قربانی کا پیغام

اللہ کی رضا و خوشنودی مومن کی اصل ترجیح

عتیق احمد شفیق اصلاحی، بریلی

 

قربانی بلا شبہ ایک بڑی اہم عبادت ہے۔ قربانی کے لیے اخلاص ضروری ہے۔ اخلاص اللہ کو بے حد پسند ہے۔ اخلاص کے نتیجہ میں بظاہر معمولی عمل بھی اللہ کے نزدیک غیر معمولی ہو جاتا ہے۔قربانی حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہم السلام کی یاد میں کی جاتی ہے۔ وہ ان دونوں ہستیوں کا اخلاص ہی تھا اور اپنی مرضی کو اللہ کی مرضی کے تابع فرمان کرنے کا جذبہ ہی تھا جو اللہ کو اس قدر پسند آیا ہے کہ اس نے قیامت تک آنے والے اُن تمام انسانوں کے لیے جو ایمان لائیں گے اس عمل کو لازم قرار دے دیا۔
آج مسلمان بڑی تعداد میں قربانی کے عمل کو انجام دیتے ہیں مگر اس کا جائزہ بھی لیا جانا چاہیے کہ اخلاص کی کیفیت کا کیا حال ہے۔ جتنا اخلاص ہوگا اتنا ہی ہماری زندگی پر اس کا اثر نظر آئے گا ورنہ قربانی جیسا اہم عمل بھی ایک رسم بن کر رہ جائے گا۔
قربانی اچھے جانوری کی جانی چاہیے، یہ مطلوب ہے۔ مگر جانور کی خریداری کے وقت اللہ کی رضا ہی پیش نظر رہنی چاہیے۔ مگر کہیں نہ کہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جانور خریدتے وقت دلوں میں یہ بات بھی آجاتی ہے کہ ایسا جانور ہو جس کو دیکھ کر لوگ تعریف کریں۔ دراصل یہ احساس وجذبہ بڑا ہی نقصان دہ ہے اور قربانی کی روح کے منافی ہے۔ دکھاوا عمل کو ضائع کر دیتا ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: جس کسی نے دکھاوے کے لیے نماز پڑھی اس نے شرک کیا اور جس نے دکھاوے کی خاطر روزہ رکھا وہ شرک کا مرتکب ہوا اور جس نے صدقہ کیا کسی کو دکھانے کے لیے تو اس نے شرک کا ارتکاب کیا۔
قربانی کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
نہ ان کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون مگر اسے تمہاری تقویٰ پہنچتا ہے۔
قربانی کے پورے عمل میں ہمیں اس پر خصوصی توجہ مرکوز کرنی چاہیے کہ دلوں میں اللہ کی رضا وخوشنودی نظر آئے۔ پیش نظر رہے اس کے علاوہ کسی اور طرح کا کوئی جذبہ واحساس نہ پنپنے پائے، اخلاصِ نیت کے ساتھ صرف اللہ کے لیے قربانی کی جائے گی تب ہی وہ قابل قبول ہوگی۔ اور اللہ کے یہاں انسان کے جذبات پہنچتے ہیں، جانور کا خون اور گوشت یہی رہ جاتا ہے۔
اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ تمہارے جد اور تمہاری صورتیں نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمہارے دل دیکھتا ہے۔ ایسا آپ نے اپنی انگشت مبارک سے اپنے سینے کی طرف اشارہ کر کے فرمایا۔
قربانی کا پیغام یہ ہے کہ اخلاص صرف قربانی کے عمل اور قربانی کرتے وقت ہی نہیں بلکہ پوری زندگی میں رچ بس جائے۔ ہمارا ہر عمل اللہ کی رضا کی خاطر ہونے لگے۔ قربانی کے اس پیغام کو ہم سمجھ لیں اور حرز جاں بنالیں تو ہماری دنیوی زندگی میں نکھار آئے گا اور آخرت کی زندگی میں کامیابی اور سرخروئی نجات کا ذریعہ بنے گا۔
حضرت ابراہیمؒ نے اپنی دانست میں بیٹے اسماعیلؑ کی گردن پر چھری چلا کر اسلام کی اس حقیقت کا اظہار کیا کہ ایک مسلمان اپنی قیمتی سے قیمتی شے بھی اپنے رب کی رضا کے لیے قربان کر دے گا۔ اگر قربانی کرتے وقت یہ حقیقت ذہن نشین نہ ہو تو جانور پر چھری چلا دینا قربانی کی روح سے محروم رہنا ہے۔ باپ بیٹے کی پوری زندگی اخلاص پر مبنی نظر آتی ہے۔ ہر وہ کام جو اللہ کو پسند تھا بظاہر وہ کتنا ہی مشکل ہو اس کو کر دکھایا۔ ظالم وجابر بادشاہ سے مکالمہ کرنا، آگ میں پھینکا جانا، شہر بدر ہوجانا، بے آب وگیا میدان میں بیوی اور معصوم بیٹے کو چھوڑ کر دعوت وتبلیغ کے لیے نکل جانا، اولاد جوان ہوئی تو اس کی گردن پر چھری چلانا، ان میں کا ہر عمل بڑا عمل تھا۔ یہ اعمال اللہ سے سچی محبت کا اظہار وبیان ہیں۔ عید قربان ہمیں پیغام دیتی ہے کہ ہم اللہ سے سچی محبت کریں، یہ محبت زبانی جمع خرچ تک نہ رہ جائے بلکہ ہماری زندگی کے ایک ایک عمل سے اس کا اظہار ہو۔ قربانی کے جانور پر چھری چلاتے وقت اس بات کا اعادہ ہوتا ہے کہ اے اللہ تیرا حکم ہے تو ہم اس کو قربان کر رہے ہیں یہ کیا چیز ہے اگر وقت پڑا تو تیرے دین اور تیری رضا کے لیے جان بھی قربان کر دیں گے۔ جان کا نمبر تو بعد میں آتا ہے سب سے پہلے جذبات واحساسات کی قربانی، اپنی صلاحیتوں، قابلیتوں، ہنر مندیوں اور اوقات کی قربانی دینی ہوتی ہے۔ جس دین پر ہم ایمان لائے ہیں جس ذات کو خدا تسلیم کیا ہے اس کے تقاضے کیا ہیں اس سے واقفیت حاصل کریں اسی پر عمل کریں اس کے نفاذ کے لیے جدوجہد کریں۔ جب اس کے غلبہ کی کوشش ہوتی ہے تو باطل مقابلہ پر آتا ہے۔ پھر جانوں کے نذرانے پیش کرنے کا مرحلہ آتا ہے۔
قربانی ہر صاحب حیثیت مسلمان کو کرنا چاہیے، قربانی کا پیغام، اس کا ادراک ضرور ہونا چاہیے تبھی قربانی اپنا رنگ لائے گی۔
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 18 تا 24 جولائی 2021