مواخذے سے صدر ٹرمپ کی برات يا اکثريت کا جبر!

مقدمہ کا فیصلہ اب عوام کی عدالت میں ہوگا۔ سنسنی خیز انکشافات کا صدارتی الیکشن پر اثر پڑسکتا ہے

مسعود ابدالی
امريکی ايوانِ بالا يا سينيٹ نے صدر ٹرمپ کو اختيارات کے ناجائز استعمال اور کانگريس کی راہ ميں رکاوٹ ڈالنے کے دونوں الزامات سے بری کر ديا۔ امريکہ کی ڈھائی صدی پر مشتمل تاريخ ميں امريکی صدر کے مواخذے کا يہ تيسرا واقعہ ہے اس سے پہلے:
1868 ميں صدر اينڈريو جانسن کا مواخذہ کيا گيا جو صدر ابراہام لنکن کے قتل کے بعد صدر بنے تھے۔ سينيٹ ميں يہ قراراد دوتہائی اکثريت حاصل کرنے ميں ناکام رہی تھی۔ صدر جانسن اپنی صدارت بچانے ميں تو کامياب ہوگئے ليکن وہ چند ماہ بعد ہونے والے صدارتی انتخابات کے ليے اپنی پارٹی کا ٹکٹ حاصل نہيں کر سکے۔ مواخذے کی دوسری کارروائی 1998 ميں صدر بل کلنٹن کے خلاف ہوئی جن پر وہائٹ ہاوس کی ايک جواں سال کارکن سے نازيبا حرکات کا الزام لگا تھا۔ ان کی فردِ جرم دروغِ حلفی، انصاف کی راہ ميں رکاوٹ اور اختيارات کے ناجائز استعمال سميت چار الزامات پر مشتمل تھی۔ ان ميں دوالزامات ايوانِ نمائندگان نے مسترد کر ديے اور جن دو نکاتی فردِ جرم پر سينيٹ ميں مقدمہ چلا ان ميں سے ايک ميں ان کے خلاف 43 اور دوسرے ميں 50 ووٹ آئے چنانچہ موصوف بری کر ديے گئے۔
1973 ميں صدر رچرڈ نکسن پر مخالفین کی گفتگو ٹيپ کرنے کے الزام (معروف واٹر گيٹ اسکينڈل) ميں مواخذے کی تحريک اٹھی تھی ليکن وہ کسی باقاعدہ کارروائی سے پہلےخود ہی مستعفی ہوگئے۔امريکی صدر کا مواخذہ ايک طويل اور انتہائی گنجلک معاملہ ہے، جس کی بنيادی وجہ اس کی رياستی ہئيت ترکيبی ہے۔ امريکہ ايک مثالی وفاق ہے جہاں کرنسی اور خارجہ امور کے علاوہ دوسرے تمام معاملات ميں رياستوں کو مکمل خود مختاری حاصل ہے۔ حتيٰ کہ ہر رياست کی اپنی فوج ہے جو ضرورت پڑنے پر مرکزی کمان کے تحت کام کرتے ہوئے بھی رياستی انفراديت برقرارا رکھتی ہے۔ 1776 ميں جب رياستہائے متحدہ امريکہ يا USA کے نام سے وفاق کی تشکيل عمل ميں آئی تو عمرانی معاہدے کے تحت تمام کی تمام 13 رياستوں کو وفاق کی سطح پر کامل برابری عطا کی گئی۔ اس کے بعد مدغم ہونے والی نئی رياستوں کو بھی برابری اور مکمل خود مختاری کے ايسے ہی حقوق فراہم کيے گئے۔ اِس وقت USA سے وابستہ رياستوں کی تعداد 50 ہے۔امريکی صدر وفاق کا نمائندہ ہے جس کے انتخاب اور اسے معزول کرنے کے معاملے ميں رياستوں کے اختيارات کا خيال رکھا گيا ہے۔ آئين کی صريح خلاف ورزی کی شکايت پر پہلے ايوانِ نمائندگان (قومی اسمبلي) کی مجالس قائمہ کھلی سماعت کر کے معاملے کی تحقيق کرتی ہيں جسے يہاں قانونی اصطلاح ميں Impeachment Inquiry کہا جاتا ہے۔ اگر ابتدائی انکوائری کے نتيجے ميں کميٹياں کثرت رائے سے اس نتيجے پر پہنچتی ہيں کہ لگائے گئے الزامات درست ہيں تو ايوان ميں منظوری کی بعد اسپيکر کی جانب سے مواخذہ مينيجروں کا تقرر کيا جاتا ہے۔ يہ مينيجرز مواخذے کا متن يا Articles of Impeachment تيار کرتے ہيں۔ اسے آپ فردِ جرم بھی کہہ سکتے ہيں۔ يعنی اس ميں ثبوت کے ساتھ وہ سارے الزامات درج ہوتے ہيں جن کی بناء پر صدر کو قابلِ مواخذہ قرار ديا گيا ہو۔ قابلِ مواخذہ جرائم ميں دروغِ حلفی، رشوت ستانی، مقننہ يا عدليہ کی راہ ميں رکاوٹ، دشمن سے ساز باز، غداری وغيرہ شامل ہيں ہے۔ غلط فیصلے، پاليسيوں کی ناکامی، معيشت کی خرابی، جنگ ميں شکست يا بھاری نقصان وغيرہ قابلِ مواخذہ کمزورياں نہيں ہيں الّا يہ کہ ان معاملات ميں صدر کی نيت کا فتور ثابت ہوجائے۔ مواخذے کے متن کی تدوين کے بعد اس کے ہر نکتے پر ايوانِ نمائندگان ميں رائے شماری ہوتی ہے اور سادہ اکثريت سے منظوری کے بعد فردِ جرم توثيق کے ليے اسپيکر کو پيش کردی جاتی ہے۔ اسپيکر کو يہ حق حاصل ہے کہ وہ متن کو مسترد کردے۔ ايسی صورت ميں مسودہ ايوان کو واپس کر ديا جاتا ہے اور اگر ايوان دوتہائی اکثريت سے اسے دوبارہ منظور کرلے تو اسپيکر کا ويٹو غير مؤثر ہوجائے گا۔ تاہم اسپيکر کی جانب سے متن کے مسترد کرنے کا عام طور سے کوئی امکان نہيں کہ يہاں اسپيکر کی حيثيت قائد ايوان کی ہے اور مواخذے کی تجويز سے لے کر فرد جرم کی ترتيب وتدوين اسپيکر کی زيرنگرانی ہوتی ہے۔ مختصراً يوں سمجھيے کہ فردِ جرم کی ترتيب ايوانِ نمائندگان کی ذمہ داری ہے جہاں تمام رياستوں کی نمائندگی ان کی آبادی کے مطابق ہے۔ جبکہ ان الزامات کے درست يا غلط ہونے کا فیصلہ سينيٹ ميں ہوگا جہاں تمام اکائيوں کی نمائندگی برابر ہے اور ہر رياست سے دو دو سينيٹر منتخب کيے جاتے ہيں۔ مقدمے کے دوران سينيٹ کو عدالت يا جيوری (Jury) کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے جس کی سربراہی سپريم کورٹ کے چيف جسٹس کرتے ہيں۔
ڈونلڈ ٹرمپ امريکی تاريخ کے پہلے صدر ہيں جن کے مواخذے کی بازگشت ان کے حلف اٹھانے سے پہلے سے ہی سنائی دے رہی تھی۔ جنوری 2017 ميں جيسے ہی صدر ٹرمپ نے اقتدار سنبھالا، ہيوسٹن سے رکن کانگريس ايل گرين نے بريڈ شرمن کے ساتھ مل کر مواخذے کی تحريک ترتيب دينی شروع کر دی۔ اسی فروری اور اس کے بعد دسمبر ميں ان کے خلاف مواخذے کی تحريک ايوان زيريں ميں پيش ہوئی جسے بھاری اکثريت سے مسترد کر ديا گيا۔
