مسلمانوں کو انصاف کی امید چھوڑ دینی چاہیے!

دیویندر سنگھ کو ضمانت ملنے سے کس کا گیم خراب نہیں ہوگا؟

سمجھ میں نہیں آتا کہ ”انصاف“ کو مَنوں مٹی تلے دفنا دیں یا غرقِ آب کر دیں؟ کیونکہ بھارت کی موجودہ حکومت میں سوال کرنا، سسٹم پر انگلیاں اٹھانا اور کسی اسکیم پر تبصرہ کرنا غداری کے مترادف بن گیا ہے۔ لوگوں کا حال یہ ہے کہ ان کو ’’جو زبان ملی تو کٹی ہوئی، جو قلم ملا تو بکا ہوا‘‘ اگر آپ کو حب الوطنی کا ثبوت دینا ہے تو مودی حکومت کے ہر اچھے برے فیصلے کو تسلیم کرنا ہوگا۔ لیکن سوال شاذ و نادر ہی سہی آج بھی کیے جا رہے ہیں۔ حال ہی میں بھارتی سپریم کورٹ سے سبک دوش ہونے والے جج جسٹس دیپک گپتا نے کہا تھا کہ ’بھارت میں قانون اور انصاف چند امیر اور طاقت ور لوگوں کی مٹھی میں قید ہے‘ اب دیکھیے نا! بھارت دنیا کو یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتا کہ سب سے اہم عالمی مسئلہ دہشت گردی ہے۔ یہ اپنے آپ میں کافی بُرا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور این ایس اے اجیت ڈوبھال نے پرگیہ ٹھاکر جیسی دہشت گردی کی ملزمہ کو پارلیمنٹ میں بٹھا دیا ہے جب کہ وزیر اعظم مودی کہتے ہیں کہ وہ پرگیہ ٹھاکر کو دل سے معاف نہیں کریں گے۔ یہی وزیر اعظم ہیں اور ان کے وزیر داخلہ ہیں جو دلی پولیس کے کارناموں کے قصیدے پڑھتے نہیں تھکتے، وہ دلی پولیس جو ٩٠ دنوں بعد بھی دہشت گردانہ معاملے میں ملوث پائے گئے دویندر سنگھ کے خلاف چارج شیٹ داخل نہیں کر پائی ہے جس کے نتیجے میں جموں و کشمیر پولیس کے معطل شدہ ڈی ایس پی ملزم دیویندر سنگھ کو جمعہ 19 جون کو ضمانت مل گئی۔ دیویندر سنگھ کو اس سال کے آغاز میں سری نگر جموں شاہراہ پر ایک گاڑی میں حزب المجاہدین کے دو مبینہ دہشت گردوں کو لے جاتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا، آفیسر اور دہشت گردوں کو اس وقت پکڑا گیا، جب یہ تینوں ایک ساتھ ایک کار میں سوار ہو کر کہیں جا رہے تھے۔ پولیس کے مطابق، دیویندر سنگھ کے ساتھ حزب المجاہدین کے دو موسٹ وانٹیڈ دہشت گرد پیچھے کی سیٹ پر بیٹھے ہوئے تھے۔
دیویندر سنگھ جو سری نگر کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اینٹی ہائی جیکنگ اسکواڈ میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کی حیثیت سے تعینات تھا، وہی پولیس افسر ہے جس کے بارے میں 13 دسمبر 2001 کو نئی دہلی میں بھارتی پارلیمنٹ پر ہونے والے دہشت گرد حملے میں مجرم قرار دیے گئے سابق کشمیری عسکریت پسند محمد افضل گرو نے اپنی وکیل کے نام لکھے گئے خط میں کہا تھا کہ اس نے افضل گرو کو ایک اور ملزم محمد کو حملے سے پہلے کشمیر سے نئی دہلی لے جانے اور وہاں اُس کے قیام و طعام کا بندوبست کرنے پر مجبور کیا تھا۔ افضل گرو کو 9 فروری 2013 کو دِلّی کی تہاڑ جیل میں پھانسی دی گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ دیویندر سنگھ نے گرفتاری سے پہلے کہا تھا ’سر، یہ گیم ہے آپ گیم خراب مت کرو‘۔۔۔لیکن دیویندر سنگھ کو گرفتار کیا جاتا ہے اور اسے ضمانت بھی مل جاتی ہے جب کہ گرفتاری کے وقت راہل گاندھی نے کیس کو این آئی اے کے سپرد کیے جانے پر سوال اٹھایا تھا اور ٹویٹ کر کے لکھا تھا کہ "اس پر 6 ماہ کے اندر فاسٹ ٹریک عدالت کے ذریعہ مقدمہ چلایا جانا چاہیے اور اگر وہ قصوروار پایا جاتا ہے تو اس کو غداری کے لیے سخت ترین سزا دی جانی چاہیے۔‘‘ لیکن ایسا نہیں ہوتا ہے۔ ایک طرف سماجی کارکنوں اور طالب علموں سے جیل کو بھرا جا رہا ہے تو دوسری طرف دہشت گردی میں ملوث افراد کو رہا کیا جا رہا ہے۔ صفورا زرگر، خالد سیفی، ڈاکٹر محمد کفیل اور شرجیل امام جیسے نہ جانے کتنے مسلم چہرے ہیں جنہیں مہینوں ہوگئے ضمانت نہیں ملی ہے۔
محتسب سچ سچ بتا خلوت میں کیا سودا ہوا مدعی انصاف سے محروم کیسے ہو گیا