مداہنت یا مزاحمت

خوف کی نفسیات سے بچیں او رملّت کو بچائیں

ایاز احمد اصلاحی

13 نومبر کو اعظم گڑھ میں سی ایم یوگی کی انتخابی ریلی تھی جس میں سرکاری ضلع انتظامیہ اور پولیس کے ڈر اور دباؤ کی وجہ سے بڑے مدارس نے نہ صرف اپنے یہاں تعطیل کا اعلان کیا بلکہ پولیس افسروں کے کہنے پر اپنے اپنے مدرسوں کی بسیں بھی انہیں اس ریلی میں بھیجنی پڑیں۔ بنگلہ دیش میں فساد ہوا تریپورہ میں کمزور ولاچار مسلمانوں پر اس کا غصہ نکالا گیا، ہند وپاک کے درمیان ہوئے حالیہ ٹی ٹونٹی کرکٹ مقابلے میں پاکستان کی جیت پر خوشی ظاہر کرنے کی پاداش میں چند کشمیری نوجوانوں کو یو اے پی اے کے تحت گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا یہاں تک کہ یو پی کے وزیر اعلیٰ نے ایسے تمام لوگوں کو "غدار” کے زمرے میں رکھ کر انہیں دھمکی آمیز پیغام دیا اور کوئی نہیں پوچھ سکا کہ کھیل میں کسی غیر ملکی کھلاڑیوں کی جیت کو چییر کرنا اگر جرم اور غداری ہے تو ایک غیر ملکی کوچ خود اپنے ہی ملک کی کرکٹ ٹیم کے خلاف کسی دوسرے ملک کے کھلاڑیوں کی کوچنگ کیونکر کر سکتا ہے؟ اور کسی ملک کا سربراہ اپنے ہی ملک کی ٹیم کو ہرانے والی کسی غیر ملکی ٹیم کو اپنے ہاتھوں ٹرافی کس بنیاد پر دے سکتا ہے؟ خاص طور سے اس قوم کے لوگ تو اس طرح کے سوالات بالکل نہیں پوچھ سکتے یا پوچھنے کی ہمت دکھا سکتے ہیں جو مسلمان ہیں اور جنہیں ہر موڑ پر اپنی وطن دوستی کا ثبوت دینا پڑتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی ہمت دکھانے کا مطلب مزید گرفتاریاں، مزید اذیتیں اور مزید مظالم۔ جنہیں عافیت مطلوب ہوتی ہے وہ خاموش رہ کر ہر سرکاری وغیر سرکاری لاقانونیت اور ذلت سہ جاتے ہیں اور جنہیں عزت نفس اور اپنا نظریہ زندگی عزیز ہوتا ہے وہ آزمائشوں کو دعوت دینے سے نہیں ہچکچاتے۔
یہ تو بس حالیہ واقعات کی کچھ جھلکیاں ہیں جو ہندوستانی مسلمانوں کے مشکل ایام کی طرف اشارہ کرنے کے لیے کافی ہیں اور یہ بتانے کے لیے بھی کافی ہیں کہ یہاں مسلمان کو مسلمان ہونے کی سزا دینے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جا رہی ہے۔ یہ عجیب ستم ظریفی ہے اور عجب اضطرابی حالات ہیں جن کا ہمیں سامنا ہے۔ ایک طرف اپنوں کی پسپائی ہے اور دوسری طرف ظالم وجابر قوتوں کا بڑھتا حوصلہ ہے۔
آخر اس زندگی کی کون سی تعریف کی جائے جس میں لہو کو نہ تو رگ جاں میں دوڑنے کی اجازت ہے اور نہ اسے خون جگر بن کر آنکھوں سے ہی ٹپکنے دیا جا رہا ہے۔ یہ ستم ظریفی اس وقت ایک دل فگار المیہ یا اجتماعی موت بن جاتی ہے جب اس کا سامنا کرنے والے استقلال وثابت قدمی دکھانے اور زندگی کی عملی تعریف شہادت گہ الفت میں پیش کرنے سے گریزاں ہونے لگتے ہیں۔ یہ اجتماعی موت اس وقت آتی ہے جب دلوں کے سرطان یعنی نفاق کی وجہ سے کسی قوم کی اجتماعی زندگی قوت مدافعت سے محروم ہو جاتی ہے۔