نومبر 2018 کے وسط مدتی انتخابات ميں جب ڈيموکريٹک پارٹی نے ايوان زيريں ميں اکثريت حاصل کرلی تو مواخذے کی کوششوں ميں تيزی آگئی اور مارچ ميں پہلے بريڈشرمن اور اس کے بعد فلسطينی نژاد رشيدہ طليب نے مواخذے کی تحريک کانگريس کی مجلس قائمہ برائے انصاف کو جمع کرادی۔ تاہم اس قرارداد کو بھی پزيرائی حاصل نہ ہوئی۔اس تعارف کے بعد اس اسکينڈل پر چند سطور جو صدر ٹرمپ کے مواخذے کا سبب بنا:يوکرين جو مشرقی يورپ ميں سوا چار کروڑ نفوس پر مشتمل ايک ملک ہے۔ اس کی جنوب مشرقی سرحدوں پر بحر بلقان اور بحر ازاق (Azov) موجزن ہے۔ بحر ازاق دراصل بحر اسود کا تسلسل ہے جبکہ بلقان بحر اوقيانوس کا حصہ۔ ان دونوں سمندروں کے درميان جزيرہ نمائے کريميا ہے جس پر 2014 ميں روس نے قبضہ کرليا تھا۔ تيل وگيس سے مالامال کريميا بنيادی طور پر مسلم تاتاروں کا وطن ہے۔
2014 ميں صدر اوباما نے يوکرين پر امريکی اثر ورسوخ بڑھانے کے ليے تيل وگيس کی صنعت ميں تعاون اور وسائل کی ترقی کے ليے 1 ارب ڈالر پيش کيے۔ معلوم نہيں يہ اتفاق تھا يا سوچا سمجھا منصوبہ کہ اسی دوران امريکی نائب صدر اور 2020کے صدارتی انتخابات ميں ڈيموکريٹک پارٹی کی ٹکٹ کے خواہشمند جو بائيڈن کے صاحبزادے ہنٹر بائيڈن يوکرين کی ايک نجی گيس کمپنی بورسما ہولڈنگز (Burisma Holdings) ميں ملازم ہوگئے اور انھيں بورڈ آف ڈائريکٹرز کا رکن بناليا گيا۔ مراعات سميت ان کی تنخواہ 50 ہزار ڈالر ماہانہ تھی۔ بورسما کے مالک يوکرين کے وزير ماحوليات و قومی وسائل مائيکولا لوچوسکی (Mykola Zlochevsky) تھے۔ جب روس نواز حکومت کے خلاف انقلاب برپا ہوا تو مائيکولا فرار ہوگئے۔ بورسما کے خلاف وہاں کے شعبہ انسداد رشوت ستانی نے محاذ کھول ديا اور کرپشن کی چشم کشا کہانياں سامنے آئيں۔ نئی حکومت نے وکٹر شوکن (Victor Shokin) کو تحقيقات کی ذمہ داری سونپی ليکن وکٹر صاحب خود ہی کرپشن کے ايک الزام ميں برطرف کر ديے گئے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وکٹر نے ايک بڑا گھپلا پکڑ ليا تھا جس ميں مبينہ طور پر ہنٹر بائيڈن ملوث تھے اور نائب صدر نے اپنے بيٹے کو بچانے کے ليے حکومت پر دباؤ ڈال کر وکٹر کو برطرف کروا ليا۔ دوسری طرف جو بائيڈن کا کہنا ہے کہ بورسما سے اپنے بيٹے کی وابستگی کی اطلاع انھيں ميٖڈيا سے ملی تھی اور اس بارے ميں نائب صدر کو کچھ بھی پتہ نہ تھا۔ تحقيقات کے بعد يوکرين کی حکومت نے بورسما کو کرپشن کے الزام سے بری الذمہ قرار دے ديا۔
