مسلم امت ۔ منزل اور راستہ

ایک اہم کتاب جس میں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں مطلوب رویوں کی نشاندہی کی گئی ہے

 

مصنف : سید سعادت اللہ حسینی، امیر جماعت اسلامی ہند
ناشر : مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی
سنہ اشاعت : 2020 ء
صفحات : 231
قیمت : -/135
انگریزی ترجمہ : Muslim Ummah The way Forward
مترجم : ڈاکٹر پرویز مانڈوی والا
مبصر : محمد رضی الاسلام ندوی
کتابیں ہر موضوع پر برابر شائع ہو رہی ہیں، جو شائقین کے ذوقِ مطالعہ کی تسکین کا باعث بنتی ہیں۔ لیکن اگر کوئی ایسی کتاب منظر عام پر آئے جس میں موجودہ دور کے پیچیدہ امور اور تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کی عکاسی کی گئی ہو، ان کا بھر پور اور بے لاگ تجزیہ کیا گیا ہو اور امت کے لیے صحیح راہِ عمل کی نشان دہی کی گئی ہو تو اس کا زیادہ چرچا کیا جانا چاہیے اور اس کا مطالعہ کرکے اس کی تجاویز اور مشوروں کو رُو بہ عمل لانے کی کوشش بھی کرنی چاہیے۔ جماعت اسلامی ہند کے امیر انجینئر سید سعادت اللہ حسینی کی ’مسلم امت۔منزل اور راستہ‘ ایسی ہی کتاب ہے، جو حال ہی میں منظر عام پر آئی ہے۔
گزشتہ ایک برس ہندوستانی مسلمانوں کے لیے بہت کٹھن اور آزمائشی تھا۔ اس مدت میں انہیں طرح طرح کی مشکلات و مصائب سے گزرنا پڑا۔ نومبر ۲۰۱۹ء میں بابری مسجد قضیے پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا، جس میں تمام دلائل و شواہد مسلمانوں کے حق میں ہونے کے باوجود متنازعہ قطعہ اراضی کی ملکیت سے انہیں محروم کر دیا گیا۔ متنازعہ شہریت ترمیمی قانون (CAA) منظور کیا گیا، جس کی بِنا پر ہندوستانی مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد کے شہریت سے محروم ہو جانے کے قوی اندیشے پیدا ہو گئے۔ اس کے خلاف مسلمانوں نے زبردست احتجاجی مظاہرے کیے تو انہیں کچلنے کے لیے حکومت نے بے دردی سے طاقت کا استعمال کیا۔ مارچ ۲۰۲۰ء میں کورونا وائرس (کووڈ-١٩) نامی وبا نے شدت اختیار کی اور پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا تو اس کا غیر معمولی اثر ہندوستان میں بھی ظاہر ہوا۔ حکومت نے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا ، جس میں تھوڑے تھوڑے وقفے سے اضافہ کیا جاتا رہا۔ اس بے تدبیری کی وجہ سے ملک کے باشندے اور خاص طور پر غریب طبقے بہت زیادہ پریشان ہوئے، یہاں تک کہ دانے دانے کے محتاج ہو گئے۔ ملک کو معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ وہ مسائل ہیں جن کا ملک کے تمام طبقات شکار ہیں، خاص طور سے مسلمانوں کو ان کا سامنا ہے اور اب تک ان سے نجات نہیں مل سکی ہے۔ اس صورتِ حال سے ملک کے تمام دانش ور، مفکرین، سیاسی رہ نما اور سماجی مصلحین پریشان ہیں اور عوام کی رہ نمائی کے لیے کوشاں ہیں۔ جماعت اسلامی ہند کے امیر جناب سید سعادت اللہ حسینی ان ملی رہ نماؤں میں سے ہیں جنہوں نے ان مسائل پر طویل غور و فکر کیا ہے، ان کا تجزیہ کیا ہے ، ان کا مقابلہ کرنے کے لیے حکمتِ عملی تیار کی ہے اور مسلم امت کو رہ نمائی فراہم کی ہے۔ ان کی یہ تحریریں ماہ نامہ زندگی نو نئی دہلی میں، جس کے وہ مدیر اعلیٰ بھی ہیں، شائع ہوتی رہی ہیں۔ اب ان کا مجموعہ زیرِ نظر کتاب کی صورت میں شائع کیا گیا ہے۔ اس میں مذکورہ رسالہ کے ستمبر ۲۰۱۹ء تا نومبر ۲۰۲۰ء (سوائے جنوری، اپریل اور اکتوبر ۲۰۲۰ء) کے اداریے (اشارات) شامل کیے گئے ہیں۔
