لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب وجگر

تحریکی زندگی میں خواتین کی رفاقت

ڈاکٹر سید محی الدین علوی، حیدرآباد

 

تحریک اسلامی میں خواتین کا اہم رول ہوتا ہے۔ وہ اپنے شوہروں کے لیے رفیقِ کار ثابت ہوتی ہیں۔ یہاں دو واقعات بیان کیے جاتے ہیں ۔
مولانا عبد العزیز مرحوم کی شخصیت اور راہ حق میں صبر و ثبات اور بے شمار قربانیوں سے کون واقف نہیں ہے۔ انہوں نے دین حق کی سر بلندی کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور اعلائے کلمتہ اللہ ہی ان کا نصب العین تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وادی ہدیٰ منتقل ہونے سے قبل جب وہ آندھرا پردیش کے امیر حلقہ تھے تو وجے واڑہ میں اپنی رہائش کے لیے ایک جھونپڑا پسند کیا اور گزر بسر کے لیے ایک چھوٹی سی کرانہ کی دکان لگا لی۔ ہوا یہ تھا کہ مولانا کی قابلیت کے لحاظ سے ان کو گورنمنٹ کے محکمہ تعلیمات میں ٹیچر کا پوسٹ ملا تھا۔ مولانا اس زمانے میں بی اے پاس تھے جب کہ کوئی اگر مڈل بھی پاس ہوتا تو اسے سرکاری نوکری مل جاتی تھی لیکن مولانا کی یہ سرکاری ملازمت کچھ زیادہ دن نہیں چلی کیونکہ وہ جماعت اسلامی کے رکن تھے اور رکنِ جماعت کے لیے سرکاری ملازمت ممنوع قرار دی گئی تھی۔ جب حکومت کی طرف سے وارننگ ملی کہ اگر ملازمت میں رہنا ہے تو جماعت اسلامی کو چھوڑنا ہوگا تو انہوں نے ملازمت چھوڑ دی اور جماعت کی رکنیت کو برقرار رکھا۔ لیکن کسبِ معاش کا معاملہ درپیش ہوا تو مولانا فکر مند ہوئے لیکن ان کی اہلیہ محترمہ نے ڈھارس بندھائی اور کہا کہ آپ اس بابت کچھ فکر نہ کریں۔ یہ کہہ کر انہوں نے اپنے تمام زیورات اپنے شوہر کی خدمت میں پیش کر دیے اور کہا کہ انہیں فروخت کر دیں اور حاصل شدہ رقم سے کرانہ کی دکان لگالیں۔ چنانچہ مولانا نے ایسا ہی کیا اور وجئے واڑہ میں ایک چھوٹی موٹی کرانہ کی دکان کھول لی اور ایک جھونپڑے میں رہنے لگے۔ مولانا کی تحریکی زندگی بڑی شاندار رہی اور یہ سب کچھ ان کی اہلیہ محترمہ کی بے لوث رفاقت اور قربانیوں کی وجہ سے ممکن ہوا جو خود اعلیٰ درجے کے علمی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔
مولانا عبدالعزیز مرحوم نائب امیر جماعت اسلامی ہند بنے لیکن اس سے پہلے ہی جب وہ آندھرا پردیش کے امیر حلقہ تھے اپنی سحر انگیز خطابت سے عرب ممالک کے علاوہ برطانیہ اور امریکہ میں مختلف اجلاسوں میں نوجوانوں اور دانشوروں میں ایک جوش اور ولولہ پیدا کر دیتے تھے۔
مولانا عبدالعزیز مرحوم کو راہِ حق میں چلتے ہوئے جیل کی صعوبتوں سے بھی گزرنا پڑا چنانچہ دو بار انہیں پابند سلاسل کیا گیا۔ ایک بار تو انہیں جیل میں مولانا ابواللیث اصلاحی رحمة اللہ علیہ کی رفاقت بھی حاصل ہوئی۔ لیکن مولانا نے اسیری کی مشقتوں کو مردانہ وار گوارا کیا اور اف تک نہیں کہا۔ اللہ تعالی ہماری تمام خواتین میں بھی ایسی ہی اسپرٹ پیدا کرے کہ وہ دین اسلام کی آبرو کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھیں۔ آمین۔
آج بھی ہو ابراہیم سا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
ایک اور مثال بیگم مودودی کی بھی ہے جو اپنی ذات میں ایک انجمن تھیں۔ ان کا نام محمودہ بیگم تھا لیکن وہ بیگم مودودی کے نام سے زیادہ مشہور ہوئیں۔
ایک بار مولانا مودودی علیہ الرحمہ نے تحریک اسلامی کی مسلسل کامیابیوں کا کریڈٹ انہی خاتون کو دیا تھا۔ 1953 میں قادیانی مسئلہ نامی کتابچہ لکھنے پر مولانا مودودیؒ کو سزائے موت سنائی گئی۔ اگر ہم جیسے ہوتے تو گھر میں چولھا بھی نہیں سلگتا۔ لیکن بیگم مودودی ہرگز مایوس نہیں ہوئیں اور روز کی طرح اس دن بھی انہوں نے اپنی لڑکیوں کو اسکول جانے کے لیے تیار کیا اور صاف ستھرے یونیفارم میں اسکول کو روانہ کر دیا۔ اسکول کی ہیڈ مسٹریس جو ایک کرسچین خاتون تھیں دنگ رہ گئیں اور کہنے لگیں کہ ان لڑکیوں کی ماں کو دیکھو کہ وہ کیسی ہمت والی خاتون ہیں کہ ان کے والد کو سزائے موت سنائی گئی ہے اور انہوں نے آج بھی اپنی لڑکیوں کو یونیفارم میں اسکول بھجوایا ہے۔
مولانا مودودیؒ کا انتقال ہوا تو ہر آنکھ اشکبار تھی۔۔ عورتوں کا تو بہت برا حال تھا۔ جو خاتون بھی آتیں وہ روتے ہوئے آتیں اور آنسو تھے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ لیکن انہیں حیرت اس وقت ہوتی جب یہ دیکھتیں کہ بیگم مودودی اس سانحہ کے وقت بھی صبر و تحمل کی تصویر بنی ہوئی تھیں۔۔ بیگم مودودی ہر ایک کو دلاسا دے کر چپ کرارہی تھیں اور کہہ رہی تھیں کہ یہ اللہ کی مرضی ہے اور ہم اس کے فیصلے پر راضی ہیں۔ بیگم مودودی کی تلقین پر خواتین نے آہ و بکا کرنا ترک کر دیا اور اپنے آنسو پونچھ لیے۔

مولانا عبد العزیز مرحوم کی شخصیت اور راہ حق میں صبر و ثبات اور بے شمار قربانیوں سے کون واقف نہیں ہے ۔جب حکومت کی طرف سے وارننگ ملی کہ اگر ملازمت میں رہنا ہے تو جماعت اسلامی کو چھوڑنا ہوگا تو انہوں نے ملازمت چھوڑ دی اور جماعت کی رکنیت کو برقرار رکھا۔ لیکن کسبِ معاش کا معاملہ درپیش ہوا تو مولانا فکر مند ہوئے لیکن ان کی اہلیہ محترمہ نے ڈھارس بندھائی اور کہا کہ آپ اس بابت کچھ فکر نہ کریں۔ یہ کہہ کر انہوں نے اپنے تمام زیورات اپنے شوہر کی خدمت میں پیش کر دیے اور کہا کہ انہیں فروخت کر دیں اور حاصل شدہ رقم سے کرانہ کی دکان لگالیں

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 13 تا 19 دسمبر، 2020