قوموں کی زندگی نہ تو محض ’’عناصر کی ترکیب‘‘ ہے اور نہ ان کا انتشار اس کی موت بلکہ اصل زندگی وہ ہے جو آزمائشوں میں پورا اترنے اور اپنے مشن اور موقف سے عہد وفا نبھانے کے لیے شہادت گہ الفت و وفا میں ترکیب پاتی ہے اور ان کی اصل موت وہ ہے جو خدا کے خوف پر انسانوں کا خوف غالب آنے سے ہوتی ہے اور بالآخر یہ خوف ان کے اندر جذبہ مزاحمت اور ظلم وناانصافی کے خلاف جدوجہد کرنے کی قوت ختم کرکے باطل کا لقمہ تر بنا دیتا ہے اور ان کی آئندہ نسلوں کے نصیب میں صرف ذلت وپستی رہ جاتی ہے۔ جب کسی قوم میں یہ دن آجائے تو جان لیجیے کہ اب فاتحہ پڑھنے کا وقت آگیا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ مظلوموں کا ردعمل کیا ہو؟ ایک موقف یہ ہے کہ جب انہی حالات میں ہمیں صبح و شام کرنی ہے تو زیادہ دانشمندانہ رویہ یہ ہے کہ غالب طاقتوں سے سمجھوتہ کرلیا جائے اور ان کی قوم پرست ونسل پرست خواہش کے مطابق خود کو ڈھال لیا جائے، چاہے اس کے لیے مسلم بچوں کو اسکولوں میں ‘سوریہ نمسکار’ کرکے جینا پڑے یا فسطائیت کے حکم پر مسلم نوجوانوں کو "جے شری رام” بول کر زندگی گزارنی پڑے، یا طاغوت کو طاغوت کہنے اور سمجھنے سے خود کو باز رکھنا پڑے۔ بلکہ بعض تو اس سے بھی آگے نکل کر حالات کے تقاضے کی پیروی میں تہذیبی ودینی مداہنتوں کا شرعی جواز فراہم کرنے کے بھی قائل ہوگئے ہیں اور اسی کے لیے شب وروز عرق ریزی کر رہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں دوسرا موقف یہ ہے کہ وہ تمام چیزیں جو سرکاری وغیر سرکاری سطح پر مسلم قوم سے چاہی جا رہی ہیں یا ان پر بطور سزا مسلط کی جارہی ہیں اور وہ بحیثیت ملت ان کے لیے ناقابل قبول ہیں انہیں نہ صرف بلا خوف وخطر رد کر دیا جائے بلکہ پورے عزم وحوصلے کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا جائے اور ہر مرحلے پر ظلم ونا انصافی کے خلاف مزاحمت کی جائے۔ اس موقف کی دلیل یہ ہے کہ اس سے ایک طرف مسلمانوں یا کسی بھی مظلوم قوم کے اندر زندگی کی رمق باقی رہتی ہے جس کے ہوتے ہوئے وہ پوری طرح مرنے یا پسپا ہونے سے بچی رہتی ہے اور دوسری طرف فسطائی قوتیں بھی اسے نرم نوالہ بنانے کی غلط فہمی میں مبتلا نہیں رہتیں۔ اس فکر وعمل کے علم برداروں کا اس بات پر یقین کامل ہے کہ موجودہ حالات جتنے بھی مخالف ہوں بھارتی مسلمان بس اسی راہ پر چل کر اپنی تہذیبی شناخت کے ساتھ زندہ رہ سکتے ہیں۔
موجودہ حالات میں توقع یہی ہے کہ تحریک اسلامی سمیت مسلمانوں کا تمام زندہ وبیدار طبقہ اسی دوسرے رویے کو اختیار کرے گا اور اسی کے مطابق بھارت میں اپنا مقام طے کرے گا۔ لیکن اس کے لیے کچھ کمزور جہتوں (Grey Areas) اور غیر مثالی طرز عمل سے حد درجہ ہوشیار رہنا پڑتا ہے جن کا ذکر یہاں ضروری ہے۔
بحیثیت قوم وملت اپنے محسوس اور مخصوص وجود کی بقا کے لیے جدوجہد کرتے رہنے کے عظیم فائدے اور اثرات سے تو ہر قوم کے لوگ بخوبی واقف ہوتے ہیں لیکن اسے چھوڑ دینے کے بھیانک نقصانات اور نسلوں تک رلانے والے نتائج سے وہ قوم بالعموم غفلت برتنے لگتی ہے جو مسلمانوں کی طرح پستی وپسپائی کی طرف بڑھ رہی ہو اور ان کی ملی قوت وقت کی پے در پے مار سے کھوکھلی ہونے لگی ہو۔ یاد رہے کہ اس غفلت میں اس کی ناواقفیت سے زیادہ اس کے تجاہل اور گریز کا رول ہوتا ہے۔
