آسام میں مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی سازش

لسانی اختلافات کو ہندو بنام مسلم کرنے کے بعد مسلمان بنام مسلمان تنازعہ کھڑا کرنے کی کوشش

نور اللہ جاوید، کولکاتا

ایک کروڑ سے زاید مسلمانوں کے اچھوت بن جانے کا خطرہ۔عمائدین ملّت کیلئے لمحہ فکریہ
کئی دہوں سے ساتھ رہنے کے باوجود مسلم معاشرہ سماجی و معاشرتی مساوات قائم کرنےمیں ناکام !
آسام گزشتہ ایک مہینے سے بھیانک سیلاب کی زد میں ہے،10لاکھ سے زاید افراد سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں ،ہزاروں مکانات تباہ ہوچکے ہیں، لاکھوں افراد ہفتوں سے کیمپوں میں مقیم ہیں ، بچے اور ضعیف افراد کی صورت حال انتہائی خراب ہے۔درجنوں افراد کی موت ہوچکی ہے۔خاطر خواہ ریلیف نہیں پہنچنے کی وجہ سے لاکھوں افراد اب بھی پریشان حال ہیں ۔ان حالات میں بھی آسام کے دارالحکومت گوہاٹی میں ایک ہفتے سے زاید وقفے تک ’’رقص جمہوریت ‘‘ کا بدترین ڈرامہ اسٹیج ہوتارہا۔ہارس ٹریڈنگ کے تحت شوسینا کے 40ممبران اسمبلی کو فائیواسٹار ہوٹل کی میزبانی فراہم کی جاتی رہی جس نے نہ صرف حکومت اور سیاست دانوں کی بے حسی کو عیاں کیا بلکہ قومی میڈیا اور نیوزچینلوں کی ترجیحات اور عوامی مسائل کے تئیں ان کی بے حسی کو بھی خوب اجاگر کیا ہے۔فائیو اسٹار ہوٹل کے باہر 24×7گھنٹے تک کیمرہ اور مائیک لے کر کھڑے رہنے والے صحافیوں نے چند سو کلو میٹر دوری پر سیلاب متاثرین کی صورت حال کی رپورٹنگ کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی۔دوسری جانب سیلاب کے لیے مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرانے کی پس پردہ سازش رچی گئی۔ہندوستانی جہاد کی اصطلاحات میں ایک اور نئے ۔’’سیلاب جہاد‘‘کا اضافہ کردیا گیا۔وزارت اعلیٰ کی اہم عہدہ پر متمکن ہیمنت بسوا سرما نے بھی مسلم کمیونیٹی کو نام لیے بغیرنشانہ بنانے کی کوشش کی اور کہا ’’آسام میں سیلاب قدرتی آفت نہیں ہے، بلکہ چند گروپوں کی کارستانی کانتیجہ ہے۔ان شرپسندوں نے سلچر سے تین کلو میٹر دور بیتھو کندی میں دریائے بارک پر بنے ایک پشتے کو توڑ دیا جس کی وجہ سے اتنی بڑی آفت آئی ہے‘‘۔ہیمنت بسوا سرما کے اس بیان کے بعد ہی سوشل میڈیا پر ’’سیلاب جہاد ‘‘ کا ٹرینڈمزید تیز ہوگیا ۔اس بہانے مسلمانوں کو نشانہ بنایا جانے لگا۔کورونا کی پہلی لہر کے دوران ’’کورونا جہاد‘‘ کے نام پر مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم اور اس کے اثرات کا ہمیں بخوبی اندازہ ہے۔بدترین سیلاب کے شکار افراد کے لیے یہ دوہری مار تھی ایک طرف سیلاب کی تباہ کاری اور دوسری طرف فرقہ واریت کی مار ۔تاہم نفرت انگیز مہم کی بڑے پیمانے پرزمینی سطح پر اثرات نمایاں ہونے سے قبل ہی کچھار کے پولیس سپرنٹنڈنٹ رمن دیپ کور 6جولائی کو سامنے آئے اور پریس کانفرنس کرتے ہوئے ’’سیلاب جہاد ‘‘ کے پروپیگنڈے کی ہوانکال دی۔انہوں نے کہا کہ کچھ واٹس ایپ گروپس، سوشل میڈیا پلیٹ فارمس، علاقائی اور کچھ قومی نیوز چینلوں پرسیلاب اور پشتہ ٹوٹنے کو مختلف مفہوم اور نام دیے جارہے ہیں۔ اس واقعہ کے پیچھے کوئی فرقہ وارانہ زاویہ نہیں ہے۔ یہ خالصتاً ایک معاملہ ہے جہاں کچھ متاثرہ افراد نے پشتہ توڑ کر اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کی ہے‘‘۔
