فلسطین کو کب تسلیم کیا جائےگا؟

فلسطینیوں کی حقیقت تسلیم کیے بغیر اسرائیل کو تسلیم کرلینا انسانیت کے بنیادی اصول کے خلاف

مسعود ابدالی

 

آج کل مسلم و عرب ممالک میں اسرائیل کو تسلیم کرانے کی مہم عروج پر ہے۔ اس حوالے سے جو دلائل دیے جا رہے ہیں وہ کچھ اسطرح ہیں:۔
• اسرائیل ایک حقیقت ہے اور اسے تسلیم نہ کرنا حقیقت سے منہ چڑانا ہے۔
• اسرائیل کا سرحدی تنازعہ چار عرب ممالک یعنی مصر، شام، اردن اور لبنان سے ہے۔ مصر اور اردن نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے۔ باقی مسلمان و عرب ممالک کا تو اسرائیل سے براہ راست کوئی تنازعہ نہیں تو غیر ضروری نفرت کا ہے کو جاری رکھی جائے۔
• اسرائیل ایک ترقی یافتہ ملک ہے۔ اس سے رابطہ بڑھا کر سائنس و ٹیکنالوجی، خاص طور سے زراعت اور دفاعی پیداوار کے میدان میں استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
• باہمی اختلافات کے باوجود مختلف ممالک کے آپس میں سفارتی تعلقات ہیں۔ جیسے ہندوستان وپاکستان کے درمیان روز اول سے کشیدگی بلکہ دشمنی ہے۔ یہ دونوں ملک کئی خونریز جنگیں بھی لڑ چکے ہیں اور کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب سرحدوں پر فائرنگ نہ ہوتی ہو۔ اس کے باوجود ہندوستان وپاکستان نہ صرف ایک دوسرے کو تسلیم کرتے ہیں بلکہ ان کے درمیان سفارتی روابط بھی ہیں۔
• سفارتی ربط ضبط سے بات چیت کا دروازہ کھلا رہتا ہے اور اس سے تنازعات کے پرامن تصفیے میں مدد ملتی ہے۔
اوپر دیے گئے دلائل انتہائی جان دار ہیں اور ان میں ایک بھی نکتہ ایسا نہیں جسے غیر منطقی کہہ کر مسترد کیا جا سکے لیکن اسرائیل کے معاملے میں تنازعہ زمین اور ریاست کا نہیں بلکہ اصول کا ہے۔ حساس مذہبی اور نسلی و لسانی امور اس مسئلے سے جڑے ہوئے ضرور ہیں لیکن ہمارے خیال میں اس قضیے کو یہودی و مسلم نقطہ نظر سے دیکھنا بھی قرین از انصاف نہیں۔ اسے سمجھنے کے لیے علاقے کی تاریخ پر ایک سرسری نظر ڈالنا ضروری ہے۔ارضِ فلسطین یہودیوں کے لیے بے حد مقدس ہے کہ یہ سلطنتِ داودؑ کا صدر مقام ہے۔ یروشلم میں مبینہ طور پر وہ ہیکل سلیمانی ہے جسے یہودی اپنی نشاۃ ثانیہ کی علامت سمجھتے ہیں۔ دوسری طرف یہیں حضرت عیسیٰؑ کا مقام پیدائش بیت اللحم ہے جو مسیحیوں کے لیے بے حد مقدس ہے جبکہ مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے۔ یہودیوں کے لیے ارض فلسطین کی طرف ہجرت ایک مبارک و مقدس سفر ہے جسے عالیہ Aliya کہتے ہیں۔ اگر مستقل قیام ممکن نہ ہو تب بھی زندگی میں کم ازکم ایک بار اس ارض مقدس کی طرف سفر یہودیوں کے یہاں فرض کی حیثیت
رکھتا ہے۔
