معاشی استحکام‘ انسانیت کی خدمت کا اہم میدان

جماعت اسلامی ہند کا شعبہ خدمت خلق سماجی مسائل کے حل کے لیے کوشاں

وسیم احمد، نئی دلی

امداد باہمی اور صحت عامہ پر خاص توجہ۔ مختلف ریاستوں میں کوپریٹیو اکریٹ سوسائٹیوں کے قیام کے بہتر نتائج
جماعت اسلامی ہند اپنے اسباب و وسائل کا ایک بڑا حصہ باشندگان ملک کی فلاح، ان کی زندگی کو بہتر و آسان اور ان کی تکالیف کو کم کرنے میں لگاتی ہے۔ اس کے پاس سماجی خدمات کے منفرد منصوبے اور کافی مفید اسکیمیں ہیں جو ملک بھر میں اپنی افادیت کی وجہ سے مشہور و مقبول ہیں۔ ان اسکیموں پر عمل آوری وقت اور جگہ کے ساتھ مختص نہیں ہے، جب جہاں جیسی ضرورت پیش آتی ہے جماعت وہاں دامے درمے سخنے انسانی خدمت میں لگ جاتی ہے۔ یہ کام روز مرہ کی سطح پر بھی کیا جاتا ہے اور ناگہانی صورت حال پیدا ہونے پر بھی۔ کوئی ہنگامی صورت حال چاہے وہ قدرتی آفات کی وجہ سے پیدا ہو یا اس کے اسباب و محرکات کچھ اور ہوں، تمام صورتوں میں جماعت اسلامی فلاحی کاموں کی انجام دہی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے۔ اس کا ایک اہم شعبہ ’خدمت خلق‘ انسانی ضروریات کو پوری کرنے میں شب و روز متحرک رہتا ہے۔
دوسروں کی خدمت کرنے سے انسان میں ایک ایسا لطیف احساس پیدا ہوتا ہے جس کی روحانی لذت کو ہر وہ فرد محسوس کر سکتا ہے جو اس کار خیر میں لگا ہوا ہے، لہذا خدمت کی نوعیت چاہے انفرادی ہو یا اجتماعی یا ادارہ جاتی اس حسین عمل کو زندگی کا حصہ بنا کر بنی نوع انسان کی تسکین کا باعث و محرک بننے کی سعی ہر فرد کو کرنا چاہیے، اس میں کسی طرح کی تفریق و امتیاز نہیں ہونا چاہیے۔ جس کی خدمت کی جا رہی ہے اس کا رنگ، نسل، ذات برادری اور تہذیب و ثقافت کو نہ دیکھا جائے بلکہ بحیثیت انسان ہمیں سب کی خدمت کرنی چاہیے۔ جماعت اسلامی ہند کا یہ شعبہ ’خدمت خلق‘ اسی موقف پر قائم ہے اور نوع انسان کی خدمات کو اپنا اہم فریضہ سمجھتا ہے اور اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتا ہے۔
خدمت خلق ایک ایسا عظیم عمل ہے جس کی لذت کا دائرہ انسانوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ جانور بھی اس کو محسوس کرتے ہیں۔ آپ جنگل میں کسی جانور کے ساتھ کچھ بہتر کر رہے ہوتے ہیں تو اس کا رویہ بھی آپ کے تئیں نرم اور الفت بھرا ہو جاتا ہے۔ بسا اوقات آپ کی خدمت ان کے دل و دماغ کو اتنا متاثر کر دیتی ہے کہ وہ آپ کے ساتھ چلنے لگتا ہے۔ خدمت کی ضرورت ہر ذی روح کو ہے اور ہر ذی روح خدمت کی لذت کو محسوس کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث شریف میں اس عمل کو مستحسن قرار دیا گیا ہے۔ متعدد احادیث میں اس کی ترغیب ملتی ہے۔ ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ ‘جو شخص دوسروں کی خدمت میں لگا رہتا ہے اور اس کی تکلیف دور کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی تکلیف کو دور کر دیتا ہے‘۔ اسلام میں دوسروں کی خدمت کرنے کو بڑی اہمیت دی گئی ہے اور جماعت اسلامی ہند اس میں پیش پیش رہتی ہے اور اپنے مخصوص طریقہ ٔ کار سے انسانوں کی خدمت کرتی ہے۔ یہ انفرادی طور پر لوگوں کی تکلیفیں دور کرنے کے ساتھ ساتھ اجتماعی طور پر بھی فلاحی و رفاہی سرگرمیاں انجام دیتی ہے۔ اس کا یہ اہم شعبہ ‘خدمت خلق’ نوع انسان کے طرز زندگی کو بہتر بنانے، پسماندہ طبقات کی معاشی واقتصادی بحران کو دور کرنے اور پائیدار ذریعہ معاش فراہم کرنے میں یقین رکھتا ہے۔
ملک کے موجودہ سیاسی و سماجی حالات کے پیش نظر جماعت اسلامی کی نگرانی میں پورے ملک میں کوآپریٹیو اکریٹ سوسائٹی کا جال بچھا دیا گیا ہے۔ اس پالیسی کی تشریح یہ ہے کہ آپ ملک میں اپنے نقطہ نظر سے معاشی سرگرمیاں انجام دینا چاہتے ہیں تو ‘آر بی آئی’ کے تحت اپنی مرضی کی سرگرمیاں انجام نہیں دے سکتے۔ کوآپریٹ سوسائٹی کا مطلب یہ ہے کہ سماج کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے سماج کو باہم مل جل کر ایک دوسرے کی مدد کرنی ہو گی، اس کے لیے باہر سے مالی تعاون نہیں لیا جا سکتا کیوں کہ سوسائٹی ایکٹ 1860 کے تحت رفاہی کاموں کے لیے اب حکومت نے بیرونی معاونت کو ممنوع کر دیا ہے۔ چوں کہ اس کی ممانعت ہو گئی ہے اس لیے فینانشیل ٹرانزیکشن نہیں کیا جا سکتا، اس لیے سماجی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے سماج کو خود ہی آگے آنا ہو گا۔ اس صورت حال نے رفاہی کام کرنے والے اداروں کے لیے دشواریاں کھڑی کر دی ہیں۔ انسانی خدمت کے لیے جو ٹرانزیکشن ہوتے تھے اس پر پابندی عائد کر دی گئی ہے جب کہ ملک کے پسماندہ طبقات میں انسانی ضرورتیں منہ کھولے کھڑی ہیں۔ ضرورتوں کے پیش نظر نہایت ہی گہرائی سے غور و فکر کرنے کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ ملک میں جو لبرل سوسائٹی کوآپریٹ ایکٹ ہے وہ ہماری بلا سودی سرگرمیوں کے لیے موزوں ہو سکتا ہے، لہٰذا شعبہ ’خدمت خلق‘نے ملک کے جو مختلف لبرل کوآپریٹیو ایکٹ ہیں ان کا استعمال کرتے ہوئے تقریباً دس ریاستوں میں اس کی نیٹ ورکنگ شروع کی جس سے ڈیڑھ تا دو لاکھ افراد منسلک ہوئے۔ اس کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ چھوٹے کاروباریوں کو جن پر لوگ اعتمادنہیں کرتے، بینک انہیں قرض دینے سے کتراتا ہے، سیلف ہیلپ گروپ کے لیے سب کا احاطہ کرنا ممکن نہیں، ایسے کاروباریوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے شعبے کی جانب سے ممبرس کو حسب ضرورت مدد فراہم کی جاتی ہے۔