یہ واقعہ آسامی معاشرہ کی فرقہ وارانہ ذہنیت اور وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما کے مسلم مخالف مزاج اوررویے کی عکاسی کرتا ہے، جب کہ آسام میں ہی نہیں ملک کے تمام نشیبی علاقوں میں رہنے والے سیلاب کی صورت حال میں عام طور پر پشتہ توڑ کر اپنی جان و مال کی حفاظت کرتے ہیں ۔بیتھو کندی جہاں کے لوگوں نے پشتہ توڑ کر اپنی جان بچائی تھی وہ مسلم علاقہ تھا اس لیے اس کو ’’سیلاب جہاد‘‘ نام دیدیا گیا۔کچھار کے پولیس آفیسر کے مطابق صرف بیتھو کندی میں ہی نہیں بلکہ ایک درجن سے زاید مقامات پر پشتے توڑے گئے تھے اور یہ ہرسال ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا اور نیوز چینلوں پر’’سیلاب جہاد‘‘ پر بحث کے دوران ہی 6جولائی کو آسام کابینہ نے آسامی بولنے والے مسلمانوں کے 5گروپ گوریا، موریا ، دیشی ، جولاہااور سیدکو آسامی دیسی (انڈی جینس ) مسلمان کا درجہ دینے کی تجویز کو منظور کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی آسام حکومت آسامی النسل مسلمانوں کے تہذیب و ثقافت و کلچر اور ان کے تاریخی ورثے کی حفاظت کے لیے سنجیدہ ہے۔
حکومت نے اس کے ساتھ ہی آسام میں آباد 1.3کروڑ مسلمانوں کو دو حصوں آسامی النسل اور بنگالی نژاد میں تقسیم کردیا ہے۔ہیمنت بسوا سرما نے کابینہ کے اس فیصلے کے بعد یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ یہ قدم آسامی النسل مسلمانوں کے دیرینہ مطالبات کے بعد اٹھایا گیا ہے۔اس قدم کے ذریعہ حاشیہ پر پہنچ چکے آسامی النسل مسلمانوں کو سرکاری اسکیموں کے ذریعہ فائدہ پہنچایا جائے گا اور ان کی خواتین اور بچوں پر خصوصی توجہ دی جائے گی اور انہیں خود اختیاربنانے کی کوشش کی جائے گی۔
آسام حکومت کے اس اقدام نے بنگالی نژاد مسلمان بالخصوص آسام کے نچلے علاقے اور باراک ویلی کے دریا کنارے آباد مسلمانوں کا مستقبل تاریک کردیا ۔این آر سی کی وجہ سے سالوں تک پریشان حال رہنے والے مسلمانوں کے سامنے کئی سوالات کھڑے ہوگئے ہیں کہ حکومت اس اقدام سے کیا حاصل کرنا چاہتی ہے اور مسلم سماج پراس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ جب آسامی مسلمانوں کے پانچ گروپ جن کی آبادی ایک اندازے کے مطابق 30سے 35 لاکھ کے قریب ہے وہ دیسی ہیں تو پھر ایک کروڑ سے زاید مسلمان کیا ہیں؟ جوگزشتہ 100سال سے زاید عرصے سے یہاں آباد ہیں ۔اگرچہ وہ بنگالی نژاد ہیں مگر انہوں نے رضاکارانہ طور پر اپنے آباد واجداد کی زبان چھوڑ کر آسامی زبان کو اختیار کرلیا اور آسامی تہذیب و کلچر میں خود کو ضم کردیا ہے۔اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ یہ ٹیگ حاصل کرنے کے بعد آسامی النسل مسلمانوں کو کیا فوائد حاصل ہوں گے؟ اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ اسلام نہ علاقائیت پر یقین رکھتا ہے اور نہ ہی اس میں لسانی عصبیت کی گنجائش ہے اور نہ وہ ذات پات کی تفریق کو تسلیم کرتا ہے ۔ایک صدی سے زاید سے وقفے تک ایک ساتھ رہنے کے باوجود علیحد ہ شناخت کا اصرار یہ ثابت کرتا ہے کہ
مسلم معاشرہ مساوات اور یکسانیت قائم کرنے میں ناکام کیوں رہا ہے ؟کیا یہ مسلمانوں کی اصلاحی و تبلیغی جماعتوں کی ناکامی نہیں ہے؟اہم بات یہ ہے کہ کیا یہ سماجی تفریق کا خاتمہ ممکن ہے اور سماجی مساوات کے لیے کن خطوط اور راہ عمل کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔
اصل معاملہ کیا ہے؟
2014میں کانگریس چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہونے والے ہیمنت بسوا سرمامحض چند سالوں میں مسلم مخالف بیانات اور رویے کی وجہ سے شمال مشرقی ریاستوں میں خود کو فائر برانڈ لیڈر کے طور پر منوانے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔2016میں آسام میں پہلی مرتبہ بی جے پی کی حکومت قائم کرنے میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا،چوں کہ وہ بی جے پی میں بالکل نئے تھے اس لیے انہیں وزارت اعلیٰ کی کرسی تو نہیں سونپی گئی مگر وہ حکومت میں ایک اعلی اختیار کے حامل وزیر کے طور کام کرتے رہے۔