منفرد طرز نگارش، انوکھا اندازِتفکر

مولانا ابوالکلام آزاد کی انشائیہ نگاری ،اردو ادب کے شہ پارے

اسد اللہ ،ناگپور

 

مولانا ابولکلام آزاد کی جامع الصفات شخصیت میں مقرر،مفسر، مدبّر، فلسفی اور انشائیہ نگار اپنی اپنی مسندوں پر تشریف فرما نظر تے ہیں۔ان تمام کی بے نقابی کے لیے مولانا نے الگ الگ پیرایہ اظہار وضع کیا۔ الہلال اور البلاغ کی اشاعت کے ساتھ ہی ان کا طرزِنگارش مقبول ہو نے لگا تھا۔صحافیانہ زبان جس کی پشت پر عصرِحاضر کے گراں بار مسائل اور کاندھے پر اخبار کی پالیسی کا جوا موجود ہو ،چوکڑیاںبھر نا بھول جاتی ہے ۔ہر نوں کی طرح آزاد انہ قلانچیںمارنا ادبی زبان کا طرہ امتیاز ہے۔
مولانا نے اس دشتِ پر خار میں اپنی انفرادیت کے نقوش ثبت کئے اور اعلیٰ ذوق سے زبان و ادب کی آبیاری کی۔مولانا ابولکلام آزاد کی خطابت جس جذباتی وارفتگی اور ادبیت کا مرقع ہے اس میں روایتی ناصحین کا انداز نہیں بلکہ ایک مدبر کا اندازِفکر اور حساس ادیب یا شاعر کے لب و لہجہ کی رعنائیاں موجود ہیں۔نثر نگاری میں بھی ان کا یہی اسلوب ہے۔ لطیف جذبات و احساسات کے اظہار کی بدولت غبار ِ خاطر کے خطوط میں انشائیہ کی جھلکیاںنظرآتی ہیں۔
غبارِ خاطر مولانا کے وہ خطوط ہیں جو انھوں نے 1943 سے 1945 کے درمیان نواب صدر یار جنگ ،مولانا حبیب الرحمٰن شیر وانی کے نام لکھے ان خطوط کی تخلیق میںبعض ایسے عناصر کار فرما ہیںجن کا وجود انشائیہ کی تخلیق کے لئے ازبس ضروری ہے۔مثلاً انشائیہ نگار شخصی سطح پر وارداتِ قلبی کا انکشاف کر تاہے جیسے کسی بے تکلف دوست سے اپنی ذہنی ترنگیں بیان کر رہا ہو۔ بعینہ یہی حالت مولانا ابوالکلام آزاد کو اس وقت میسر آئی جب قلعہ احمد نگر میں اسیری کے دوران سیاست کی متلاطم ہیجان انگیز لہروں سے نجات حاصل کر نے کے بعد انھیں ایک گوشہ تنہائی میسر آیا۔ان لمحات میں مولانا کے خیالات ،جذبات اور افکار کے پر دوں میں ہو نے والی جنبش ان کے خطو ط میںریکارڈ ہوئی اور اسی ارتعاش کی اوٹ سے ان کی شخصیات کی جھلکیاںنظر آتی ہیں۔ان خطوط میں یہی خود انکشافی انشائیہ نگاری سے عبارت ہے۔غبارِ خاطر کے خطوط فوراً مکتوب الیہ تک نہیںپہنچے۔ مولاناکے سیکریٹر ی محمّد اجمل خان نے اس سلسلے میں لکھا ہے۔
قلعہ احمد نگر کے زمانے میںدوستوںسے خط و کتابت کی اجازت نہ تھی اور حضرت مولاناکی کو ئی تحریر باہر نہیں جا سکتی تھی۔پندرہ جون 1945 کو جب مولانا رہا ہو ئے تو ان مکاتیب کے مکتوب الیہ تک پہنچنے کی راہ بار ہوئی۔
خطوط لکھتے وقت ممکن ہے یہی احساس مکتوب نگاری کی عمومی سطح سے مولانا کو خود کلامی کی سطح تک لے گیا ہے۔خود کلامی کی اسی کیفیت میںمولاناکے خطوط مکتوب نگاری کی عام ڈگر سے ہٹ کر انشائیہ کی راہ پر چل بڑے۔
مولانا ابوالکلام کے خطوط کا انداز ان کے ہم عصر اور دیگر مشاہیر کے خطوط سے قطعی جدا گانہ ہے۔ ان خطوط میںتنوع اور موضوعات کی رنگارنگی کے علاوہ علمی اور فلسفیانہ مباحث بھی موجود ہیں۔ ان مباحث پر جب مولاناکا قلم اپنی گرفت مضبوط کر نے لگتا ہے تو انشا ئیے کا دامن ان کے ہاتھوںسے چھوٹ جاتا ہے مثلاًغبارِخاطرکا ایک خط اس طر ح شروع ہوتا ہے۔
