منا بھائی اور سرکٹ : مہاراشٹر کی سیاست کے پورب پچھم

مفاد پرستی کی سیاست اوربنتے بگڑتے رشتوں کی دلچسپ کہانی

ڈاکٹر سلیم خان، ممبئی

’ایک تھا ٹائیگر‘۔ ممبئی کا کانکریٹ جنگل اس کی دہاڑ سے دہل جایا کرتا تھا ۔ کارٹون بنانا اس کاپسندیدہ مشغلہ تھا اور ہفتہ وار جریدہ نکال کر وہ اپنا گزر بسر کیا کرتا تھا۔ سیاسی کارٹون بنانے والا ٹائیگر ہٹلر کو اپنے لیے نمونہ مانتا اور راج کارن (انتخابی سیاست ) کو گجکرن (خارش کی بیماری) سمجھتا تھا ۔ اس دور کی سیاست میں ترنگا کے مقابلے سرخ پرچم کا بول بالا تھا۔ اس کی سرخی کو ماند کرنے کی خاطر گاندھی ٹوپی والوں نے ٹائیگر کو بھومی پتر(مقامی عوام) کے مسائل کا علمبردار بننے کی ترغیب دی۔ ٹائیگر نے جنوبی ہند کی بے ضرر ہرنوں ( باشندوں) پر پنجے جھاڑ کر حملہ کردیا۔ لہولہان ہرنوں نے اپنے تحفظ کی خاطر سرخ پرچم پھینک کرترنگا تھام لیا ۔ مقامی بھیڑوں نے سرخ پرچم کے بجائے زعفرانی پرچم بلند کردیا ۔ گاندھی ٹوپی والوں نے ایک تیر سے دو شکار کرلیے۔ مشرق کے افق سے ابھرنے والا سورج روبہ زوال ہوگیا اورپھر اس کو غروب ہونے میں وقت نہیں لگا ۔
ٹائیگر کےہونٹوں کو سیاست کا خون لگ چکا تھا ۔ اس نے اپنی سینا (فوج) کا نشان تیر کمان رکھ دیا تاکہ اپنے آقا کے لیے شکار کا شغل جاری رکھ سکے ۔ ٹائیگر کا دوسرا شکار سبز پرچم والے تھے۔ ان پر حملہ ہوا تو شہر اور قرب و جوار میں فساد پھوٹ پڑا۔ اس کے نتیجے میں گول ٹوپی والے بھی گاندھی ٹوپی کی شرن (پناہ ) میں آگئے حالانکہ ٹائیگر کو بھی اسی کا تحفظ حاصل تھا ۔ مہاراشٹر کے جنگل میں سفید ٹوپی کے دشمن کالی ٹوپی والوں کو ٹائیگر کی گول ٹوپی کی مخالفت میں امید کی کرن نظر آئی ۔ ان لوگوں نے اپنی بیٹی کملا کا پیغام ٹائیگر کے گھر بھیجا تاکہ اسے اپنا گھر داماد بناکر ممبئی سے ناگپور لے جایا جاسکے ۔ ٹائیگر نے سوچا کب تک گاندھی ٹوپی کی پناہ میں کسمپرسی کی زندگی گزاری جائے ؟ اب جبکہ ایک اطاعت گزار شریک حیات بھی پکے ہوئے پھل کی مانند دامن میں گرا چاہتی ہے کیوں نہ اپنا خود مختار گھر سنسارآباد کیا جائے ۔
ٹائیگر اور کملا کی نسبت طے ہوگئی تو وہ دونوں ایک دوسرے کو سمجھنے سمجھانے کی خاطر ساتھ ساتھ گھومنے ٹہلنے لگے لیکن اس بیچ مہاراشٹر کے جنگل میں نیا سیاسی زلزلہ آگیا جس کا مرکز بارہ متی تھا ۔ بارہ متی سے اٹھنے والے بغاوت کےطوفان نے گاندھی ٹوپی کوہوا میں اچھال دیا ۔ اس منظر کو دیکھ کر کالی ٹوپی والوں کو احساس ہوا کہ کملا کے لیے ٹائیگر سے بہتر رشتہ بارہ متی کے ہاتھی کا ہے۔ ٹائیگر یہ دیکھ کر بہت بددل ہوا ۔ اس نے کملا سے ناطہ توڑ لیا اور اب وہ ہاتھی سے رشتہ جوڑنے کے لیے آزاد ہوگئی۔ ہاتھی کا راج زیادہ دن نہیں چل سکا ۔ اقتدار گنوانے کے بعد اس نے پھر سے سفید ٹوپی پہن لی اور بیچاری کملا اچانک بیوہ ہوگئی ۔ اس نے جب ’پورب سے پچھم ‘ کی جانب پلٹ کر دیکھا تو وہاں اداس ٹائیگر منوج کمار کی مانند اندیور کا لکھا گیت گارہا تھا۔ کملا نے جب شرمندگی کے ساتھ معافی طلب کی اور دوبارہ رشتے بحال کرنے کی پیشکش کی تو ٹائیگر نے کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ کہہ کر معاملہ رفع دفع کردیا ؎
کوئی جب تمہارا ہردیہ(دل) توڑ دے ،تڑپتا ہوا جب تمہیں چھوڑ دے
تب تم میرے پاس آنا پری یے(محبوب) ، مرا در کھلا ہے کھلا ہی رہے گا تمہارے لیے
راجیو لہر نے جب کملا کو دو پر پہنچا دیا تو اس نے گاندھیائی سوشلزم کو دریا برد کرکے پھر سے ہندوتوا کا دامن تھام لیا تھا۔ رام رتھ یاترا ملک بھر میں نفرت کی آگ پھیلا رہی تھی ۔ اس کام میں ٹائیگر اور کملا شانہ بشانہ آگے بڑھ رہے تھے بلکہ ٹائیگر قدم دو قدم آگے تھا ۔ اس وقت کملا کا سابق محبوب بارہ متی کا ہاتھی مہاراشٹر پر راج کررہا تھا ۔ اقتدار کے زعم میں وہ گول ٹوپی والوں کو ناراض کرچکا تھا۔ دلی کے نرسنگھا کو فریب دینے کی خاطر اس نے کئی کالی بھیڑوں کو انتخابی میدان میں اتار دیا تھا ۔ یہ داو الٹا پڑا اور بارہ متی کا ہاتھی اقتدار سے محروم ہوگیا ۔ ٹائیگر نے سنگھاسن پر خود بیٹھنے کے بجائے پہلے اپنی لومڑی کو اقتدار تھمایا اور پھر اس کو ایک گدھے سے بدل دیا ۔ لومڑی بوڑھی ہوچکی ہے اور گدھا در بدر منہ مارتا پھر رہا ہے۔ لومڑی کے ساتھ راج کاج کے لیے کالی ٹوپی والوں نے ایک کالے گھوڑے کو اقتدار کے گلیارے میں بھیج دیا اور مہاراشٹر میں گیروا پرچم لہرانے لگا ۔
اس مایوس کن صورتحال میں ہاتھی نے بد دل ہوکر پھر سے بغاوت کی اور پنجہ مروڑ کر گھڑی تھام لی ۔ انتخاب کے بعد ٹائیگر کے تیر کمان کا نشانہ چوک گیا اور کمل بے نشان ہوگیا۔ گھڑی پھر سے پنجے کی کلائی پر بندھ گئی ۔ تھوڑی بہت آپسی تو تو میں میں کے باوجود یہ گھر سنسار ہنستے کھیلتے چلنے لگا ۔ ملک میں جب ’اچھے دن ‘ کی ہوا چلی تو عوام نے پندرہ لاکھ کی لالچ میں کملا کو دلی کا تخت و تاج سونپ دیا۔ اس کامیابی کے بعد کملا خود کو قوام اور ٹائیگر کو غلام سمجھنے لگی ۔ اس طرح ان کے رشتے میں پھر دراڑ پڑ گئی۔ ٹائیگر نے اپنی توہین سے نالاں ہوکر ایک طلاق دے دی۔ دونوں نے برسوں بعد ایک دوسرے کے خلاف صوبائی انتخاب لڑا۔ کملا نے اپنی برتری ثابت کردی۔ اس نے ہاتھی کی بلاواسطہ مدد سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرکے ساری اہم وزارتیں اپنی بھیڑوں میں تقسیم کردی اور پھر ٹائیگر کو یاد دلایا کہ پہلی طلاق کے بعد رجوع کرنے کا موقع ہے ۔ ’ مر تا کیا نہ کرتا ‘ ٹائیگر اس بار کملا کا گھر داماد بننے پر راضی ہوگیا لیکن اس بار وہ ’پورب پچھم ‘ کے نغمہ کا آخری بند گا رہا تھا۔