قوموں کی زندگی میں یہ تباہ کن مرحلہ اس وقت آتا ہے جب ان کے اندر تین نا مطلوب تبدیلیاں تیزی سے رونما ہونے لگتی ہیں۔ ان کے اندر پہلی عام تبدیلی اپنے فروتر اقدامات اور بزدلانہ فیصلوں کی بے جا تاویل وتوجیہ کی عادت کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے، وہ حالات کے دباؤ اور مشکل گھاٹیوں کی چڑھائی سے بچنے کے لیے اپنے ہی باندھے ہوئے عہد وفا اور اپنے ہی بنائے ہوئے اصولوں سے دست بردار ہونے لگتی ہیں لیکن عام لوگوں کو اس تبدیلی کا احساس نہیں ہوتا یا تھوڑا بہت ہوتا بھی ہے تو بہت بعد میں، کیونکہ انہیں توجیہات اور مصلحتوں کی پیچیدہ تہوں میں بڑی عیاری سے چھپا لیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا گناہ ہے جس کا نام قرآن کریم کی زبان میں کتمان علم اور کتمان حق دونوں ہے۔ یاد رکھیے اگر کتمان حق نہ ہو تو قوم یا امت یا جماعت کا سواد اعظم کبھی ایسی کسی تبدیلی کے لیے تیار نہ ہو جو مقصد سے انحراف یا دین سے سرتابی کے زمرے میں آتی ہو۔ اپنے اصولوں سے انحراف اور ان کی من پسند تاویل وتوجیہ کا یہی وہ مرض ہے جو آگے جاکر یہود ونصاریٰ کی طرح قوموں یا کسی قوم کے مختلف گروہوں کو لفظی نہیں تو کم سے کم معنوی تحریف کا خوگر بنا دیتا ہے۔ جب کوئی قوم اس سرخ لکیر تک پہنچ جاتی ہے تو اس کے دست تاویل سے صحف سماوی کے کلمات اور اپنے دستور حیات کی دفعات بھی محفوظ نہیں رہ پاتیں۔ پستی میں مبتلا کسی قوم میں دوسری تبدیلی خود فریبی کی شکل میں نمودار ہوتی ہے، یہ ایک بڑی ہلاکت خیز بیماری ہے، اسے قرآن کی زبان میں دل کا مرض یا نفاق کہا گیا ہے، یہ کسی قوم کے افراد اس وقت کرتے ہیں جب وہ فکری وعملی طور سے مداہنت کی راہ پر چل پڑتے ہیں۔ اس اجتماعی مداہنت کی وجہ سے وہ سب سے پہلے اپنے جرائم کو خیر جوئی اور اپنے ضعف قلب کو اصلاح پسندی کا نام دے کر اولاً خود اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے بعد وہ یہی نسخہ زہر انگیز دوسروں پر آزما کر انہیں اپنا ہمنوا بناتے ہیں اور اپنی باطل تاویلات سے حق سے گریز کو کوئی خوشنما عنوان دے کر اپنی کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مداہنت اور خود فریبی کا یہ سلسلہ انہیں یہاں تک پہنچا دیتا ہے کہ وہ حق سے انحراف اور متعین مقاصد سے متضاد رویہ کھلی آنکھوں سے اپنانے لگتے ہیں اور کچھ دنوں کے بعد ان کا ضمیر بھی احتجاج کرنا بند کر دیتا ہے۔ اس طرح دھیرے دھیرے ان کا رخ مشرق سے مغرب کی طرف پھر جاتا ہے لیکن وہ دوسروں کو اور خود اپنے نفس کو یہی سمجھاتے رہتے ہیں کہ ہم تو پہلے جیسے ہی ہیں اور پہلے کے طرح ہی اپنی پرانی راہ (بزعم خود حق) پر قائم ہیں۔ ان کا یہ تحویل قبلہ عملاً ممکن ہی نہ ہو اور ضمیر کو سلانے کا ان کا کوئی داؤ کارگر ہی نہ ہو اگر وہ اولین مرحلے میں خود کو دھوکا نہ دے سکیں۔ یہی خود فریبی ہے جو ایک قوم کو بالا سے پست اور اعلی سے ادنیٰ کر دیتی ہے اور انہیں اصلاح سے فساد اور داخلی قوت سے داخلی ضعف کی طرف پھیر دیتی ہے، لیکن انہیں کبھی اس کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ تیسری منفی تبدیلی جو قوموں کی پستی وہلاکت کا سبب بنتی ہے اس کی جڑیں خوف کی نفسیات میں بڑی گہری اتری ہوئی ہوتی ہیں بلکہ پہلی دو منفی تبدیلیوں یعنی انحراف اور معنوی تحریفات تک لے جانے والی مداہنت و مفاہمت اور خود فریبی کا سبب بھی بڑی حد تک یہی تبدیلی ہے۔ جب کوئی قوم اپنے فیصلے خوف کی بنیاد پر کرنے لگتی ہے تو بحیثیت قوم اس کا وجود عزت و وقار کے تاج سے بہت جلد محروم ہو جاتا ہے۔ جیسے جیسے دوسری طاقتوں کا ڈر اس کے دل میں جگہ بنانے لگتا ہے وہ عافیت سے رہنے کی غرض سے کڑے اقدامات اور آزمائشوں سے بھاگنے لگتی ہے، اس کی وجہ سے ممکن ہے وقتی طور سے اس کے جان ومال کو تحفظ مل جائے اور اس کے خیموں کی طنابوں کو اکھاڑا نہ جائے لیکن اس کے قومی تشخص اور ملی و تہذیبی وجود کی اساس زمیں بوس ہونے لگتی ہے۔ مشکل حالات میں اس خوفزدہ قوم کے عوام وخواص سبھی مقابل قوتوں سےخوف کھانے لگتے ہیں۔ لیکن اپنی اندرونی دہشت زدگی کو چھپانے کے لیے تاویل وتوجیہ کا سہارا لیتے ہیں۔ یہ خوف اور خوف زدہ تاویل بازی قرآن کے اسلوب میں ایک ایسا شیطانی حیلہ ہے جن کا وہ اپنے چہیتوں یعنی کمزورں اور بزدلوں پر بڑی کامیابی سے استعمال کرتا ہے، جبکہ اللہ کا حکم اور شرط ایمان ہے کہ مومن دشمنان دین سے نہیں صرف اس سے ڈرے۔ ( آل عمران: ۱۷۵)۔ جوں جوں خوف کی یہ کیفیت قوم میں گہری ہوتی جاتی ہے اس قوم کے لوگ اپنے خوفزدہ نفسیات سے اپنے لیے سب کچھ بند سرنگ کی طرح محسوس کرنے لگتے ہیں اور آگے روشنی کی دنیا تک پہنچنے کی ہر ممکنہ کاوش اور کشمکش چھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ قوموں کی زندگی میں طوفانوں کا آنا عین ممکن ہے، لیکن طوفان خود سے ٹلتے نہیں بلکہ انہیں شکست دے کر ان کا رخ پھیر دینا پڑتا ہے اور زندہ و با حوصلہ قومیں ان کے سامنے شکست خوردہ حالت میں سپر نہیں ڈالتیں بلکہ ان کا مقابلہ کرکے اپنے وجود کو باقی رکھتی ہیں۔ خوف کا علاج فرار نہیں بلکہ خود کو دشمن قوتوں سے آزما کر اس سے نجات حاصل کرنا ہے۔ لیکن پست وشکست خوردہ قوموں سے ان کی خوفزدہ نفسیات وہ جرأت و جواں مردی اور ہر وہ اخلاقی خوبیاں چھین لیتی ہے جو انہیں آزمائشوں میں ثابت قدم اور ظلم وستم کے سامنے سینہ سپر رکھ سکتی ہیں۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ خوف کی حالت میں انسان کبھی ایسے فیصلے نہیں کر پاتا جو اسے رفعت وبلندی کی طرف لے جاتے ہیں اور اس کے ہوتے ہوئے وہ مخالف عناصر سے ٹکرا کر کبھی اپنی اصل قوت کو پہچان نہیں پاتا۔ حالانکہ اس خوفزدہ قوم کے لیے یہ عین ممکن ہے کہ اس کا ایک جرأت مندانہ فیصلہ اور اس کا کوئی ایک بے خوف اقدام اسے خوف ہی نہیں اس کے اندرونی ضعف سے نجات دلا کر اس کی تقدیر بدل دے۔
بے شک جبر وجور کی وجہ سے کیے جانے والے کسی فیصلہ یا عمل کی بہت سی تاویلات و توجیہات کی جاسکتی ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ خدا پر بھروسہ ہو تو تمام طرح کی مشکلات اور پیچیدہ حالات سے مقابلہ ہر حال میں کیا جا سکتا ہے۔ کچھ پانے کے لیے کچھ کھونے اور مادی نقصانات اٹھا کر خدا کے باغیوں اور نافرمانوں کی نافرمانی کرنے کی راہ پر چلنا یقیناً بہت پر خطر ہے لیکن آزمائشوں میں کامیاب ہونے اور ظالموں کو شکست دینے کا اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں ہے۔ یہی وہ مناسب ترین اور مستقبل آگاہ طریقہ ہے جو قوم کی آئندہ نسلوں کو مایوسی وپست ہمتی اور تھڑدلی و بے حوصلگی سے بچا سکتا ہے اور یہی وہ نسخہ کیمیا ہے جو انہیں مضبوط اعصاب کے ساتھ حالات سے نبرد آزما ہونے پر آمادہ کرسکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے اوپر بیان کی گئی تینوں منفی عادتوں یا قومی سطح پر ظاہر ہونے والی مریضانہ علامتوں کو ختم کرنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کسی وبائی مرض پر قابو پانا۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  21 نومبر تا 27 نومبر 2021