ بات ماننے میں تامل نہ ہو کہ سرسید نے اسلام پر جس انداز سے قلم اُٹھایا، اُس نے محسن الملک، حالی، شبلی، سلیمان ندوی اور مولانا مودودی کے اسالیب کی شیرازہ بندی کی ہے۔ مختصراً اُسے یوں کہہ لیجیے کہ مولانا مودودی کی تحریر سرسید کے اسلوب کے ایک پہلو کی تکمیل کرتی ہے، لیکن وہ سرسید کے مقلدِ محض نہیں ہیں۔ اُن کے اسلوب کی بنیادِ اوّل اُن کی ذات ہے۔ شخصیت کا اظہار نہ ہو تو کوئی تحریر ادبی نہیں بن سکتی۔ شخصیت کی اسی نمود کو اقبال نے ’’خونِ جگر‘‘ کہا ہے۔ ملٹن نے اسے Life Blood کہا تھا اور میرامّن نے اسے ’’خونِ دل‘‘ سے تعبیر کیا تھا۔ (۱۶)
اسٹریچی ہال میں پہلا خطاب
مسلم یونیورسٹی کے سالانہ’’ اسلامی ہفتہ‘‘ کی تقریبات کے دوران لکچر کے لیے ’’انجمن اسلامی تاریخ وتمدن ‘‘کی دعوت پر خرابیٔ صحت کے باوجود مولانا مودودی پہلی بار علی گڑھ تشریف لائے اور ۱۲؍ستمبر ۱۹۴۰ کو یونیورسٹی کے تاریخی اسٹریچی ہال میں طلبہ اور اساتذہ کے جم غفیر سے خطاب کیا۔مسلم لیگ کی جانب سے علیحدہ مسلم ریاست کی ملک گیرسیاسی مہم کے تناظر میں مولانا کے مقالے کا عنوان تھا ’’ اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟ ‘‘
مولانا کے طویل مقالے کا ایک اقتباس یہاں نقل کیا جارہا ہے ۔’’ حکومت کی صحیح شکل اس کے سواکوئی نہیں کہ انسان خدا کے خلیفہ کی حیثیت سے کام کرے۔ خلافت کی ذمہ داری جوہمارے سپردکی گئی ‘ یہ اس لیے نہیں ہے کہ ہم لوگوں پر اپناحکم چلائیں، اُن کواپناغلام بنائیں، اُن کے سراپنے آگے جُھکوائیں، ان سے ٹیکس وصول کرکے اپنے محل تعمیر کریں، حاکمانہ اختیارات سے کام لے کر اپنے عیش، اپنی نفس پرستی اوراپنی کبریائی کاسامان کریں۔ بلکہ یہ بار ہم پر اس لیے ڈالاگیاہے کہ ہم خدا کے قانونِ عدل کواس کے بندوںپر جاری کریں۔ اس قانون کی پابندی اوراس کے نفاذ میں ہم نے اگر ذراسی کوتاہی بھی کی، اگر ہم نے اس کام میں ذرّہ برابر بھی خودغرضی‘ نفس پرستی‘ تعصب‘جانب داری‘اور بددیانتی کودخل دیاتوہم خدا کی عدالت سے سزا پائیں گے۔ خواہ دنیامیں ہر سزاسے محفوظ رہ جائیں‘‘۔( ۱۷)
عبد الماجد دریابادی کے اخبار صدق کی رپورٹ
ستمبر ۱۹۴۰ کے’’ اسلامی ہفتہ ‘‘ کے بعد یونیورسٹی مجلس اسلامیات کے معاون معتمد جناب محامد اللہ انصاری کی رپورٹ جو ’’ مسلم یونیورسٹی میں اسلام کی نشأۃ ثانیہ ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی :
’’ علی گڑھ میں ایک خالص اسلامی فضا کی تشکیل کے لیے جو مساعی یہاں کے اسلامی جوش رکھنے والے حضرات اساتذہ اور طلبہ کی جانب سے ۱۹۳۳ء سے عمل میں لائی جارہی ہے ‘ان کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ اکابرعلماء دین کو یہاں تشریف آوری کی تکلیف دی جاتی ہے تاکہ وہ ہمارے دینی اور ملی مسائل کی گتھیوں کو سلجھا کر ہم کو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی جانب دعوت دیں ۔ اس سال ہم کو اس باب میں جو کامیابی ہوئی ہے اس پر ہم جس قدر مسرور ہوں کم ہے ۔ماہ ستمبر میں ’’ اسلامی ہفتہ‘‘ کے سلسلے میں متعد د علماء کرام تشریف لائے۔ حضرت مولانا ابو الاعلیٰ مودودی نے ’’ اسلامی نظام حکومت ‘‘ پر اپنے بصیرت افروز مقالے سے نیز پرائیوٹ صحبتوں میں اپنے بیش قیمت افکار سے ہم کو مستفید فرمایا اور ہم میں ایک نئی روح پھونکی ‘‘۔(۱۸)
(باقی سلسلہ آئندہ شمارے میں ملاحظہ کریں)
حواشی و تعلیقات
(۱۱) تذکرۂ سیّد مودودی، ادارہ معارف اسلامی ، منصورہ ، لاہور،اپریل ۱۹۸۶ء ،مضمون بعنوان ’’ بنایا جس کی مروت نے نکتہ داں مجھ کو ‘‘صفحہ نمبر ۴۸۵ تا۴۸۸۔(پروفیسر سیدمحمد سلیم کا وطن میوات کے علاقہ تجارہ ،ریاست الور میں تھا ۔۱۹۴۶ء میں علی گڑھ سے فارغ ہو کر اپنے وطن واپس گئے تو وہاں ایک دار المطالعہ اور لائبریری قائم کی اورنوجوان طلبہ کو جماعت اسلامی سے متعارف کرایا۔ اگست ۱۹۴۷ء میں ان کا قصبہ فسادات کی زد میں آیا اور ہندو بلوائیوں نے مکمل طور پر تباہ کردیاتو وہ بالآخر ہجرت کرکے پاکستان چلے گئے اور نواب شاہ سندھ میں سکونت اختیار کی ۔
(۱۲) انٹرویو بتاریخ ۹ ؍ اپریل ۲۰۱۴،ابن سینا اکیڈمی، علی گڑھ
(۱۳) حکیم سید ظل الرحمان – حیات وخدمات ۔مرتبین ڈاکٹر سید حسن عباسی‘ڈاکٹر عبد اللطیف ۔مرکز تحقیقات اردو و فارسی‘باقر گنج ، سیوان ،بہار
(۱۴) ادبیات مودودی ،مرتبہ خورشید احمد ،مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی ۶۔اشاعت مئی ۱۹۸۰ء۔( پروفیسرخورشید احمد نے کتاب کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ عبد الماجد دریابادی کے علاوہ پروفیسر ظفر احمد صدیقی نے بھی مولانا مودودی کے ادب اور ان کے طرز نگارش پر خط میں اپنی رائے کااظہارکیا تھا جو کسی وجہ سے اس مجموعہ میں شائع نہیں ہوپایا ۔ توقع ہے کہ دوسرے ایڈیشن میں ان قیمتی خطوط کو لازما شائع کیا جائے گا ۔ )
(۱۵) ادبیات مودودی ،مرتبہ خورشید احمد ،مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی ۶۔اشاعت مئی ۱۹۸۰ء۔
(۱۶) ادبیات مودودی ،مرتبہ خورشید احمد ،مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی ۶۔اشاعت مئی ۱۹۸۰ء۔
(۱۷) اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے ،مرکزی مکتبہ اسلامی پبلیشرز نئی دہلی۲۵ ۔ماہ نامہ ترجمان القرآن ،لاہور ،اگست ۱۹۴۰ء
(۱۸) ہفت روزہ صدق‘ لکھنؤ یکم تا ۸ دسمبر ۱۹۴۰ء۔
( یہ اخبار عبد الماجد دریابادی نے یکم مئی ۱۹۳۵ء کو جاری کیا تھا ۔ اس سے قبل ’سچ‘نکلتا تھا۔)
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  11 ستمبر تا 17 ستمبر 2022