مسلم مسئلے کا حل:ساورکر کا نسخہ

مسلم دشمنی کے چشمہ سے ہندوستانی تاریخ کے چھ ادوار کا جائزہ

جاوید علی

جاوید علی
ہندوستان میں مسلمانوں کا کیا کیا جائے، اس پر وی ڈی ساورکر نے تفصیل سے اظہار خیال کیا ہے۔ ساورکر کی کتاب (Six Glorious Epochs of Indian History) میں اس موضوع پر اچھا خاصا مواد موجود ہے۔ حالاں کہ ان کی مذکورہ کتاب کا عنوان کچھ اور ہے لیکن کتاب کا 3/4 یا اس سے کم حصہ مسلمانوں سے متعلق ہے ۔ موجودہ حالات میں اس کا مطالعہ ضروری ہے ۔ یہاں مختلف عنوانات کے تحت انہیں سمیٹا گیا ہے۔یہاں ہم ساورکر کی تاریخ دانی پر کوئی گفتگو نہیں کریں گے کیوں کہ اس تحریر کا اصل مقصد مسلمانوں کے تئیں ساورکر کے نظریات کو سمجھنا ہے۔ (ساورکر نے اپنے ہر پیراگراف کا نمبر دیا ہے ، حوالے میں وہی لکھا گیا ہے)۔
تمہید :ساورکر ایک ہزار سالہ ہندو مسلم جھگڑے یا رزمیہ (Epicor) کی نوعیت پر گفتگو کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ مسلمانوں کی آمد سے قبل غیر ملکی حملہ آوروں کا واحد مقصد صرف سیاسی تسلط (Political Domination) تھا۔ ان کے دل میں مذہبی یا ثقافتی نفرت نہیں تھی جبکہ نئے دشمن، مسلمانوں کا مقصد ہندوؤں کو سیاسی طور پر کچلنا تو تھا ہی اس کے ساتھ ان کا مقصد ہندو مذہب کو تباہ و برباد کرنا تھا(پیراگراف ۳۱۵) عیسائیوں کا بھی یہی مقصد تھا۔ چنانچہ انہوں نے (پرتگیز، ڈچ، فرنچ اور انگریزوں) ساورکر کے مطابق لاکھوں ہندوؤں کو تلوار کی نوک پر عیسائی بنالیا۔
دعویٰ: ساورکر واضح کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے سیاسی عزائم سے زیادہ خطرناک ان کے مذہبی عزائم ہیں۔ کیونکہ ہندو مذہب کا خاتمہ کسی بھی حملہ آور کا، اس سے قبل مقصد نہیں تھا۔ ان کے بقول ایک ہزار سالہ اس رزمیہ (epic war کی اصطلاح ساورکر کی ہے) میں مسلمانوں کے دونوں مقاصد کے ہتھیار الگ الگ تھے (پیرا گراف ۳۱۶) یہاں ہم نے سیاسی یا فوجی مہمات کو بالعموم نظر انداز کرکے ساورکر کے بیان کردہ مذہبی جملوں کو لیا ہے۔ وہ خود کہتے ہیں کہ ہندوؤں نے صدیوں تک مسلمانوں کا مقابلہ سیاسی سطح پر کیا ہے۔ اب ان کا مقابلہ مذہبی سطح پر بھی کیا جانا چاہیے ۔اس ضمن میں مسلمانوں کا دوبارہ تبدیلی مذہب (Reconversion)اور خواتین پر جنسی حملے و مساجد کا خاتمہ پالیسی کا ناقابل تقسیم حصہ ہیں جس کی وضاحت آگے کے صفحات میں مل جائے گی۔ ساورکر کے مطابق مسلمانوں کو دوبارہ ہندو بناکر ان کی حیثیت کے مطابق مناسب ورنوں اور ذاتوں میں ضم کرلینا چاہیے تھا جیسا کہ پہلے ساکا اور ہون قبائل کے ساتھ کیا جاچکا تھا (پیرا گراف ۶۳۵) ۔
ساورکر کے نظریے کی راہ کی رکاوٹیں
ساورکر کی تجاویز اتنی گھناونی، وحشیانہ، نسل پرستانہ اور نفرت انگیز تھیں کہ اس کی مخالفت ہونا ضروری تھا۔ ایک ماہر وکیل کی طرح انہوں نے اس کا اندازہ لگاکر اس کی پیش بندی کی۔ انہیں ہندوستانی سماج کے دو طبقات سے سخت مخالفت کی توقع تھی۔ چنانچہ انہوں نے خود ہی ان پر حملے شروع کر دیے۔