صلیبیوں کے ہاتھوں ہسپانیہ سے بے دخل ہونے والے یہودی 1492 سے فلسطین کا رخ کر رہے تھے۔ لیکن دور جدید میں پہلا سفرِ عالیہ 1881 میں ہوا جب مشرقی یورپ سے 400 کے قریب یہودی یروشلم آئے۔ اس وقت فلسطین عثمانی خلافت کا حصہ تھا اور یہودیوں سے اچھے تعلقات کی بنا پر مقامی انتطامیہ نے ان ’مہاجرین‘ کو عزت و احترام سے آباد کیا۔ عثمانیوں کی فراخدلی کے نتیجے میں یورپ سے یہودیوں کے فلسطین آنے کا سلسلہ جاری رہا۔پہلی جنگ عظیم کے بعد برطانیہ کے ہاتھوں پے در پے شکست کے نتیجے میں فلسطین ترکوں کے ہاتھ سے نکل گیا اور شام، اردن، لبنان و فلسطین کا علاقہ فرانسییسیوں اور برطانویوں کے زیر نگیں آگیا۔ اس علاقے کو جغرافیائی اصطلاح میں Levant کہتے ہیں۔ عرب جغرافیہ دان اور علمائے سیاست کے لیے یہ سارا علاقہ ملک الشام تھا۔فاتحین کی بندر بانٹ کے نتیجے میں موجودہ اسرائیل، فلسطین، اردن اور سینائی کا کچھ علاقہ League of Nations نے برطانیہ کے حوالے کر دیا جس کے لیے British Mandate کی اصطلاح استعمال ہوئی۔
ادھر یہودیوں کے خلاف مہم تیز ہوگئی اور ہٹلر نے یہود کش مہم Holocaust کو سرکاری پالیسی بنا دیا۔ لاکھوں یہودی جرمنی، ہنگری، چیکوسلوواکیہ، پولینڈ کے بیگار کیمپوں میں ٹھونس دیے گئے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران اس ظلم و ستم میں مزید شدت آگئی۔
اب تک یہاں آنے والے یہودی خود کو پناہ گزین سمجھتے تھے جن کی میزبانی فلسطینی کر رہے تھے لیکن نازیوں کے مظالم کے نتیجے میں ان کے اندر ایک وطن کی خواہش جاگی۔ اس وقت وطن کے سوال پر یہودیوں میں شدید اختلاف پیدا ہوا۔ کچھ قدامت پسند یہودیوں کا خیال تھا کہ حضرت موسیٰؑ کے بعد اب کوئی رہنما ایسا نہیں جو یہودی وطن کی امارت کے قابل ہو لہذا ہمیں مسلمانوں اور مسیحیوں کے زیر اقتدار رہنا چاہیے۔ یہودیوں میں یہ فرقہ آج بھی موجود ہے جن کے ماننے والے پچاس ہزار سے زیادہ ہیں۔ امریکہ میں اسلامک سوسائٹی کےسالانہ کنونشن میں یہ لوگ ہر سال اپنا اسٹال لگاتے ہیں جس میں توریت کے حوالے دے کر ریاست اسرائیل کو موسوی تعلیم کے خلاف ثابت کیا جاتا ہے۔
یہودی وطن کی تحریک شروع میں پُر امن تھی لیکن دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر مینخم بیگن اور دوسرے جنگجوؤں نے قابض برطانویوں کے خلاف گوریلا جنگ شروع کر دی۔ آزادی کی اس تحریک کو ابتدا میں مذہبی عناصر کی حمایت حاصل نہیں تھی اور اسے قوم پرست تحریک کہا جا سکتا ہے۔ اسی دوران Holocaust سے متاثر لاک
ھوں یورپی پناہ گزین بھی فلسطین آگئے اور آزادی کی تحریک شدت پکڑ گئی۔ برطانیہ اور اسرائیلی قوم پرستوں کی لڑائی میں فلسطینی غیر جانب دار تھے۔ جولائی 1946 میں اسرائیلی گوریلوں کی سرگرمیوں میں شدت آئی اور برطانیہ کی فوجی چھاؤنیوں پر حملے شروع ہو گئے۔ Holocaust کی وجہ سے ساری دنیا میں یہودیوں کے لیے ہمدردی کا سیلاب امڈ آیا تھا اس لیے برطانیہ دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائی نہ کرسکا۔ اسرائیلی دہشت گردوں نے فلسطینیوں کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا۔
