فاطمہ گریم:جرمنی کی معروف داعیہ

تفسیرِ قرآن اور تصنیف و تالیف کے میدان میں قابل تحسین کارنامہ

مجتبیٰ فاروق، حیدرآباد

 

مجتبیٰ فاروق، حیدرآباد
فاطمہ گریم (Ftima Grimm) کی پیدائش ۱۹۳٤ء کو میونخ (جرمن) میں ہوئی۔ انہوں نے ۱۹٦٠ میں ۲٦ سال کی عمر میں اسلام کو گلے لگایا اور اس کی تبلیغ و اشاعت کو اپنا تاحیات مشن بنایا۔وہ قبول اسلام کے بارے میں کہتی ہیں کہ ۱۹۵۸ میں جرمنی میں مسلمانوں سے میرے مکالمے کی ابتداء ہوئی۔ ۱۹٦٠ کے اوائل میں میرے پاس قرآن کا ایک با ترجمہ نسخہ اور The Road to Makkah کا جرمن ترجمہ موجود تھا تاہم، اس کے ساتھ ساتھ وہ کتاب جس نے میرے دل و دماغ پر فیصلہ کن اثر ڈالا وہ مولانا مودودی کی ایک معروف کتاب Towards Understanding Islam تھی۔ یہی کتاب میرے لیے ایک مسلمان کی حیثیت سے زندگی گزارنے کے لیے مہمیز ثابت ہوئی۔ اسی کتاب سے مجھے یہ معلوم ہوا کہ صحیح رویہ کیا ہے اور غلط رویہ کیا ہے اور یہ کہ اسلام راہ راست دکھاتا ہے گمراہ نہیں کرتا۔ جب مجھ پر اس حقیقت کا انکشاف ہوا تو میں فوراً اسلام لانے کے لیے تیار ہوگئی۔ فاطمہ گریم نے بعد میں جرمن کے ہی ایک نو مسلم اسکالر ڈاکٹر عمر عبدالعزیز سے نکاح کر لیا۔ موصوف نے فاطمہ گریم کے اسلام کے تعلق سے تمام شکوک و شبہات کو دور کیا جو کئی برسوں سے ان کے ذہن میں پل رہے تھے اور ان کے لیے نئی دنیا کے دروازے کھول دیے۔ان ہی کی رہنمائی میں فاطمہ گریم نے اسلام کے متعلق وہ مستند کتابیں پڑھنا شروع کیں جو جرمن زبان میں موجود تھیں۔ فاطمہ گریم نے ۱۹٦٣ میں اپنے شوہر عمر عبد العزیز کے ساتھ پاکستان کا بھی دورہ کیا اور وہاں تین سال تک قیام کیا۔ اس دورے کے بارے میں وہ کہتی ہیں کہ ”پاکستان میرے لیے اسلام کی اولین درسگاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں آنے کے بعد ہی مجھے اسلام کے بارے میں بنیادی معلومات حاصل ہوئیں۔ جب میں نے اپنے پاکستانی مسلمان بھائیوں اور بہنوں کے درمیان گزارے گئے تین برسوں کے بارے میں سوچتی ہوں تو محسوس ہوتا ہے گویا ابھی کل کی بات ہے کہ جب میں ایمان افروز تجربے اور اسلام کی بنیادی تعلیمات کو سیکھنے کے جذبے سے سرشار تھی اور جی چاہتا تھا کہ یہ سلسلہ ختم نہ ہو اور میں سیرت اور قرآن مجید کے بحر ذخار سے اپنی پیاس بجھانے کی کی کوشش میں مصروف رہوں“۔ پاکستان میں قیام کے دوران انہوں کئی اسلامی اسکالرس اور علماء سے استفادہ کیا جن میں مولانا مودودی اور مریم جمیلہ بھی شامل ہیں۔ مولانا مودودی کے افکار کو انھوں نے یورپ میں متعارف کرانے میں اہم رول ادا کیا ہے۔
اسلام ہی نے فاطمہ گریم کی روحانی پیاس بجھائی۔ وہ اسلام کے عالمگیر پیغام کے بارے میں کہتی ہیں کہ ’’اسلام عام مفہوم میں مذہب نہیں بلکہ زندگی گزارنے کا ایک مکمل نظام حیات ہے۔صرف اسلام ہی نوع انسانیت کا وہ مذہب ہے جس کی مثال دنیا میں کوئی اور نظریہ یا مذہب پیش نہیں کرسکتا‘‘۔ مزید کہتی ہیں کہ ’’قرآن کریم وحی الٰہی کے اس سلسلے کی جس میں تورات اور انجیل خاص اہمیت رکھتی ہیں سب سے آخری، سب سے صحیح اور بالکل غیر محرف کڑی ہے۔ قرآن کی حکمت و دانش نے میرے اندر عقیدت و محبت کے جذبات جگائے لیکن سب سے بڑی مسرت مجھے نماز کے ذریعے سے ہی حاصل ہوئی‘‘۔