(۱) پہلی رکاوٹ:پہلی رکاوٹ انہیں راسخ العقیدہ نیک اور شریف النفس ہندوؤں سے تھی۔ مہاراشٹرا ان کے کام کا اصل میدان تھا۔ وہاں انہوں نے مراٹھا لوگوں کو اس کا سخت مخالف پایا۔ مراٹھا تاریخ میں چھتر پتی شیواجی مہاراج اور پیشواؤں کا زبردست مقام ہے اور انہیں بہت عزت و احترام سے دیکھا جاتا ہے۔ چھتر پتی لوگوں کے لیے رول ماڈل ہیں۔ شیواجی کو انہوں نے اپنی درخشاں تاریخ کا حصہ نہیں بتایا ہے (پیراگراف۹ ۴۴)۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے مسلم گورنر کی بہو اور ایک پرتگیز گورنر کی بیوی کے قبضہ میں آنے کے باوجود بغیر کسی گزند کے باعزت طور پر واپس کر دیا۔ خواتین کا احترام مراٹھوں کا امتیاز تھا۔ ساورکر اس پر تنقید کرتے ہوئے جو عنوان قائم کرتے ہیں وہ قابل غور ہے۔ ’’دشمن کی خواتین کے لیے ہندو بہادری و اخلاق (clivalry)‘‘ اس کے تحت وہ درج بالا عمل کو زبردست تنقید کا نشانہ بناتے ہیں (پیراگراف ۴۴۹ تا ۴۵۸)
مراٹھا کردار پر ان کی تنقیص کی مثالیں آئندہ سطور میں مل جائیں گی۔
(۲) دوسری رکاوٹ: ساورکر کو دوسری بڑی رکاوٹ بودھوں سے ہے۔ بدھسٹوں نے بھارتی تاریخ کے لمبے دور میں ہمیشہ برہمنوں کی مبینہ غلط پالیسیوں /اعمال کو نہ صرف تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ ایک متبادل نظام تک قائم کر ڈالا۔ اس لیے ساورکر کو توقع ہوگی وہ اس کی وحشیانہ تجاویز کی زبردست مخالفت کرسکتے ہیں۔ چنانچہ دو سطحوں پر ان کو بطور خاص تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ایک ہے قدیم سندھ اور دوسرا ہے مشرقی بنگال کی جدید تاریخ میں ان کا کردار۔ ان پر دو بڑے الزامات لگائے گئے۔ ایک یہ کہ انہوں نے بحیثیت قوم ہمیشہ بھارت کے عوام سے غداری کی ۔ ان کے لیے غدار (Traitors) اورسنگین غداری ) (High treasonکے الزامات متعدد جگہ لگائے گئے (دیکھیں پیرا گراف ۳۲۷۔۳۲۶۔۳۳۶۔۱۵۹۔۱۵۲۔۲۰۹۔۱۸۲۔۲۴۶۔۲۴۲) انہیں قوم دشمن اور غریب وطن قرار دیا گیا۔ یہاں تک کہ ان پر چھوا چھوت کو بڑھاوا دینے کا بہتان بھی لگایا گیا( پیرا گراف ۳۴۴) چونکہ یہ ہماری اس تحریر کا موضوع نہیں ہے اس لیے اس پر یہاں کچھ کلام نہ کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ دوسرا الزام ان پر یہ تھا کہ بھارت کے شمال۔مغرب بشمول سندھ اور مشرقی بنگال میں اکثریت میں ہوتے ہوئے بھی اسلام کو اپنالیا۔ کیا اسلام کو قبول کرنا کوئی جرم ہے؟ ساورکر کی نظر میں جرم ہے وہ مذہب کی تبدیلی کو قومیت کی تبدیلی قرار دیتے ہیں۔
سندھ میں محمد بن قاسم کا مقابلہ (۷۱۱ عیسوی) راجہ داہر سے ہوا تھا۔ اس وقت ساورکر کے مطابق سندھ کی اکثریت ہندو تھی اور راجہ خود بھی ہندو مذہب کا پیرو تھا۔ جب کہ بدھسٹ چھوٹی اقلیت میں تھے۔ ساورکر کو شکایت ہے کہ بدھ ازم کے ماننے والوں نے نہ صرف راجہ داہر کی شکست کی تعریف کی بلکہ ان کی مدد بھی کی۔ وہ لکھتے ہیں کچھ ویدک ہندوؤں کا بھی یہی رویہ تھا لیکن اس کو انفرادی معاملہ بتاکر بات ختم کردیتے ہیں (پیرا گراف ۳۲۷) ۔ دوسری طرف مسلمانوں کی آمد کے وقت مشرقی بنگال کی اکثریت کے بدھسٹ ہونے کا کوئی ثبوت وہ نہیں دیتے۔
اگر ان کی یہ بات مان لی بھی جائے تو کیرالا میں اتنی بڑی مسلم آبادی کی کیا وجہ ہے۔ وہاں تو مسلمانوں کا حملہ نہیں ہوا۔ اس طرح آسام اور کشمیر میں کثیر آبادی نے کیسے اسلام قبول کیا جبکہ وہ ہندو تھے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انڈونیشیا کی عظیم ویدک آبادی نے بغیر کسی باہری حملے کو کیسے اسلام کو سینے سے لگالیا؟
دراصل بھارت میں بدھ دھرم کے معدوم ہونے کا الزام وہ دوسروں پر ڈالنا چاہتے ہیں۔ پیرا گراف ۳۵۰ میں وہ لکھتے ہیں غیر ملکی اور ملکی تاریخ نویسوں نے اس اہم سوال کا کوئی جواب نہیں دیا بلکہ وہ اس اہم سوال پر خاموش ہیں۔ حالاں کہ وہ اس پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں شنکر اچاریہ نے انہیں مذہبی مباحثوں میں شکست دے کر ہندو دھرم کو پھر سے قائم کیا۔
