فسادات سے متعلق دہلی اقلیتی کمیشن کی رپورٹ: فساد کرنے والے اور پولیس دونوں نے مسلمان خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیا

نئی دہلی، جولائی 25: شمال مشرقی دہلی میں رواں سال فروری میں ہوئے مسلم مخالف فسادات کی دہلی اقلیتی کمیشن کی جانب سے جاری حقائق سے متعلق رپورٹ میں پتا چلا ہے کہ رہائشی، کاروباری اور مذہبی املاک کو تباہ کرنے کے علاوہ فساد کرنے والوں نے فسادات سے متاثرہ علاقوں میں مسلم مخالف تشدد کے دوران مسلم خواتین کو جنسی طور پر بھی ہراساں کیا۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مسلمان خواتین نہ صرف فسادیوں کے ہی جنسی تشدد کا نشانہ بنی تھیں بلکہ فسادات سے متاثرہ علاقوں میں ڈیوٹی پر تعینات پولیس فورس نے بھی انھیں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔

حقائق پر مبنی رپورٹ کے مطابق کچھ خواتین نے اپنی شہادتوں میں اپنی شناخت چھپانے کی درخواست کی، وہیں دوسروں نے اسے ظاہر کرنے کی اجازت دی۔

134 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں، جس کا ایک ذیلی عنوان ’’خواتین پر اثرات‘‘، کے تحت کہا گیا ہے کہ پولیس اور فسادیوں دونوں کے ہی ذریعے ’’مسلم خواتین پر ان کی مذہبی شناخت کی بنیاد پر حملہ کیا گیا اور ان کے حجاب اور برقعے اتار دیے گئے۔‘‘

رپورٹ کے مطابق الہند اسپتال میں تین دن کے تشدد کے دوران تقریباً 54 مسلم زخمی خواتین کا داخلہ لیا۔

رپورٹ میں صنفی تشدد کے متعدد متاثرین کا نام بھی لیا گیا ہے۔

شیو وہار سے تعلق رکھنے والی رضیہ نے بتایا کہ اس نے دیکھا کہ ایک ہجوم نے ایک لڑکی کے کپڑے پھاڑے اور پھر اسے آگ میں پھینک دیا۔ ان کے شوہر انھیں بچالیے جانے کے بعد سے ذہنی طور پر غیر مستحکم ہیں۔

26 سالہ رخسار نے بتایا کہ وہ ان گنت خواتین میں شامل ہیں جن پر شیو وہار میں جنسی زیادتی کی گئی تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ ان مجرموں کو پہچانتی ہیں جنھوں نے ان کے علاقے میں تشدد کیا۔

45 سالہ فاطمہ نے کہا کہ ’’ہجوم نے میرا دوپٹہ کھینچ لیا اور میری سلوار پھاڑ دی۔ مجھے ایک ایسے خاندان نے بچایا تھا جو ابھی وہیں موجود ہے۔‘‘

تین ماہ کی حاملہ روبینہ (37)، جو چاند باغ کی رہنے والی ہے، کو نہ صرف فرقہ وارانہ ہجوم نے بلکہ پولیس نے بھی بے دردی سے پیٹا۔ وہ کہتی ہیں کہ پولیس وردی میں ملبوس ایک شخص نے اسے پتھر سے مارنے کی کوشش کی۔ ان کے بے ہوش ہونے کے بعد انھیں الہند اسپتال لے جایا گیا اور پھر انھیں ایمس ٹروما سینٹر منتقل کردیا گیا۔

کاروال نگر کی رہنے والی شبانہ (26)، جو حمل کے انتہائی مرحلے میں تھیں، نے کہا ’’ہجوم نے مجھے لاٹھیوں سے پیٹا… کچھ نے پیٹ میں لات ماری کی۔‘‘ اگلے دن اس نے ایک لڑکے کو جنم دیا۔

ان کے علاوہ متعدد خواتین نے حقائق تلاش کرنے والی ٹیم کے ممبروں کو بتایا کہ ’’پولیس فورس اور پرتشدد ہجوم نے چاند باغ میں سی اے اے مخالف مظاہرے پر حملہ کیا۔ خواتین کو بھی مرد پولیس افسران نے پیٹا اور ہجوم نے بھی ان پر حملہ کیا۔‘‘

واضح رہے کہ دہلی میں خواتین نے پورے دارالحکومت میں سی اے اے مخالف مظاہروں میں قائدانہ کردار ادا کیا تھا۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس نے خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیا اور ’’زبانی زیادتیوں کی نوعیت بھی جنسی اور فرقہ وارانہ تھی۔‘‘

جنسی زیادتی اور صنفی تشدد

اقلیتی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ’’جنسی زیادتی اور صنفی تشدد‘‘ کے ذیلی عنوان میں کہا گیا ہے کہ جب شیو وہار میں خواتین اپنے مردوں کی حفاظت کے لیے گھروں سے باہر نکلیں تو ہجوم نے ان پر جسمانی اور جنسی طور پر حملہ کیا۔

ہجوم نے جنسی زیادتی کے استعارہ کے طور پر لفظ ’’آزادی‘‘ استعمال کیا۔

متعدد خواتین نے حقائق تلاش کرنے والی ٹیم کو بتایا کہ ’’ہجوم نے فحش زبان استعمال کی اور انھیں دھمکی دی کہ اگر وہ ’’آزادی‘‘ چاہتی ہیں تو وہ جنسی استحصال کے استعارہ کے طور پر اس لفظ کو استعمال کرتے ہوئے انھیں ’’آزادی‘‘ دینے کے لیے تیار ہیں۔

پولیس نے خواتین پر جنسی زیادتی کی

رپورٹ میں چاند باغ سے تعلق رکھنے والی سی اے اے مخالف مظاہرہ کرنے والی ایک خاتون کا حوالہ دیا گیا ہے جس نے کہا ہے کہ ’’دہلی پولیس نے خواتین پر بے دردی سے حملہ کیا اور یہاں تک کہ ان پر جنسی زیادتی بھی کی۔‘‘

انھوں نے بتایا کہ پولیس اہلکار اپنی پتلون کھینچ کر اپنے عضور تناسل کو خواتین کی طرف دکھا کر اشارہ کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ یہی ان کی ’’آزادی‘‘ ہے۔

شیو وہار کی ایک اور خاتون نے ٹیم کو بتایا کہ ایک ’’پڑوسی کی بیٹی کی بے عزتی ہوئی ہے اور اسے ہلاک کردیا گیا ہے۔‘‘