ان پانچ سالوں میں مسلم مخالف بیانات دے کر وہ سرخیوں میں رہے۔2021کے اسمبلی انتخابات کی مہم کی قیادت انہوں نے ہی سنبھالی اور انہوں نے ہی بنگالی مسلمانوں کو کھلے عام نشانہ بنایا تھا۔ انہوں نے صاف صاف لفظوں میں کہا کہ انہیں بنگالی نژاد مسلمانوں کے ووٹوں کی ضرورت نہیں ہے، ظاہر ہے کہ وہ ایک طرف پولرائزیشن کی کوشش کررہے تھے تو دوسری طرف آسام کے 35فیصد مسلمانوں کو مقامی اور غیر مقامی کے نام پر تقسیم کرنا بھی چاہتے تھے۔بنگالی نژاد مسلمان عموماً بدرالدین اجمل کی ’آئی اے یو ڈی ایف‘ ، کانگریس اور سی پی ایم کو ووٹ دیتے ہیں۔انتخابی مہم کے دوران انہوں نے انتخابی مہم کو فرقہ وارانہ بنانے کی کوشش کی وہیں بہت ہی ہوشیاری سے آسام کے مسلمانوں کو آسامی النسل اور بنگالی نژاد کے نام پر بھی تقسیم کیا۔چوں کہ آبادی کے لحاظ سے بنگالی مسلمانوں کی آبادی بہت ہی زیادہ ہے اس لیے آسامی النسل مسلمان تمام محرومیوں اور ناکامیوں کے لیے بنگالی نژاد مسلمانوں کو ذمہ دار سمجھتے ہیں۔چوں کہ الیکٹرولر نظام میں کثرت آبادی کا فائدہ ہوتا ہے اس لیے پارلیمنٹ اور اسمبلی میں نمائندگی کے اعتبار سے بنگالی مسلمان فائق رہے ہیں۔آسام کی سابق وزیر اعلیٰ انورہ تیمور آسامی النسل تھیں مگر وہ بنگالی نژاد مسلم اکثریتی علاقے سے منتخب ہوتی تھیں ، کانگریس کے موجودہ ممبراسمبلی رقیب الحسن آسامی النسل ہیں مگر وہ بھی بنگالی نژاد مسلم اکثریتی علاقے سے کامیاب ہوتے ہیں۔چناں چہ ہیمنت بسوا سرما نے 2021میں وزارت اعلیٰ کی کرسی پر متمکن ہونے کے ساتھ ہی آسامی النسل اور بنگالی نژاد مسلمانوں کے درمیان ایک بڑی خط فاصل کھینچنے کی کوشش کی۔
80کی دہائی میں 6سالوں تک آسام لسانی عصبیت کی آگ میں جھلستا رہا، سیکڑوں افراد کا قتل کیاگیا ، لاکھوں افراد نقل مکانی پر مجبور ہوگئے ۔1985میں راجیو گاندھی نے آل آسام اسٹوڈنٹ یونین ، حکومت آسام سے معاہد ہ کیا۔اسے آسام اکارڈ کے نام سے جانا جاتا ہے۔جس میں یہ طے کیا گیا کہ آسام میں این آر سی کرایا جائے گا اور 24مارچ 1971سے قبل آسام آنے والے تمام شہریوں کو آسامی شہری قرار دیا جائے گا۔ اس کے علا وہ اس معاہدہ کے شق نمبر 6میں آسامی ثقافت و کلچر اور زبان کی حفاظت کے لیے اقدامات کرنے اور ان کے حقوق کی حفاظت آئینی اقدامات کی سفارش کی گئی تھی۔
چناں چہ2019میں مرکزی حکومت نے آسام آکارڈ کی شق نمبر 6کی سفارشات پر عمل کرنے کے لیے 14رکنی کمیٹی قائم کی ۔اس کمیٹی میں آسامی صحافی وسبیر حسین بھی شامل تھے۔اس کمیٹی کو آسامی النسل افراد کی تعریف کو متعین کرنا تھا۔اگست 2020میں آنے والی رپورٹ کے مطابق کمیٹی نے سفارش کی کہ یکم جنوری 1951سے پہلے آسام میں آباد افراد کو آسامی النسل شمار کیا جائے اورآسام معاہدہ کے تحت ان کی تہذیب و تمدن کی حفاظت کی جائے۔تاہم یہ تعریف خود کو آسامی النسل ہندو اور مسلمانوں کو مطمئن نہیں کرسکی اور تنازعہ کاسبب بن گئی ۔
2019-2020کے بجٹ میں بی جے پی کی قیادت والی حکومت نے آسامی مسلمانوں کی سماجی و اقتصادی مردم شماری اور ان کی ہمہ جہت ترقی کے لیے علیحدہ کارپوریشن قائم کرنے کے لیے 100کروڑ روپے مختص کیے۔مگر تین سال بیت جانے کے بعدبھی اس پر کوئی کام نہیں ہوسکا۔2021میں آسام کے وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے بعد ہیمنت بسواسرما نے جولائی 2021 میں ’’ الاپ آلوچنا ‘‘- مذہبی اقلیتوں کو بااختیار بنانا کے عنوان سے 150 دانشوروں اور آسامی مسلم کمیونٹی کے اراکین کے ساتھ ایک میٹنگ کی ۔