ملک میں مالی پسماندگی کا شکار ایسے افراد بھی ہیں جو کچھ کام کرنا تو چاہتے ہیں مگر وسائل اور سرمائے کی عدم فراہمی ان کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے اس شعبہ ’خدمت خلق‘ نے ایک بڑا قدم اٹھایا ہے۔ سماج کے کمزور معیشت اور مالی بحران کے شکار طبقے کو اپنی مہم سے جوڑ کر ان کی پسماندگی کو دور کرنے کی سمت میں موثر قدم بڑھایا ہے۔ اس منصوبے کو پائے تکمیل تک پہنچانے کے لیے یہ طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے کہ سماج کے مختلف طبقوں سے مدد لے کر انہیں سرمایہ فراہم کیا جاتا ہے، اس سرمائے سے وہ اپنی پسند اور مہارت کے میدان میں کاروبار شروع کرتے ہیں۔ یہ سرمایہ دو طرح سے فراہم کیا جاتا ہے۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ وہ جو بھی کاروبار کرنا چاہیں، اس کے لیے انہیں لازمی سامان فراہم کرادیا جاتا ہے پھر اس سامان کی قیمت آسان قسطوں میں واپس لی جاتی ہے۔ اسی طرح ایک طریقہ مضاربت کا ہے یعنی انہیں کام کرنے کے لیے فنڈ دیا جاتا ہے۔ اس پیسے کو وہ تھوڑا تھوڑا کر کے ادا کرتے ہیں۔ اس قرض کو ’قرض حسن‘ کہا گیا ہے کہ جس طرح دیا جاتا ہے، اسی طرح ادائیگی میں سہولت دیتے ہوئے واپس لے لیا جائے۔
شعبہ کے ذمہ داروں نے ملک کی مختلف ریاستوں کا دورہ کیا، وہاں کے پسماندہ طبقات سے ملاقاتیں کیں، ان کے ساتھ وقت گزارا اور ان کی نفسیات کا تجزیہ کیا تو اندازہ ہوا کہ ہندوستان میں لوگ غریب ضرور ہیں مگر وہ امداد نہیں چاہتے، ان کی خواہش ہوتی ہے کہ انہیں وسائل دستیاب کرائے جائیں۔ اس دستیابی میں بدعنوانی اور استحصال نہ ہو تو وہ اپنی محنتوں سے پسماندگی پر قابو پا سکتے ہیں۔ آپ کسی کی امداد کریں یا خیرات و صدقات سے کچھ تعاون دیں دونوں صورتوں میں ممکن ہے کہ وقتی طور پرمسئلہ حل ہو جائے لیکن ترقی نہیں ہو سکتی۔ ترقی اسی صورت میں ہو سکتی ہے جب انہیں کام کرنے کے مواقع فراہم کیے جائیں اور جب وہ کام کریں تو اس کی صحیح اجرت ملے۔ اگر ملک میں یہ دونوں کام ہو جائیں تو غربت کا خاتمہ یقینی ہو جائے گا۔ اسی حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئےجماعت اسلامی ہند یہ کام تقریباً بارہ برسوں سے بحسن و خوبی کرتی آ رہی ہے۔ جن ریاستوں میں اس پر کام ہو رہا ہے وہاں پر خطیر سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ ان ریاستوں میں تلنگانہ، مہاراشٹر، کیرالا، آندھرا پردیش، کرناٹک، گجرات اور مدھیہ پردیش شامل ہیں۔ ان ریاستوں میں بہت ہی اچھا کام ہو رہا ہے۔ یہ جماعت کا ایک گیم چینجنگ پلان ثابت ہوا ہے جو کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ اس کام کا دائرہ ملک کی دیگر ریاستوں میں بھی پھیلانے کا وسیع منصوبہ پیش نظر ہے۔