کوئی شرط ہوتی نہیں پیار میں، مگر پیار شرطوں پہ تم نے کیا
نظر میں ستارے جو چمکے ذرا ، بجھانے لگی آرتی کا دیا
جب اپنی نظر میں ہی گرنے لگو، اندھیرے میں اپنے ہی گھرنے لگو
تب تم میرے پاس آنا پری یے(محبوب) ، یہ دیپک جلا ہے جلا ہی رہے گا تمہارے لیے
اس دوران گردشِ زمانہ سے یہ تبدیلی آئی کہ ٹائیگر بیٹے کی محبت میں اپنی سینا(فوج) کی باگ ڈور منا بھائی فوٹو گرافر کو سونپ دی ۔ اس فیصلے نے ٹائیگر بھتیجے سرکٹ کو آگ بگولہ کردیا اور اس نے انجن پر سوار ہوکر جنگل کے تعمیر نو کا اعلان کردیا ۔ اس طرح انجن کے نشان والی مہاراشٹر نونرمان سینا وجود میں آگئی۔ اس وقت منابھائی نے چونکہ زعفرانی شال اوڑھ رکھی تھی اس لیے سرکٹ نے اپنی جداگانہ شبیہ بنانے کی خاطر نیلے اور سبز رنگ کا گمچھا کندھے پرڈال لیا۔ گول ٹوپی اور نیلی قمیض والوں کو اس کا یہ اقدام بہت اچھا لگا اور وہ بھی اس کے قریب آگئے ۔ اس نے اپنی بھومی پتر(علاقائیت) کا پرچم لہراتے ہوئے جنوب کے بجائے شمالی ہند کے باشندوں کی جانب نفرت کا دہانہ کھول دیا۔ یہ حربہ کامیاب نہیں ہوا۔ اس سے انجن کی ہوا نکل گئی اور بیچارہ سرکٹ نہ گھر کا رہا نہ گھاٹ کا ۔ اس کا سیاسی مستقبل خطرے میں پڑگیا ۔ منا بھائی نے باپ کی وراثت کو سنبھالا اور سینا پر اپنی پکڑ مضبوط کرتا چلا گیا ۔
قومی انتخاب میں گوکہ کمل اور تیرکمان ایک دوسرے کے ساتھ تھے لیکن اس کے باوجود کمل نے سینا کی پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہوئے سرکٹ کے انجن سے تیر کمان کو روندنے کی کوشش کی۔ اس میں اسے کوئی خاص کامیابی نہیں ملی ۔ اس کے بعد صوبائی انتخاب میں تو تیر کمان اور کمل نشان ایک دوسرے سے نبرد آزما تھے اس لیے انجن کا کھل کر استعمال کیا گیا۔ یہ تجربہ کامیاب رہا اور مہاراشٹر میں کمل کا راج قائم ہوگیا ۔ کمل نے اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کی خاطرسرکٹ کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر منا بھائی کی سینا سے ہاتھ ملایا تو اس نے اپنے آپ کو ٹھگا ہوا محسوس کیا۔ اس کی ناراضی کا فائدہ اٹھا کر اگلے صوبائی انتخاب میں بارہ متی کے ہاتھی نے انجن کو اپنا ہمنوا بناکر اس کی مدد سے کمل پر چڑھائی کردی۔ سرکٹ اب کرائے کے انجن میں تبدیل ہوچکا تھا ۔ وہ اجرت پر منابھائی کے ہر مخالف کی خدمت کرنے پر آمادہ ہوجاتا تھا ۔
