قومی تعلیمی پالیسی 2020اجمالی جائزہ

تعلیم کا بھگوا کَرَن ۔اردو اور عربی کےساتھ سوتیلا سلوک

ڈاکٹرابو شفا۔اورنگ آباد

 

حکومت ہند نے بالآخر 30جولائی 2020کو قومی تعلیمی پالیسی 2020جاری کردی۔ موجودہ حکومت نے اپنے سابقہ ٹرم سے ہی تعلیمی پالیسی کی تبدیلی کی کوشش شروع کردی تھی۔ بظاہر مشاورت کا ڈھنڈورا پیٹا گیا۔ مشورے لیے گئے مگر باتیں وہی قطعی ہوئی جو وہ چاہتے تھے۔
قومی پالیسی کو قطعیت میں پارلیمنٹ نظر انداز:
گزشتہ قومی تعلیمی پالیسی 1986کی طرح توقع تھی کہ اس بار بھی حکومت قومی تعلیمی پالیسی کو پارلیمنٹ میں بحث و مباحثہ کے بعد فائنل کرتی ۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ قومی تعلیمی پالیسی بھی کہنا اور قوم کے مقتدر ادارے پارلیمنٹ کو نظر انداز کرنا کس بات کا غماز ہے؟
حکومت نے نئی تعلیمی پالیسی کی ترتیب کے لیے 2016میں ٹی ایس آر سبرامنیم کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی۔ اس کمیٹی کی رپورٹ کو حکومت نے نظر انداز کردیا۔ اس کے بعد ڈاکٹر کے کستوری رنگن کی کمیٹی کو یہ ذمہ داری سونپی گئی۔ اس کمیٹی نے 2019میں اپنی رپورٹ پیش کی۔ اس رپورٹ کے مسودے کو عوام کے لیے عام کیا گیا تجاویز منگوائی گئیں مگر قبول وہی ہوئی جو حکومت کے منشا کے مطابق تھی۔ اب جو پالیسی دستاویز حکومت نے جاری کیا ہے اس میں کستوری رنگن کمیٹی کی سفارشات کو کس حد تک قبول کیا گیا یہ بھی ایک توجہ طلب اور تحقیق طلب موضوع ہے۔ اس پالیسی دستاویز کا ایک طائرانہ جائزہ پیش خدمت ہے۔
پارلیمنٹ کو نظر انداز کرنا:
قومی تعلیمی پالیسی کو فائنل کرنے کا صحیح مقام قومی پارلیمنٹ ہی ہوسکتا ہے مگر حکومت نے اس کو نظر انداز کر کے صرف کیبنٹ سے منظور کرواکر جاری کردیا۔
فیڈرل حیثیت کو پس پشت ڈالنا:
تعلیم بھارتی دستور کے لحاظ سے مشترکہ فہرست میں ہے۔ مگر ریاستوں کے ساتھ جس طرح سے صلاح و مشورہ کرنا چاہیے تھا وہ بھی مفقود ہے۔ بمشکل چند مقامات پر ہی ریاستوں کا تذکرہ ہے۔ پوری دستاویز کا انداز حُکمیہ معلوم ہوتا ہے۔
نظریاتی پہلو یا زعفرانی کَرَن:
اب تک ہم دستوری اقدار کی بات کرتے تھے۔ سابقہ تعلیمی پالیسیاں بھی اس کو تسلیم کرتی تھی اور اس کے فروغ کے لیے کوشاں ہوتی تھی۔ اس پالیسی میں دستور اقدار کا ذکر دو تین جگہ ہی ہے۔ اکثر بھارتی اقدار، بھارتی کلچر، بھارتی تاریخ، بھارتی علوم، بھارتی اداروں اور مخصوص شخصیات کا ذکر کر کے اس قومی تعلیمی پالیسی 2020 کو ایک مخصوص رنگ میں رنگنے کی کوشش کی گئی ہے۔
بھارت ایک کثیر لسانی، کثیر مذہبی اور کثیر تہذیبی ملک ہے۔ بھارت کی ترقی میں تمام ادوار، قوموں اور تہذیبوں نے اپنا حصہ ادا کیا ہے۔ مگر ان سب کو بالخصوص عہد وسطیٰ کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا گیا ہے۔ دستوری حوالے، دستوری اقدار، سیکولرازم اور جمہوریت جیسی اصطلاحوں سے حتی الامکان اجتناب برتا گیا۔ ان پہلوؤں سے جائزہ لینے پر ہم آسانی سے اس کے موثر نظریاتی پہلو کو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔
بڑے بڑے دعوے، خواہشات اور عزائم کا اظہار کیاگیا ہے مگر عملی لائحہ عمل کے بارے میں پالیسی تقریباً خاموش ہے۔ یہ ایک مذبذب پالیسی معلوم ہوتی ہے۔ اس پالیسی میں کئی داخلی تضادات بھی ہیں۔ یہ پالیسی کستوری رنگن کے دیے گئے ڈرافٹ سے کافی کچھ مختلف ہے۔
اردو کے ساتھ سوتیلا سلوک:
تحریریں بہت اچھی، بہترین الفاظ کا برمحل استعمال اور انداز بیان ایسا ہے کہ آپ کو اعتراض کا موقع نہ ملے۔ لیکن جب آپ بین السطور اس کو پڑھتے ہیں اور بالخصوص پالیسی کے اعلان کی پریس کانفرنس اور بعد میں آنے والی حکومتی وضاحتوں کو دیکھتے ہیں تو حقیقت واشگاف ہوتی ہے۔ مثلاً ای-مواد کی تیاری میں پالیسی کہتی ہے کہ بھارت کی تمام علاقائی زبانوں میں مہیا کرایا جائے گا مگر ذمہ داران پریس کانفرنس میں کہتے ہیں کہ صرف آٹھ علاقائی زبانوں میں ای-مواد مہیا ہوگا۔ ان آٹھ زبانوں میں اردو شامل نہیں ہے۔ اسی طرح بین الاقوامیت اور بین الاقوامی زبانوں کی اہمیت کو تسلیم کرنے کے باوجود عربی کو اس فہرست سے خارج کردیا گیا ہے۔ جب کہ اس سے چھوٹے ممالک کی زبان کو جگہ دی گئی ۔ یہ آمرانہ سوچ، اس پالیسی کے وژن، اور نصاب کے تعین کے اصولوں میں یہ پالیسی صرف دستوری فرائض کا ذکر کرتی ہے۔ دستوری حقوق کے بارے میں مکمل خاموش ہے۔
بچوں کے قانون حق تعلیم کو چھین لیا گیا ہے اور حق تعلیم کے قانون (RTE) کو کمزور کیا گیا ۔اس قانون کے تحت 6 تا 14 سال کے بچوں کی مفت اور لازمی تعلیم کو قانونی حق قرار دیا گیا۔ یہ پالیسی 3تا18 سال کے بچوں کی ہمہ گیر تعلیم کو صرف کوششوں کا ذکر کرتی ہے اسے قانونی جواز نہیں دیتی۔ جب کہ کستوری رنگن کمیٹی نے اس سلسلے میں اپنی واضح سفارش دی تھی کہ حق تعلیم قانون (مفت اور لازمی) کو پہلی جماعت کے بجائے پری اسکول سے شروع کریں اور آٹھویں جماعت کے بجائے بارہویں تک لے جائیں لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ قانون کے بغیر ہم ہمہ گیر تعلیم کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ دستور کے رہنما اصول کے لحاظ سے 1960 تک ہی ہمیں اس ہدف کو حاصل کرلینا تھا۔ قانون حق تعلیم کے بعد بھی اس کی عمل آوری ایک اندازے کے مطابق 12 فیصد ہے۔ اس وقت بھی اندازاً دو کروڑ سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ سرکاری اسکولوں اور اداروں میں لاکھوں اساتذہ کی جائیدادیں خالی ہیں۔ اسکولوں کے انفراسٹرکچر کا حال دگرگوں ہے۔ قانونی لزوم کے بعد یہ حال ہو تو اس کے بغیر کیا ہوگا اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ سابقہ تجربات کی روشنی میں حکومتی وعدوں پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ عین ممکن ہے یہ ایک نیا جھوٹ ہو۔
تعلیم پر اخراجات