یہ کتاب بارہ مضامین پر مشتمل ہے، جنہیں تین ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ باب اول کا عنوان ہے: ’مزاج اور رویے۔‘ اس میں پانچ مضامین ہیں۔ ان میں موجودہ حالات میں ملتِ اسلامیہ ہند کو اس کی ذمہ داریاں یاد دلائی گئی ہیں اور اس سے مطلوب رویوں کی نشان دہی کی گئی ہے۔ پہلا مضمون ’ماہِ رمضان، ہمارے رویے اور کووڈ-١٩ کی عالمی وبا‘ کے عنوان سے ہے۔ اس میں اس سوال سے بحث کرتے ہوئے کہ یہ عالمی وبا آزمائش ہے، تنبیہ ہے یا سزا؟ بتایا گیا ہے کہ وبا کے دوران رمضان المبارک میں نئی صورتِ حال کا سامنا ہوا۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے رمضان المبارک سے استفادے کی مختلف تدابیر بیان کی گئی ہیں۔ دوسرے مضمون ’نصب العین کا ارتکاز‘ میں اس نکتے پر زور دیا گیا ہے کہ مسلمانوں کی اصل حیثیت ایک داعی گروہ کی ہے۔ اس لیے مناسب نہیں کہ وہ اپنے مسائل میں ہی الجھی رہے، بلکہ ضروری ہے کہ وہ اپنے نصب العین کو سامنے رکھے اور اس کے حصول کے لیے کوشاں رہے۔ تیسرا مضمون ’خود اعتمادی اور یقین‘ کے عنوان سے ہے۔ اس کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اہلِ ایمان کو پیش آنے والی مشکلات و مصائب ربِّ کائنات کی مشیت کا حصہ ہیں۔ ان سے گھبرانے کے بجائے مطلوب یہ ہے کہ مسلمان اپنا جائزہ لیں، اللہ تعالیٰ کی طرف پلٹیں، استقامت کا ثبوت دیں اور حالات کو بہتر بنانے کی ممکنہ تدابیر اختیار کریں۔ اگلے دو مضامین میں صبر اور توکل پر تفصیل سے اظہارِ خیال کیا گیا ہے۔ فاضل مصنف نے بے صبری کے مختلف مظاہر کی نشان دہی کرتے ہوئے صبر کو اختیار کرنے کی تلقین کی ہے۔ انہوں نے توکل اور تدبیر دونوں میں توازن کی تاکید کی ہے اور توکل کے ان پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے جو مسلمانوں کے اجتماعی رویے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ دوسرے باب کا موضوع’ رائے عامہ اور اس کی ہمواری‘ ہے۔ یہ تین مضامین پر مشتمل ہے۔ پہلا مضمون’ رائے عامہ کی تشکیل‘ کے عنوان سے ہے۔ اس میں مصنف نے بتایا ہے کہ ملکِ عزیز میں اقامتِ دین کے نصب العین کی سمت پیش رفت کے لیے ضروری ہے کہ یہاں کی رائے عامہ کو اسلام کے حق میں ہموار کیا جائے، جب کہ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ملک کی رائے عامہ اسلام کے تعلق سے پہلے سے زیادہ غلط فہمیوں کی شکار ہے۔ مصنف نے پہلے اس سے بحث کی ہے کہ رائے عامہ (Public Opinion) سے کیا مراد ہے اور یہ کیسے بنتی ہے؟ پھر تفصیل سے اس پر اظہار خیال کیا ہے کہ سماج میں مطلوبہ تبدیلیاں لانے کے لیے کیا تدابیر اختیار کرنی ضروری ہیں؟ دوسرا مضمون ’رائے عامّہ کی تشکیل اور ذرائع ابلاغ‘ کے عنوان سے ہے۔ اس میں مصنف کی گفتگو کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ پر بھر پور توجہ دیے بغیر رائے عامہ کی تشکیل ممکن نہیں۔ انہوں نے سوشل میڈیا کی اہمیت پر روشنی ڈالنے کے ساتھ ساتھ اس کے دائرہ کی وسعت کا تذکرہ کیا ہے۔ آخر میں ان مطلوبہ اقدامات کا تذکرہ کیا ہے جو سوشل میڈیا سے بھر پور فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہیں۔ تیسرا مضمون ’مابعد کووڈ-١٩ منظر نامہ اور اسلامی دعوت‘ پر ہے۔ اس میں بہ طور تمہید سابقہ عالمی وباؤں کا تذکرہ کرنے بعد موجودہ عالمی وبا (Covid-19) اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتِ حال سے مفصل بحث کی ہے اور بتایا ہے کہ اس میں اہلِ ایمان کے لیے کون کون سے مواقع اور امکانات پیدا ہوئے ہیں، جن میں وہ اپنا سرگرم کردار انجام دے سکتے ہیں۔