ماڈل: مسلم مسئلے کو حل کرنے کے لیے ساورکر نے ’درخشاں ابواب‘ کے ذریعے بالعموم ہندوستان کی قدیم تاریخ سے اپنا ماڈل پیش کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے تاہم وہ اس سے مطمئن نہیں ہوئے کہ قاری کا ذہن اس نتیجے تک پہنچ جائے گا جہاں وہ اسے لے جانا چاہتے ہیں۔ چنانچہ وہ کھل کر اسپین(ہسپانیہ) کا تجربہ پیش کرتے ہیں۔
اسپینی ماڈل: امیہ خلافت (661-750AD) کے دوران عربوں کا ہندوستان پر حملہ ہوا تھا۔ اسی وقت اسپین ( اندلس) میں طاقتور مسلم ریاست کا قیام عمل میں آیا اور ساورکر کے بقول وہاں بھی اسپینی عیسائی ہزاروں کی تعداد میں جبراً مسلمان بنالیے گئے۔ لیکن عیسائیوں نے ہمت نہیں ہاری اور فرانس اور روم کے پوپ کی مدد کے ذریعے وہ مسلمانوں کا مقابلہ کرتے رہے اور بالآخر ۱۴۹۲ عیسیوی میں عیسائیوں کا گرنیڈا (Garnada) پر قبضہ ہوگیا لیکن ہندوستان کی طرح وہاں بھی سیاسی طور پر مغلوب ہونے کے باوجود ان کا مذہبی دبدبہ مقامی آبادی پر برقرار رہا۔ چنانچہ ہسپانوی عیسائیوں نے ان کی سیاسی طاقت کے خاتمے کے بعد مسلم مذہبی اثرات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا عمل شروع کر کے اپنا انتقام لیا۔ (PP 626)
انہوں نے مسلمانوں کو دوبارہ عیسائی بنانے کا فیصلہ لیا (ساورکر ان مسلمانوں کے لیے Muslimized Christians کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں) جس کی انجام دہی بہت آسانی سے ہوگی۔ مسلم سیاسی اور فوجی طاقت کے خاتمے کے بعد ایسا کرنا بہت آسان تھا۔ ہزاروں مسلمانوں کو فوراً اور سرعت کے ساتھ بپتسیہ (Re-baptised) دیا گیا۔اکا دکا مخالفت کو سختی سے کچلاگیا۔ اس کام میں اسپینی حکومت، چرچ اور اسپینی عوام سب شریک تھے۔ ان کا واضح فیصلہ تھا کہ ان کے ملک میں کوئی شخص جو اپنے آپ کو مسلمان کہے اور کوئی ڈھانچہ جس کو مسجد کہا جاتا وہ باقی نہیں رکھا جائے گا۔
نئی اسپینی حکومت نے اعلان کیا کہ فلاں تاریخ تک مسلمان مرد اور عورت اپنی مرضی سے عیسائی ہوجائیں یا پھر اپنے خاندان اور دوستوں کے ساتھ ملک چھوڑ دیں۔ اس تاریخ کے بعد جو شخص بھی ان دونوں سے متبادل کو اختیار نہیں کرے گا قتل کردیا جائے گا۔ اس کی تائید میں ساورکر کہتے ہیں کہ مسلمانوں نے بھی اپنے دور میں تمام راستوں اور گلیوں کو عیسائیوں کے خون سے بھر دیا تھا۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ اس قتل و خون کی تاریخ کے بعد اسپین کے عیسائیوں نے بچے ہوئے مسلمانوں کا جگہ جگہ قتل عام کردیا اور اس طرح اسپینی چرچ پوری طرح سے پاک ہوگیا اور مسلمانوں سے ہمیشہ کے لیے ان کا پیچھا چھوٹ گیا اور اسپین عیسائی برقرار رہا وہ دوسرا مراقش نہیں بنا۔ ساورکر کہتے ہیں یہی کارروائی پولینڈ، سربیا، بلغاریہ، یونان اور دیگر عیسائی ممالک میں دہرائی گئی اور اس طرح یہ مسلم اکثریتی ممالک مسلمانوں سے محفوظ ہوگئے۔
(پیراگراف ۶۲۷سے ۶۳۶)
اس ضمن میں اپنی کتاب کے سات ابواب (چیاپٹر پانچ تا گیارہ) کے خلاصے کے طور پر لکھتے ہیں کہ (PP631-638)
(۱) ماضی میں ہندوؤں نے باہری حملہ آوروں (Ionians) ساکا، ہون اور دیگر غیر ہندو لوگوں پر نہ صرف فتح حاصل کی بلکہ ان لاکھوں لوگوں کو ویدک دھرم میں لے لیا گیا۔ انہیں ویدک دیوی، دیوتاؤں کی تعلیم دی گئی۔ ان کو اس طرح سنسکرت تہذیب اور تمدن میں ضم کیا گیا کہ ان کا غیر ہندو ہونے کا شائبہ بھی باقی نہیں رہا نہ نسل میں اور نہ نام میں۔