اس میٹنگ میں مسلم آبادی کو کنٹرول کرنے ، دو بچے کی پالیسی پر عمل کرانے اور مقامی مسلمان اور مبینہ طور پر بنگلہ دیش سے ہجرت کرکے آنے والے مسلمانوں کے درمیان فرق کرنے پر غو رو فکر کیا گیا۔اس میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ آسامی نژاد مسلمانوں کو درپیش مختلف چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے روڈ میپ کے لیے آٹھ ذیلی کمیٹیاں بنائی جائیں۔ آسامی صحافی وسبیر حسین کی قیادت والی ایک ذیلی کمیٹی نے اس سال اپریل میں 52صفحات پر مشتمل اپنی سفارشات پیش کی ہے۔کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ چوںکہ آسامی النسل مسلمانوں کی علیحدہ شناخت نہیں ہونے کی وجہ سےسماجی و اقتصادی ترقی سے محروم ہیں،صدیوں سے آسامی معاشرہ کا حصہ ہونے کے باوجوو مذہب اور نام میں یکسانیت کی وجہ سے انہیں بنگالی مسلمان سمجھ لیا جاتا ہے۔1.4آسامی دیسی مسلمانوں کے نام این آر سی میں شامل نہیں ہوسکے ،اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ دیسی مسلمانوں کی علحدہ مردم شماری کرائی جائے ، انہیں علیحد شناختی کارڈ جاری کیے جائیں،پارلیمنٹ اور اسمبلی میں ان کی نمائندگی صفر ہیں اس لیے آسامی النسل مسلمانوں کی قانون ساز اداروں میں نمائندگی کے لیے قانون سازی کی جائے ۔کمیٹی نے مسلمانوں کے 5گروپ گوریا، موریا ، دیشی ، جولاہااور سیدکودیسی مسلمان کے زمرے میں رکھنے کی تجویز پیش کی ۔
اپریل میں کمیٹی کی سفارشات سامنے آنے کے بعد سے ہی یہ موضوع زیر بحث ہے کہ کیا حکومت ذیلی کمیٹی کی تمام سفارشات کو تسلیم کرلے گی؟۔تاہم جولائی کے پہلے ہفتے میں ہیمنت بسوا سرما کی کابینہ نے 5برادریوں کو دیسی ہونے کا درجہ دینے کی تجویز کو تسلیم کرلیا۔تاہم نہ سرما نے اور نہ بی جے پی نے واضح کیا ہے کہ کمیٹی نے جو اپنی برادری کی سماجی و اقتصادی ترقی کے لیے جو سفارشات کیے ہیں یا پھر قانون ساز اداروں میں نمائندگی کے لیے قانون میں ترمیم کرنے کی جوتجاویز پیش کی ہے اسے بھی تسلیم کیا جائے گا؟ ۔مگر اہم سوال یہ ہے کہ آسام میں نقل مکانی کی وجہ سے آسامی النسل ہندو بھی متاثر ہوئے ہیں ۔تو پھر صرف مسلمانوں کی ہی دیسی شناخت کیوں کی جارہی ہے؟۔
آسام میں لسانی عصبیت سے فرقہ واریت تک
80کی دہائی میں آسام میں لسانی تحریک کے دوران قتل عام کی رپورٹنگ کرنے والے مشہور انگریزی صحافی شیکھرگپتا جو اس وقت’ انڈیا ٹوڈے‘ کے لیے رپورٹنگ کرتے تھے نے یادداشت پر مشتمل اپنی کتاب Assam: A Valley Divided میں صفحہ121-122میںآسام میں لسانی شناخت کی جدو جہد کو فرقہ واریت میں تبدیل کرنے کی آر ایس ایس کی خواہشات کا اس طرح ذکر کیا ۔’’ایک دن گوہاٹی کے ایک ہوٹل جہاں میں مقیم تھا۔ استقبالیہ سے فون آیا کہ آپ سے ملنے کے لیے چند افراد آئے ہیں بعد میں معلوم ہوا کہ وہ آر ایس ایس کے سینئر عہدیدار ہیں جس میں کے ایس سدرشن بھی شامل تھے جو بعد میں آر ایس ایس کے سرسنچالک بنے۔ سدرشن نے ان سے سوال کیا کہ آخر اس پورے ہنگامہ آرائی میں بنگالی ہندو کیوں نشانہ بن رہے ہیں؟۔ شیکھر گپتا نے لکھا ہے کہ ’’میں نے اس وقت ان کے سامنے آسامی قوم پرست شناخت سے متعلق تفصیلی گفتگو کی اور بتایا کہ یہ ہنگامہ آرائیاں مذہبی شناخت کی بنیاد پر نہیں ہورہی ہیں بلکہ اس کے پیچھے لسانی شناخت کی بقا کی جدو جہد شامل ہے۔ 1826میں آسام کے برطانوی حکومت کے تحت آنے کے بعد زراعت اور چائے کے باغات کی بازآباد کاری کے لیے بڑے پیمانے پر انگریزوں نے بنگالیوں کو آباد کیا۔ نقل مکانی کرنے والوں میں تعلیم یافتہ بنگالی اور مزدور پیشہ غریب بنگالی بھی تھے۔ یہ سلسلہ 1826سے 1971تک جاری رہا۔ اس وقت سے ہی آسامی النسل افراد کو احساس ہے کہ بنگالیوں کی آمد کی وجہ سے ان کی تہذیب و کلچر اور لسانی و تہذیبی شناخت خطرے میں آگئی۔ چناں چہ ہندوستان کی آزادی کے چند سالوں بعد ہی مقامی و غیر مقامی افراد کے علیحدہ شناخت کا مطالبہ شروع ہوگیا تھا‘‘۔ شیکھر گپتا نے آگے لکھا ہے کہ ’’ہم نے ان کے سامنے آسام میں نسلی لسانی مساوات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس پورے ہنگامے کی اصل وجہ مذہبی شناخت نہیں ہے بلکہ لسانی شناخت ہے اور ہجرت کرکے آنے والوں میں جہاں بنگالی مسلمان شامل ہیں وہیں بڑی تعداد بلکہ مسلمانوں سے کہیں زیادہ ہندو بنگالی شامل ہیں۔ یہ نفرت انگیزی ان دونوں کے خلاف ہے‘‘۔
دراصل گزشتہ 40سالوں سے آر ایس ایس نے آسام میں لسانی عصبیت کو مذہبی عصبیت میں تبدیل کرنے کی منصوبے بند طریقے سے کوشش کی ہے اور گزشتہ چند سالوں میں انہیں کامیابی بھی ملی ہے۔ آسام میں مقامی اور غیر مقامی لوگوں کی شناخت کے لیے این آر سی کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد شہریت ترمیمی ایکٹ کو اسی تناظر میں ہی دیکھنا چاہیے۔ ایکٹ کے مطابق این آر سی میں جگہ نہیں پانے والے اگر بنگالی ہندو ہیں تو انہیں فوری شہریت مل جائے گی اور مسلمان محروم ہی رہیں گے۔ اگرچہ این آر سی کی حتمی رپورٹ نے مسلم مخالف قوتوں اور لیڈروں کو مایوس کردیا ہے۔ جب کہ پہلے یہ دعویٰ کیا جاتا تھا کہ 40لاکھ مسلمان غیرقانونی شہری ہیں مگر کھودا پہاڑ نکلا چوہا۔
گزشتہ چالیس برسوں میں سنگھ پریوار نے لسانی مساوات کی اس جنگ کو فرقہ واریت میں تبدیل کرنے کی جو کوششیں کی ہیں اس کا ثمر انہیں مل رہا ہے۔ مگر اب مسلمانوں کو تقسیم کرنے اور ان کے درمیان طبقاتی اختلافات مستحکم کرنے کی جو تدابیر کی جارہی ہے اس کو صرف ووٹ بینک میں سیندھ لگانے کی کوشش کا حصہ نہیں سمجھنا چاہیے۔ بلکہ اس کے پیچھے طویل مدتی منصوبہ شامل ہے۔ مارچ 2022میں آسام اسمبلی میں گورنر کے خطبے پر تحریک تشکر پر ہیمنت بسوا سرما کی اس تقریر کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیے جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ آسام میں مسلمانوں کی آبادی 35فیصد ہے۔ 9اضلاع میں وہ اکثریت میں ہیں۔ اس لیے مسلمانوں کو خود کو اقلیت تصور کرنا چھوڑنا ہوگا۔ وہ خود کوآسامی سمجھنا شروع کردیں۔ ہیمنت بسوا سرما نے انتخابی مہم کے دوران ایک کروڑ بنگالی مسلمانوں سے متعلق دعویٰ کیا تھا کہ وہ شدت پسند ہیں اور آسامی تہذیب و تمدن کے لیے خطرہ ہیں۔ مگر اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہونا چاہیے کہ آسام میں سرکاری مدرسوں کی حیثیت کو تبدیل کرنے اور ضلعی سطح پر اقلیت و اکثریت کی تشریح کرکے مسلم اکثریتی اضلاع کو مطعون کرنے والے ہیمنت بسوا سرما 40لاکھ دیسی مسلمانوں کے ہمدرد ہیں۔ کیوں کہ آسام کی ڈیمو گرافی کو دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ 62فیصد ہندئوں میں بڑی تعداد ان قبائلیوں کی ہے جن کی تہذیب، عبادت گاہیں اور زبان بھی الگ ہے۔ اگر لسانی و تہذیبی بنیادوں مردم شماری کی جائے تو آسام کا ڈیموگرافی کچھ اور ہوگا۔ ایسے میں اس امر پربھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ کہیں اس کے پیچھے آسام میں مسلمانوں کی آبادی کے ڈیموگرافی کو تبدیل کرنا مقصود تو نہیں ہے؟ ایک طرف آسام کی قدیم مسلم آبادی کی شناخت اور ان کے لیے علیحدہ شناختی کارڈ جاری کرنے کی بات کی جارہی ہے تو دوسری طرف جنوبی آسام کے وادی بارک میں صدیوں سے رہنے والے کچہری مسلمانوں کو اس میں شامل نہیں کیا گیا ہے جب کہ سوسائٹی فار انڈیجینس مسلمز آف باراک ویلی کے صدر عتیق الرحمن باربھویان نے کمیٹی کے سامنے پریزنٹیشن پیش کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ان کی تاریخ 1600کی دہائی تک جاتی ہے۔ان کا تعلق مشرقی بنگال سے ہجرت کرنے والے تارک وطن سے نہیں ہے۔