فاطمہ گریم نے قبول اسلام کے بعد جرمن زبان میں اسلامی لٹریچر تیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس اہم اور عظیم کام کے لیے خود کو اسلام کی اشاعت کے لیے وقف کر دیا اور دوسروں سے بھی کام لیتی تھیں۔ فاطمہ گریم نے جرمن زبان میں کئی کتابیں تیار کیں۔ اسلام کے بنیادی عقائد اور احکامات پر بھی انہوں نے بہت اچھا لکھا اور مجلہ ’الاسلام‘ کے لیے بھی وہ مسلسل مضامین لکھتی رہیں۔ اسلامی مفکرین کی کئی اہم کتابوں کو بھی انہوں جرمن زبان میں منتقل کیا۔ ان مفکرین میں مولانا مودودی، علامہ محمد اسد، سید قطب شہید، مولانا عبد الماجد دریا آبادی اور سید امیر علی قابل ذکر ہیں۔ انگریزی زبان میں بھی انہوں نے چند کتابیں لکھیں جن کے نام یہ ہیں: 1- Islam Through the Eyes of a Women 2 -Family Life in Islam
فاطمہ گریم نے دیارِ یورپ میں ترجمہ و تفسیرِ قرآن اور تصنیف و تالیف کے میدان میں قابل تحسین کارنامہ انجام دیا اور جرمنی میں اسلام کی اشاعت اور تبلیغ میں جو کردار ادا کیا ہے وہ ہمیشہ یاد رہے گا اس کے علاوہ وہ ہر وقت سماجی اور رفاہی کاموں میں سرگرم رہتی تھیں۔ وہ ایک متقی اور راسخ العقیدہ مسلمان تھیں اور اسلام کی محبت ان کے دل و دماغ میں کوٹ کوٹ بھری ہوئی تھی۔ وہ حقیقی معنوں میں ایک مثالی اور عملی داعیہ تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ مغرب کو اسلام سب سے زیادہ یہی چیز متاثر کرسکتی ہے کہ ہم فی الوقع ویسا ہی بنیں جیسا کہا اسلام تقاضا کرتا ہے۔ ٦ مئی ۲۰۱۳ء میں ۷۸ سال کی عمر میں ہیمبرنگ (جرمنی) میں انتقال کر گئیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول فرمائے آمین۔
تفسیری خدمات
۱۹۷۰ تک جرمنی میں قرآن مجید کے جتنے بھی تراجم دستیاب تھے وہ مستشرقین اور غیرمسلموں کے کیے ہوئے تراجم تھے۔ ان تراجم میں بے شمار غلطیاں پائی جاتی تھیں اور جرمن لوگ ان ہی تراجم کو پڑھتے تھے۔ اس سلسلے میں ۱۹۸۰ کی دہائی میں ایک اچھی پیش رفت ہوئی کہ ایک مصری نژاد مسلمان عالم دین محمد رسول نے ۱۹۸٦ میں پہلی بار ایک صحیح ترجمہ شائع کیا ہے۔ یہ ترجمہ عربی متن کے ساتھ شائع کیا گیا ہے اور جرمنی میں اس ترجمہ کی کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔ محمد رسول نے جرمن زبان میں تفسیر بھی لکھی ہے جو ۱۲۵۹ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کے بعد ایک اور اچھا ترجمہ اور تفسیر سامنے آئی جو فاطمہ گریم کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ فاطمہ گریم کے نزدیک قرآن مجید نوع انسانیت کے لیے ہدایت ہے اور اس کے بغیر پوری انسانی زندگی ادھوری ہے۔ قرآن مجید خدا تعالیٰ کی طرف سے زندگی کا حقیقی اور صحیح راستہ بتانے کے لیے آیا ہے اسی لیے اس کا پیغام اور اس کی تعلیمات دنیا کے ہر فرد تک پہنچانا نہایت ضروری ہے۔ اس تعلق سے فاطمہ گریم نے خود کو اس مشن کے وقف کر دیا۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے جرمن زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ کیا۔ یہ ترجمہ انہوں نے مولانا مودودی کے ترجمہ و تفسیر کو بنیاد بنا کر محمد اسد، عبد اللہ یوسف علی اور مولانا عبد الماجد دریا آبادی کے تراجم و تفاسیر کے حواشیوں کی مدد سے کیا ہے۔ فاطمہ گریم کو قرآن کا ترجمہ کرنے میں حلیمہ کراؤزن، حوا الشباسی اور راشا المغربی نے بھی مدد کی۔ ان تینوں خواتین نے عربی زبان کے متن اور ترجمہ شدہ مسودے پر نظر ثانی کا کام کیا ہے۔ اس کو اگر ایک اجتماعی کوشش کا نام دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ اس ترجمہ کا مقصد بیان کرتے ہوئے فاطمہ گریم کہتی ہیں کہ ہم جرمن قاری کو پہلی مرتبہ قرآن کا ایک ایسا نسخہ دینا چاہتے ہیں جس کے حواشی سے آیات کے تاریخی پس منظر، شانِ نزول اور ایسے بے شمار ایسے پہلوؤں کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے کلام کے وسیع مفہوم کو سمجھنے کو صحیح طریقے سے سمجنھے کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔ اس کے علاوہ کئی آیات ایسی ہیں جن کی تشریح میں اختلاف رائے بھی آیا ہے لہٰذا ہم نے مناسب سمجھا کہ ان کے بارے میں مختلف علما کی آرا کو ایک ساتھ دے دیا جائے۔ اس مقصد کے لیے ایسے تشریحی مواد کو جمع کرکے منتخب کیا گیا جو مغربی قارئین کی سمجھ میں آسانی سے آ جائے۔ انتہائی وسیع علمی ذخیرے کی موجودگی میں ہمارے لیے ضروری تھا کہ اپنے انتخاب کو جتنا ممکن ہو محدود رکھیں‘‘۔ اس ترجمہ و تفسیر کو ۱۹۷٦ میں شروع کیا گیا اور ۱۹۹٦ میں پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا۔ یہ پانچ جلدوں اور ۳۰۵۷ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس ترجمہ اور تفسیر کو بوریا پبلیشنگ کمپنی، میونخ نے شائع کیا ہے۔ اس تفسیر کے بارے میں فاطمہ گریم صاحبہ خود لکھتی ہیں ’’یہ مطالعہ قرآن کے حلقوں میں تفسیر کے طور پر استعمال ہونے لگا اور اس قدر مقبول ہوا کہ اپنی تکمیل کے تقریباََ فورََا بعد روسی اور بوسنیائی زبانوں میں اس کے ترجمے کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔ آج یہ دونوں ترجمے مارکیٹ میں بہ آسانی دستیاب ہیں۔ ہسپانوی زبان میں میں بھی اس کا خوبصورت ترجمہ یونیورسٹی پروفیسر صاحبان اور ان کے معاونین کی مدد سے کیا جا رہا ہے اور اب تک اس کی ایک جلد کا ترجمہ ہوچکا ہے‘‘۔ قرآن مجید کے ترجمہ و تفسیر کے لیے انہوں نے عربی زبان بھی سیکھ لی تھی جس کے بعد انہوں نے ترجمہ و تفسیر کا کام شروع کیا تھا۔ مراد ہافمین اس تفسیر کے بارے میں لکھتے ہیں: یہ جرمن زبان میں لائق تحسین ترجمہ ہے اور اس کی تصدیق الازہر یونیورسٹی نے بھی کی اور وہ تصدیقی دستاویز بھی اس میں شامل ہے۔ اس ترجمہ سے جرمن میں بڑی تعداد میں لوگ استفادہ کر رہے ہیں اور جرمن سے باہر بھی اہل جرمن اس تفسیر کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی جرمن زبان میں وان ڈانفر اور عامر زیدان کے تراجم قرآن بھی معیاری مانے جاتے ہیں۔ امید ہے کہ جرمنی میں اللہ تعالیٰ کے پیغام کو سمجھنے کے لیے تراجم قرآن کا سلسلہ جاری رہے گا ۔
(مضمون نگار مولانا آزاد اردو یونیورسٹی حیدرآباد سے پی ایچ ڈی اسکالر ہیں)

فاطمہ گریم نے دیارِ یورپ میں ترجمہ و تفسیرِ قرآن اور تصنیف و تالیف کے میدان میں قابل تحسین کارنامہ انجام دیا اور جرمنی میں اسلام کی اشاعت اور تبلیغ میں جو کردار ادا کیا ہے وہ ہمیشہ یاد رہے گا اس کے علاوہ وہ ہر وقت سماجی اور رفاہی کاموں میں سرگرم رہتی تھیں۔ وہ ایک متقی اور راسخ العقیدہ مسلمان تھیں اور اسلام کی محبت ان کے دل و دماغ میں کوٹ کوٹ بھری ہوئی تھی۔ وہ حقیقی معنوں میں ایک مثالی اور عملی داعیہ تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ مغرب کو اسلام سب سے زیادہ یہی چیز متاثر کرسکتی ہے کہ ہم فی الوقع ویسا ہی بنیں جیسا کہا اسلام تقاضا کرتا ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020