برطانیہ نے معاملے کے حل کے لیے اقوام متحدہ سے رجوع کیا اور 3 ستمبر 1947 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی جس کے تحت برطانوی مینڈیٹ ختم کر کے علاقے کو عرب ریاست، یہودی ریاست اور یروشلم میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا۔ حضرت عیسیٰؑ کے مقام پیدائش بیت اللحم سمیت سارا یروشلم مشترکہ اثاثہ یا Corpus Separatum قرار پایا۔ معلوم نہیں بھول تھی یا معاملے کو الجھانے کی دانستہ کوشش کہ یہ قرارداد اقوام متحدہ کے Chapter VI کے تحت منظور کی گئی۔ قوت نافذہ کے حوالے سے باب چھ میں منظور کی جانے والی قرارداد اقوام عالم کے اجماع، امنگ اور خواہش کا اظہار ہے لیکن اس کے نفاذ کے لیے طاقت کے استعمال کی اجازت نہیں البتہ باب VII کے تحت منظور کی جانیوالی قرارداد پر مکمل عمل درآمد ضروری ہے خواہ اس کے لیے تباہ کن فوجی قوت ہی کیوں نہ استعمال کرنی پڑے۔
اقوام متحدہ نے تقسیم کو یقینی بنانے کے لیے 29 نومبر 1947 کو قرارداد نمبر 181 منظور کرلی جس کا نام ہی Partition Resolution ہے یعنی علاقے کو عرب اور یہودی ریاست میں تقسیم کر کے یروشلم کو غیر عسکری اور سب کے لیے کھلا شہر قرار دیا جائے۔ مسلمانوں پر مذہبی انتہا پسندی کا الزام لگانے والے دیکھ سکتے ہیں کہ مسیحی عربوں کا خیال کرتے ہوئے فلسطیینیوں نے اپنے علاقے کو مسلم عرب یا مسلم فلسطین کہنے پر اصرار نہیں کیا لیکن 14 مئی 1948 کو برطانوی مینڈیٹ ختم ہوتے ہی بابائے اسرائیل ڈیوڈ بن گورین نے اپنے حصے کا نام فوری طور پر مدینہ الجسرائیل (بنی اسرائیل کا وطن) رکھدیا۔ عبرانی میں الف اور ’ای‘ کا تلفظ ج ہے جیسے یروشلم کو جروسلم، اردن کو جوردن، یعقوب کو جیکب اور بن یامین کو بنجامن پکارا جاتا ہے اسی لیے عبرانی میں اسرائیل کا تلفظ جسرائیل ہے۔ امریکہ اور روس نے اسرائیل کو فوری طور پر تسلیم کر لیا۔اس وقت ہیری ٹرومن امریکہ کے صدر اور مشہور کمیونسٹ رہنما جوزف اسٹالن روس کے سربراہ تھے۔تقسیم کے دوران بدترین ناانصافی کی کئی۔ آبادی کے لحاظ سے 32 فیصد اسرائیلیوں کو فلسطین کا 56 فیصد علاقہ بخش دیا گیا اور فلسطینیوں کو اپنی ہی ریاست کی 42 فیصد زمین عطا ہوئی۔ نو زائیدہ اسرائیلی ریاست کے یہودی باشندوں کی تعداد پانچ لاکھ اور عربوں کی تعداد 4 لاکھ 38 ہزار تھی۔ دوسری طرف فلسطین میں 10 ہزار یہودی اور 8 لاکھ 18 ہزار عرب آباد تھے۔ بیت المقدس کی آبادی ایک لاکھ تھی جہاں مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کی تعداد تقریباً برابر تھی۔