صبح کے ساڑھے تین بجے ہیں۔اس وقت لکھنے کے لئے قلم اٹھایا تو معلوم ہوا سیاہی ختم ہو رہی ہے۔ساتھ ہی خیال آیا کہ سیاہی کی شیشی خالی ہوچکی تھی نئی شیشی منگوانی تھی ،مگر منگوانا بھول گیا۔ میں نے سوچا۔تھوڑا پانی کیوںنہ ڈال دوں؟
یکایک چائے دانی پر نظر پڑی میں نے تھوڑی سی چائے فنجان میںانڈیلی اور قلم کا منہ اس میںڈبو کر پچکاری چلادی پھر اسے اچھی طرح ہلا دیا کہ روشنائی کی دھوون پوری طرح نکل آئے اور اب دیکھئے کہ روشنائی کی جگہ چائے کے تند و گرم عر ق سے اپنے نفس ہائے سرد صفحہ قرطاس پر نقش کر رہا ہوں۔2اس خالص انشائی بر تائو اور چائے سے حاصل ہو نے والی گرمی سے موضوع کو مزید کھلنا چاہئے تھا لیکن اس کے بعد پوری تحریر جس کا سلسلہ اگلے خط سے بھی جڑا ہوا ہے ایک علمی موضوع پر اظہار ِخیال کے تقاضے پورے کر نے میں صرف ہوئی ہے۔
اس کی علمی حیثیت سے قطع نظر اس قسم کے خطوط انشائیہ کا مزاج پیش کر نے سے قاصر ہیں۔ دوم یہ کہ خطوط کا فارم بہر حال خطوط ہی کے زمرے میں شامل کیا جائے گا البتہ ان خطو ط کے بعض حصے انشائیہ کی خصوصیات پیش کر تے ہیں۔غبارِخاطر میںزاغ و بلبل ،چڑیا چڑے کی کہانی اور چائے کے متعلق مولانا کے تاثرات میں انشائیے کی جھلکیاںنمایاں ہو ئی ہیں۔اس کا اندازہ حکایات ِ زاغ و بلبل کے اس اقتباس سے کیا جا سکتا ہے۔
روز صبح روٹی کے چھوٹے ٹکڑے ہاتھ میں لے کر نکل جاتے اور صحن میں جا کھڑے ہو تے۔پھر جہاںتک حلق کام دیتا آآآکرتے جاتے اور ٹکڑے فضا کو دکھا دکھاکر پھینکتے رہتے۔ یہ صلائے عام مینائوں کو تو ملتفت نہ کر سکی البتہ شہرستان ِہوا کے دریوزہ گرانِ ہر جائی یعنی کووں نے ہر طرف سے ہجوم شروع کر دیا۔ میں نے کووںکو شہرستان ِہوا کا دریوزہ گر اس لئے کہا ہے کہ کبھی انھیں مہمانوںکی طرح کہیںجاتے نہیں دیکھا۔ہمیشہ اسی عالم میں پایا کہ فقیروں کی طرح ہر دروازے پر پہنچے ،صدائیںلگائیں اور چل دئے ،فقیرانہ آئے صدا کر چلے۔3مولاناآزاد کے خطوط کے متعلق یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ مولانا یہ جانتے تھے کہ ان کے مکتوب الیہ تک نہیں پہنچ پائیں گے۔غبارِ خاطر میں مولانا نے ہرچند اپنی علمی و فکری صلاحیتوں کو بے نقاب کیا ہے، مغربی دانشوروں،مسلم اور عیسائی مورخوںکے خیالات کو پیش کیا ہے۔غبارِ خاطرعلم اور واقعات کا مجموعہ ہی نہیںبلکہ اس میں مولانا نے اپنے نہاںخانہ دل کی متاع ِگرں مایہ کی بے نقابی کا بھی اہتمام کیا۔اپنے دکھ، اپنی تنہائی کو بھی ان خطوط کا حصہ بنایا ہے۔اس کتاب کا نا م بھی اس خود انکشافی کا مظہر ہے جو انشائیہ کا اہم جوہر ہے۔ یہ محض زخموں کی آرٹگیلری نہیں،ان سانحات کو مولانا نے ایک ایسے روشندان میںتبدیل کر دیا جہاں سے وہ کاروبارِ حیات کو باندازِ دیگر دیکھتے ہیں۔