انتخابی نتائج کے بعد مہاراشٹر کی سیاست میں ’ منا بھائی ایم بی بی ایس‘ اگلے مرحلے میں داخل ہوگئی ۔ ایک انڈر ورلڈ ڈان اچانک گاندھی گیری کرنے لگا اور ’لگے رہو منا بھائی‘ شروع ہوگئی۔ سیاست کا یہ الٹ پھیرسرکٹ کے خواب و خیال سے پرے تھا۔ وہ تو سوچ رہا تھا کہ اگر ہاتھی برسرِ اقتدار آجائے تو اس کے توڑ پانی کا کچھ بندو بست ہوجائے گا لیکن یہاں تو منا بھائی کے بھاگ کھل گئے ۔ اس چمتکار کی امید سرکٹ تو دور منا بھائی کو بھی نہیں تھی لیکن قسمت کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے۔ منا بھائی فوٹو گرافی کرتے کرتے ہاتھی پر سوار ہو کر پنجے کی مدد سے کملا کی فلم اتارنے لگا ۔ اس میں کمل سے زیادہ پریشانی سرکٹ کو تھی ۔ سینا کا تیر کمل کی پیٹھ میں لگا ضرور تھا لیکن اس سے قبل وہ خود ہاتھی کے بھانجے کو اپنے ساتھ لے کر یہ حرکت کرچکی تھی اس لیے کسی کو اس سے ہمدردی نہیں تھی۔ ہر کوئی کہہ رہا تھا ’جیسی کرنی ویسی بھرنی ‘ لیکن بیچارے سرکٹ کا حال برا تھا ۔ کیونکہ اس نے سوچا بھی نہیں تھا کہ کبھی ہاتھی اور منابھائی ایک ساتھ آسکتے ہیں لیکن یہاں تو اقتدار کی خاطر گھڑی ،پنجہ اور تیرکمان سب ایک ساتھ ہوگئے تھے۔
دہلی میں بیٹھے چنگو منگو بھی اس پیش رفت سے حیران تھے کیونکہ اس سے پہلے وہ قلت میں ہونے کے باوجود دولت کے بل بوتے پر اقتدار کی کرسی خرید لیتے تھے یہاں کثرت بھی ان کے کام نہیں آرہی تھی۔ ماضی میں جس ہاتھی کے سبب تیرکمان اور کمل نشان میں ناچاقی ہوگئی تھی آج وہ دونوں ساتھ تھے اور کملا بائی حسرت بھری نگاہوں سے اقتدار کی کرسی کو تاک رہی تھی۔ اس نئی صورتحال میں سرکٹ کو منابھائی کی دشمنی نے کملا کی غلامی قبول کرنے پر مجبور کردیا ۔سرکٹ پر کملا کے بلیک میل کا دباو بھی تھا ۔دہلی سے آنے والی ایک تفتیشی افسرنے ۶ ماہ تک اس کے ہونٹ سی دئیے تھے اور جب وہ ٹانکے کھلے تو دہانہ مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے لگا۔ سرکٹ کے لیے دراصل منا بھائی کی سفید و شفاف شبیہ کے خلاف گہرے زعفرانی رنگ کی شال اوڑھنے کا یہ نادر موقع تھا ۔ اس طرح انجن اور کمل پھر سے ساتھ ہوگئے ۔انجن نے اذان کے خلاف ہنومان چالیسا کا بگل بجا دیا گیا ۔