اس دلدل ميں صدر ٹرمپ کچھ اس طرح پھنسے کہ انھوں نے 25جولائی کو يوکرين کے صدر ولاديمر زيلينسکی Volodmyr Zelensky سے فون پر طويل گفتگو کی جس ميں يوکرين اور روس کے درميان کشيدگی پر بات ہوئی۔ حال ہی ميں امريکی کانگريس نے يوکرين کے ليے 40 کروڑ ڈالر کی امداد منظور کی ہے۔ جس ميں سے 25 کرو ڑ ڈالر فوجی ساز وسامان جبکہ 15 کروڑ ڈالر سماجی بہبور کے ليے ہيں۔ گفتگو کے دوران صدر ٹرمپ نے يوکرين ميں کرپشن کی شکايت کی اور صدر زيلينسکی سے پوچھا کہ بورسما کے خلاف کرپشن کی تحقيقات کرنے والے وکٹر شوکن کو کيوں برطرف کيا گيا اور اس معاملے ميں ہنٹر بائيڈن کا کيا کردار تھا؟ انھوں نے اس دوران دھمکی بھی دی اور کہا کہ اگر شفاف تحقيق نہيں کی گئی تو وہ يوکرين کی امداد روک ليں گے۔امريکی صدر کی يہ گفتگو خفیہ ادارے کا کوئی مخبر سن رہا تھا۔ اس کے مطابق صدر ٹرمپ نے کئی بار جو بائيڈن اور ان کے بيٹے ہنٹر بائيڈن کا نام ليا ہے۔ اس شخص نے يہ بات حکومت کی ممکنہ بد عنوانيوں پر نظر رکھنے والے انسپکٹر جنرل تک پہنچا دی۔ مشتبہ خبر ذمہ داروں کو پہنچانے والے شخص کو انگريزی محاورے ميں Whistleblower کہا جاتا ہے جس کی شناخت کو امريکی قانون پردہ راز ميں رکھنے کی ضمانت ديتا ہے۔
يہ خبر منظر عام پر آنے سے ايک ہلچل مچ گئی۔ حسب توقع صدر ٹرمپ سخت مشتعل ہوئے اور ’سيٹی بجانے والے‘ اس شخص کو انھوں نے غدار قرار دے ديا جس نے امريکی صدر کی جاسوسی کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ميں دنيا بھر کے رہنماؤں سے انتہائی حساس معاملات پر گفتگو کرتا ہوں اور بہت سے امور ايسے بھی ہيں جو اگر افشا ہو جائيں تو ملکی سلامتی خطرے ميں پڑ سکتی ہے۔ انھوں نے سراغ رساں اداروں سے اس شخص کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کيا۔تاہم دوسرے دن امريکی صدر نے اس بات کا اعتراف کيا کہ انھوں نے صدر زيلنسکی سے يوکرين ميں کرپشن پر اپنی تشويش کا اظہار کيا تھا۔ انھوں نے اپنی بات کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ امريکی صدر کی حيثيت سے وہ اس بات کو يقينی بنانے کی کوشش کر رہے تھے کہ ٹيکس دہندگان کے خون پسينے کی کمائی کرپشن ميں نہ اڑائی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ جو بائيڈن يا ان کے صاحبزادے کا نام نہيں ليا گيا ليکن اگر وہ اس کا ذکر کر بھی ديتے تو غلط نہ ہوتا کيونکہ يہ کروڑوں ڈالر کا سوال ہے۔ دوسری طرف سيٹی بجانے والا مُصر تھا کہ صدر ٹرمپ نے 3 بار سے زيادہ جو بائيڈن اور ان کے بيٹے ہنٹر بائيڈن کا نام ليا تھا۔اسے بنياد بنا کر کانگريس نے جو فردِ جرم مرتب کی اس ميں صدر ٹرمپ پر پہلا الزام يہ تھا کہ اُنہوں نے 2020کے صدارتی انتخابات ميں اپنے متوقع حريف جو بائيڈن کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے ليے يوکرين کے صدر ولادی مير زيلينسکی پر فون کر کے دباؤ ڈالا تھا کہ وہ ان کے صاحبزادے ہنٹر بائيڈن کے خلاف مبينہ کرپشن کی تحقيقات کرائيں۔ صدر پر يہ بھی الزام ہے کہ اُنہوں نے تعاون نہ کرنے پر يوکرين کے ليے امريکی امداد روکنے کی دھمکی دی تھی۔ قانونی اصطلاح ميں اس مجرمانہ مول تول کو Quid Pro Quo کہا جاتا ہے۔