(۲) مسلمانوں کو سیکڑوں سال کی جدوجہد کے بعد سیاسی شکست ضرور دی گئی لیکن قدیم ماضی کی طرح زبردست عددی ہار کی تلافی نہیں کی گئی۔ ماضی کی طرح ان کا جبراً تبدیلی مذہب نہیں کیا گیا اور مسلمانوں کے علاقے نہیں چھینے گئے اور نہ انہیں Hindnise کیاگیا۔
(۳) اٹھارہویں صدی میں مسلم طاقت کے خاتمہ کے بعد یا دوران نہ تو عام ہندوؤں نے یا حکم رانوں نے مسلمانوں کے مذہبی دبدبے کو ختم کرنے کی کوئی کوشش کی حالاں کہ اس کے پورے مواقع دستیاب تھے کیوں کہ وہ مسلمانوں سے زیادہ مسلح تھے۔ انہوں نے کسی ایک مسلم کو بھی جبری طور پر تو دور ترغیب و تحریک) (Persuasion سے بھی ہندو بنانے کی کوشش نہیں کی۔ ایسا ہندوؤں کے نیکی کے غلط تصورات کی وجہ سے ہوا۔ شائد حالات ان کے موافق نہیں تھے۔
’ہندوؤں میں نیکی کے گمراہ کن(perverted) تصورات‘
یہاں ہندوؤں کی ماضی کی غلطیاں گنائی گئی ہیں تاکہ آئندہ وہ ایسا نہ کریں۔
درجہ بالا عنوان کے تحت ساورکر کہتے ہیں کہ ہندوؤں کو مسلمانوں کے مذہبی، سیاسی حملوں سے زیادہ نقصان ذات پات کے نظام کی اپنی توجیہات، ذات سے باہر کے افراد اور غیروں کے ساتھ کھانے پینے کی پابندیوں کے علاوہ نیکی کے گمراہ کن تصور ات کی وجہ سے ہوا ہے۔ اس کو انہوں نے ہندوؤں کے ذہنی عدم توازن سے تعبیر کیا ہے۔ چند کی تفصیل و وضاحت ساورکر کے مطابق اس طرح ہے۔
(۱) نیکی اور بدی اضافی (Relative) اصطلاح ہے اور ان کا اطلاق ہر جگہ اور ہر موقع پر یکساں نہیں ہوتا۔ ہندو تہذیب ساورکر کے مطابق انسان کو خدا کی سطح پر لے جانا چاہتی ہے لیکن وہ ہندو۔مسلم جنگوں میں بھگوت گیتا کی اس تعلیم کو بھول جاتے ہیں کہ نیکی ایک اضافی چیز ہے۔ چنانچہ محمد غوری اور روہیلا نجیب خان جیسے دشمن کو آزاد کردیا گیا، نتیجہ کیا ہوا، موقع ملتے ہی محمد غوری نے پرتھوی راج چوہان کو قتل کردیا جب کہ روہیلا نے پانی پت کی جنگ میں مراٹھوں کو زبردست نقصان پہنچایا۔
(۲) مذہبی رواداری ہندوؤں کی گھٹی میں پڑی تھی جب کہ ساورکر کے مطابق مسلمانوں اور عیسائی کا کام ہندو مذہب کو سختی سے کچلنا اور ان کافروں کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا تھا۔
محمود غزنوی کے ذریعہ پہلی بار سومناتھ مندر کو تباہ کرنے کے بعد ہندوؤں نے اس مندر کو متعدد بار بنایا اور مسلم ماتحتین نے اسے کئی بار توڑا۔ جیت کے بعد ہندو بادشاہوں کو عرب تاجروں کا داخلہ سندھ کی بندرگاہوں میں ممنوع کر دینا چاہیے تھا۔ ہندو راجاؤں نے نہ صر ف انہیں آنے دیا بلکہ سومناتھ مندر کے سامنے ایک مسجد کی تعمیر کی بھی اجازت دے دی جب کہ انہیں چاہیے تھا کہ وہ بغیر کسی استثناء کے تمام مساجد کو ڈھا دیتے۔
(۳) ہندوؤں میں انصاف کے غلط تصور کی مثال کے لیے گجرات کے راجہ جئے سنگھ ( 1096-1143) کا حوالہ دیتے ہوئے ساورکر کہتے ہیں کہ وہاں ایک مسجد پر حملہ ہوا اور اس کو جلادیا گیا اس کا مینارہ توڑ دیا گیا اور ۸۰ مسلمان قتل کر دیے گئے۔ چنانچہ مسجد کے خطیب کی شکایت پر راجہ بھیس بدل کر اس علاقے میں پہنچا اور پورے معاملے کی خود تحقیق کی۔ دوسرے دن اس نے کھلا دربار کیا اور اس میں کہا کہ بحیثیت راجہ اس کا فرض ہے کہ وہ اپنی تمام رعایا کے ساتھ انصاف کرے پھر اس نے وہاں کے تاجرین اور دیگر طبقات کے دو دو اہم لوگوں کو سزا دی اور دوسری طرف مسلمانوں کو مسجد اور مینار کی تعمیر کے لیے رقم دی۔ حالانکہ ساورکر کے بقول مسلمانوں کی مجرمانہ کارروائیاں ہندوؤں کے خلاف جاری رہیں۔ پھر بھی مسلمانوں کی بڑی آبادیوں کو محفوظ رہنے دیا گیا!