کمل اور انجن کی رام ملائی جوڑی کا عالمِ وجود میں آنا اور ایک دوسرے کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا ان کی مجبوری تھی کیونکہ سو سال کی محنت کے باوجود کملا کا پریوار سرکٹ جیسا دھانسو اداکار پیدا نہیں کرسکا تھا ۔ سرکٹ کے پاس بھی بول بچن کے علاوہ کوئی سیاسی سرمایہ نہیں بچا تھا ۔ ۔ ایسے میں سرکٹ کا انجن اور کمل کے ڈبوں نے مل کر مہاراشٹر میں ہندوتوا ایکسپریس بنائی ۔ سارے کمل دھاری اس ریل گاڑی میں سوار ہو کر منزل مقصود کی جانب رواں دواں ہوگئے ۔اس کے انجن میں سرکٹ بیٹھا تھا مگر ریموٹ کنٹرول کمل کے ہاتھوں میں تھا ۔سرکٹ کے شور شرابے سے منا بھائی فوٹو گرافر کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ کہیں اپنا بھگوا دھاری سینک انجن کے پیچھے لگے زعفرانی ڈبوں میں نہ سوار ہوجائے؟ اس لیے پہلے تو اس نے کہا ’ہندوتوا کوئی دھوتی ہے جسے جو جب چاہے پہن لے‘ لیکن اس سے بات بنی نہیں تو اپنے بیٹے کو زعفرانی شال اوڑھا کر بٹک مہاراج بنانے کا فیصلہ کیا ۔
بٹک مہاراج کے لیے بھگوا شال پہن کر ممبئی میں بیٹھنا کافی نہیں تھا کیونکہ یہاں اس کی ضرورت ہی نہیں تھی ۔ اس لیے خبر بنانے کے لیے منا بھائی کے لکی راوت نے ناسک میں بٹک مہاراج کی مئی کے پہلے ہفتے میں ایودھیا یاترا کا اعلان کردیا ۔ اس خبر نے سرکٹ کا فیوز اڑا دیا ۔ اس نے بھی پونے کے اندر اپنے ساتھیوں کے ساتھ پانچ مئی کو ایودھیا جانے کی گھوشنا کردی ۔ مہاراشٹر کے اندر فی الحال ’ہندو گردی‘ کی مسابقت چل رہی ہے ۔ اس معاملے میں سرکٹ کملا کا آلۂ کار بنا ہوا ہے اس لیے اس نے سوچا کہ ا یودھیا کا اعلان کملا تائی کو خوش کردے گا اور وہ اس کو دوچار اضافی ٹافی اور تھما دیں گی لیکن داوں الٹا پڑگیا ۔ مہاراشٹر کے اندر تو کسی کمل والے نے سرکٹ کی تائید کی نہ مخالفت مگر یو پی کے اندر قیصر گنج کے کمل دھاری بی جے پی رکن پارلیمان برج بھوشن شرن سنگھ بالکل کلبھوشن کھربندا کی طرح رنگ میں بھنگ ڈالنے کے لیے درمیان میں کود پڑے۔ انہوں نے پھٹے میں ٹانگ ڈالتے ہوئے سرکٹ کو ایودھیا میں نہیں گھسنے دینے کا اعلان کردیا ۔
سرکٹ دراصل یہ بھول گیا تھا ہندوتوا کے علمبرداروں میں شہرت کا حریص وہ اکیلا نہیں ہے۔ برج بھوشن نے جیسے ہی یہ دھمکی دی وہ ذرائع ابلاغ پر چھا گیا۔ کوئی ایک چینل والا ایسا نہیں تھا جو اس کے پاس مائیک لے کر نہیں پہنچا ۔ بس پھر کیا تھا برج بھوشن چندرا چندرا کر کہنے لگا کہ ایودھیا آنے سے پہلے راج ٹھاکرے کو شمالی ہند کے باشندوں سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنی ہوگی۔ جب پوچھا گیا کہ سرکٹ بہت طاقتور ہے اس کو کیسے روکیں گے تو بھوشن بولے ہم بھی کسی سے کم نہیں ہیں ۔ ان کے خیال میں چونکہ سرکٹ نے شمالی ہندوستان کے لوگوں کی توہین کی ہے اس لیے معافی نہ مانگنے کی صورت میں وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو بھی اس سے ملاقات نہیں کرنی چاہیے۔ اس طرح اپنی گلی کے شیر نےیوپی میں بلی بن کر رام للا کے درشن کا خیال اپنے دل سے نکال دیا۔ یہ ہے ان کی حیثیت اور جرأت جو مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں ۔سرکٹ نے اپنی اس حماقت سے ٹائیگر اور ان کے پورے خاندان کے نام پر بٹہّ لگا دیا کیونکہ برج بھوشن نے جوش میں آکر یہاں تک کہہ دیا کہ رام مندر تحریک سے ٹھاکرے پریوار کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے بابری مسجد کی شہادت کے وقت ٹائیگر نے اپنے جن کارندوں کو ممبئی سے روانہ کیا تھا وہ کولکاتہ ہوائی اڈے پر پھنسے رہ گئے تھے۔ اس لیے جن پر مقدمہ بنا ان میں کسی تیرکمان والے کا نام و نشان نہیں تھا لیکن مسجد کی شہادت کے بعد جب کمل والوں کے بھیشم پتاما اس موقف پر اٹل نہیں رہ سکے اور رتھ یاترا کے سارتھی نے بھی عوامی غصے کی آڑ میں اپنا دامن جھاڑنے کی کوشش کی تھی تو ٹائیگر نے آگے بڑھ کر اس کا سہرا اپنے سرباندھ لیا تھا۔ سچائی وہی تھی جس کی جانب برج بھوشن نے اشارہ کیا ہے۔ سرکٹ کی ایودھیا مہم نے نہ صرف اس کی عزت خاک میں ملادی بلکہ بٹک مہاراج کے بھی حوصلے پست کردئیے ۔ ویسے یوگی مہاراج نے پچھلی مرتبہ منا بھائی فوٹوگرافر کے دورے کو بھی بری طرح ناکام کردیا تھا ۔ اپنی پولیس کے تحفظ میں درشن تو کروایا لیکن اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں دیا تھا ۔ مہاراشٹر کے جنگل میں کمل کا مستقبل کیا ہوگا کوئی نہیں جانتا مگر یہ بات یقینی ہےکہ سرکٹ کی حالت چراغ پاسوان سے مختلف نہیں ہوگی ۔ اپنا کام نکل جانے کے بعد جب اسے لات مار کرکملا کے گھر سے نکالاجائے گا تو وہ بھی ’پورب پچھم ‘فلم کے اسی نغمہ کا پہلا بند گا رہا ہوگا؎
ابھی تم کو میری ضرورت نہیں ، بہت چاہنے والے مل جائیں گے
ابھی روپ کا ایک ساگر ہو تم ، کنول جتنے چاہوگی کھل جائیں گے
درپن تمہیں جب ڈرانے لگے، جوانی بھی دامن چھڑانے لگے
تب تم میرے پاس آنا پری یے (محبوب)،میرا سر جھکا ہے جھکا ہی رہے گا تمہارے لیے۔

 

***

 ٹائیگر کےہونٹوں کو سیاست کا خون لگ چکا تھا ۔ اس نے اپنی سینا (فوج) کا نشان تیر کمان رکھ دیا تاکہ اپنے آقا کے لیے شکار کا شغل جاری رکھ سکے ۔ ٹائیگر کا دوسرا شکار سبز پرچم والے تھے۔ ان پر حملہ ہوا تو شہر اور قرب و جوار میں فساد پھوٹ پڑا۔۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  15 تا 21 مئی  2022