امريکی صدر پر دوسرا الزام يہ ہے کہ انہوں نے اپنے خلاف ہونے والی تحقيقات ميں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی۔ فردِ جرم کے مسودے پر امريکی ايوانِ نمائندگان ميں جب ووٹنگ ہوئی تو فرد جرم کا پہلا آرٹيکل 197 کے مقابلے ميں 230 اور دوسرا آرٹيکل 198 کے مقابلے ميں 229 ووٹوں سے منظور ہو گيا اور اسپيکر نينسی پلوسی نے اس کی توثيق کر دی۔ اس موقع پر صحافیوں سے باتيں کرتے ہوئے نينسی پلوسی کا موقف تھا کہ صدر ٹرمپ نے اختيارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے قومی سلامتی کو خطرے ميں ڈالا اور يہ ان کے مواخذے کے ليے کافی ہے۔
تقريب کے بعد Impeachment Managers نےايک باوقار جلوس کی شکل ميں اصل مسودہ سينيٹ کے قائد ايوان کے پاس جمع کراديا يا يوں کہئے کہ صدر ٹرمپ پر مواخذے کا مقدمہ قائم ہوگيا اور ضابطے کے مطابق 16 جنوری کو مقدمے کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ سينيٹ کی مجلس قائمہ برائے انصاف کے سربراہ نے چيف جسٹس جان رابرٹس سے حلف لے کر سينيٹ کی صدارت چيف جسٹس کے حوالے کر دی۔ انجيل مقدس پر حلف ميں چيف جسٹس نے اللہ کو حاضر وناظر جان کر عہد کيا کہ وہ مقدمے کی سماعت کے دوران غير جانبدار رہيں گے اور کسی قسم کی وابستگی و لالچ کو خاطر ميں نہ لاتے ہوئے آئين کے مطابق مبنی بر انصاف فیصلہ کريں گے۔ حلف کے اختتام پر So help me God کہہ کر اللہ سے استعانت بھی طلب کی گئی۔ سينيٹ کی مسندِ صدارت سنبھالنے پر جسٹس رابرٹس نے ايسا ہی حلف سينيٹروں سے بھی ليا اور اجتماعی عہد کے بعد فرداً فرداً حلف رجسٹر پر دستخط کر کے ان سينيٹروں نے اپنے وعدے کو محفوظ کر ديا۔
21 جنوری سے سماعت کا آغاز ہوا اور 5فروری کو سينيٹ نے دونوں الزامات سے صدر ٹرمپ کو باعزت بری کر ديا۔ صدر کی بريت کسی بھی اعتبار سے غير متوقع نہيں تھی کہ کارروائی کے دوران انصاف و قانون پر جماعتی سياست غالب تھی۔ باوجوديکہ مقدمے کے آغاز پر سپريم کورٹ کے چيف جسٹس نے سينيٹ کے ہر رکن سے انصاف و غير جانبداری کا حلف ليا اور ہر سينيٹر نے انجيل مقدس پر ہاتھ رکھ کر وعدہ کيا تھا کہ وہ ذاتی و جماعتی مفادات سے بالاتر ہو کر انصاف و قانون کے مطابق فیصلہ کريں گے ليکن جماعتی تعصب کا يہ عالم تھا کہ اکثريت کے بل پر ريپبلکن پارٹی نے گواہ بھی نہيں پيش ہونے ديے۔ فیصلہ روايتی قرارداد کی طرح پارٹی لائن پر ہوا۔ حکم راں ريپلکن پارٹی کے ہر سينيٹر نے ٹرمپ کو معصوم اور ڈيموکريٹک پارٹی کے تمام سينيٹروں نے امريکی صدر کو مجرم گردانا۔ سوائے ايک استثناء کے ساتھ کہ ريپبلکن سينيٹر مٹ رامنی نے اپنی پارٹی سے بغاوت کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کو پہلے الزام ميں مجرم قرار ديا۔ مٹ رامنی ايک راسخ العقيدہ مسيحی ہيں اور رائے شماری سے پہلے تقرير کرتے ہوئے انھوں نے بہت ہی واشگاف انداز ميں کہا کہ انجيل اور اس کے نازل کرنے والے سے ميری اطاعت و وفاداری، دوسری تمام وابستگيوں پر فوقيت رکھتی ہے اور ميں نے انجيل مقدس پر انصاف و غير جانبداری کا جو حلف اٹھايا ہے ہر قيمت پر اس کی پاسداری کروں گا چاہے مجھے اس کی کوئی بھی قيمت کيوں نہ ادا کرنی پڑے۔بريّت کا فیصلہ ہوتے ہی صدر ٹرمپ نے مواخذے کی تفتيش کے دوران گواہی دينے والے سرکاری اہلکاروں کے خلاف کارروائی شروع کر دی ہے۔ قومی سلامتی کونسل کے سربراہ برائے يورپی امور ليفٹيننٹ کرنل اليگزينڈر ونڈ مين 7 فروری کی صبح بصد سامانِ رسوائی برطرف کرديے گئے۔ کرنل صاحب کے جڑواں بھائی کو بھی ان کے عہدے سے ہٹا ديا گيا۔ اسی کے ساتھ کانگريس ميں بطور گواہ پيش ہونے والے يورپی يونين ميں امريکہ کے سفیر گورڈن سونڈلينڈ کو بھی وطن طلب کرليا گيا ہے۔ خيال ہے کہ ملک پہنچتے ہی انھيں بھی پروانہ برطرفی تھما ديا جائے گا۔ اسی صدر ٹرمپ کے صاحبزادے ڈونلڈ ٹرمپ جونير نے ’باغي‘ سينيٹر مٹ رامنی کے پارٹی سے اخراج کا مطالبہ کيا ہے۔
مواخذے کی کارروائی ايسے وقت ہوئی ہے جب 8ماہ بعد صدارتی انتخابات ہورہے ہيں۔ صدر ٹرمپ اور حزب اختلاف دونوں ہی اس معاملے کو عوامی عدالت ميں لے جانے کے ليے پرعزم ہيں۔ يعنی انتخابی مہم کے دوران دونوں فريق اس نکتے کی آڑ ميں ايک دوسرے پر کيچڑ اچھاليں گے۔ يہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ مواخذے کے دوران ہونے والے سنسنی خيز انکشافات کو سياسی بازيگر کس مہارت سے استعمال کريں گے۔ کارروائی کے دوران جہاں صدر ٹرمپ کی جانب سے اختيارات کے ناجائز استعمال کے شواہد سامنے آئے ہيں تو اسی کے ساتھ جناب جو بائيڈن کے مخالفین کو بھی حملے کے ليے زہر آلود تير ميسر آگئے ہيں۔ پارٹی ٹکٹ کی دوڑ ميں بائيڈن کی پوزيشن خاصی مضبوط ہے ليکن يوکرين اسکينڈل ا ن کے ليے خوفناک دلدل ثابت ہوسکتا ہے۔ يعنی اس دو دھاری تلوار سے صدر ٹرمپ اور جو بائيڈن دونوں ہی گھائل ہوتے نظر آرہے ہيں۔
[email protected]