(۴)ایک طرف مسلم مذہبی حملوں کی وجہ سے ہندو اکثریت کی تعداد متاثر ہو رہی تھی تو دوسری طرف لاکھوں غیر مسلم خواتین کو اغوا کرکے جبراً مسلم بنایا جا رہا تھا۔ اس طرح نہ صرف مسلمان اپنی ہوس کو پورا کرتے بلکہ اپنی آبادی میں اضافہ بھی کرتے۔ ہر صوبے میں جہاں مسلمانوں کی حکومت قائم ہوتی وہاں وہ نہ صرف جزیہ لگاتے بلکہ ہر شہر اور گاؤں میں شاہی اور دیگر اعلیٰ خاندانوں کی شادی شدہ ہندو خواتین تک کو کھلے عام حوالے کرنے کا مطالبہ کرتے بلکہ جبراً ان کو حاصل بھی کرتے اور ان کو کنیز بنا کر رکھتے۔ وہ مزید لکھتے ہیں غالباً اپنی دلیل کے طور پر کہ سلطان غیاث الدین تغلق، سلطان سکندر، سلطان فیروز شاہ تغلق اور متعدد ہندوؤں سےنفرت کرنے والوں کی مائیں، ہندو تھیں۔ (448)
دشمن کی عورتوں کے سلسلہ میں اعلیٰ ہندو اخلاق (chivalry) کے عنوان کے تحت ساورکر کافی تفصیل سے لکھتے ہیں اور چھتر پتی شیواجی (۱۶۳۰تا ۱۶۸۰عیسوی) اور چیما جی اپا کو اپنی سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہیں (پیراگراف ۴۴۸تا۴۴۹) ان دو عظیم مراٹھا لیڈروں کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے کلیان کے مسلم گورنر کی بہو اور باس کے پرتگیز گورنر کی بیوی کو با عزت طریقے سے واپس بھیج دیا تھا۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ہندوؤں کا مسلمانوں پر اپنی جیت کے بعد ان کی خواتین کو نشانہ بنانا خود کشی کے مترادف تھا۔ چنانچہ مسلم خواتین کو کھلی چھوٹ ملی رہی اور بقول وہ ہندو خواتین کو سیکڑوں سال تک جبراً مسلمان بنانے کے کام میں بلا روک ٹوک مشغول رہے (پیراگراف ۴۴۹ تا ۴۵۹)
(۵) مسلم خواتین کو ایسی تعلیم دی گئی تھی کہ وہ اپنا فرض سمجھتی تھیں کہ ہندو عورتوں کو بے عزت کیا جائے اور ان کو جبراً مسلمان بنایا جائے۔ بیگم سے لے کر بھکارن تک مردوں کے ذریعے مظالم پر نہ صرف زبان نہیں کھولتی بلکہ ان کو ایسا کرنے کے لے اکساتی۔ امن کے دور میں بھی نوجوان ہندو لڑکوں کو اپنے گھروں میں قید کرلیتی بلکہ مساجد کے مسلم مراکز میں انہیں بھیج دیتیں۔ پورے بھارت میں مسلم خواتین اس کام کو کرنا اپنا مقدس فرض سمجھتی تھیں (پیراگرف ۴۴۸)
(۷) انہیں افسوس ہے کہ مسلم دور سے قبل ایسا نہیں تھا کشان، ساکا اور ہونوں کی جنگ میں ہار کے بعد ان کی تمام خواتین کو قبضہ میں لے لیا گیا تھا اور دشمن کا نام و نشان مٹادیا گیا تھا۔
(۹) اسلامی دور سے ہی ہندوؤں نے اپنی ذات اور مذہب کو خالص رکھنے کے لیے کھانے پینے، شادی بیاہ اور دیگر پابندیوں پر مذہبی فریضہ کے طور پر عمل کیا۔ چنانچہ کشمیر سے کنیا کماری تک تمام ہندو، برہمن سے لے کر خاکروب تک اور بادشاہ و شنکر اچاریہ سبھی نے دیگر مذاہب کے لوگوں کی شدھی پر بالاتفاق پابندی لگا دی۔ اس لیے صدیوں تک ہندو خواتین کو مسلمانوں سے بچنے کے لیے جوہر کی رسم پر عمل کرنا پڑا۔
(۱۰) مسلمان طاقت و قوت حاصل کرنے کے بعد ہزاروں ہندوؤں کو تہہ تیغ کر دیتے تھے جبکہ ہندو، مسلم مذہبی اقتدار کو آسانی سے ختم کرسکتے تھے اگر وہ وہی کچھ کرتے جو مسلمان ہندوؤں کے خلاف کرتے تھے۔ اس طرح پورا علاقہ مسلمانوں سے پاک ہوجاتا اور انہیں دوبارہ ہندو بنانے کی پابندی کے ساتھ اس پر عمل کیا جاسکتا تھا لیکن ہندو رواداری کے غلط تصور کی وجہ سے اس پر عمل نہیں کیا جا سکا۔ مسلمانوں کو ہندوؤں کی طرح کے قانونی حقوق دیے گئے بلکہ انہیں زیادہ سہولتیں دی گئیں۔ (پیرا گراف ۴۶۷)
ہندوؤں کے بھارت سے نابود نہ ہونے کی وجہ:
