مسلمانوں کے سر پر اے ٹی ایس کی لٹکتی تلوار

گردنیں چھڑانا ایک اہم دینی تقاضا نسلِ نَو کو غلامی سے بچانے کے لیے منصوبہ بند جدوجہد ضروری

ڈاکٹرعبدالرؤف

 

ہندوستان جنت نشاں میں کچھ قانونی دفعات ایسی ہیں جن کی زد میں لا کر بے گناہ مسلمانوں کو آزاد ی ہند کے بعد بھی نشانہ ستم بنایا گیا ہے۔ جب کہ یہ قوانین برطانوی سامراج میں ہندوستانیوں کی جنگ آزادی کے سورماؤں پر نافذ کیے گئےتھے تاکہ ملک کو غلامی سے نجات دلانے والوں کا قلع قمع کیا جا سکے ۔ لیکن حیف ہے کہ آج بھی اس قانون کا نفاذ جاری ہے اور اس کا خاص نشانہ اس آزاد ملک کے بے گناہ مسلمان ہیں۔
’’اینٹی ٹیررزم اسکواڈ‘‘یا اے ٹی ایس کی جانب سے صرف مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دے کر جیل کی کال کوٹھری میں ڈال دیا جاتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ دس سال بیس سال یا کئی سالوں تک عدالت میں کوئی سماعت نہیں ہوتی۔ نیشنل سیکوریٹی ایکٹ اور گینگسٹرایکٹ کا بے مہابہ استعمال بھی بے گناہ مسلمانوں پر روا رکھا گیا ہے۔ یو اے پی اے کے تحت گرفتار شخص کو بغیر کسی مقدمے کے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دینا عام سی بات ہے۔
دراصل دہشت گردی کے دفعات 15، 16 یا 18 یو اے پی اے کے تحت تشریح کسی بھی جرم کو ثابت کرنے کے لیے ضروری ہے۔لیکن یہاں تو معاملہ بر عکس ہے ۔ دہشت گردوں اور دہشت گردی کے نام پر پولیس کی زیادتیاں اظہر من الشمس ہیں ۔ ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کی یو اے پی اے کے تحت گرفتاری سب پر عیاں ہے۔ ملک کے معروف دینی اداروں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ حالانکہ ان اداروں سے فارغ علماء نے ملک کیلئے قربانیاں دی ہیں انہیں دہشت گردوں کا اڈہ قرار دیا گیا اور چھوٹے بڑے مدرسوں، سماجی شخصیتوں، تنظیموں اور فلاحی اداروں پر بھی یواے پی اے کا عتاب نازل ہوا۔ این آر سی ، این پی آر اور سی اے اے کے خلاف پر امن احتجاج کرنے والوں پر پولیس کے مظالم ڈھائے گئے اور دہلی فسادات میں جامعہ ملیہ کے اعلیٰ تعلیم یافتہ طلباء کو بھی نہیں بخشا گیا۔ اس قانون کے تحت وہ بھی سالوں سے قید زنداں ہیں۔
ایک بے گناہ مسلمان کی بیس سالہ قید کے بعد عدالت سے بے گناہی ثابت ہوتی ہے اور اسے رہا کر دیا جاتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ان بیس سالوں میں میری زندگی کی بہترین اوقات ختم ہو گئے ہیں۔ کیا عدالت میری جوانی واپس لوٹا سکتی ہے؟میرے والدین کا میرے غم میں انتقال ہو گیا کیا عدالت میرے والدین لوٹا سکتی ہے؟میرا سارا اثاثہ بیس سالہ قانونی چارہ جوئی میں ختم ہو گیا میرا بھرا پرا خاندان برباد ہو گیا بھیک مانگنے کی نوبت آ پہنچی ہے میری بیوی بچے دوسروں کی مدد کے محتاج ہو گئے ہیں میرے قویٰ کمزور ہو گئے ہیں میں محنت یا کاروبار نہیں کر سکتا ۔ ان حالات کو کیا عدالت بدل سکتی ہے۔۔۔۔؟