ان خطوط میں ان کی اہلیہ کی رحلت کے وا قعے سے ان کی سوچوںکی سطح پر ابھرنے والے دائرے ہوں،چائے اور چڑیوں سے متعلق ان کے لطیف احساسات ہوںیا اپنے ہم عصروں کے درمیاں اپنے مقام کا احساس ہو ،یہ تمام خطوط انشائیہ کے ایک اہم وصف، انکشافِ ذات کا ادبی اظہار ہیں۔درج ذیل اقتباسات سے ان خطوط کی انشائی کیفیت کا اندازہ لگ یا جا سکتاہے۔
لوگ بازار میں دکان لگاتے ہیں تو ایسی جگہ ڈھونڈ کر لگاتے ہیںجہاںخریداروں کی بھیڑ لگی ہو۔میں نے جس دن اپنی دکان لگائی تو ایسی جگہ ڈھونڈ کر لگائی جہاں کم سے کم لوگوں کا گزر ہو سکے۔فکر و نظر کی عام راہوںمیں جس طرف بھی نکلنا پڑا اکیلا ہی نکلنا پڑا ،جب مڑ کے دیکھا تو گردِراہ کے سوا کچھ دکھائی نہ دیااور یہ بھی اپنی ہی تیز رفتاری کی اڑائی ہوئی تھی۔( غبارِ خاطر )
اب اس دنیا میںجو قلعے سے باہر ہے اور اس میں جو قلعے کے اندر صرف ایک قدم کا فاصلہ رہ گیا تھا۔چشمِ زدن میں یہ بھی طے ہو گیا اور ہم قلعے کی دنیا میں داخل ہو گئے۔غور کیجئے تو زندگی کی تمام مسافتوں کا یہی حال ہے۔خود زندگی اور موت کا باہمی فاصلہ بھی ایک قدم سے زیادہ نہیں ہو تا۔( غبارِ خاطر )
مولانا کی سوچ اور تخئیل نے انھیں ان خطوط میں آزادانہ سیر کے مواقع فراہم کئے ہیں ۔ انشائیہ کی یہ وہی خوبی ہے جسے جانسن نے ذہن کی آ زادنہ ترنگ سے تعبیر کیاہے ۔ انشائیہ نگار کی یہی آ زادہ روی اسے مختلف موضوعات کے حوالے سے خود انکشافی کی دعوت دیتی ہے ۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر صفدر لکھتے ہیں۔
’’شعور کی رو یا آ زاد تلازمہ ٔ خیال ان خطوط میں مولانا کو بیک وقت کئی دنیائوں کی سیر کراتا ہے ۔ غبار ِ خاطر کے واسطے سے ہم مولانا کے اس سفر میں ان کے شریک ٹھہر تے ہیں ۔اس شرکت پر ہم جتنا ناز کریں کم ہے ۔ ‘‘
قاری کو اپنے تجربات اور تاثرات میں شامل کرتے ہوئے انشائیہ نگار بے تکلفی کے ساتھ شگفتہ اسلوب اختیارکرتا ہے او ر زندگی یا کائنات کے کسی نئے یا انوکھے پہلو کی نشاندہی کرتا ہے۔ غبار ِخاطر کے کئی خطوط میں مختلف مقامات پر یہ خوبی موجود ہے اسی لیے خطوط کی صنف سے متعلق ہونے کے باوجود انھیں انشائیہ سے تعبیر کیا جاتا ہے حالانکہ ایک کل کی حیثیت سے انشائیہ بہر حال ایک مختلف قسم کی تحریر ہے جو مضمون کے فارم میں لکھی جاتی ہے ۔
حواشی
1۔محمد اجمل خان،مقدمہ غبارِ خاطر،ص5
2مولانا ابوالکلام آزاد،غبارِ خاطر ،ص147
3۔مولانا ابوالکلام آزاد،غبارِ خاطر ،ص 246
4۔ غبارِ خاطر ۔ ایک مطالعہ ، ڈٖاکٹر صفدر ۔صفدر : تخلیقی و تنقیدی جہتیں، ۲۰۱۷ ،ص ۲۴۴
***

قاری کو اپنے تجربات
اور تاثرات میں شامل کرتے ہوئے
انشائیہ نگار بے تکلفی کے ساتھ شگفتہ اسلوب اختیارکرتا ہے او ر زندگی یا کائنات کے کسی نئے یا انوکھے پہلو کی نشاندہی کرتا ہے۔ غبار ِخاطر کے کئی خطوط میں مختلف مقامات پر یہ خوبی موجود ہے اسی لیے خطوط کی صنف سے متعلق ہونے کے باوجود انھیں انشائیہ سے تعبیر کیا جاتا ہے حالانکہ ایک کل کی حیثیت سے انشائیہ بہر حال ایک مختلف قسم کی تحریر ہے جو مضمون کے فارم میں لکھی جاتی ہے ۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 14 مارچ تا  20 مارچ 2021