سپریم کورٹ نے اڈانی گروپ کے بارے میں رپورٹ پر گجرات پولیس کی طرف سے طلب کیے جانے والے دو صحافیوں کو عبوری راحت دی

نئی دہلی، نومبر 4: سپریم کورٹ نے جمعہ کو آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پروجیکٹ کے دو صحافیوں کو گرفتاری سے تحفظ فراہم کیا، جنھیں گجرات پولیس نے اڈانی گروپ کے ذریعہ اسٹاک میں مبینہ ہیرا پھیری سے متعلق ان کی رپورٹ کے سلسلے میں طلب کیا تھا۔

31 اگست کو شائع ہونے والے صحافیوں روی نائر اور آنند منگلے کی رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ وہ دو سرمایہ کار، جنھوں نے آف شور فنڈز کے ذریعے اڈانی گروپ میں کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی، ان کے گروپ کے پروموٹرز سے قریبی تعلقات ہیں۔

رپورٹ میں بھارتی اسٹاک مارکیٹ کے قوانین کی ممکنہ خلاف ورزی پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔

گجرات پولیس کی احمد آباد کرائم برانچ نے اس رپورٹ کے سلسلے میں 16 اکتوبر کو نائر کو اور 25 اکتوبر کو منگلے کو سمن بھیجا تھا۔ یہ سمن ایک سرمایہ کار کی شکایت کی بنیاد پر آرٹیکل کی ابتدائی تفتیش سے متعلق تھے۔

سمن کے بعد دونوں صحافیوں نے یہ کہتے ہوئے سپریم کورٹ کا رخ کیا کہ انھوں نے اپنی رپورٹنگ میں پوری ایمانداری اور تندہی سے کام کیا ہے۔

دونوں صحافیوں نے شکایت کرنے والے سرمایہ کار کی ساکھ پر بھی سوال اٹھایا۔ ان کی درخواست میں استدلال کیا گیا کہ عوامی طور پر دستیاب معلومات کے مطابق شکایت کرنے والے سرمایہ کار کو اس سے قبل 2009 میں سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج بورڈ آف انڈیا نے تین سال کے لیے اسٹاک مارکیٹ میں حصہ لینے سے روک دیا تھا۔

جمعہ کو سپریم کورٹ نے درخواست گزاروں سے پوچھا کہ انھوں نے براہ راست سپریم کورٹ سے کیوں رجوع کیا ہے۔

تو سینئر ایڈوکیٹ اندرا جے سنگ نے نائر اور منگلے کی نمائندگی کرتے ہوئے جواب دیا کہ انھیں جاری کردہ نوٹس ’’مکمل طور پر کسی دائرۂ اختیار کے بغیر‘‘ تھا اور صحافیوں کو اس میں نہیں لایا جاسکتا۔ انھوں نے یہ بھی سوال کیا کہ گجرات پولیس نے کس اتھارٹی کے ذریعہ نوٹس جاری کیا ہے؟

انھوں نے عدالت کو مزید بتایا کہ دونوں کو نوٹس جاری کرنے کی قانونی دفعات کے بارے میں مطلع نہیں کیا گیا تھا اور یہ بھی واضح نہیں کیا گیا تھا کہ آیا نوٹس کے سلسلے میں ان کے خلاف پہلی معلوماتی رپورٹ زیر التوا ہے یا نہیں۔

انھوں نے کہا ’’یہ خالص اور سادہ ہراسانی اور ممکنہ گرفتاری کا پیش خیمہ ہے۔ انھیں طلب کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے اور یہ سمن آئین کے آرٹیکل 21 [زندگی اور ذاتی آزادی کا تحفظ] کے تحت ان کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔‘‘

جسٹس بی آر گووائی اور جسٹس پی کے مشرا پر مشتمل سپریم کورٹ کی بنچ نے گجرات پولیس سے جواب طلب کیا۔ اس نے پولیس سے یہ بھی کہا کہ وہ صحافیوں کے خلاف کوئی زبردستی کا قدم نہ اٹھائے۔