آسامی النسل مسلمان کون ہیں؟
آسام میں اسلام اور مسلمانوں کا تاریخی وجود کم وبیش 700سالوں پر محیط ہے۔ بنگال کی طرح یہاں بھی بڑی تعداد میں صوفیائے کرام آئے اور معاشرتی وسماجی اصلاح کی کوشش کی اور ان کی اصلاحی کوششوں کی وجہ سے بڑی تعداد میں مقامی آبادی نے اسلام قبول کیا۔ آسام میں مسلمانوں کی تاریخ کو بختیار خلجی کے حملے سے جوڑا جاتا ہے جب کہ تاریخی شواہد یہ بتاتے ہیں خلیج بنگال اور برما کے راستے بنگال اور آسام کے اس خطے میں اسلام آٹھویں صدی میں پہنچ گیا تھا۔ تاہم بختیار خلجی کے حملے کے بعد بڑی تعداد میں مقامی آبادی نے اسلام قبول کیا اور باہر سے آنے والے فوجی اور دیگر تاجر پیشہ افراد شادی بیاہ کرکے اس معاشرے کا حصہ بن گئے ۔1826میں برطانوی حکومت سے آسام کے الحاق کے بعد مشرقی اور مغربی بنگال سے بڑی تعداد میں زراعت اور غیر منظم سیکٹر میں کاروبار کرنے کے لیے نقل مکانی کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس نقل مکانی نے آسام کے ڈیمو گرافی میں بڑی تبدیلی پیدا کردی۔ مقامی آبادی پر تارکین وطن حاوی ہوتے گئے۔ نقل مکانی نے ڈیمو گرافی کو کس طرح تبدیل کیا اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ ضلع کامروپ میں 1856کی مردم شماری کے مطابق مسلمانوں کی آبادی 23498تھی مگر 1872کی مردم شماری میں یہ تعداد بڑھ کر 45832ہوگئی۔ یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ مسلمانوں نے مشرقی اور مغربی بنگال سے ہجرت حالیہ دہائیوں میں نہیں کی بلکہ ان کی نقل مکانی کو دو صدیاں بیت چکی ہیں۔ ان کی چار نسلیں یہاں گزر چکی ہیں۔ انہوں نے اپنی علیحدہ شناخت پر اصرار کرنے کے بجائے آسامی تہذیب و تمدن کو اپنا حصہ بنایا اور آسامی لٹریچر میں اہم کردار بھی ادا کیا ایسے میں یہ سوال ہے کہ تین سے چار نسلوں سے آباد افراد مقامی نہیں ہوں گے تو پھر کون ہوگا۔ یقیناً جن پانچ طبقات کو دیسی قرار دیا گیا ہے ان کے وجود کی تاریخ کئی صدیوں پرانی ہے ۔ان کے مفادات کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے مگر یہ بنگالی مسلمانوں کی قیمت پر نہیں ہونا چاہیے۔
پانچ برادریاں جنہیں دیسی کا ٹیگ ملا ہے
2011 کی مردم شماری کے مطابق آسام کی3.12 کروڑ کی آبادی میں 1.06 کروڑ مسلمانوں (34%) کی آبادی ہے۔ لیکن اس میں نسلی بنیادوں پر کوئی تقسیم ریکارڈ نہیں کی گئی ہے۔ آسام حکومت کو ذیلی کمیٹی کی رپورٹ میں موجودہ مسلمانوں کی آبادی 1.18 کروڑ بتائی گئی ہے، جس میں پانچ ’’دیسی‘‘ گروپوں کی تعداد 42 لاکھ بتائی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آسام میں ہر 3 مسلمانوں میں سے ایک دیسی مسلمان ہے۔
دیسی: آسام میں اسلام قبول کرنے والوں کی یہ پہلی کھیپ مانی جاتی ہے۔ ان کا سلسلہ نسب علی میچ سے ملتا ہے۔ جوکوچ بہارکے راج بنشی سردار تھے1205 ء کے قریب بختیار خلجی کے حملے کے دوران اسلام قبول کیا تھا۔
سید: آسام میں بڑی تعداد میں مختلف عرب ممالک سے صوفی اور مسلم داعیوں کی جماعت آسام میں آباد ہوئی۔ جن میں سب سے پہلے 1497 میں سید بدیع الدین شاہ ماڑا (مدن پیر) اور1630میں سید معین الدین بغدادی (اذان پیر یا اذان فقیر) شامل ہے۔ان کے پیروکاروں کی اولاد خود کو سید لکھتی ہے۔