اسرائیلی اس تقسیم پر راضی نہ تھے چنانچہ جشن آزادی کی آڑ میں عرب آبادیوں پر حملے شروع ہو گئے۔ اقوام متحدہ کی قرارداد میں تقسیم پر عمل درآمد اور اس کے بعد اسرائیل و فلسطین کے درمیان امن قائم رکھنے کی ذمہ داری برطانیہ پر عائد کی گئی تھی۔ لیکن یہ ذمہ داری برطانیہ نے کچھ اس طرح ادا کی کہ فلسطینی آبادیوں کے گرد فوجی چوکیاں قائم کر کے انہیں محصور کر دیا اور اسرائیلی دہشت گرد برطانوی چوکیوں کی آڑ لے کر بہت اطمینان سے فلسطینی بستیوں کو نشانہ بناتے رہے۔ مسلح اسرائیلیوں کے حملے میں ہر ہفتے 100 کے قریب افراد ہلاک و زخمی ہوتے۔ اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق برطانوی فوج کو مئی 1948 تک علاقے کی نگرانی کرنا تھا لیکن مارچ سے ہی برطانوی فوجیوں نے اپنا بوریا بستر لپیٹنا شروع کر دیا۔ عربوں نے الزام لگایا کہ جاتے ہوئے برطانوی فوجی اپنا اسلحہ اسرائیلیوں کے حوالے کر گئے۔
عربوں کے اس شبہ کو تقویت اس بات سے ملتی ہے کہ برطانوی فوج کی واپسی سے ایک ماہ پہلے 5 اپریل 1948 کو اسرائیلی فوج یروشلم میں داخل ہو گئی حالانکہ معاہدے کے تحت یروشلم میں فوج تو دور کی بات کسی شخص کو اسلحہ لے کر جانے کی اجازت بھی نہ تھی۔ فلسطینیوں نے بیت المقدس میں مسلح اسرائیلیوں کا راستہ روکنے کی کوشش کی لیکن جدید اسلحے سے لیس اسرائیلیوں نے اس مزاحمت کو کچل دیا۔ تصادم میں سیکڑوں فلسطینی مارے گئے جن میں ان کے کمانڈر اور مفتی اعظم فلسطین امین الدین حسینی کے بھتیجے عبدالقادر حسینی شامل ہیں۔
ریاست کے اعلان سے فلسطینیوں میں شدید اشتعال پھیلا اور جگہ جگہ خونریز تصادم ہوئے۔ اس دوران جدید اسلحے سے لیس اسرائیلی فوجیوں نے فلسطینیوں کو بھون کر رکھ دیا۔مظاہروں کو کچل دینے کے بعد اسرائیلی فوج نے فلسطینی بستیوں کو گھیر لیا اور 7 لاکھ فلسطینیوں کو غزہ کی طرف دھکیل دیا گیا اور وہ بھی اس طرح کے بحر روم کی ساحلی پٹی پر اسرائیلی فوج
نے قبضہ کر کے سمندر تک رسائی کو نا ممکن بنا دیا۔ گویا کھلی چھت (Open Air) کے اس عظیم الشان جیل خانے میں 12 لاکھ فلسطینی ٹھونس دیے گئے۔ قبضے کی اس مہم میں فلسطینیوں سے مجموعی طور پر 2000 ہیکٹرز اراضی چھینی گئی۔ ایک ہیکٹر 10000 مربع میٹر کے برابر ہوتا ہے یعنی 2 کروڑ مربع میٹر۔ فلسطینیوں کا جبری اخراج 15 مئی 1948 کو مکمل ہوا جسے فلسطینی یوم النکبہ یا بڑی تباہی کا دن کہتے ہیں۔ کئی دہائیوں بعد برمی مسلمان بھی النکبہ کی اذیت سے گزرے جب 32 لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو ان کے گھروں اور زمینوں سے بے دخل کیا گیا جہاں وہ صدیوں سے آباد تھے۔ ان میں سے 18 لاکھ راخین یا اراکانی مسلمان ذبح کر دیے گئے۔ باعفت بچیاں اوباشوں کا نشانہ بنیں اور دس سے بارہ لاکھ اراکانی مسلمانوں کو بنگلہ دیش کی طرف دھکیل دیا گیا۔
فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کا سلسلہ اب تک جاری ہے، اسرائیلی حکومت عرب اراضی پر اسرائیلی بستیاں تعمیر کر رہی ہے۔ پہلے ان کی خالی زمینیں ہتھیائی گئیں، اب ادھر چند سالوں سے فلسطینیوں کو ان کے پختہ مکانوں سے نکال کر وہاں اسرائیلی بستیاں تعمیر کی جا رہی ہیں۔
یہ ظلم و ستم 1948پھر 1967 اور 1973 میں خونریز جنگوں کا سبب بن چکا ہے۔ بد قسمتی سے ہر جنگ میں اسرائیل نے مزید عرب علاقے ہتھیا لیے۔ جنگ کے عالمی اصولوں کے تحت جنگ بندی کے بعد مقبوضہ عرب خالی کر دیے جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی ہر قرارداد میں اسرائیل پر زور دیا جاتا ہے کہ وہ مقبوضہ عرب علاقے خالی کر دے لیکن اسرائیل مقبوضہ عرب علاقوں کو اپنی ریاست میں ضم کرتا جا رہا ہے جس کی تازہ ترین مثال حال ہی میں کیا جانے والا مرتفع الجولان یا گولان ہائیٹس کا اسرائیل سے ادغام ہے جس کی تقریب میں صدر ٹرمپ نے خود شرکت کی تھی۔متحدہ عرب امارات، بحرین اسرائیل امن معاہدہ المعروف ابراہیم معاہدے سے قبل ہر بات چیت میں اسرائیل کے تسلیم کرنے کو فلسطینی ریاست سے مشروط کیا گیا جو اقوام متحدہ کے Partition Agreement کا لازمی جزو ہے۔
اس سلسلے میں سب سے پہلی براہ راست ملاقات 1979میں مصری صدر انورالسادات اور اسرائیلی وزیر اعظم میناخم بیگن کے درمیان ہوئی۔ ملاقات میں معاہدہ سلام (عبرانی معاہدہ شلوم) پر دستخط ہوئے جس کے تحت مصر نے خلیج عقبہ میں اسرائیل کے حق جہاز رانی کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اسرائیلی جہازوں کو نہر سوئز سے گزرنے کی اجازت بھی دیدی۔ خلیج عقبہ، بحر احمر (قلزم) کے دہانے پر واقع ہے۔ معاہدہ کے تحت سینائی کا مقبوضہ علاقہ مصر کو واپس کر دیا گیا۔ سلام معاہدے میں فلسطینی ریاست کے قیام کی تجدید کی گئی
1993 کے واشنگٹن اور 1995 کے طابا (مصر) معاہدے میں بھی اسرائیل نے فلسطینی ریاست کے قیام کا وعدہ کیا گیا لیکن آزاد ریاست تو کیا قائم ہوتی مزید فلسطینی اپنے گھروں سے بے دخل کر دیے گئے۔ صدر ٹرمپ کی امن کوششوں کا کمال یہ ہے کہ عرب اسرائیل تنازعے سے فلسطین کے معاملے کو صاف نکال دیا گیا۔ معاہدہ ابراہیم کے مصنف جیرڈ کشنر نے متحدہ عرب امارات اور بحرین کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بہت فخر سے کہا کہ معاہدہ ابراہیم کے بعد عرب و مسلم ممالک فلسطینی ترجیحات سے بالاتر ہو کر اپنے قومی مفادات کے مطابق اسرائیل سے معاملہ کر رہے ہیں۔