فرات کا خزانہ: حضور ﷺ کی پیش گوئی

عراق میں ساڑھے تین ہزار برس قدیم بستی کی دریافت

حمیراعلیم

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ﷺ نے فرمایا: ”قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ دریائے فرات سے سونے کا پہاڑ نہ نکل آئے جس پر لڑائی ہو گی اور ہر سو ميں سے ننانوے آدمی مارے جائيں گے۔ ان میں سے ہر ایک یہ سوچے گا کہ شاید میں بچ جاؤں“۔ ایک اور روایت میں ہے کہ ”قريب ہے کہ دریائے فرات (خشک ہو کر) سونے کے خزانے کو ظاہر کر دے۔ لہٰذا جو شخص اس وقت موجود ہو، اس میں سے کچھ بھی نہ لے“۔
ایک اور حدیث کے الفاظ ہیں ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ
نے فرمایا ’’ قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک کہ دریائے فرات سونے کا پہاڑ برآمد نہ کرے گا اور لوگ اس کی وجہ سے یعنی اس دولت کو حاصل کرنے اور اپنے قبضہ میں لینے کے لیے جنگ و قتال کریں گے، پس ان لوگوں میں ننانوے فیصد مارے جائیں گے اور ہر شخص یہ کہے گا کہ شاید میں زندہ بچ جاؤں گا اور مقصد میں کامیاب ہو جاؤں گا۔ یعنی ہر شخص اس توقع پر لڑے گا کہ شاید میں ہی کامیابی حاصل کر لوں اور اس دولت پر قبضہ جما لوں چنانچہ ننانوے فیصد لوگ اس توقع میں اپنی جان گنوا بیٹھیں گے‘‘ (مسلم)
6 جون 2022 کو ایک خبر آئی کہ عراق میں آب و ہوا کی تبدیلی کے سبب دریائے دجلہ کے خشک ہونے سے ساڑھے تین ہزار برس قدیم بستی دریافت ہوئی ہے۔ ماہرینِ آثار قدیمہ کے مطابق دریائے دجلہ کے خشک ہونے والے حصے سے ظاہر ہونے والی بستی 1475 قبل مسیح سے 1275 قبل مسیح کے درمیان قائم ہوئی تھی۔ اس بستی میں لگ بھگ 3350 سال قبل یعنی 1350 قبل مسیح میں زلزلہ آیا تھا۔
شاید یہ دنیا کا سب سے پہلا میٹرو پولیٹن شہر بابل تھا۔ میسوپوٹامیا اب عراق بن چکا ہے لیکن بابل کھنڈر بن چکا ہے۔ بغداد سے 100 کلومیٹر دور دریائے فرات کے کنارے واقع یہ انسانی تاریخ کا پہلا شہر تھا جس کی آبادی دو لاکھ سے زیادہ تھی۔ یہ سلطنت بابل اور کلدانی سلطنت کا درالحکومت تھا۔ چار ہزار سال قبل مسیح کی تحریرں میں اس شہر کا تذکرہ ملتا ہے۔
تورات کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام بابل میں رہتے تھے جب قابیل نے ہابیل کو قتل کیا تو قابیل اپنے اہل و عیال کے ساتھ بھاگ کر ارض بابل کے پہاڑوں میں چلا گیا تو اس جگہ کا نام بابل پڑ گیا جس کے معنی ہیں فرقت یا جدائی۔ پھر جب حضرت ادریس علیہ السلام مبعوث ہوئے اور دوسری طرف قابیل کی اولاد بڑھ گئی تو اس نے پہاڑوں سے نیچے اتر کر بہت فساد برپا کیا اس میں نیک لوگ بھی شامل ہو گئے تو حضرت ادریس علیہ السلام نے اللہ سے دعا کی کہ انہیں ایسی سر زمین عطا ہو جس میں ارض بابل کی طرح دریا بہتا ہو تب انہیں ارض مصر میں منتقل ہونے کا حکم ہوا جب وہ مصر پہنچے تو وہاں کے ماحول کو زندگی کے موافق اور خوش گوار پایا۔ انہوں نے اس کا نام بابل سے ملتا جلتا بابلیون رکھا جس کے معنی ہیں اچھی جدائی یا اچھی فرقت۔
1750 قبل مسیح میں بابی لونیا کے بادشاہ حمورابی نے اسے اپنا پایہ تخت بنایا تو یہ دنیا کا سب سے بڑا اور خوب صورت شہر بن گیا۔ 689 قبل مسیح میں بادشاہ بخت نصر دوم نے اسے دوبارہ تعمیر کرایا۔ پرانا شہر دریائے فرات کے مشرقی کنارے پر آباد تھا۔ بخت نصر نے دریا پر پل بنوایا اور مغربی کنارے کا ایک وسیع علاقہ بھی شہر کی حدود میں شامل کر لیا۔