گوریا: 1615 اور 1682 کے درمیان مغل بادشاہوں کے حملے کے دوران احوم بادشاہوں نے کئی فوجیوں کو قید کرلیا۔ ان میں سے کئی کا تعلق قدیم بنگال کے گوڑ سے تھا۔ اس لئے انہیں گوڑیا کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ لوگ آسام میں آباد ہوگئے اور مقامی خواتین سے شادی کرکے رفتہ رفتہ آسامی معاشرہ کا حصہ بن گئے۔ ان میں وہ قبائلی ہندو بھی شامل ہیں جنہوں نے آذان پیر کے زمانے میں اسلام قبول کیا تھا۔
موریا: یہ بھی جنگی قیدیوں کی اولاد ہیں جنہیں 16ویں صدی میں تربک خان کے حملے کے بعد احوم بادشاہ نے گرفتار کرلیا تھا ۔
جولاہا: ایک چھوٹی سی برادری ہے جو اصل میں غیر منقسم بہار، اڈیشہ اور مغربی بنگال سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان سے متعلق انگریز مصنفین نے لکھا ہے کہ دراصل یہ آدی واسی تھے مگر انہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ انہوں نے دو مرحلوں میں آسام کی طرف ہجرت کی۔ احوم کے دور حکومت میں بنکروں کے طور پر، اور 19ویں صدی میں برطانوی حکمرانوں نے چائے کے باغات میں مزدوری کے لیے انہیں آباد کیا۔
اس فیصلہ کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
مگر سوال اب بھی اپنی جگہ ہے کہ آخر 40لاکھ آسامی نژاد مسلمانوں کودیسی قرار دینے سے کیا فرق پڑے گا؟ یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا دیہی بنگال میں رہنے والے بنگالی نژاد مسلمانوں کی سماجی و اقتصادی صورت مذکورہ بالا پانچ کمیونٹیوںکے مقابلے بہتر ہے؟ اگر اس سوال کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اقتصادی طور پر زارعت کے پیشے سے وابستہ بنگالی نژاد مسلمانوں کی معاشی حالت بہت ہی زیادہ ابتر ہے۔ برہم پتر اور بارک ویلی ندی کے آس پاس رہنے والے بنگالیوں کو ہرسال سیلاب کی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ ایک طرف آسامی النسل مسلمان خود کا شمار اشرافیہ میں کرتے ہیں تو دوسرے طرف وہ مراعات کی بات بھی کررہے ہیں۔ جب کہ سماجی طور پر بنگالی نژاد مسلمانوں کو نفرت کا سامنا ہے۔ انہیں حقارت بھری نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ نفرتی انداز میں میاں کہہ کر بلایا جاتا ہے۔ حال ہی حافظ احمد کی نظم ’’میں میاں ہوں‘‘ نے آسامی معاشرہ میں ہلچل مچادی تھی۔ یہ پوری نظم بنگالی نژاد مسلمانوں کے ساتھ بدسلوکی کی کہانی بیان کرتی ہے۔ اے آئی یو ڈی ایف کے ممبراسمبلی امین الاسلام کہتے ہیں دراصل یہ بنگالی نژاد مسلمانوں کو اچھوت بنانے کی کوشش ہے۔ آسامی نژاد مسلمان پہلے سے ہی سرکاری فلاحی اسکیموں سے محروم ہیں اور اس قدم سے مزید مرحوم ہوجائیں گے۔
آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے نائب صدر حافظ رشید چودھری جوگوہاٹی ہائی کورٹ میں سینئر وکیل ہیں ’’دعوت کے نمائندے‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حکومت کا منشا صاف ہے کہ وہ مسلمانوں کو منقسم کرنا چاہتی ہے اور اس میں وہ کامیاب بھی ہورہی ہے۔ مگر ذیلی کمیٹی کی سفارشات میں قانون ساز اداروں میں نمائندگی کا جو مطالبہ کیا گیا ہے کیا وہ ممکن ہے؟۔ جب کہ ہندوستان کے دستور میں مذہبی بنیاد پر ریزرویشن کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ شیڈول کاسٹ و شیڈول ٹرائب کے علاوہ کسی بھی طبقات کے لیے سیٹیں ریزرو نہیں ہیں تو ان کے لیے کیسے کی جاسکتی ہیں ؟ کیا ہیمنت بسوا سرما کی حکومت آئین میں تبدیلی کرے گی؟۔ یہ وہ سوالات ہیں جن پر آسامی نژاد مسلمانوں کے دانشوروں کو غور کرنا چاہیے۔ اس سوال پر آخر کئی صدیوں تک ساتھ رہنے کے باوجود آسامی اور بنگالی نژاد مسلمانوں کے درمیان سماجی و معاشرتی فرق کیوں ہے؟ حافظ رشید احمد کہتے ہیں جس طریقے سے صورت حال کو پیش کیا جارہا ہے اس طرح کے حالات نہیں ہیں۔ جو لوگ آسامی نژاد مسلمانوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرتے ہیں وہ مٹھی بھر لبرل اشرافیہ ہیں جو اسلامی شناخت پر نسلی شناخت کو ترجیح دیتے ہیں۔ جمعیت علما ئے ہند اور جماعت اسلامی جیسی ملک گیرمذہبی جماعتوں میں آسامی نژاد مسلمان بھی شامل ہیں۔ وہ اس حقیقت کو سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ پانچ دہائیوں میں آسام میں جو صورت حال پیدا کی گئی اور بنگالی ہونے کوایک جرم بنادیا گیا اس کی وجہ سے آسامی نژاد مسلمانوں نے اپنی الگ شناخت محفوظ کرنے پر زیادہ توجہ دی۔ جب کہ آپس میں شادی بیاہ بھی ہوتے ہیں اور ہمارے درمیان کوئی اختلافات بھی نہیں ہیں۔ اس سوال پر اس سماجی عدم مساوات کے خاتمے کے لیے کیا اقدامات کرنے چاہئیں؟۔ حافظ رشید چودھری کہتے ہیں کہ یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ مسلم شناخت پر نسلی شناخت کو ترجیح دینے کی بات کی جارہی ہے۔ ہمیں غور فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ صدیوں تک ساتھ رہنے کے باوجود ہماری سوچ و فکر غیر اسلامی ہے ۔اس کے لیے آسامی کمیونٹی کے مذہبی افراد کے ساتھ مل کر سماجی عدم مساوات کے خاتمہ کرنے کی فکر کرنی ہوگی اسی صورت میں ہم حکومتی سازش کا مقابلہ کرسکیں گے۔
تاہم ایسا بھی نہیں کہ آسامی نژاد مسلمان مذہبی شناخت پر نسلی شناخت کو ترجیح دینے کے حق میں متحد ہیں۔ آسامی نژاد مسلمانوں میں بھی ایک بڑی تعداد ایسے افراد کی ہے جو حکومت کے ارادے وپس پردہ عزائم کو سمجھتی ہے۔ آسامی نژاد مسلم طلبا کی نمائندگی کرنے والے آل بی ٹی سی اقلیتی طلبا یونین کے جنرل سیکریٹری بائیسن حسین کہتے ہیں ہمیں گوریا، موریا اور سید کو تقسیم کرنے کی حکومت کے عزائم سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ہندو راشٹرکی بات کرنے والے ہمارے ہمدر نہیں ہوسکتے ہیں۔
ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی میں تاریخ کی پروفیسر اور پیس اسٹڈیز کی اعزازی چیئر پرسن پروفیسر یاسمین سائکیاجن کا تعلق خود بھی آسامی نژاد مسلمانوں سے ہے اور انہوں نے The Muslims of Assam present/absent historyکے عنوان سے ایک تفصیلی مقالہ بھی لکھا ہے جس میں آسامی مسلمانوں کی تاریخ اور ماضی کے پس منظر کو دریافت کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔وہ اس پورے فیصلے کو ’’ڈرائونے خواب ‘‘سے تعبیر کرتی ہیں۔انہوں نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ ایک آسامی ہیومنسٹ کے طور پرمیں اس قدم کو بہت ہی افسوسناک سمجھتی ہوں۔ مختلف مسلمانوں کو دیے گئے لیبل مسلم کمیونٹی کو تقسیم کرنے کی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔اگر اس اقدام کا مقصد آسام میں مسلمانوں کی سماجی و اقتصادی حالت کو بہتر بنانا تھا تووہ ایک گروپ کے اندر ایک چھوٹے سے گروپ کی شناخت، انہیں شناختی کارڈ اور سرٹیفکیٹ دینے سے کوئی مقصد پورا نہیں ہو سکتا ہے۔ درحقیقت اس کی وجہ سے سماجی و اقتصادی مسائل پیدا ہوں گے۔
(نوراللہ جاویدصحافت سے گزشتہ 20سالوں سے وابستہ ہیں) [email protected]
فون:8777308904
***

 

***

 آسامی نژاد مسلمانوں میں بھی ایک بڑی تعداد ایسے افراد کی ہے جو حکومت کے ارادے وپس پردہ عزائم کو سمجھتی ہے۔ آسامی نژاد مسلم طلبا کی نمائندگی کرنے والے آل بی ٹی سی اقلیتی طلبا یونین کے جنرل سیکریٹری بائیسن حسین کہتے ہیں ہمیں گوریا، موریا اور سید کو تقسیم کرنے کی حکومت کے عزائم سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ہندو راشٹرکی بات کرنے والے ہمارے ہمدر نہیں ہوسکتے ہیں۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  24 جولائی تا 30 جولائی 2022