ساورکر یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اپنی مختلف کمزوریوں کے باوجود ہندو سماج مکمل طور پر نیست و نابود ہونے سے کیسے بچ گیا۔ ہندوستان کی سرحدوں سے دور مسلمان حملہ آور جہاں بھی گئے مقامی مذہب اور تہذیب کا خاتمہ ہو گیا۔ یہاں یہ کیسے بچ گیا۔ پہلی وجہ ساورکر بتاتے ہیں کہ ہندوؤں نے مسلمانوں کے خلاف کئی محاذوں پر سیاسی فتح حاصل کی۔ ابتدائی طور پر رانا پرتاپ اور دیگر راجپوت شہزادوں کی کامیابی پھر وجے نگر (۱۳۱۶تا۱۶۴۶) کی ہندو سیاست نے مسلم طاقت کو کچل دیا اور بالآخر مراٹھا افواج نے اٹھارویں صدی میں اپنے زبردست حملوں سے ان کے قدم اکھاڑ دیے۔ دوسری وجہ ساورکر بتاتے ہیں کہ مذہبی محاذ پر جوابی جارحیت) (Counter Agressionکو اپنایا گیا جس کی وجہ سے ہندو مکمل طور پر نابود ہونے سے بچ گئے۔
اس کے تحت مسلمانوں کو دوبارہ ہندو بنانے کی انہوں نے متعدد مثالیں دی ہیں۔ حالاں کہ اس قبل وہ یہ کہہ چکے تھے کہ صدیوں تک ہندوؤں نے کوئی بدلے کی کارروائی نہیں کی بہرحال چند مثالیں مندرجہ ذیل ہیں۔
(۱) سندھ پر مسلمانوں کی فتح کے بعد میواڑ (Mewad) کے بپا راول (Bappa rawal) نے سندھ میں ان پر حملے کر کے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر ان علاقوں کو اپنے قبضے میں لے لیا اور اس کے ساتھ اس نے ایک مسلم شہزادی کو جو حملے میں اس کے قبضے میں آئی تھی اپنے حرم میں داخل کرلیا۔ اس سے ہونے والے بچے کو ہندو سوسائٹی میں اونچا مقام دیا گیا۔ اس سماج نے مراٹھا سماج کی طرح بیجا راو پیشوا کی مسلم بیوی کی اولاد کو قبول کرنے سے انکار نہیں کیا جس سے وہ دوبارہ مسلم سماج میں چلاگیا۔
(۲) جئے سلمیر کے راول چیچک نے سلطان حبیب خان کی بیٹی سے شادی کی اور اس کو سومل دیوی کے طور پر یادؤں میں شامل کیا۔
(۳) کے کنور جگمل نے گجرات کے مسلم سلطان کو ہرا کر اس کی انتہائی خوبصورت بیٹی سے شادی کرلی اور اس سے پیدا ہونے والے بچوں کو راجپوت بنالیا۔ ماواڈ کی کئی مثالیں دی گئی ہیں کہ وہاں سے سیکڑوں مسلم خواتین کو ہندو بنایا گیا اور ان سے شادیاں کی گئیں۔
(۴) تاریخ سوراتھ کے حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ محمود غزنوی کے زمانے میں بھی انہلوال کے رام نے موقعہ ملتے ہی متعدد ترک، مغل اور افغانی خواتین کو پکڑلیا اور ان کو ہندو بنالیا۔ ان کی شدھی کی رسوم بھی ادا کی گئی۔
(۵) دو افراد ہری ہر (Harihar) اور Bakka کا تذکرہ آیا ہے جنہوں نے مسلمانوں کو شکست دے کر ۱۳۳۶میں وجے نگر کی ہندو ریاست قائم کی تھی۔ شری Vidyaranya swami نے ہری ہر کو دوبارہ ہندو بناکر ہندو راجہ کی حیثیت سے اس کی تاج پوشی کی۔
(۶) شری رامنجیا چاریہ اور ان کے شاگرد راما نند اور بنگال کے شری چیتنیہ نے سیکڑوں مسلمانوں کی شدھی کی اور ان کو ویشنو فرقہ میں داخل کیا۔
(۷) ایک جوابی حملہ کو قدرے تفصیل سے یہاں بیان کیا گیا ہے۔ راجستھان کے جودھ پور کے حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ اورنگ زیب کے حملوں کے بعد مہارانا جسونت سنگھ اور درگا داس راتھوڑ کی قیادت میں نہ صرف اورنگ زیب کی تعمیر شدہ مساجد کو گرا دیا گیا بلکہ اس کی جگہ مندر کی تعمیر کی گئی۔ انہوں نے نہ صرف مسلم بنائے گئے ہندوؤں کو بلکہ بڑے پیمانہ پر مسلمانوں کو بھی ہندو بنالیا۔ راتھوڑ کی فوجیں مسجدوں میں سور کا گوشت پھینکتیں۔ سینکڑوں مسلم خواتین کو ہندو بنا کر یا تو ان کی شادیاں ہندوؤں سے کی گئی یا انہیں رکھیل بنالیا گیا۔ اس کی وجہ سے پورے راجپوتانہ مسلمانوں میں دہشت چھا گئی۔ ساورکر کے بقول راجستھان کی ہندو ریاست میں گاؤں کے گاؤں اور شہروں میں یہ عمل ۳ تا ۴ سال تک جاری رہا۔ درگا داس راتھوڑ کے بعد ہندو سماج میں یہ معاملہ ختم ہوگیا۔ اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ اس وقت ہندو ذہن جارحیت کے بجائے سماجی بائیکاٹ کو زیادہ پسند کر تاتھا۔
