ما بعد کورونا تعلیم کی تصویر

ویکسین کی دریافت تک والدین بچوں کو اسکول بھیجنے تیار نہیں

خالد پرواز ، بھالکی

کورونا وائرس یعنی کوویڈ19نے دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے زیادہ ہلچل مچائی ہے۔دنیا کا کوئی گوشہ اور زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جو اس سے متاثر نہ ہوا ہو۔اس ان دیکھی اور انجان مخلوق نے قدرت کے سامنے حضرتِ انسان کی بے بسی کو عیاں کر دیا ہے۔اس وائرس کو ختم تو نہیں کیا گیا لیکن اس ساتھ زندگی گزارنے کا مشورہ ضرور دیا جا رہا ہے۔ماہرین کہتے ہیں زندگی جو کورونا وائرس کی آمد سے پہلے تھی اب ویسی نہیں رہے گی۔اس کے نقصانات اور اثرات کا اندازہ لگایا جا رہا ہے لیکن سب سے پہلے جو شعبہ متاثر ہوا وہ شعبہ تعلیم تھا۔ملک بھر میں لاک ڈاون سے دس دن قبل ہی تمام تعلیمی اداروں کو بند کر دیا گیا۔سارے امتحانات کو ملتوی کردیا گیا۔سی بی ایس سی اور تمام ریاستوں کے تعلیمی بورڈز نے اول تا نہم جماعت کے تمام طلبہ کو امتحان کے بغیر ہی پاس کیا، یونیورسیٹیوں نے تمام تعلیمی سرگرمیاں روک دیں اور گریجویشن سال اول اور دوم میں تعلیم حاصل کر رہے طلبہ کو پاس کر دیا گیا۔تمام طرح کے پروفیشنل کالجس اور یونیورسٹیوں کے داخلہ امتحانات کو ملتوی کر دیا گیا۔اپریل اور مئی کے مہینے طلبہ کے لیے فصل کی کٹائی کے مہینے ہوتے ہیں،سال بھر کی محنت یا کئی سالوں کی محنت کے بعد طلبہ نئے درجوں میں پہنچتے ہیں یا معاشی میدان میں قدم رکھتے ہیں،عین اس موقع پر ان کے قدموں کو روکنا یقیناً ان کے لیے نقصان کا باعث بنا ہوگا۔
کورونا وائرس کے اس وبائی دور میں تعلیمی شعبہ کی نوعیت اتنی حساس کیوں ہے؟اس کی حساسیت، طلباونوجوانوں کی اہمیت ،عمر اور ملک کے مستقبل کے حوالے سے ہے۔چونکہ تعلیمی اداروں میں طلباء مختلف گھروں اور محلوں سے آتے ہیں۔اگر وائرس یہاں پھیلتا تووائرس کے معاشرتی پھیلاؤ کو روکنا مشکل ہو جاتا ہےاس لیے سب سے پہلے تعلیمی اداروں کوبند کیا گیا۔تین ماہ بعدبھی تعلیمی ادارے کھلنے پر غیر یقینی صورت حال برقرار ہے ۔یونین منسٹر رمیش پوکھریال نے بیان دیا ہے کہ تعلیمی اداروں کی کشادگی کا فیصلہ اگست میں کیا جائے گا۔سرپرستوں کی رائے جمع کی جارہی ہے،ماہرین سے مشورے کیے جا رہے ہیں کہ ان کو کب اور کیسے شروع کیا جائے۔ تعلیمی اداروں کی اور طریقہ تدریس کی نوعیت کیا ہوگی وہ کونسے طریقے ہوں گے جس سے طلبہ کو اس وائرس سے محفوظ رکھا جائے۔مرکزی اور ریاستی ادارے اس کے لیے رہنمایانہ خطوط تیار کر رہے ہیں کہ کس طرح یہاں محفوظ فاصلہsafe distance برقرار رکھا جائے۔طلبہ کے لیے الگ الگ دن مقرر کرنے پر غور ہورہا ہے۔ نصف تعداد ہفتہ میں تین دن اسکول آئے اور نصف تعداددوسرے تین دن اسکول آئے۔ان تین دنوں میں بھی کچھ جماعتیں صبح کی شفٹ میں اور کچھ جماعتیں دوپہر کی شفٹ میں چلیں گی۔اور اس بات کی بھی کوشش ہو رہی ہے کہ اسکولی نصاب میں بھی تخفیف کی جائے۔