چونکہ کوآپریٹیو سوسائٹی میں باہم مل جل کر اپنی ضروریات پوری کرنے کی تشریح ہے، اس کے لیے شعبہ نے یہ انتظام کیا ہے کہ ہر شام ایک نمائندہ ان غریب لوگوں کے پاس جاتا ہے، لوگ اپنی حیثیت اور سہولت کے مطابق جتنا پیسہ چاہیں اس کے پاس جمع کرتے ہیں۔ جب ضرورت پیش آئے تو حسب ضرورت اس پیسے کو واپس لے سکتے ہیں۔ اگر کسی کو قرض کی ضرورت ہوتی ہے تو قرض بھی فراہم کیا جاتا ہے۔ یہ پیسہ غریبوں کا ہی ہوتا ہے جو انہی پر خرچ کیا جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں جناب عبدالجبار صدیقی سکریٹری شعبہ خدمت خلق جماعت اسلامی ہند نے کہا کہ ’’ہم اپنے پاس سے کچھ نہیں لگاتے بس ایک مضبوط نظام دیتے ہیں اور مانیٹرنگ کرتے ہیں جس سے ان کا پیسہ محفوظ اور بار آور بن جاتا ہے۔ ہمارے اس عمل نے کیپٹلسٹ کی اس سوچ کو غلط ثابت کر دیا ہے کہ وہ پیسے لے کر واپس نہیں کرتے ہیں۔ ہم کوآپریٹیو سسٹم کو سلیقے سے استعمال کر کے انہی کے پیسے سے ان کی مدد کرتے ہیں۔ یہ ایک بہترین اپروچ ہے جو اس ملک کے لیے بہت ہی موزوں ہے۔ اس سے ملک کے سب لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ خاص طور پر محنت کش طبقے کے لیے اس سے استفادہ کرنے کے روشن مواقع ہیں۔
جماعت اسلامی ہند نے صحت کے میدان میں بھی بڑی پہل کی ہے۔ اس نے ملک کے مختلف مقامات پر ’پرائمری ہیلتھ سینٹر‘ قائم کیا ہے۔ یہ رجسٹرڈ باڈیز کے تحت کیا گیا ہے۔ ہمارے ملک میں موسمیاتی اثرات کے جو انسانی صحت پر منفی اثرات پڑتے ہیں اس کا معالجہ غریبوں کے لیے ایک اہم مسئلہ ہے۔ گرمی کے دنوں میں لو، سردی کے موسم میں ٹھٹھرنے اور برسات کے موسم میں وبائی امراض جیسے ڈینگو وغیرہ پیدا ہوتے ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں مناسب انتظامات نہ ہونے کے سبب غریب آدمی کی بڑی پونجی علاج معالجے میں خرچ ہو جاتی ہے۔ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے جماعت اسلامی نے ’پبلک ہیلتھ کیر سنٹر‘ کے منصوبے پر کام کرنا شروع کیا ہے۔ اس کے لیے چھوٹے چھوٹے کلینکس قائم کیے گئے ہیں جہاں تمام پیتھوں یعنی ایلو پیتھک، ہومیو پیتھک، یونانی وغیرہ علاج دستیاب ہوتے ہیں جہاں مریض اپنی پسند اور مزاج کے مطابق علاج کرواسکتا ہے۔ ان ڈسپنسریوں میں سروسز، کنسلٹنسی، ٹیک کیئر، فارمیسی اور پیتھالوجیکل لیب کی سہولتیں فراہم ہوتی ہیں۔ یہ ڈسپنسریاں میونسپلٹی سطح کے مختلف مقامات پر قائم ہیں۔ ڈسپنسریوں کے قیام میں اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے یہ کہ ایسی جگہوں پر ہوں جہاں ڈاکٹروں کی دستیابی، مریضوں کی آمد اور انتظامی امور پر کنٹرول رکھنا آسان ہو۔