(۸) سماجی بائیکاٹ کا نسخہ دینے کے بعد ساورکر بتاتے ہیں کہ شمال مشرق کے علاقے آسام میں قبائل کو اس وقت بڑے پیمانے پر ہندو بنایا جا رہا تھا۔ آسام کا آہوم قبیلہ دراصل شان قبیلے کا حصہ تھا جو دیگر خانہ بدوش قبائل کی طرح آٹھویں صدی عیسوی میں آسام سے ملحق ہندو راجہ ورمن، تگسلام اور پال خاندان پر دباؤ بنائے ہوئے تھا۔ ہندو مشنریز کے زیر اثر آسامی سماج میں ہندو مذہبی ضابطوں اور رسوم کی جڑیں مضبوط ہوگئیں جب کہ ۱۲۲۸ سے آہوم اور دیگر قبائل نے آسام میں فتح حاصل کرلی تھی اور وہ ہندو دھرم قبول کرتے رہے۔ ۱۵۵۴ میں ایک دوسرے آہوم راجہ نے دیگر قبائل کے ساتھ ہندو دھرم قبول کرلیا اور اس بادشاہ نے شان رسم الخط سے اپنا نام تبدل کرکے جئے دھاوج سنگھ رکھ لیا۔ جو اصلاً چھتریوں کا نام تھا۔ اس کے بعد آہوم راجاؤں نے ہندو نام ہی رکھنا شروع کردیا۔
(۹) ساورکر ہندوؤں پر عیسائیوں کے حملے کا بھی وہ بڑی تفصیل سے تذکرہ کرتے ہیں۔ دلچسپی رکھنے والے حضرات (پیراگراف ۵۳۹ تا ۵۴۸) کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔
(۱۰) آخر میں ساورکر اس بات پر ماتم کرتے نظر آتے ہیں کہ مراٹھا بہادروں نے مسلمانوں کو فوجی اور سیاسی شکست دینے کے باوجود مذہبی محاذ پر ان کے خلاف جوابی کارروائی نہیں کی۔ ہندو مذہب کو ختم کرنے کے لیے ان کے زبردست حملوں اور ہندو خوایتن کی حرمت کو پامال کرنے کی ان کی کارروائیوں کا کوئی بدلہ نہیں لیا گیا۔ مراٹھوں نے مسلم مذہب پر کوئی حملہ نہیں کیا جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی تعداد بڑھتی ہی رہی اور دشمن مضبوط ہوتا رہا۔
ساورکر کے مطابق مراٹھوں میں مسلم مظالم کے خلاف انتقام کی کوئی خواہش بھی نہیں تھی۔ ٹیپو کے دو بچوں کو یوں ہی عزت کے ساتھ واپس کر دیا گیا (پیراگراف ۵۸۵ تا۵۸۶) ٹیپو سلطان کی شکست کے بعد ان کے دو بچو ں کو انگریزوں نے یرغمال بنالیا تھا ان کو لارڈ کارناولس نے مراٹھا فوج کے حوالے کر دیا تھا۔ مراٹھا سردار نے ان بچوں سے ان کی خیریت پوچھی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ بھوکے ہیں چنانچہ دوسرے خیمے میں بھیج کر کھلایا پلایا گیا اور پھر لارڈ کارناولس کے پاس بھیج دیا جب کہ ساورکر کے مطابق سکھوں کے دسویں گرو شری گووند سنگھ کے دو بچوں کے ساتھ مغلوں (گورنر) نے اس کے بر عکس معاملہ کیا تھا۔ چمکور کے قلعہ پر حملے (۱۷۰۴) میں گرو کے دو بڑے بیٹے جنگ میں ختم ہو گئے۔ دوسری طرف ان کے دو چھوٹے بچوں کو مغلوں نے پکڑلیا۔ (گرو خود فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے) ان کو اسلام قبول کرنے کو کہا گیا اور ان کار کے پاداش میں دیوارمیں زندہ چن دیا گیا۔
مسلمانوں کے مذہب کو نشانہ نہ بنانے کے نقصانات:
ساورکر کی نظر میں مسلمانوں کی دو قسمیں ہیں۔ ایک Muslimized Hindu (مسلم بنائے گئے ہندو) اور دوسرے پیدائشی مسلمان۔ ایک ہندو مسلمان اور دوسرے باہری نسل کے مسلمان۔ ہندو انہیں ہندو بنانے یا دوبارہ ہندو بنانے کے سخت خلاف تھے۔ انہیں خدشہ تھا کہ ایسا کرنے سے ہندوستان کے مسلمانوں کا بہت سخت رد عمل سامنے آئے گا بلکہ غیر ملکی مسلمان بھی اس کا زبردست بدلہ لیں گے۔ ساورکر اس کو ہندوؤں کا اپنا تضاد (Self Contradiction) قرار دیتے ہیں۔ اگر یہ صحیح بات تھی تو سیکڑوں سال تک مسلمانوں کے خلاف ہندو جنگ کیوں کرتے۔
(۱) ساورکر کے بقول مسلمانوں کو ہندو مذہب میں داخل نہ کرنے کی پالیسی کی وجہ سے تین کروڑ ہندو ہاتھ سے نکل گئے اور مسلمانوں کی عددی طاقت میں اضافہ ہوگیا۔ دوسری طرف مسلمانوں نے تبدیلی مذہب کے ذریعے ہندو علاقوں اور زمینوں پر قبضہ جمالیا۔ آج ہر گاؤں اور بڑے شہر اور علاقے میں بڑی بڑی مسلم آبادیاں پائی جاتی ہیں یہ مسلم علاقے ہندوؤں کے لیے ’ٹائم بم‘ ہیں۔ ساورکر اس کو اسلامستان قرار دیتے ہیں۔