یو جی سی نے دو پیانل کمیٹیوں کی تشکیل کی ہے ایک کمیٹی کی قیادت ہریانہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر آر سی کوہد کر رہے ہیں انہوں نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ یونیورسٹوں کو ماہ ستمبر میں شروع کیا جائے۔دوسری کمیٹی جس کی قیادت اگنو کے وائس چانسلر ناگیشور راؤ کر رہے ہیں امتحانات کے طریقوں پر اپنی رپوٹ حکومت ہند کو روانہ کرےگی۔وزارت فروغ انسانی وسائل ان کا مطالعہ کر کے ایک دو ہفتوں میں اس بابت رہنمایانہ خطوط جاری کرے گی۔ اس دوران آن لائن تعلیم پر بھی گفتگو چل رہی ہے۔اس کے مثبت اور منفی پہلو پر غور وغوض ہو رہا ہے۔اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اس کی شروعات ہو گئی ہے۔جہاں استاد انٹرنیٹ کی مدد سے تعلیم دے رہے ہیں۔کیا تمام طلبہ کو اس کی سہولت ہے کہ وہ اسمارٹ فون کی مدد سے تعلیم حاصل کر سکیں۔کیا اس طرح کے کلاسس موثر ہوسکتے ہیں،ان کے اثرات کا حساب تو سا ل کے اختتام پر ہی لگایا جا سکتا ہے۔
ان حالات کے کچھ مثبت پہلو بھی ہیں۔اس میں سب سے اہم یہ ہے کہ طلباء کو امتحان کے بغیر ہی پاس کیا گیا۔پورے ملک میں اول تا نہم جماعت اور گریجوشن کے اول اور دوم سال کے طلباء کو یہ سوغات کسی نعمت سے کم نہیں۔کئی ریاستوں میں دسویں کے امتحانات بھی منسوخ ہو رہے ہیں۔ تعلیمی ماہرین کا کہنا ہے کہ تعلیم، امتحان مرکوز نہیں ہونا چاہیے، صرف امتحانات کی تیاری مقصد نہیں ہونا چاہیے بلکہ طلباء میں مہارت وصلاحیت پیدا کرنا اس کا مقصد ہونا چاہیے۔ چونکہ امتحانات آج یادداشت تک مرکوز ہو گئے ہیں اور طلبا صرف رَٹّا مار کر بغیر سمجھے امتحان کی تیاری کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اس دوران شدید دباؤ سے گزرتے ہیں جس کے نتیجے میں بعض طلبا فیل ہوتے ہی خود کشی کرلیتے ہیں اور بعض فیل ہونے کے خوف سے خود کشی کر لیتے ہیں۔
دوسرا مثبت پہلو یہ ہے کہ طلباء اور اساتذہ میں e-learning اور ٹکنالوجی کی مدد سے سیکھنے کا رجحان بڑھا ہے۔ گوگل، یو ٹیوب،اور وہاٹس اپ کا اس ضمن میں استعمال ہو رہا ہے۔ کئی تعلیمی ایپسApps اور کئی اجتماعی پلیٹس فارم مہیا ہو گئے ہیں۔جن کی مدد سے تعلیمی عمل تیز ہو رہا ہے۔بچوں میں خود احتسابی self learningکا موقع ملا ہے لاک ڈاؤن کے دوران کئی کتابیں پڑھنے اورکئی طرح کی سرگرمیوں میں حصہ لینے اور کھیلنے کا ذوق پروان چڑھا ہے۔والدین بھی بچوں کو مصروف رکھنے کی طرف راغب ہوئے ہیں۔ وہ بھی ان کو پڑھانے اور ان کی تعلیمی حالت درست کرنے کی فکر کر رہے ہیں اس طرح ہوم اسکولنگ کی شروعات ہوئی ہے۔
ایک سروے کے مطابق ان حالات میں 70فیصد والدین بچوں کو اسکول بھیجنے کے مخالف ہیں۔اور بارہ فیصد احتیاطی تدابیر کے ساتھ بچوں کو اسکول بھیجنا چاہتے ہیں۔کچھ والدین no vaccine no schoolکی مہم چلا رہے ہیں اور کچھ کا کہنا ہے اس تعلیمی سال کو صفر تعلیمی سال(zero acadamic year) قرار دیا جائے۔اور اس سال کوئی اسکول نہ ہو غرض الگ الگ رائیں آ رہی ہیں۔کورونا وائرس کے اثرات کم ہونے یا ختم ہونے کے بعد تک حالات میں اور کیا کیا تبدیلیاں آئیں گی اور تعلیم کی اصل تصویر کیسی ہوگی یہ تو وقت ہی بتائے گا ۔ فی الحال تعلیمی شعبہ پر غیر یقینی کیفیت چھائی ہوئی ہے۔اولیائے طلباء خوف میں مبتلا ہیں اور اساتذہ انتظار میں ہیں اور بچے ٹی وی اور موبائل فون کے حوالے ہو گئے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ والدین اور اساتذہ ان بچوں کو کس طرح مثبت سرگرمیوں میں مصروف رکھتے ہیں اور حکومت ان کے لیے کیا لائحہ عمل تیار کرتی ہے۔ان ہی تمام باتوں سے ملک کی تعلیمی تصویر بنے گی۔
***


 

طلباء اور اساتذہ میں e-learning اور ٹکنالوجی کی مدد سے سیکھنے کا رجحان بڑھا ہے۔ گوگل، یو ٹیوب،اور وہاٹس اپ کا اس ضمن میں استعمال ہو رہا ہے۔ کئی تعلیمی ایپسApps اور کئی اجتماعی پلیٹس فارم مہیا ہو گئے ہیں۔