مضمون کے آغاز میں ہم نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں دیے جانے والے منطقی دلائل کا ذکر کیا ہے جن کو درست سمجھتے ہوئے صرف اسی صورت میں اسرائیل کو تسلیم کیا جانا چاہیے جب اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق آزاد فلسطینی ریاست قائم کی جائے۔ یہی عرب اسرائیل تعلقات کے گلے میں پھنسی ہڈی ہے جس کے ذریعے اسرائیل کو معقولیت کا رویہ اختیار کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ یہاں معاملہ نہ عرب و عجم کا ہے نہ یہ یہودیوں اور مسلمانوں کی لڑائی ہے۔ یہ انسانی حقوق کا معاملہ ہے۔ فلسطینی بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں۔
365 مربع کلو میٹر پر مشتمل غزہ دس سال سے مکمل ناکہ بندی کا شکار ہے۔ یہاں بجلی اور پانی بند ہے گیس پہلے بھی نہیں تھی۔ غذائی سامان کے ٹرک ہفتے میں ایک دن مصر کی جانب سے رفح گیٹ کے راستے آتے ہیں جس سے فلسطینیوں کا گزارا ہو رہا ہے۔ گویا یہاں آباد 20 لاکھ نفوس شعب ابی طالب کی آزمائش جھیل رہے ہیں۔ دریائے اردن کے مغربی کنارے پر فلسطینیوں کو گھروں سے بے دخل کیے جانے کا سلسلہ جاری ہے اور اوسطاً 2000 خاندان ہر سال بے گھر کیے جا ریے ہیں جنہوں نے اردن کی سرحد پر خیمے لگا لیے ہیں۔
فلسسطین کا مسئلہ حل کیے بغیر اسرائیل سے سفارتی تعلقات کے نتیجے میں دیوار سے لگے ہوئے فلسطینی دیوار میں چن دیے جائیں گے۔ یہ سیدھا سادا نسل کشی کا معاملہ جسے ملکی مفاد سے بالاتر ہو کر سوچنا چاہیے۔ مہذب دنیا سفارتی بائیکاٹ کے ذریعے جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر چکی ہے۔ پاکستان اور ہندوستان سمیت ساری باضمیر دنیا نے نسلی امتیاز یا Apartheid کو ملکی قانون بنانے والے جنوبی افریقہ کا 1948 سے 1990 تک مکمل سفا
رتی بائیکاٹ کیا ہے۔ اس وقت انسانی حقوق کے علم بردار اسرائیل، امریکہ اور یورپ سب نسل پرست حکومت کی پشت پر تھے لیکن دنیا کے غریب و نادار ممالک اصولی اتحاد کے ذریعے افریقہ کے سیاہ فاموں کو ان کا حق دلانے میں کامیاب رہے۔
ایک 13 سالہ فلسطینی بچی کی کہی ہوئی بات میرے کان میں ایک سال سے گونج رہی ہے کہ دنیا کے لوگ اپنے اپنے ملکوں میں رہتے ہیں اور ہمارا فلسطین ہمارے دلوں میں آباد ہے۔ میرے آبا واجداد کو اسرائیلیوں نے ان کے گھروں سے نکال دیا لیکن میرے وطن کو کوئی بھی میرے دل سے نہیں نکال سکتا۔
اسرائیل ایک حقیقت ہے لیکن جب تک تل ابیب فلسطینیوں کی حقیقت کو تسلیم نہ کرلے اسرائیل کو تسلیم کر لینا انسانیت کے بنیادی اصول کے خلاف ہے۔
(مسعود ابدالی معروف کالم نویس ہیں جو مشرق وسطیٰ ، مسلم دنیا اور عالمی سیاست پر لکھتے رہے ہیں)
[email protected]
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020