تقریباً یہی سوال ان سبھی بے گناہ مسلمانوں کا ہے جو دس سال ، بیس سال یا کئی سال جیل میں رہ کر پھر عدالت سے بے گناہ ثابت ہو کر آزاد ہوتے ہیں۔ آخر اس مسئلے کا حل کیا ہے آزادی کے ستر سال گزر گئے ہیں۔ آج بھی مسلمانوں پر اور ان کے کسی بھی فلاحی تنظیموں یا شخصی آزادی کے لیے آواز بلند کرنے والوں پر اس قانون کا اطلاق ہوتا ہے جو کبھی برطانوی سامراج نے آزادی کے متوالوں کے لیے بنایا تھا ۔
آخر دہشت گردی کی اصطلاح کی تشریح عدلیہ کی جانب سے اب تک کیوں نہیں ہوئی ہے اور اکثر مسلمانوں ہی کو اس کا ہدف کیوں بنایا جاتا ہے؟ جس ادارے جماعت ، تنظیم یاجس مسلمان کو ملی مفادات کی خاطر متحرک دیکھا گیا اسے یو اے پی اے کے تحت نشانہ کیوں بنایا جاتا ہے؟ آخر اس جمہوری ملک میں مسلمان کی حیثیت کیا ہے؟ آثار تو یہ بتا رہے ہیں کہ فرقہ وارانہ سیاست سے مستقبل میں بھی مسلمانوں کو چھٹکارا نہیں ہوگا اس طرح ہماری نسلوں کو بھی اس جمہوری ملک میں سر جھکا کر جینے پر مجبور کیا جائے گا۔ آزاد ملک کے آزاد شہری کی حیثیت بھی چھین لی جائے گی۔ بے گناہ مسلمانوں کو عرصہ دراز سے جیل میں قید رکھا گیا۔ ان بے گناہوں کے پاس رقمیں بھی نہیں ہیں جو سپریم کورٹ میں پیروی کرنے کے لیے ضروری ہیں ۔
درج بالا موقف ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے ان بے گناہ مسلمانوں کو جو ATSقانون کے تحت پندرہ سال بیس سال سے قید زنداں ہیں پولیس تفتیش مکمل کرکے عدالت میں ٹرائل نہ کراسکی ۔اس سلسلے میں مولانا ارشد مدنی صدر جمعیتہ العلماء نے پیش رفت کی ہے اور سپریم کورٹ کے تمام اخراجات بر داشت کرتے ہوئے انہیں بے گناہ ثابت کرکے بری کروایا ہے لیکن ہزاروں بے گناہ مسلمان ابھی بھی جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ مجھے خدشہ ہے کہ نہ جانے کب اور کس پر حکومت کا یہ عذاب ATS کی شکل میں مسلط ہوجائے ۔
اس درد کا مداوا کیسے ہو۔ یہ بات اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ہے کہ’’غلاموں کی گردنیں چھڑاؤ‘‘ ۔ حضور ﷺ کے مکی دور میں حضرت بلال حبشیؓ جو کسی مشرک کے غلام تھے انہیں صحابہؓ نے فدیہ دے کر آزاد کرایا تھا ۔ حضرت زیدؓ بن حارثہ بھی غلام تھے۔ انہیں حضور ﷺ نے غلامی سے چھڑا کر اپنی سر پرستی میں لیا تھا۔ اور پھر تاریخ نے یہ بھی دیکھا کہ وہ پہلی اسلامی فوج کے سپہ سالار ہوئے ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سارے مسلمان جنگی قیدی تھے جنہیں زمانے کے دستور کے مطابق غلام بنایا گیا تھا۔ یہ سلسلہ اسلامی فتوحات تک جاری تھا۔ اس پر بحث نہیں کہ کب یہ غلاموں کی خرید وفروخت کا سلسلہ بند ہوا مقصد یہ ہے کہ غلاموں کی گردنیں چھڑانا بھی فی سبیل اللہ کی مد میں سے ہے۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ موجودہ زمانہ میں مواصلات کی سہولتیں اور تیز رفتار بن گئی ہیں، غلاموں کی خرید وفروخت یا انسان کو غلام بناکر نہیں رکھا جا سکتا۔ آزادی اور مساوات ہر انسان کا پیدائشی حق ہے ۔ کارل مارکس نے یہ نظریہ تو اٹھارویں صدی عیسوی میں پیش کیا تھا لیکن اسلام نے اپنی آفرینش میں ہی اس کی بنیاد رکھ دی تھی اور غلاموں کی گردنیں چھڑانے کو فی سبیل اللہ میں شامل کر دیا تھا۔ مزید برآں کسی مفید علم میں تخصیص یا کسی کام میں ٹرینینگ حاصل کرنے کے لیے انہیں وفودکی شکل میں باہر بھیجا جائے تاکہ وہ دین و ملت کے لیے مفید ثابت ہوں۔ میدان جنگ میں جس طرح نیزہ اور تلوار سے کام لیا جاتا ہے اسی طرح زبان اور قلم سے بھی لیا جاتا ہے۔ جس طرح جہاد عسکری ہوتا ہے اسی طرح جہاد فکری تربیتی اجتماعی اقتصادی اور سیاسی بھی ہوتا ہے۔ جہاد کی ان تمام قسموں کے لیے مال کی ضرورت ہوتی ہے ۔آج کے دور کی اگر ہم بات کریں تو فی زمانہ میدانی جنگ کے مقابلے میں فکری و نفسیاتی جنگ زیادہ اہمیت رکھتی ہے اور اس کے بھی اثرات زیادہ گہرے مرتب ہوتے ہیں ۔ یہی لوگ اپنی جدو جہد اور اپنے قلم کے ذریعہ اسلام کے عقائد اور اس کے شرعی احکام کے دفاع کی خدمات انجام دیتے رہتے ہیں۔ نبیﷺ سے پوچھا کیا گیا کہ کون سا جہاد افضل ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا ’’حق بات جو کسی ظالم سلطان کے سامنے کہی جائے ‘‘آج کتنے ہی مسلمان ہمارے ملک میں گھر کی نعمت سے محروم ہیں ۔ انہوں نے لب راہ اور فٹ پاتھ پر اپنے لیے ٹھکانہ بنا لیا ہے ۔ اس کی مٹی ان کے لیے بستر ہے ہوا ان کے لیے پناہ گاہ ہے۔ یہ لوگ ابنائے سبیل ہیں۔ کیونکہ فٹ پاتھ اور راستہ ہی ان کے لیے سب کچھ ہے۔ ایسے لوگوں کا قرآن کریم میں خاص طور سے ذکر کیا گیا ہے۔ اب اسی تناظر میں ہم دیکھتے ہیں کہ اے ٹی ایس قانون کے تحت ہزاروں مسلمان پندرہ سال بیس سال اور سالوں سے قید وبند کی زندگیاں گزار رہے ہیں۔ حالانکہ یہ لوگ کبھی غنی تھے لیکن ان کا سارا اثاثہ ختم ہو گیا والدین انتقال کر گئے بیوی بچے دوسروں کے محتاج ہو گئے۔ انہیں بھی ماضی کی اصطلاح میں دیکھیں تو سیاہ قانون نے غلام بنا دیا ہے۔ غلاموں کے خرید وفروخت کا سلسلہ بند ہو گیا ہے لیکن یہ حکومتِ وقت کے جبری قانون کے تحت غلام ہیں چنانچہ غلاموں کی گردنیں چھڑانے کی تعلیم کا اطلاق آج ان بے گناہ مسلم قیدیوں پر ہونا چاہیے اور اس میدان میں سرگرم تنظیموں میں جمیعۃ العلماء کا نام سب میں نمایاں ہے جس کی کوششوں سے کئی قیدی آزادی کی فضا میں سانس لے رہے ہیں۔ لیکن جہاں ہزاروں بے گناہ مسلمان جیلوں میں ہیں وہیں متعدد تنظیموں کی ضرورت ہے جن کی کاوشوں سے ان بے گناہوں کو قید سے آزادی دلائی جا سکتی ہے۔ موجودہ رہائی کی رفتار کو اگر دیکھا جائے تو شاید عمر نوح کی ضرورت پڑے گی۔
