مساوات اور معاشی سلامتی ہی حقیقی جمہوریت ہے

جمہوری اقدار کا تحفظ حکومت کے بس کا روگ نہیں،عوام پربھاری ذمہ داری

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

2007میں ہر سال 15ستمبر کو اقوام متحدہ کے ذریعہ عالمی یوم جمہوریت منانے کا فیصلہ کیا گیا چنانچہ 2008سے ہمارا ملک بھی یوم جمہوریت منارہا ہے۔سبھی رکن ممالک پر لازم ہے کہ وہ تمام طبقوں کی ہمہ جہتی ترقی کو سامنے رکھ کر خصوصی توجہ سے حقوق انسانی کا تحفظ کریں۔ ویسے یوم حقوق انسانی ہر سال 10دسمبر کو ساری دنیا میں منایا جاتا ہے جو متعلقہ ممالک کو انسانی حقوق کے تحفظ کی قدر دانی کی یاد دہانی کراتا ہے۔ اس ضمن میں 2015میں اقوام متحدہ کے ممبر ممالک کو شہریوں کے لیے امن، بقائے باہم اور ہمہ جہتی ترقی کا ہدف دیا گیا ہے۔ یہاں ہمہ جہتی ترقی کا مطلب افلاس اور غربت کے خاتمہ کے لیے اقوام عالم میں خاص لائحہ عمل کے تحت اقدام کرنا ہے جس سے صحت و تعلیم میں بہتری آئے اور عدم مساوات کا خاتمہ ہو۔ ہمارے ملک میں عدم مساوات بہت ہی زیادہ ہے ۔ نیشنل سیمپل سروے کے مطابق کل ہند قرض اور سرمایہ کاری سروے 2019کی رپورٹ کے مطابق ملک کی کل دولت کا نصف سے زائد حصہ اوپر کی 10فیصد آبادی کے ہاتھوں میں آگیا ہے۔ نچلے حصہ کی 50فیصد آبادی کے پاس محض 10فیصد اثاثے ہیں۔ کریڈٹ سوئس کی گلوبل ویلتھ رپورٹ 2018کے مطابق 51.5فیصد دولت ملک کے ایک فیصد امیر ترین لوگوں کے پاس ہے۔ جب تک عدم مساوات کا خاتمہ نہیں ہوگا معاشی ترقی کو ہرگز تحریک نہیں ملے گی۔ اس کے علاوہ آب و ہوا کی تبدیلی سے نمٹنے اور جنگلات کے تحفظ کے لیے بھی کام کرنا ہو گا۔ اس ضمن میں کورونا قہر کی وجہ سے جمہوری اقدار کو سمجھنا زیادہ ہی اہم ہوگیا ہے کیونکہ آج عالمی پیمانہ پر سیاسی، سماجی اور قانونی چیلنجز زیادہ درپیش ہیں۔ بچے جوان، بوڑھے، مردو و خواتین، مفلسوں، اپاہجوں جیلوں میں محبوس لوگوں اور اقلیتوں وغیرہ گویا سبھی طبقے ایسے حالات میں مختلف طرح سے متاثر ہورہے ہیں جیسا کہ وزیراعظم نریندر مودی نے کہا کہ لوگوں کی شراکت داری کے بغیر جمہوریت کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ اس لیے حکومت کو مساوات اور شہریوں کے احترام و اکرام کی تحفظ کے لیے شفافیت اور جواب دہی کے ساتھ کام کرنا ہو گا تاکہ ہمارے منصوبوں میں مذہب، رنگ ونسل ، جنس اور ذات پات کی بنیاد پر تفریق کی گنجائش باقی نہ رہے۔ ہمارے ملک میں اس جہت میں مزید تیزی لانے کی ضرورت ہے کیونکہ ہماری آبادی بہت زیادہ ہے۔ بڑھتی ہوئی غربت کا اشاریہ (Multiple Poverty Index) جس میں تعلیم صحت اور معیار زندگی شامل ہیں ان تمام تر معاملات میں ہماری حالت بہت ہی ابتر ہے۔ عالمی بنیاد پر 107ممالک میں ہم 62 ویں مقام پر ہیں۔ فروغ انسانی کے اشاریہ (Human Development Index) کو بھی پیمانہ مانا گیا ہے جس سے جنسی تفریق کی پیمائش ہوتی ہے۔ جہاں تک مرد وزن کی تفریق کا معاملہ ہے اس میں ہمارا ملک 189ممالک میں 131ویں مقام پر ہے۔ جنسی عدم مساوات میں بھارت سب سے نیچے کے 5 ممالک میں شامل ہے۔ مذکورہ بالا انڈیکسیس کسی نہ کسی طرح سے ہماری خامیوں کو اجاگر کرتے نظر آرہے ہیں۔ ویسے ہمارا ملک کثیرالآبادی والا ملک ہے۔ مختلف طرح کی آب وہوا، تہذیب وتمدن، بود وباش اور خورد ونوش کے ساتھ یہاں لوگ آباد ہیں۔ اس لیے مذکورہ سبھی انڈیکسوں (اشاریوں) کو مناسب جگہوں پر قائم رکھنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ دراصل جمہوریت جمہور کی قوت کو واضح کرتی ہے۔ اس لیے ہمارے دستور میں بھارت کے ایک جمہوری ملک ہونے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ہمارے دستور میں شہریوں کے بنیادی حقوق اور ذمہ داریوں کے متعلق تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔ یہ محض حکومت کے بس کا روگ نہیں ہے کہ وہی ملک کو جمہوریت کی ڈگر پر لے چلے بلکہ تمام شہریوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ جمہوری اقدار کی حفاظت کریں۔ حکومت اور شہریوں کے تعاون سے انسانیت، سماج اور قوم کی تعمیر ممکن ہو گی۔ 2014کے بعد سے یہاں حقیقی جمہوریت کمزور ہوتی جارہی ہے۔ شہریوں کے لیے معاشی اور سماجی سلامتی مفقود ہوتی جارہی ہے کیونکہ جمہوریت کے معنی ہوتے ہیں بحث ومباحثہ اور اختلاف رائے کی آزادی۔ اس میدان میں دائرہ کم سے کم تر کردیا گیا ہے کیونکہ ہمارے یہاں رہنما کم اور حکمراں زیادہ پیدا ہورہے ہیں ۔ بقول ڈاکٹر امبیڈکر حقیقی جمہوریت دراصل معاشی جمہوریت (Economic Democracy) ہے جس کی ابتدا سبھوں کے لیے معاشی سلامتی سے ہوتی ہے جو محض انکم ٹرانسفر پروگرام کے ذریعہ ممکن نہیں ۔ غربا اور مفلسوں کو ہم رفاہی اثاثہ ہی تصور نہ کریں بلکہ وہ خریدار ہیں، متحرک پیداوار کنندہ ہیں اور اچھے کاروباری ہیں اوریہ اسی وقت ممکن ہے جب حکومت انہیں معاشی پیکیج دے کر متعلقہ میدانوں میں سرگرم رکھے۔ منریگا کے ذریعہ کام، اجرت والا روزگار (Wage Employment) ہی نہ دیا جائے بلکہ اس کے ذریعے غربا اپنے اثاثوں کی بنیاد تیار کرسکیں اور اپنے کاروبار شروع کرسکیں خواہ انفرادی طورسے کریں یا مل جل کر اجتماعی حیثیت سے۔ اس میدان میں سی کے پرہلاد کی بہترین مثال ہے جس نے نیچے سے اوپر کی طرف جست لگائی۔ نوبل انعام یافتہ بنگلہ دیش گرامین بینک کے بانی محمد یونس کے مطابق غربا دراصل ہمارے فطری کاروباری شراکت دار ہیں۔ انہیں محض ریاست کی فلاحی اسکیموں پر تکیہ کرنے والے حاشیے کے لوگ شمار نہ کیا جائے بلکہ وہ اچھی پیداواری صلاحیت کے حامل ہوسکتے ہیں، ان پر بھروسہ کیا جانا چاہیے۔ اس طرح امیر وغریب کے درمیان عدم مساوات اور تفریق کو کم سے کم کر کے حقیقی جمہوریت کی تعمیر کرسکتے ہیں۔ ایسے لوگ جو غربت سے جنگ کر کے آگے بڑھ رہے ہیں ان کی ہمت افزئی کی جانی چاہیے۔
***

 

***

 ’’غربا دراصل ہمارے فطری کاروباری شراکت دار ہیں۔ انہیں محض ریاست کی فلاحی اسکیموں پر تکیہ کرنے والے حاشیے کے لوگ شمار نہ کیا جائے بلکہ وہ اچھی پیداواری صلاحیت کے حامل ہوسکتے ہیں ان پر بھروسہ کیا جانا چاہیے۔‘‘(ماہر معاشیات محمد یونس)


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 26 ستمبر تا 02 اکتوبر 2021