معلق باغات، جن کا شمار دنیا کے سات عجائبات میں ہوتا ہے، اسی بادشاہ نے اپنی ملکہ کے لیے بنوائے تھے۔ ان باغات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دوسری صدی قبل مسیح میں ممکنہ طور پر ایک زلزلے میں تباہ ہو گئے تھے۔ 539 ق م میں ایران کے بادشاہ سائرس نے بابل پر قبضہ کر لیا۔ 275 ق م میں اس شہر کا زوال شروع ہوا اور نئے تجارتی مراکز قائم ہونے سے اس کی اہمیت ختم ہو گئی۔ بابل لگ بھگ دو ہزار سال تک تہذیب و تمدن کا گہوارہ رہا۔ یہ دنیا کا پہلا شہر تھا جس نے تحریری آئین تیار کیا جس میں 200 سے زائد قوانین درج تھے، یہ قوانین مٹی کی تختیوں اور پتھر کے ستونوں پر لکھے گئے تھے ۔
بابل کی ایک اور خاصیت اس کی خواتین تھیں جنہیں مکمل آزادی حاصل تھی انہیں نہ صرف پادری بننے کی اجازت تھی بلکہ وہ اپنا کاروبار بھی کرسکتی تھیں۔ بابل کی عورتوں کو اپنے شوہروں کی جائیداد میں بھی برابر کا حصہ ملتا تھا۔ بابل اپنے زمانے سے بہت آگے تھا یہاں کے کاریگر ایسے تھے جنہوں نے بہت سے ایسے کام شروع کیے جو اس سے پہلے کبھی نہیں کیے گئے تھے۔ وہ بابل کے ہی کاریگر تھے جنہوں نے پہلی بار قیمتی پتھروں کو دھاتوں میں لگانے کا فن ایجاد کر کے انہیں جواہرات کی شکل دی۔
وہ علم ریاضی کے ماہر تھے۔ سب سے پہلے انہوں ہی نے علم ہیئت کو سائنس کا درجہ دیا۔ بابل کا برج دراصل رصدگاہ تھی۔
سلطنت بابل میں سونا کرنسی کا درجہ رکھتا تھا۔ سلطنت فارس میں چاندی کرنسی تھی۔ یونانی سلطنت میں کانسی جبکہ رومی سلطنت میں لوہا کرنسی تھے۔
دریافت ہونے والی قدیم بستی میں مٹی سے بنے قلعے نما عمارات کے واضح نشانات موجود ہیں۔ ان میں بعض عمارتیں ایک سے زیادہ منزلوں کی بھی تھیں۔ جب کہ بعض مقامات پر ٹاور بھی بنے ہوئے تھے جس سے ان کے محل ہونے کا امکان ظاہر ہوتا ہے۔
اس بستی میں جو بھی تعمیرات ملی ہیں اس میں مٹی کی اینٹیں یا بلاک استعمال کیے گئے تھے ان اینٹوں کو دھوپ میں خشک کیا گیا تھا۔ اس کے بعد ان کا تعمیرات میں استعمال کیا گیا۔ کئی ایسی دیواریں بھی دریافت ہوئیں جو اب بھی درست حالت میں ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دیواریں اس لیے بہتر حالت میں ہیں کیوں کہ ممکنہ طور پر یہ بستی زلزلے سے تباہ ہوئی تھی اور اس میں قائم عمارتوں کے اوپر کی منزلوں یا دیواروں کے ملبے میں نیچے کی تعمیرات دب گئی تھیں۔
اس قدیم بستی کی باقیات سے ماہرین کو پانچ ظروف بھی ملے ہیں جن میں لگ بھگ 100 ایسے چھوٹے چھوٹے مٹی کے ٹکڑے بھی ملے ہیں جن پر کچھ عبارت کندہ ہے۔مٹی سے بنے ان برتنوں پر اشوریہ دورِ حکومت کی تاریخیں درج ہیں، جو اس شہر کے تباہ ہونے کے زمانے میں ہی اس علاقے میں اشوریہ سلطنت بننے کے شواہد ہو سکتے ہیں۔
اسی طرح مٹی کے کچھ ایسے کتبے بھی ہیں جن کے مٹی سے بنے غلاف موجود ہیں مٹی کے غلاف میں موجود ان ٹکڑوں پر عبارت درج ہونے کے سبب ماہرین ان کو خطوط قرار دے رہے ہیں۔
ابھی تک یہاں سے سونے کا کوئی خزانہ دریافت نہیں ہوا لیکن اگر ان اشیاء کی مالیت کا اندازہ لگایا جائے جو ان آثار سے نکلی ہیں تو شاید یہ سونے سے کہیں زیادہ قیمتی ہوں۔ شاید یہی فرات کا وہ خزانہ ہے جس کا ذکر حدیث میں آیا ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  24 جولائی تا 30 جولائی 2022