جماعت اسلامی نے مذکورہ شعبے کے تحت ایک اور میدان میں بہت اہم کام کیا ہے اور وہ ہے ڈاکیومنٹیشن کا کام ۔ ملک میں اس وقت ڈاکیومنٹیشن ایک اہم مسئلہ بنا ہوا ہے۔ شناختی کارڈ، ووٹرکارڈ، پین کارڈ، انکم سرٹیفکیٹ یا دیگر جائیدادوں کی اسناد اب ملک کی موجودہ صورت حال میں بہت ضروری ہو گئی ہیں۔ اگر کوئی اپاہج، معذور ہے تو اس کو ڈس ایبل سرٹیفکیٹ کی فراہمی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک غریب کے لیے یہ سب کرنا مشکل ہوتا ہے۔ بغیر ڈاکیومنٹ کے کوئی اپنی شناخت اور جائیداد کا تحفظ نہیں کر سکتا۔ یہاں تک کہ ڈیجیٹل انڈیا ہونے کے سبب کوئی غریب آدمی حکومت کی فلاحی اسکیموں سے بغیر ڈاکیومنٹ کے استفادہ نہیں کر سکتا۔ جماعت نے ایسے سنٹرس قائم کروائے ہیں جہاں کاغذات کی درستگی کی خدمات مفت انجام دی جا رہی ہیں۔
جماعت کی ’بیداری مہم ‘ بھی ایک کامیاب پہل ہے۔ اس مہم کے تحت عوام میں بیداری لانے کی سعی کی جاتی ہے تاکہ سرکار کے متعلقہ محکمے اپنی ذمہ داریوں کو پس پشت نہ ڈال دیں۔ اگر عوام میں بیداری ہو تو متعلقہ محکمے سے بروقت مطالبہ کر کے کام جلد سے جلد کروایا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے شعبے کی نگرانی میں سماجی کارکنوں کو منظم کیا جاتا ہے اور ان کے توسط سے بیداری مہم چلائی جاتی ہے۔ عوام کو حکومت سے کام کرانے کا طریقہ سکھایا جاتا ہے، انہیں مسائل حل کرنے اور چھوٹے چھوٹے مسائل کو خود ہی حل کرنے کی راہ دکھائی جاتی ہے۔ یہ کام جماعت خود بھی کرتی ہے اور اس سے منسلک ’ویژن‘ کے ذریعہ بھی انجام دیا جاتا ہے۔ دیگر سماجی پلیٹ فارموں کو بھی اس کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
تعلیم کے میدان میں بھی شعبہ ’خدمت خلق‘ نے بڑی اہم پیش رفت کی ہے۔ یہ انفرادی اور ادارہ جاتی دونوں سطح پر ہے۔ خاص طور پر جو طلباء اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں یا کمپٹیشن نکال لیا ہے مگر معاشی بدحالی کی وجہ سے وہ کسی بڑے تعلیمی ادارے میں داخلہ لینے سے قاصر ہیں۔ ایسے ہونہار طلبا کی پوری کفالت جماعت کی طرف سے کی جاتی ہے۔ یہ تو معلوم ہے کہ کسی بھی طبقے کی ترقی تعلیم کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ پسماندہ طبقے کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے بچوں کو اعلیٰ تعلیم یافتہ بنایا جائے، جماعت اس ذمہ داری کو بخوبی نبھا رہی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ تعاون دینے میں جماعت مذہب و ملت، ذات برادری اور رنگ و نسل کی قطعی تفریق نہیں کرتی ہے۔
***

 

***

 جن ریاستوں میں امداد باہمی پر کام ہو رہا ہے وہاں پر خطیر سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ ان ریاستوں میں تلنگانہ، مہاراشٹر، کیرالا، آندھرا پردیش، کرناٹک، گجرات اور مدھیہ پردیش شامل ہیں جہاں بہت ہی اچھا کام ہو رہا ہے۔ یہ ایک گیم چینجنگ پلان ثابت ہوا ہے جو کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ اس کام کا دائرہ ملک کی دیگر ریاستوں میں بھی پھیلانے کا وسیع منصوبہ پیش نظر ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  31 جولائی تا 07 اگست 2022