(۲) افسوس تو یہ ہے کہ مسلمان کا مذہبی دبدبہ (Domination) اور انفرادی آزادی کو ہندو راجاؤں نے دستوری طور پر تحفظ دیا اور انہیں ہندوؤں کے ساتھ برابر کے سنہری حقوق دیے گئے۔
(۳) ساورکر کو افسوس ہے کہ اس وقت نہ کسی ہندو بادشاہ اور عام لوگوں نے بلکہ تاریخ نگاروں نے تک ان نقصانات کا دور دور تک اندازہ نہیں لگایا جو مسلمانوں کے مذہبی دبدبہ کی وجہ سے ہندوؤں کو پیش آئے۔ اگر اس کا کچھ بھی اندازہ انہیں ہوا ہوتا تو جنوبی ہند میں ٹیپو سلطان کی شکست کے بعد مراٹھا حکومت نے جنوبی ہند میں اسلامی عقیدے کے خلاف جوابی مذہبی حملہ (Counter Religion Agression) ضرور کیا ہوتا کیوں کہ انہیں اس کا پورا پورا موقع مل گیا تھا جیسا کہ پورے ہندوستان میں کسی مسلم طاقت کو مراٹھا افواج کے خلاف مقابلے کی ہمت نہ تھی (پیرا گراف ۶۰۵تا۶۰۸)
ساورکر کا خواب:
اب تک ہمیں معلوم ہوگیا کہ ساورکر نے تاریخ کے اپنے چھ سنہری ادوار میں چھتر پتی شیواجی مہارج کے دور حکومت کو کیوں شامل نہیں کیا۔ مراٹھا افواج اور پیشواؤں کی مسلمانوں کے تئیں ’منصفانہ مذہبی پالیسی‘ کے خلاف وہ صفحات کے صفحات سیاہ کرتے ہیں اور اسے ہندو مفاد کے لیے سخت نقصان دہ بتاتے ہیں۔ نیز وہ اتنے ہی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ آخر میں تفصیل کے ساتھ اپنی تجاویز پیش کرتے ہیں۔ ان کے اس جواب میں مسلم خواتین ان کا خاص نشانہ ہیں دوسری طرف جبری تبدیلی مذہب کے لیے کھل کر دعوت عام دیتے نظر آتے ہیں۔ یہاں ان کا خلاصہ پیش ہے۔
(۱) مراٹھا حکومت کی طرف سے ایک حکم نامہ جاری کیا جاتا کہ ہندوؤں پر مبینہ مظالم اور زیادتی کے خلاف حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ بدلے میں مسلمانوں کے مذہبی امور (Field) پر حملے کیے جائیں گے۔ اس خیالی حکم نامہ کے دیگر نکات کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے:
(۲) دوبارہ تبدیلی مذہب یا Reconversion پر پابندی ہٹائی جاتی ہے اور آئندہ سے ہر سرکار ی افسر، چاہے وہ کسی بھی عہدہ پر ہو درج ذیل ہدایات کو سختی سے نافذ کرے گا۔
(الف) ہر جگہ حکومتی تحفظ میں راحتی کیمپ بنایا جائے جہاں جبراً ہندو بنائے گئے مردوں اور خواتین کو رکھا جائے اور ان کی تمام ضروریات پوری کی جائیں۔
(ب) ہر شہر اور گاؤں میں جن مسلم گھروں میں ایسے مظلوم تبدیلی مذہب کے لوگ پائے جائیں انہیں راحتی کیمپ میں رکھا جائے اور ان مسلم مردوں اور خواتین کو جیلوں میں ٹھونسا جائے۔
(ج) اعلیٰ افسران کے ذریعے ایک قومی Reconversion ہفتہ منایا جائے جس کے دوران لاکھوں لوگوں کو ہندو دھرم میں دوبارہ شامل کیا جائے۔ ان کی شدھی کے لیے مقدس آگ روشن کی جائے جہاں رسوم کے ساتھ انہیں ہندو بنایا جائے۔ انہیں ان کی ہندو ذاتوں میں جگہ دی جائے جہاں ایسا ممکن نہ ہو وہاں ان کے لیے نئی بہادر ذاتیں ہندو سماج میں بنائی جائیں۔
(چ) مراٹھا بہادروں کو خوبصورت مسلم لڑکیاں انعام کے طور پر دی جائیں۔ اس سے قبل انہیں پکڑ کر ہندو بنایا جائے۔ دوسری طرف بدمعاشوں(مسلم) کو پکڑ کر ان پر فرد جرم عائد کی جائے اور ہندو ناظرین کے سامنے انہیں توپ سے اڑا دیا جائے۔
اس کے اثرات گنگا اور سندھ کی وادیوں اور میدانوں میں بھی پڑیں گے جہاں یہ عمل دہرایا جائے گا۔ ان لاکھوں لوگوں کو دوبارہ ہندو بنانے کی گونج مسلم دنیا میں ہوگی اس طرح ان کا وجود یہاں سے ختم ہوجائے گا۔ ساورکر کو افسوس ہے کہ کاش ایسا ہوتا۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)