تیسرے باب میں چار مضامین ہیں۔ پہلا مضمون ’معاشی بحران اور ہماری ذمے داریاں‘ کے عنوان سے ہے۔ اس میں مصنف نے ملک کے موجودہ معاشی بحران پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا ہے کہ یہ حالات اسلام کے نظام ِعدل و رحمت کی طرف متوجہ کرنے اور اسلام کی معاشی تعلیمات کی برکتوں سے اہلِ ملک کو روشناس کرانے کا سنہری موقع فراہم کرتے ہیں۔ دوسرے مضمون کا عنوان ہے: ’ظلم کے خلاف مزاحمت‘۔ یہ مضمون ملک میں نافذ ہونے والے شہریت کے غیر منصفانہ قوانین کے پس منظر میں لکھا گیا تھا۔ اس میں مصنف نے لکھا ہے کہ ظلم کے خلاف مزاحمت اسلام کا تقاضا ہے۔ انہوں نے مزاحمت کی دو قسمیں بیان کی ہیں: مسلح اور پُر امن۔ پھر لکھا ہے کہ مسلح مزاحمت حکومتوں کی ذمے داری ہے، جب کہ عوام سے مطلوب یہ ہے کہ پُر امن مزاحمت کریں۔ آخر میں انہوں نے پُر امن مزاحمت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے اور انہیں اختیار کرنے کی تلقین کی ہے۔
کتاب کے آخری دو مضامین سازشیت اور سازشی نظریات سے بحث کرتے ہیں۔ کووِڈ۔۱۹ کو بعض لوگوں نے سازش قرار دیا اور اس کے بارے میں طرح طرح کے نظریات گھڑ کر پیش کرنے لگے۔ مصنف نے بتایا ہے کہ ہر واقعے کو سازش کا نتیجہ سمجھ لینا درست نہیں ہے۔ اس کے منفی نتائج سامنے آتے ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ہمارا مطلوبہ عملی رویہ یہ ہونا چاہیے کہ ہر چیز کو سازش قرار دینے کے بجائے پیش آمدہ مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں۔ بعض لوگ عظیم حادثات کو ظہورِ دجّال اور قربِ قیامت سے جوڑنے لگتے ہیں۔ اس ضمن میں مصنف نے علاماتِ قیامت پر تفصیل سے بحث کی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ حالات بگڑنے پر مایوسی اور تن آسانی کا شکار ہونے کے بجائے ہمارا مطلوبہ رویّہ یہ ہونا چاہیے کہ اللہ کی پناہ حاصل کریں، اس کی کتاب سے گہرا تعلق پیدا کریں، استقامت اور صبر کا مظاہرہ کریں، اللہ کی راہ میں جدّو جہد اور فتنوں کا مقابلہ کریں اور اجتماعیت کو اختیار کریں۔
جناب سید سعادت اللہ حسینی یوں تو پیشے سے انجینئر ہیں، لیکن زمانہ طالب علمی سے مطالعہ و تحقیق سے ان کا گہرا تعلق رہا ہے۔ وہ دو میقاتوں میں اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا (SIO) کے کل ہند صدر اور گزشتہ میقات میں جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر رہے ہیں۔ رواں میقات (۲۰۱۹ء تا ۲۰۲۳ء) کے لیے انہیں امیر منتخب کیا گیا ہے۔ جدید لٹریچر پر ان کی گہری نظر اور اسلامیات کا عمدہ مطالعہ ہے۔ اس سے قبل ان کی کتب: ’اقامتِ دین کی شاہ راہ‘،’ بدلتی ہوئی دنیا اور اسلامی فکر‘ ’ خواتین میں اسلامی تحریک‘ اور’ ہندوستانی مسلمان: چیلنج، امکانات اور لائحہ عمل‘ علمی ،دینی اور تحریکی حلقوں سے خراج ِتحسین حاصل کر چکی ہیں۔وہ ملت کے مسائل پر نظر رکھتے ہیں اور ان کے پاس انہیں حل کرنے کی تجاویز بھی ہیں۔ اس کتاب میں انہوں نے ملتِ اسلامیہ ہند کو درپیش حالات کا عمدہ تجزیہ کیا ہے اور ان سے نبرد آزما ہونے اور مطلوبہ ذمے داریاں انجام دینے کے تعلق سے اصولی اور عملی نکات پر مشتمل لائحہ عمل بھی پیش کیا ہے۔ امید ہے کہ ملت کے سنجیدہ افراد اسے غورو فکر اور مذاکرہ کا موضوع بنائیں گے۔
خوشی کی بات ہے کہ انگریزی قارئین کے لیے کتاب کا انگریزی ترجمہ بھی معیاری زبان اور دیدہ زیب طباعت کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔ اس موضوع پر اس کتاب کا یہ حق ہے کہ ملک کی تمام زبانوں میں اس کا ترجمہ کیا جائے۔
***

اس کتاب میں مصنف نے ملتِ اسلامیہ ہند کو درپیش حالات کا عمدہ تجزیہ کیا ہے اور ان سے نبرد آزما ہونے اور مطلوبہ ذمے داریاں انجام دینے کے تعلق سے اصولی اور عملی نکات پر مشتمل لائحہ عمل بھی پیش کیا ہے۔ امید ہے کہ ملت کے سنجیدہ افراد اسے غورو فکر اور مذاکرہ کا موضوع بنائیں گے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 20 تا 26 دسمبر، 2020