ہم عرصہ دراز سے تعلیم پر خرچ کو کل قومی آمدنی کے 6 فیصد تک لے جانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ موجودہ حکومت نے اپنے سابقہ دور اور اس سال تعلیمی بجٹ میں کمی ہی کی ہے۔ یہ پالیسی جس طرح کی اسٹرکچرل Structural تبدیلیاں چاہتی ہے اس کے لیے 6 فیصد جی ڈی پی سے کام نہیں چلے گا بلکہ ہمیں جی ڈی پی کا 10 فیصد خرچ کرنا ہوگا۔
مالیہ کی فراہمی کے بارے میں بھی صرف یہ کہا گیا ہے کہ مرکزی اور ریاستی حکومتیں کوشش کریں گی کہ تعلیم پر 6 فیصد جی ڈی پی کے اخراجات کے ہدف کو جلد از جلد حاصل کیا جائے۔ کاش کہ ایسا ہو۔ اسے جب تک قانونی طور پر لازم نہیں کیا جائے گا اس وقت تک یہ ممکن نہیں ہے بلکہ آر ٹی ای کے نفاذ کا حشر ہمارے سامنے ہے۔
*طلبا کے ہمہ جہتی ارتقاء سے زیادہ مارکیٹ اکانومی کا لحاظ کیا گیا۔ اس پالیسی کے نتیجے میں طالب علم اپنی ذات میں آپ مرکوز ہوتا چلا جائے گا اور دھیرے دھیرے وہ سماج سے کٹتا جائے گا۔
مثلاً اس پالیسی میں آن لائن تعلیم، تعلیم میں ٹیکنالوجی کا بڑھتا استعمال اور چھٹی جماعت سے پیشہ ورانہ تعلیم کے نظم پر بہت اصرار کیا گیا ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ انسان کے آپس کے تعاملات کم سے کم ہوتے جائیں گے اور طالب علم ملٹی نیشنل کمپنیوں کی خدمت کے لیے تیار ہوتا جائے گا۔
٭علیمی وسائل کی عدم فراہمی طبقاتی دوریاں پیدا کرے گی۔ حکومت جب اپنے اداروں میں انفراسٹرکچر نہیں دے پائی تو وہ تکنیکی آلات کہاں سے فراہم کرے گی اور یہ آلات خریدے جائیں تو صرف اور صرف کمپنی کا ہی فائدہ ہوگا۔
٭تعلیم کی ایجنسی معلم نہ ہوکر ٹیکنالوجی کمپنی بن جائے گی طلبا، استاد سماج اور ماہرین سے دور ہوتے چلے جائیں گے۔
٭تجارتی کَرَن اور نجی کاری کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ اس پالیسی نے تعلیم کے تجارتی کَرَن اور بڑے پیمانے پر نجی کاری کے عمل کی خوب حوصلہ افزائی کی ۔
٭تعلیم جو ایک عوامی شئے (Public Good) ہے اسے اب ایک قابل فروخت اور سستی شئے (commodity) بنایا جائے گا۔
٭چھٹی جماعت سے پیشہ وارانہ تعلیم کی وجہ سے بچہ مزوری کو بڑھاوا ملے گا۔ طلبا اسکول میں ہنر مندی حاصل کرکے کمپنیوں میں ملازمت اختیار کریں گے۔
کمپنی کو سستے دام ملازم مل جائیں گے ۔بقول شخصے’’ غریب کو صرف لکھنا پڑھنا ملے گا تعلیم نہیں ملے گی‘‘۔
طبقاتی نظام کو مضبوطی ملے گی۔ اور سماجی پچھڑے طبقات اور مسلمانوں کو یہ پالیسی مرکزی دھارے سے باہر (Push out)کردے گی ۔
٭ضرورت اس بات کی ہے کہ اس پالیسی کا مزید گہرائی اور گیرائی سے مطالعہ کیا جائے اور ممکنہ حد تک اسے پورے ملک کے لیے مفید بنانے کی کوشش کی جائے اور تمام متوقع متاثرہ گروہوں کو جمع کرکے اس ضمن میں عملی اقدامات کا آغاز کردیا جائے۔
(مضمون نگار تعلیم و تعلم کے شعبہ میں ایک یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔)
***

چھٹی جماعت سے پیشہ وارانہ تعلیم کی وجہ سے بچہ مزوری کو بڑھاوا ملے گا۔ طلبا اسکول میں ہنر مندی حاصل کرکے کمپنیوں میں ملازمت اختیار کریں گے۔ کمپنی کو سستے دام ملازم مل جائیں گے ۔