اس کے لیے ہندوستانی مسلمانوں کو فی سبیل اللہ کی اس مد پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بلاشبہ بعض کام اور منصوبے ایسے ہوتے ہیں جو کسی ملک کسی دور اور کسی حالت میں جہاد فی سبیل اللہ قرار پاتے ہیں۔ میں دینی مدارس کو بھی اس کا حق دار سمجھتا ہوں۔ دینی مدارس ہی اسلام کے قلعے ہیں ملک میں دینی مدارس پر دہشت گردی کا الزام لگا کر دہشت گردی کے اڈے بتا یا جاتا ہے لہذا ہماری لڑائی ہندوستان کے دینی مدارس کے دفاع کے لیے بھی ہونی چاہیے۔ دینی مدارس سلامت رہیں گے تو ہمارا ایمان زندہ رہے گا لہٰذا زکوٰۃ کی فی سبیل اللہ مد کے تحت تعاون پانے کے وہ بہت زیادہ حقدار ہیں ۔ دینی تعلیم اور تعلیمی ادارے اگر عیسائی مشنریز یا کمیونسٹوں اور فرقہ پرست ہندوؤں کی شدھی تحریک کی دشمنی کی زد پر ہوں تو انہیں بچانا جہاد قرار پائے گا۔ اسی قسم کی بات دینی دارالمطالعات کے سلسلے میں بھی کہی جا سکتی ہے جو باطل کا پرچار کرنے والے دارالمطالعات کے مقابلہ میں قائم کیے جائیں ۔ اس طرح اسلامی شفا خانوں کا قیام تاکہ مسلمانوں کو علاج کی سہولت حاصل ہو۔ مزید برآں ملک میں ATSکی کالے قانون اور سپریم کورٹ میں ان مظلوم مسلمانوں کے مقدمات کی پیروی کرنے کے لیے بھی قانونی تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں اور ذہین طلبہ کو وکالت کی تعلیم دیگر مستقبل کے لیے وکلاء بیرسٹری کی تعلیم بھی اسی فی سبیل اللہ کی مد دسے دلائی جائے۔ مسلمانوں کے تحت لا کالج جہاں صرف ایسے مسلمان طلبہ تیار ہوں جو مشن کے طور پر بے گناہ مسلمانوں کو غلامی سے آزاد کرانے کے لیے زندگیاں وقف کردیں ۔ بقیہ سلسلہ صفحہ نمبر ۱۸
گزشتہ پندرہ بیس سال سے اے ٹی ایس جیسے کالے قانون کی زد میں لا کر کئی بے گناہ مسلمانوں کی زندگیاں برباد کر دی گئی ہیں۔ ملک میں طویل عرصے کے بعد بے قصور ثابت ہونے پر معاوضے یا باز آبادکاری کی کوئی پالیسی جب تک نافذ نہیں ہو گی نیز پولیس ، میڈیا اور عدلیہ کی جواب دہی طے نہیں ہو گی اس وقت تک سماج فرقہ واریت کی آگ میں جھلستا رہے گا۔لہٰذا ضروری ہے کہ فی سبیل اللہ کی مد میں اعلیٰ پیمانے پر لاء کالج کا قیام اور ذہین طلبہ کو اسکالر شپ دے کر وکلاء تیار کیے جائیں۔عرصہ دراز سے قید وبند کی صعوبتیں چھیلنے والے وہ لوگ ہیں جو اللہ کے نام لیوا ہیں ۔
گفتگو کا ماحصل یہ ہے کہ عرصہ دراز سے بے گناہ مسلمانوں کی قید نے انہیں ماضی کا غلام بنا دیا ہے چنانچہ انہیں ’’ غلاموں کی گردنیں چھڑاؤ‘‘ کے تحت فی سبیل اللہ کی مد کے تحت لانا چاہیے۔ ان بے گناہوں کو آزاد کرانے کے لیے قانونی لڑائی کے لیے وکلاء بیرسٹروں اور لاء کالجوں کی ضرورت ہے۔ اسی طرح اچھے مستقبل کے لیے میڈیا، نظام عدلیہ اور تفتیشی اداروں کی اصلاح اور انصاف دلانے کے لیے قانونی تعلیمی اداروں کی بھی ضرورت ہے جو میری رائے میں مسلمانوں کے کثیر المالی فنڈ سے قائم کیے جا سکتے ہیں۔
(مضمون نگاردانش گاہ اسلامیہ ہائی اسکول، آسنسول ،کے ڈائرکٹرہیں)

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ یکم اگست تا 7 اگست 2021